باٸیس فروری ہے اور حضرت جوش ملیح آبادی کی چالیسویں برسی
آج باٸیس فروری ہے اور دادا جانی حضرت جوش ملیح آبادی کی چالیسویں برسی ہے. اردوادب کی ہیں آن بان اورشان ۔ جناب شبیر حسن خان۔بلاشبہ جواپنی ذات میں تھے ایک مکمل دبستان۔ آپ انہیں کہہ سکتے ہیں پورے اعتماد کے ساتھ حکمت و دانش کا ایک جہان۔ خدائےسخن شبیرحسن خاں ہماری علمی اور ادبی دنیا میں جوش ملیح آبادی کےنام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ۔جوش ان کامحض تخلص نہیں ،ان کاطرہء امتیاز بھی رہا۔ جذبوں میں جوش، لفظوں میں جوش ،احساسات میں جوش،جذبات میں جوش،تخیلات میں جوش، افکارو تصورات میں جوش۔آپ ان کی کوئی سی نظم دیکھ لیں،آپ کواس میں ہراعتبارسے جوش ہی جوش نظر آئے گا۔ اسی لئے انہیں اسم بامسمیٰ کہنااور سمجھنازیادہ بہترہوگا۔
شبیرحسن خاں المعروف جوش ملیح آبادی نےاپنی زندگی ہی میں خودکومرحوم لکھناشروع کردیا تھا۔اب تو زمانہ انہیں جوش مرحوم لکھ رہاہے۔ میں انہیں مرحوم نہیں سمجھتا، اس لئے کہ وہ تو ہمارے اور اپنے چاہنےوالوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
میں نے ان کی شخصیت اور فن پر قلم اٹھانے کاسوچاہی ہے تو ان کی یادوں کی برات میرے ساتھ ساتھ چل پڑی ہے۔ان کی شاعری کے بہت سے مجموعے میری نظرسے گزرے،جو میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بَلے کی الماریوں کی زینت تھے۔کچھ کامیں نے بطور خاص کئی کئی بار مطالعہ کیا۔ان کے بیشتر شعری مجموعوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے عنوانات دوالفاظ پر مبنی ہیں۔آپ تین کہہ لیجئے،اس لئے کہ دوالفاظ کوجوڑنے کے لئے ”واؤ” کابھی استعمال کیا گیا ہے۔عرش و فرش،فکرونشاط،آیات و نغمات،الہام و افکار،حرف و حکایات،جنون و حکمت ( رباعیات)نقش و نگار،سموم و صبا،نوادرِ جوش،رامش و رنگ،شعلہ و شبنم ،موجدو مفکر،محراب و مضراب ۔بہت سے مجموعے ایسے بھی ہیں جن کےعنوانات اس ڈگر سے ہٹ کرہیں ،مثلاً انتخابِ کلیاتِ جوش،جوش ملیح آبادی کےمرثیے،آزادی کی نظمیں ۔اشارات وغیرہ۔یہ پورا کلام جذبوں کے جوش اورالفاظ کی گھن گرج کے ساتھ ساتھ مفاہیم و مطالب کےجہانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
میں نے اپنے بچپن میں جوش مرحوم کو قریب سے دیکھاہے ،ان کی محفلوں میں اپنے بزرگوں کے ساتھ شرکت کابھی مجھے اعزاز حاصل ہوا،ان کی گرج دار آواز کی گونج اب بھی مجھے فضاؤں میں سنائی دیتی ہے۔وہ اردو ادب کی آبرو ہیں۔ بہت بڑے شاعرہیں اورجتنےمعروف ہیں، اس سےکہیں زیادہ ممتا ز۔ جوش صا حب کا شمار متنازع شخصیات میں بھی کیاجاتاہے۔اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جوش صاحب کی شخصیت اورشاعری کے حوالے سے جتنی متوازن تنقید ہوئی، کم و بیش اتنی ہی غیر متوازن بھی۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جوش صاحب کی شخصیت اورفن کی بنیادپرجتناکچھ حمایت یا توصیف میں لکھا گیا ہے، تقریباً اتنا ہی خلاف بھی لکھاگیا ۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ جب جیدعلماء اورجوش صاحب کے اختلافات حدسےتجاوز کر گئےاورموضوعِ بحث جوش بنے رہے۔
