حضرت مولانا محمد علی مونگیری (۲۸ ؍ جولائی ۱۸۴۶۔ ۱۳ ستمبر ۱۹۲۷) کا شمار اسلامیانِ ہند کے نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جس زمانے میں آنکھیں کھولیں، وہ سیا سی اعتبار سے کافی اتھل پتھل بھرا زمانہ تھا۔ دہلی میں مغلیہ سلطنت کے آخری چراغ بہادر شاہ ظفر (زمانۂ حکومت : ۲۸ ؍ستمبر ۱۸۳۷ تا ۱۶؍ ستمبر ۱۸۵۷) کسمپرسی کی زندگی جینے پر مجبور کر دیئے گیے تھے تو لکھنؤ میں نوابانِ اودھ اپنے وقار کی جنگ لڑرہے تھے۔ لارڈ ویلزلی کی اختراع ’آپسی تعاون کا معاہدہ‘ (Doctraine of Subsidiary ) پر دستخط کرکے نوابانِ اودھ ۱۸۰۱ سے ہی ایک اپاہج ریاست کو اپنے کندھوں پرڈھو رہے تھے لیکن امجد علی شاہ (زمانۂ حکومت : ۷ ؍مئی ۱۸۴۲ تا ۱۳ ؍فروری ۱۸۴۷) کا زمانہ آتے آتے یہ اپاہج ریاست مردہ لاش میں تبدیل ہوگئی تھی۔ انگریز ریزیڈنٹ کی شہ رگ پر پکڑ اتنی سخت ہو گئی تھی کہ مرضی سے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا تھا۔ وہیں دوسری طرف برٹش ریاستوں کے سربراہ گورنر جنرل لارڈ ہارڈنگ ( زمانۂ حکومت : ۱۸۴۶۔ ۱۸۴۸)امن و امان کے اصولوں اور معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر سکھوں سے جنگ کر کے ان کی طاقت کے خاتمے پر تلے ہوئے تھے۔ انہی حالات میں ۲۸ ؍جولائی ۱۸۴۶ ء کو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے سلسلۂ نسب میں کانپور (اترپردیش) میں سید عبدالعلی کے گھرمیں ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے، نام رکھا جاتا ہے محمد علی۔ یہی محمد علی آگے چل کر رد عیسائیت، اتحاد علماء اور ندوۃ العلماء، ردّ قادیانیت اور تمام مسلمانوں کو ایک امارت کے نیچے جمع کرنے کی کوششیں کرنے والوں کے سرخیل کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔
حضرت مولانا مونگیری کی پیدائش سے ۳۳ ؍ سال قبل ہی ان کے میدانِ کارکے راستے کو پرخاربنانے کی سازش شروع ہو گئی تھی۔ ۱۸۱۳ کے چارٹر ایکٹ میں برطانوی سامراج نے عیسائی مشنریوں کو بھارت میں عیسائیت کی تبلیغ کی اجازت دے دی تھی۔ نتیجے میں عیسائی مشنز کی بھارت میں آمد کا تانتا لگ گیا تھا۔ جن دنوں حضرت مولانامونگیری کان پور کے مدرسہ فیض عام سے وابستہ تھے، انہی دنوں صرف کانپور میں ۹ ؍مشنز مسلمانوں کو ان کے عقیدے سے پھیرنے کی کوششوں میں پوری تندہی کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ ان حالات میں شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی جیسے عالمِ ربانی کے ہاتھوں پر بیعت کی ہوئی اس شخصیت کے لیے کیسے ممکن تھا کہ وہ عیسائی مشنریوں کو اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہونے کی کھلی چھوٹ دے دیتے! چنانچہ حضرت مونگیری نے اس کے خلاف ایک محاذ کھول دیااور تحفۂ محمدی اور ان جیسی پچاس سے زائد کتابوں کی تصنیف و تالیف کر کے ان مشنوں کے پائے استقامت کو نہ صرف متزلزل کیا بلکہ لاکھوں مسلمانوں کے عقیدے و ایمان کے تحفظ کا سبب بھی بنے۔ اپنی گفتگو اور ملاقاتوں کے ذریعے بلا واسطہ اور اپنی کتابوں کے ذریعے بالواسطہ یہ انتظام کیا کہ کوئی بھی شخص لاعلمی، بہلاوے یا کسی مادی فائدے کے لیے عیسائی مشنریوں کے ہتھے نہ چڑھنے پائے۔
