حضرت خواجہ غلام فرید کوریجہ 26 نومبر 1845ء بروز منگل کو بہاولپور کے قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے۔ آپٌ کے خاندان کا نسلی سلسلہ یا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپٌ کے خاندان میں ایک شخص جس کا نام شیخ کوربن، حضرت شیخ پریا تھا اس لیے کور کی وجہ سے لفظ کوریجہ بن گیا۔
آپ کا تاریخی نام خورشید عالم رکھا گیا۔ آپ کے والد کا نام حضرت خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی تھا۔ آپ چار برس کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور جب آپ کی عمر آٹھ برس ہوئی تو آپ کے والد بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
آپٌ نے قرآن کی تعلیم میاں صدرالدین اور میاں محمد بخش سے حاصل کی، آپ نے فارسی کی تعلیم میاں حافظ خواجہ جی اور میاں احمد یار خواجہ سے حاصل کی۔
حضرت خواجہ غلام فرید کے بزرگوں کے ایک مرید مٹھن خان جتوئی تھے، جس کے نام سے قصبہ مٹھن کوٹ آباد ہوا۔ جب مٹھن کوٹ پر قابض پنجاب کے سکھ حاکم مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے تو آپ کے والد حضرت خواجہ خدا بخش اپنے خاندان کے ساتھ مٹھن کوٹ سے چاچڑاں شریف، ریاست بہاول پور منتقل ہوگئے۔
جب آپ نواب آف بہاول پور جس کا نام نواب فتح محمد جو کہ آپ کے والد کے مرید خاص بھی تھے کے پاس رہائش پذیر تھے تو وہاں پر بھی اساتذہ کرام موجود رہتے تھے جو آپ کو تعلیم دیتے تھے۔ آپ شاہی محل میں تقریباً چار سال رہے۔
جب آپ تیرہ برس کے ہوئے تو آپ نے اپنے بڑے بھائی حضرت فخر جہاں سے بعیت کی۔ جب آپٌ کی عمر 27 برس تھی تو اس وقت آپ کے مرشد اور بڑے بھائی حضرت فخر جہاں کا انتقال ہو گیا۔ پھر آپ سجادہ نشین بنے آپ بڑے سخی تھے، آپ کے لنگر کا روزانہ کا خرچہ 12 من چاول اور 8 من گندم تھا۔ تقریباً 100 سے 500 آدمی ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ کے پاس جو کچھ آتا سب شام تک غرباء و مساکین میں بانٹ دیتے تھے۔
جب آپ نواب صاحب کے ہاں دعوت پر جاتے تو نواب صاحب آپ کو آتے وقت پچیس تیس ہزار اور وہاں سے روانہ ہوتے وقت بھی تیس چالیس ہزار پیش کرتے۔ اتنی نذر نیاز حاصل ہوتے ہوئے بھی جب آپ چاچڑاں شریف آتے تو اکثر اوقات خرچ کے لیے قرض لے کر آتے۔
آپ کی جاگیر سے سالانہ آمدنی 35 ہزار روپے تھی، آپ انتہائی سادہ تھے۔ آپ دن میں گندم کی ایک روٹی کھاتے اور رات کو گائے کا دودھ پیتے تھے۔
آپ 18 برس روہی ( چولستان ) میں رہے۔ آپ نے اپنے مرید خاص نواب آف بہاولپور جس کا نام نواب صادق محمد رابع عباسی تھا کو نصیحت کی تھی کہ:
" زیر تھی، زبر نہ بن، متاں پیش آوی "
یعنی نرمی اختیار کرو، سختی نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالٰی تم پر بھی سختی کر سکتے ہیں۔ آپ نے شاعری بھی کی اور آپ کا زیادہ تر کلام سرائیکی زبان میں ہے۔ جس کا نام "دیوان فرید" ہے اس کے علاوہ اردو، عربی، فارسی، پوربی، سندھی اور ہندی میں شاعری بھی کی ہے اور آپ کا اردو دیوان بھی موجود ہے۔ آپ کے سرائیکی دیوان میں 272 کافیاں ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید نے وصال کے وقت تین حسرتوں کا اظہار کیا تھا:
(1) کاش کوئی مجھ سے کہتا فرید مجھے راستہ بتاؤ۔
(2) کاش کوئی مجھ سے یکمشت ایک لاکھ روپے طلب کرتا۔ (3) کاش کوئی مجھ سے کہتا فرید مجھے پانی پلاؤ۔
وفات کے وقت کلمہ شہادت سے پہلے حضرت خواجہ غلام فرید نے کافی کا یہ بند پڑھا:
آیا وقت فرید چلن دا
گزریا ویلھا کھلن ہسن دا
اوکھا پیندا یار ملن دا
جان لباں تے آندی اے
آپ کا وصال چاچڑاں شریف میں 24 جولائی 1901ء بروز بدھ ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر 56 برس تھی۔
آپ کا ایک بیٹا حضرت خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم اور ایک بیٹی بھی تھیں۔
آپ کا مزار مٹھن کوٹ ( ضلع راجن پور ) میں ہے۔
“