بزعمِ خود صدربننے والے جنرل ضیاءالحق نے کسی بات پر ناراض ہوکرجوش ملیح آبادی کا وہ اعزازیہ بند کردیاتھا،جو حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی امداد نہیں،بلکہ ادبی خدمات کےاعتراف میں انہیں ماہانہ بنیادپراداکیاجاتاتھا۔جس پر مولاناکوثرنیازی نےایک قومی اخبارغالباً روزنامہ جنگ میں اپنا کالم لکھا، ۔۔کافرشاعر کی مومنانہ شاعری۔۔۔اس میں انہوں نے سورہ رحمان کے منظوم ترجمےکاحوالہ دیاتھا،یہ حوالہ کام کرگیااور ان کا ماہانہ مشاہرہ بحال کردیاگیاتھا۔
جوش صاحب فرمایا کرتےتھے کہ سورج غروب ہوتاہےتوجوش طلوع ہوتا ہے اورجب سورج طلوع ہوتا ہے تووہ جوش کو بیدارکرپاتا ہے ۔مگر22فروری 1982کاسورج جب طلوع ہوا توجوش صاحب بیدارتو تھے مگر ہوش میں نہ تھے اور غنودگی شدیدتھی۔ مجھےاچھی طرح یاد ہےکہ فروری کےتو پہلے اوردوسرےعشرے میں جوش صاحب کی علالت شدت اختیا رکر چکی تھی ۔غالباً یکم فروری ہی تھی کہ صبح سات بجے کے قر یب سجاد انکل (سجادحیدرخروش صاحب فرزند جوش ملیح آبادی مرحوم ) کا فون آیا “السلا م علیکم!کیا بلےبھائی صاحب سےبات ہوسکےگی ؟میں ٹھیک سےسن نہیں پایا تھا کیونکہ فون کی گھنٹی پرہی میری آنکھ کھلی تھی ۔میں نے عرض کیاجی فرمائیے کون صاحب با ت کر رہے ہیں ۔”میں سجاد ہوں ۔سجادحیدر،فخرالدین بلےصاحب سےبات ہوسکے گی؟۔جواباً میں نے پہچان کربہت مودبانہ اندارمیں سلام کیا اوربتایا کہ ابّوتودوسرے کمرے میں ہوں گے،میں انھیں بلواتا ہوں ۔بعدمیں ان کی ابوسے فون پرتفصیلی بات ہوئی ۔اور بات مکمل ہونے پرمیں نےابو کےچہرےپرپریشانی کےآ ثاردیکھے۔ پوچھا ابّوسب خیریت توہے ۔ابونے کہا بیٹےجوش صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں اور ہمیں فوراًوہاں پہنچناہوگا۔ہم لوگ گھنٹہ بھرمیں جوش صاحب کی رہائش گاہ پرپہنچ گئے۔سجا دحیدرخروش صا حب سےجوش صاحب کی کیفیت معلوم کی ۔پھر دیگر اہل خانہ سے ملا قا ت ہوئی۔ پھُپی جان(دختر جوش )فواد(فرزند سجا دحیدر ) اور دختران سجاد حیدرخروش سب ہی اپنےبلےانکل کے گردجمع ہوگئے۔ باباکی علالت نےتمام اہل خانہ کوفکرمند کررکھاتھا ۔مگرابوسےبات کرکےاورانھیں اپنےدرمیان پاکرسب ہی گھروالوں کی پریشانی کم ہوتی نظرآرہی تھی ۔اورپھربیماری کی نوعیت کومدنظررکھتےہوئےعلاج کےسلسلےمیں پیشرفت کیلئےباہمی مشورےہوئے ۔پرانےاورنئےمعالجین سےرابطے تیزہوگئے۔