حضرت مولانا مونگیری ان ایمان دشمن عناصر کے ساتھ برسرپیکار تھے اور اسی کے ساتھ ان کے ذہن کی کشادگی، جدید رجحانات اور جدید تقاضوں سے واقفیت، زمانہ کی تغیر پذیری اور انقلاب آفرینی کے علم میں دسترس اور اس میں غیر شعوری طور سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شناخت اپنے معاصرین میں بالکل علاحدہ انداز کی بنی۔ درسِ نظامی کے ایک اجل فاضل کی حیثیت سے ان کی نگاہ تو روایتی علوم پر تھی ہی لیکن جب وہ عیسائی مشنریز کے مقابلے میں آئے اور ان کے اسلوب میں ہی ان کو جواب دینے کی کوششوں میں اپنے مطالعے کو وسیع کیا تو جدید علوم اور اس کے طریقۂ کار سے بھی واقفیت بہم پہنچالی۔ یہیں سے مولانا کی نگاہ اپنے وقت کے ملکی و عالمی منظرنامے پر گہری ہوتی چلی گئی اور یہیں سے حضرت مولانا نے ۱۸۵۷ کے انقلاب کی کوششوں کے نتائج کامطالعہ شروع کیا ۔ ان پر یہ حقیقیت عیاں ہوئی کہ اب ایسے حالات نہیں رہے کہ اس ناکام انقلاب کے بعد کھوئے ہوئے وقار کی بازیابی کے لیے تحریک شہیدین جیسی کوئی مسلح جدو جہد شروع کی جا ئے۔ اس لیے انہوں نے درس و تدریس اور اصلاح و ارشاد کے ذریعے رجالِ کار کی تیاری کی طرف اپنی توجہات مرکوز کیں۔ یہ راستہ اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ ان پر امام اعظم امام ابوحنیفہ کے اس فتوے کے اسرار واضح ہو گئے تھے جس میں امام اعظم نے علم بغاوت اسی وقت بلند کرنے کی اجازت دی تھی جب یہ یقینِ کامل ہو جائے کہ بغاوت حکومت کے تختے کو پلٹنے میں کامیاب رہے گی۔ آدھی ادھوری تیاری یا جذباتیت سے لبریز چھٹ پٹ حملوں کی وجہ سے حالات پہلے سے بھی بدترہو جاتے ہیں ۔ ہندوستان کے حالات لارڈ ڈلہوزی کی ہڑپ نیتی(Doctrine of Laps )کے بعد بے حد بدل گئے تھے۔ اس کے باوجود ۱۸۵۷ کا سانحہ پیش آیا اور اس ناکام بغاوت کے بعدانتظامی تبدیلی ہوئی ۔ ملک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ سے نکل کر سیدھے تاج برطانیہ کے ماتحت آ گیا اور حالات مزید خراب ہو گئے ۔ اس کے ساتھ ہی ۱۸۷۹ میں گورنر جنرل لارڈ لٹن کے ذریعے ورناکیو لر پریس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، ایسے میں اس نوع کی کسی بھی بات کی بڑے پیمانے پر تشہیر تقریبا ناممکن ہوگئی تھی۔ ان حالات میں ظاہر ہے اسلامی حمیت کے حامل ایسے افراد کی تیاری کا کام کیا جائے جو آگے چل کر تحریک شہیدین کے مقاصد کی تکمیل کا سامان کر سکیں ، اس کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں رہ گیا تھا۔اس لیے حضرت مولانانے ۱۸۹۲ میں مدرسہ فیض عام کانپور کے جلسۂ دستاربندی سے قبل ہی کانپور میں ’انجمنِ تہذیب‘ کے نام سے ایک ثقافتی انجمن کی بنا ڈالی تھی۔ جس کا مقصد علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں صحیح اسلامی افکار کی اشاعت و ترجمانی اور ان کے درمیان باہمی اتحادو اخوت پیدا کرنا تھا۔ ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ اس انجمن میں روایتی علماء کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم یافتہ طبقہ خصوصا وکلاء و رؤساء بھی شریک ہوئے تھے(۱)۔یہاں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ اسی طرح کی ایک کوشش ۱۸۸۵ میں بمبئی میں بھی ہوئی تھی۔ ۲۹،۳۰ اور ۳۱ دسمبر کو بمبئی کے گوکل داس تیج پال سنسکرت کالج میں بیومیش چندر بنرجی (۱۸۴۴۔۱۹۰۶) کی قیادت میں ملک بھر کے ۷۲ نمائندگان کا اجلاس منعقد ہوا تھا اور ملک کے حالات کے تئیں اپنی فکرمندی کا اظہار کیا تھا اور جسے انڈین نیشنل کانگریس کا نام دیا گیا تھا۔ کانگریس کا اجلاس ہر سال دسمبر کی آخری تاریخوں میں منعقد ہوتا لیکن اس میں مسلمانوں کی نمائندگی مختلف وجوہات سے کم رہا کرتی تھی۔ حضرت مولانا کو اس کا علم تھا لیکن اس صورتحال سے ظاہر ہے کوئی بھی فکرمند شخص خوش نہیں رہ سکتا تھا، حضرت مولانا مونگیری بھی خوش نہیں تھے،لیکن عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے کچھ تو کیا جانا ضروری تھا ، انہی مقاصد کے تحت حضرت نے ’انجمن تہذیب ‘ کا قیام عمل میں لایا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے لفظ ’نیشل‘ پر غور فرمائیے اور حضرت مولانا کی تنظیم ’انجمن تہذیب‘ کے لفظ ’تہذیب‘ پر غور فرمائیے۔ آپ کو بہت کچھ مماثلت اور مطابقت نظر آئے گی لیکن مسلمانوں کی اپنی روایتی شناخت کے ساتھ۔’نیشنیلیٹی‘یا ’راشٹریتا‘ لفظ کے خمیر میں ثقافتی عناصر کی کارفرمائی کو بیحد اہم مانا جاتا ہے ، ایک ایسی راشٹریتا جو حدودِ اربعہ میں محصور ہو ، لیکن لفظِ ’تہذیب‘ میں آفاقیت کے عناصر کے مفہوم غالب ہیں۔ اسی آفاقی تصور کے ساتھ تہذیب کے مٹتے نقوش کو روکنے اور اس کے احیاء کے لیے حضرت مولانا نے ’انجمن تہذیب‘ کی بنا ڈالی تھی۔تاکہ مسلمان اگر کسی وجہ سے انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت اختیار نہ بھی کریں تو کم ازکم اپنی بقا کی جنگ کے لیے اپنے فرائض سے پہلوتہی کا بہانہ نہ تراش سکیں۔اس دور اندیشی پر بجا کہا گیا ہے کہ’مولانا کے اس قدم سے ان کی ژرف نگاہی، زمانہ کی نباضی اور وقت شناسی کی بہترین دلیل فراہم ہوتی ہے‘(۲)۔ لیکن اس کے باوجودایک سوال بار بار ذہن مین آتا ہے کہ اس قدر روشن ذہن انجمن کا تاریخ میں کوئی خاص جگہ نہ بنا پاناکیا لمحۂ فکریہ نہیں ہے!