بائیس فروری 1982۔۔ وہ المناک دن ہےکہ جب شبیرحسن خان المعروف جوش کی زندگی کاسورج غروب ہواتوجیسے دنیا ئے ادب میں اندھیراہوگیا۔مجھے یہ عبارت لکھتے ہوئے آنس معین کاشعر یاد آگیا ہے ہے
آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی
آج تو سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے
شاعرآخرالزماں ہوں اےجوش ۔۔۔۔کہنےوالےجوش ملیح آبادی اب نہیں رہےتھے۔ان کی زندگی کے آخری ایاّم میں ابّو مسلسل ان کی عیادت و مزاج پرسی کی غرض سےان کے ساتھ ساتھ رہے۔ سجا دانکل کہتےتھے۔” بلےبھائی صاحب آپ کی موجودگی سے بچوں کو،بہن کواور مجھے بہت تقویت رہتی ہے وگرنہ ہما رے ہا تھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں اورجب بابا بھی آپ کو دیکھتے ہیں۔تومطمئن ہو جاتےہیں اورآپ جب انھیں نظر نہیں آتےتو فرماتےہیں بلےصاحب کو بلوابھیجئے۔
جب جنازگاہ میں جوش صاحب کی نماز پڑھی جا چکی تھی اور تھوڑے ہی وقفے کےبعددوسرے فرقےکےاحباب نےایک مرتبہ پھرنمازپڑھوائی توفیض احمد فیض بھی اس میں شرکت کرپائے تھےاور نمازجنازہ ادا کرنےکےبعدفیض صاحب نےاپنا سرجوش صاحب کےقدموں پردھردیا اوردہا ڑیں مارمارکرروتےرہے اورکہتےرہے کہ” آ ج اردو یتیم ہوگئی” ۔یہ بہت ہی رقت آمیز منظرتھا۔فیض صاحب بھی تو والدگرامی سیدفخرالدین بلے کی طرح عارضہءقلب میں مبتلاتھےاوران دونوں کی حالت بگڑتی چلی جارہی تھی ۔سجادانکل یتیمی کا گھاؤ برداشت کرنے کی کو شش میں مصروف تھے۔تدفین کےمراحل سے گزرکر تینو ں بزرگوں کوایمرجنسی میں لےجایاگیا.یہا ں یہ امرقابل ذکر ہےکہ فیض صاحب نےجوش صاحب کی تدفین سےقبل ہی ابّواورسجادانکل کےقریب آکرفرمایامیں تھوڑی دیرکیلئےاجازت چاہوںگا۔ابّو کےاس استفسار پرکہ تدفین ہونےکو ہے۔فیض صاحب نےفرمایا “بلےصاحب میں اردو کو دفن ہوتے ہوئےنہیں دیکھ سکتا “۔اور واقعی فیض صاحب اس مرحلےپروہاں موجودنہ تھے ۔جوش صاحب کےحو الےسےیوں توبہت سی باتیں ہیں کہ جوان گنت نشستوں میں سننےکوملیں گی مگرایک بات ذراہٹ کرہےاورمختلف بھی۔غالباً یہ مارچ 1982ء کا واقعہ ہے کہ جوش صاحب کےبلاوے پر ہم ان سے ملنےان کی رہائش گاہ پہنچے۔ چند ایک دیگراحباب بھی تھے ۔انہو ں نےسجادانکل کومخاطب کیا “آج کی نشست میں پہلےآپ پڑھیں گے،پھرآنس معین،اورپھرمحمدعلی(اداکار)اپنےکسی پسندیدہ شاعرکاکلام پڑھیں گےاورپھرہم بلےصاحب سےملتمس ہونگے۔مختصر یہ کہ اسی ترتیب سےشعراء نےاپنااپنا کلام سنایا۔ پھر جوش صاحب نےابّو سےفرمائش کرکےچند غزلیں سنیں اور آخر میں برفباری کےحوالےسےان کی نظم سن کردوبارہ فرمائش کرکےسنی اورآخر میں ابو کی فرمائش نہیں،بلکہ ان کےاصرار پرجوش صاحب نےاپنا کلام سنایا ۔محفلِ شعروسخن کےاختتام پرگفتگوکاآغازہوا اور ہوتے ہوتےگفتگوکاموضوع پروردگارِعالم ہوگیا۔اسکی رحمت اوربخشش پربات ہونےلگی اور پھرجوش صاحب نےابّو کومخاطب کیا۔بلےصاحب اللہ ایک کام نہیں کرسکتااوروہ ہےظلم اورپھراپنا شعرپڑھا ۔
شبیرحسن خا ں نہیں لیتے بد لہ۔۔۔
شبیرحسن خاں سےبھی چھوٹاہےخدا
ابّو نے کہا بےشک پروردگارِعالم ارحم الراحمین ہے ۔ اوراس کے بعد ابّو کچھ کہنے کوتھے کہ جوش صاحب نےفرمایا بلے صاحب وہ جوابھی غزل سنائی تھی ۔کیاتھاوہ شعر، دوبا رہ عطا فر مائیے۔ کیا؟ اسی کےرحم وکرم پر۔۔ہاں
اسی کےرحم وکرم پرہےعاقبت میری
نہ جس نے پہلی خطا کو مِری معاف کیا
فیض احمد فیض نےجوش صاحب کےحوالے سےایک جگہ اپنی رائےکا اظہاران الفاظ میں کیا تھا کہ “جوش کےکلام کی قدروقیمت میں کوئی شبہ نہیں،کسی نظام کےخلاف آوازاٹھانا ،ہمیشہ جرات اوردلیری چاہتاہے۔جوش نےنوجوان لکھنےوالوں کاحوصلہ بڑھایا اورانھیں فکرونظرکےنئےراستےدکھائے ۔جبکہ معتبرنقادڈاکٹرمحمدعلی صدیقی کاخیال ہےجوش نےمحض علماء سوکی منافقت اورنام نہادعلماءکےجہل کےخلاف اسقدرجذباتی اندازمیں قلم اٹھایا کہ ان کی اکثرنظمیں ان کےخیالات کی منظوم شکلیں نظرآتی ہیں۔ ” بابائےاردوڈاکٹرمولوی عبدالحق کوبھی اعتراف کرناپڑاکہ جوش کےکلام کوپڑھ کرلطف وسرورمحسوس ہوتاہے۔جوش صاحب بےشک ایک قادرالکلام شاعرتھےاوراس حوالےسےجائزہ لیاجائےتومنکرینِ جوش کی تعداد نہ ہونے کے برابرہے ۔جبکہ معترفین اورمعتقدین ِجوش کوشمارمیں لانابہت دشوارہے ۔ اورماننےوالےتوانہیں شاعرانقلاب مانتےہیں۔جوش صاحب تمام مظاہرومناظرِفطرت وکائنات میں سےطلوع آفتا ب کے منظرکو حسین ترین سمجھتےتھے۔اس حوالےسے جوش صاحب کایہ شعرملاحظہ ہو۔
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے۔۔۔۔
۔۔اگر رسول ؐ نہ آتے تو صبح کا فی تھی
قطع نظر اس کےاہلِ بیتِ اطہارسےانہیں خاص نسبت وعقیدت تھی ۔قرآن مجیدوفرقان حمید پربھی ان کی گہری نظرتھی۔وہ قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنےکےخواہش مندتھے اور سورۃ رحمٰن کامنظوم ترجمہ اسی سلسلےکی کڑی تھی ۔
اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا
تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائے گا
اس تمرُّد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا
کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جابجا
نرم شاخیں جھومتی ہیں، رقص کرتی ہے صبا
پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دل فریب و خوش نما
جن کا ہر ریشہ ہے قند و شہد میں ڈوبا ہوا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
یہ سحر کا حسن، یہ سیارگاں اور یہ فضا
یہ معطر باغ، یہ سبزہ، یہ کلیاں دل ربا
یہ بیاباں، یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
سوچ تو کیا کیا، کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