گورنر جنرل لارڈ کارنوالس نے ۱۷۹۳ ء میں لگان کی وصولی کے لیے استمراری بندوبست کے نظام کو متعارف کرایا تھا (۳) ، جس کے نتیجے میں بھاری محصول کے بوجھ تلے کسانوں کی کمرتو ٹوٹ ہی گئی تھی، اسی کے ساتھ ’دستک‘ کے منصفانہ نظام میں کئی طرح کی خامیوں کو متعارف کرا کے انگریز سرکار نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا تھا۔اس کی وجہ سے ہندوستانی کاریگروں اور چھوٹی صنعتوں کے بھی برے دن شروع ہوگئے تھے۔نواب شجاع الدولہ کی کوششوں سے جو ہندوستانی فیکٹریاں قائم ہوئی تھیں ، وہ بھی کارنوالس کا زمانہ (۱۷۸۶ تا ۱۷۹۳) آتے آتے دم توڑ گئیں تھیں۔ان حالات میں مانسون کی تھوڑی سی کمی قحط کا سبب تو بنتی ہی تھی لیکن قحط سے انتظامیہ کے نپٹنے کے غیرمؤثر طریقے بلکہ ڈھل مل رویے کی وجہ سے قحط بھیانک تباہی کا سبب بن جاتا اور لاکھوں جانیں ضائع ہو جاتیں۔ان صورتحال سے ہندوستان کا ہر آدمی پریشان رہتا۔ دادا بھائی نوروجی نے ۱۸۶۷ میںPoverty and Un-British Rule in india نامی کتاب لکھ کر سرمایہ کی منتقلی (Drain of Wealth ) کے نظریے کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا اور برٹش حکمرانوں کی کریہہ صورت لوگوں کے سامنے دلائل کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ اس کے باوجود عیسائی مشنریوں کے جال میں بھوک اور افلاس کی ماری ہندوستانی قوم پھنس جاتی اور اپنے ایمان کے سودے پر مجبور ہوجاتی۔ ایسے میں حضرت مولانا مونگیری جیسی حساس شخصیت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے محبوب کے امتیوں کو عیسائی مشنریز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔چنانچہ انہوں نے دعوت و ارشاد کے ساتھ ساتھ کانپور کے زمانۂ قیام ہی میں ایک یتیم خانے کی بنیاد ڈالی تھی اور اس میں داخل بچوں کی جملہ ضروریات کی تکمیل کا انتظام کیا۔
۱۸۸۵ میں قائم ہوئی انڈین نیشنل کانگریس جسے لارڈ ڈفرن نے’ چند مینڈکوں کی سالانہ ٹرٹراہٹ‘ سے تعبیر کیا تھا، اپنے بیسویں سالگرہ تک اتنی مضبوط ہو گئی کہ لارڈ کرزن کی ہوا اکھڑنے لگی اوران کے سازشی ذہن کے نتیجے میں تقسیم بنگال کا سانحہ پیش آیا۔اس پر کلکتہ سے بمبئی تک سخت ردعمل کا اظہار ہوا۔ اس سے گھبرا کر مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے سرکار نے ان کو قریب کرنا شروع کیا۔ ۱۸۵۷ کے انقلاب میں جاں نثاری کی وجہ سے مسلمان معتوب تھے اور ہندو محبوب لیکن ۱۹۰۵ میں ان ہی مسلمانوں کو سرکار نے اپنے دام میں پھنساکر رکھنے میں عافیت جانی۔ ان ہی حالات میں ۱۹۰۶ میں سر آغا خان (۱۸۷۷ ۔ ۱۹۵۷) کی قیادت میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے بہت سی مراعات کا مطالبہ کیا اور انتظامیہ و مقننہ میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی مانگ کی۔ انتظامیہ میں ریزرویشن کی مانگ پر تو کوئی دھیان نہیں دیا گیا لیکن ۱۹۰۹ کے مارلے منٹو اصلاحات کے ذریعے مقننہ میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی مانگ کو تسلیم کر لیا گیا۔حضرت مولانا مونگیری کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلم لیگ کی پیش رفت سے باخبر تھے لیکن انہوں نے اس راستے پر توجہ نہیں دی۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے جس مشن کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا ، اس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ ایک واضح نصب العین کے ساتھ ایک پائیدار انقلاب کے حامی تھے، جو افراد سازی کے توسط سے ہی ممکن تھا۔ مسلم لیگ نے جس راستے سے مسلمانوں کے غلبے کی کوشش کی اس سے نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی تھی۔ کیونکہ ان کے راستے کو شاید کاسۂ گدائی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔اس لیے مولانا نے مسلم لیگ سے خود کو الگ ہی رکھا اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ حضرت کی سوچ درست تھی۔ ۱۹۰۹ میں جب مقننہ میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کے مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا تو اس کے نتیجے میں ہی ہندو مسلم کے بیچ کی خلیج بڑھنی شروع ہوئی اور تقسیم ملک کی زخم خوردگی کے باوجودنہ رک سکی۔۱۹۱۶ میں میثاق لکھنؤ کے ذریعے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان اتحاد تو ہوا لیکن جو خلیج ۱۹۰۹ کے اصلاحات کے ذریعے بن گئی تھی وہ کبھی پاٹی نہ جاسکی بلکہ آئے دن دونوں قوموں کے باہمی اعتماد میں کمی آرہی ہے اورمسلمان آج بھی ۱۹۰۹ کے ریزرویشن کی نفسیات سے نہیں نکل سکا ہے ۔ ایسے میں حضرت مونگیری کے اس خیال کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی استغنا کے راستے سے ہی ممکن ہے۔
گاندھی جی ۱۹۱۵ میں جنوبی افریقہ سے ہندوستان لوٹے توکانگریس میں ایک نئی جان آگئی۔مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی سمیت بیشتر علماء کانگریس سے جڑ چکے تھے۔ کانگریس کی سربراہی میںمسلمان وطن عزیز کے لیے لڑرہے تھے۔اسی بیچ ۱۹ ؍ مارچ ۱۹۱۹ کو سرکار نے رولٹ ایکٹ نام سے ایک قانون کو متعارف کرایا، جس کے تحت گرفتار مجرم کو نہ کوئی قانونی مدد دی جا سکتی تھی، نہ وہ کوئی اپیل کر سکتے تھے اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل سنی جاتی۔ ملک بھر میں اس کالے قانون کی مخالفت ہو رہی تھی کہ دو اہم لیڈر سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کو سرکار نے گرفتار کر لیا اور کالاپانی کی سزا سنا ڈالی۔اس پر ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے عوام سڑکوں پر نکل آئی۔ایسا ہی ایک پر امن مظاہرہ ۱۳ ؍ اپریل ۱۹۱۹ کو امرتسر کے جلیاں والا باغ میں منعقد ہورہاتھا کہ اچانک جنرل ڈائر نے بھیڑ پر گولی چلانا شروع کردیا اور ہزاروں لوگ منٹوں میں شہید ہوگئے۔جنگ عظیم اول (۱۹۱۴۔ ۱۹۱۸) کے دوران گاندھی جی سمیت ہندوستانی رہنماؤں نے اس امید پر سرکار کی مدد کی تھی کہ سرکار ان کے ہوم رول کے مطالبے کو تسلیم کر لے گی، لیکن یہاں اس کے برخلاف ہورہاتھااور لوگوں پر رولٹ ایکٹ جیسے کالے قوانین تھوپ کر ان کی زبان بند کروائی جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی جنگ عظیم کے خاتمے پر سلطنت عثمانیہ (قیام:۱۲۹۹)کی بندربانٹ شروع ہو گئی تھی، جس پر مسلمانوں کا غصہ پھوٹ پڑاتھا۔لیکن حضرت مولانا مونگیری ان وقتی ہنگاموں سے بچ کر کچھ اور ہی منصوبہ بنارہے تھے۔ایک طرف جہاں ’فیصلۂ آسمانی ‘(تین جلدیں) اور ’شہادتِ آسمانی‘(۲ ؍جلدیں)جیسی کتابیں لکھ کر یکسوئی کے ساتھ قادیانیت کی بیخ کنی میں مصروف تھے تو وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو ایک امیر کے تحت لاکرکیسے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھا جائے، اس کی صورتوں پر غورو فکر فرمارہے تھے۔حضرت مولانا ابوالمحاسن محمدسجاد رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر ہندوستان گیر پیمانے پر امارت شرعیہ کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ امیر المونین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے قول کہ ’مالاسلام الا بجماعۃ ومالجماعۃ الا بامارۃ ومالامارۃ الابطاعۃ‘ کے مطابق وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ صرف اسی راستے سے ممکن ہے۔ اس راستے کی ہمواری کے لیے انہوں نے ندوۃ العلما کی آبیاری کی تھی۔اب وقت آگیا تھا کہ تمام ہی فضلاء مدارس کو لے کر ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک امیر کے تحت لانے کی کوششوں کو تیز تر کیا جائے۔لیکن اس کے لیے راستہ ہموار نہ پاکرپہلے ریاستوں میں علیحدہ علیحدہ امارت شرعیہ کے قیام کے لیے کوششیں شروع کر دیں اور ۲۶ ؍جون ۱۹۲۱ کو امارت شرعیہ بہار اڑیسہ کا قیام عمل میں لانا ممکن ہوا۔امارت شرعیہ کا قیام جن مقاصد کے تحت ہوا تھا، اس پر ایک نظر ڈالتے چلیں:
۱۔ منہاج نبوت پر نظام شرعی کا قیام؛ تاکہ مسلمانوں کے لیے صحیح شرعی زندگی حاصل ہو سکے۔
۲۔ اس نظام شرعی کے ذریعے جس حد تک ممکن ہو، اسلامی احکام کو بروئے کار لانا اور اس کے اجراء و تنفیذکے مواقع پیدا کرنا۔ مثلا عبادات کے ساتھ مسلمانوں کے عائلی قوانین ، نکاح ،طلاق، میراث،خلع، اوقاف وغیرہ احکام کو ان کی اصلی شرعی صور ت میں قائم کرنا ۔
۳۔ ایسی استطاعت پیداکرنے کی مستقل جدوجہد، جس کے ذریعے قوانین خداوندی کو نافذاور اسلام کے نظام عدل کوقائم و جاری کیا جا سکے۔
۴۔ امت مسلمہ کے جملہ اسلامی حقوق و مفادات کا تحفظ اور ان کی نگہداشت۔
۵۔ مسلمانوں کو بلااختلاف مسلک محض کلمہ لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ﷺکی بنیاد پر مجتمع کرنا تاکہ وہ خدائے تعالی کے احکام اور حضرت محمد ﷺ کی سنت پر عمل کریں اور اپنی اجتماعی قوت’ کلمۃ اللہ ‘ کو بلندکرنے پر خرچ کریں۔
۶۔مسلمانوں کو تعلیم ، معاش اور ترقی کے میدان میں اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی نظام تجارت کی روشنی میں رہنمائی دینا۔
۷۔ عام انسانی خدمت کے لیے رفاہی اور فلاحی ادارے قائم کرنا۔
۸۔ مسلمانوں کے حقوق، شریعت کے احکام اور اسلام کے وقار کو پوری طرح قائم اور محفوظ رکھتے ہوئے، مقاصدِ شرع ِ اسلام کی تکمیل کی خاطراسلامی تعلیم کی روشنی میںہندوستان میں بسنے والے تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ صلح و آشتی کا برتاؤ کرنا، ملک میں امن پسند قوتوں کو فروغ دینا، اور تعلیم اسلامی’لاضرر ولاضرار فی الاسلام‘کی روشنی میںملک کے مختلف مذہبی فرقوں میں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کا جذبہ پیدا کرنااورہر ایسے طریق کارو تحریک کی ہمت شکنی کرنا، جس کا مقصد ہندوستان میں بسنے والے مختلف طبقات میں سے کسی ایک کی جان ومال، عزت و آبرو، تصورات و معتقدات پر کسی دوسرے کی طرف سے حملہ ہو اور ایسی تمام تحریکات کو قوت پہنچانا؛ جن کا مقصد ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان ایک دوسرے کی جان و مال ، عزت و آبرو کا احترام پیدا کرنااور فرقہ وارانہ تعصب و منافرت کو دور کرنا ہو۔
امارت کے ان مقاصد کو دیکھیں اور حضرت مولانا مونگیری رحمہ اللہ کی زندگی کا جائزہ لیں توپتہ چلتا ہے کہ حضرت مولانا نے اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں بھی ایسا انتظام فرما دیا کہ ان کے کام کو مستقل جا ری و ساری رکھا جا سکے،اس سے ان کی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے فکرمندی ظاہرہوتی ہے۔یقینا ان کے اس بارِ احسان سے ملت اسلامیۂ ہند کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتی۔
حواشی:
۱۔ سیرت مولانا سید محمد علی مونگیری، از: مولانا سید محمد الحسنی، ناشر: مجلس صحافت و نشریات اسلام لکھنؤ، ۲۰۱۶، ص: ۴۸
۲۔ ایضاَ
۳۔ آدھونک بھارت کا اتہاس، از: ویپن چندرا، ناشر : اورینٹ بلیک سوان، دہلی، ۲۰۱۲ ، ص: ۸۸