پھول میں خوشبو بھری، جنگل کی بوٹی میں دوا
بحر سے موتی نکالے صاف، روشن، خوش نما
آگ سے شعلہ نکالا، ابر سے آبِ صفا
کس سے ہو سکتا ہے اس کی بخششوں کا حق ادا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
خلد میں حوریں تری مشتاق ہیں، آنکھیں اٹھا
نیچی نظریں جن کا زیور، جن کی آرائش حیا
جن و انساں میں کسی نے بھی نہیں جن کو چھوا
جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئی جیسے صبا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
ہر نفس طوفان ہے، ہر سانس ہے اک زلزلا
موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلا
مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہے ارض و سما
ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہرِ خدا
بھولتا ہے کوئی اپنی انتہا اور ابتدا
یاد ہے وہ دور بھی تجھ کو کہ جب تو خاک تھا
کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کر دیا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
صبح کے شفاف تاروں سے برستی ہے ضیا
شام کو رنگِ شفق کرتا ہے اک محشر بپا
چودھویں کے چاند سے بہتا ہے دریا نور کا
جھوم کر برسات میں اٹھتی ہے متوالی گھٹا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
(جوش ملیح آبادی)
سجا د انکل جب ایک مرتبہ ملتان تشریف لا ئےہوئے تھے تو امّی جان نےاُن سے پوچھا “بھائی صاحب آپ کایاآپا کاکوئی پرہیزہوتوبتادیں اورکوئی ایسی چیزجوآپ کوناپسندہوتووہ بھی “۔سجادانکل نےکہا”بھابی جان بچپن میں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہماری اماں چندروزکیلئےکہیں گئیں۔
توہم نےکیادیکھاکہ پانچ سات بڑےبڑےمرتبان اچارسےبھرے رکھےتھےاورہمیں توگلےآنےکی بیماری لاحق تھی ہی۔بس ہم نے اماں کی غیرموجودگی کاپوراپورافائدہ اٹھایا اورچندہی روز میں اچارسےبھرےمرتبان صاف کرڈالے۔۔بس یہ نہ پوچھیئےگاکہ اماں نےہماراکیاحال کیا؟مگروہ دن اورآج کا دن ہمیں کبھی گلےآنے کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
سجادانکل نےجتنےروزبھی ہمارےہاں قیام کیا ،وہ مسلسل ماضی قریب کےاس دور کویاداوربیان کرتےرہے،جوابّو کی راولپنڈی /اسلا م آبا د میں تعینا تی کاتھا اوراس دوران کی ہونے والی بیشتر نشستوں کا احوال بھی انہی کی زبانی معلوم ہوا۔۔راولپنڈ ی آرٹس کونسل میں منعقد ہونےوالی تقریبات میں اپنی اوراہل خانہ کی شرکت کےحوالےسےبھی بہت سےواقعات کاکم ازکم مجھے توانہی کےتوسط سےعلم ہوا۔انہو ں نے تبسم بہنا کاخاص طور پرذکرکیا کہ اپنےبلےانکل سےمجھ سےزیادہ تبسم کارابطہ رہتا اورمیں کیابابا (حضرت جوش)بھی جب یہ سمجھ لیتےکہ یہ بچے آج پھر (آئے دن)کسی تقریب میں شرکت کےمتمنی ہیں اوربلے بھائی صاحب سےگٹھ جوڑکیےبیٹھےہیں توگنجائش باقی نہ رہتی اوربس خاموش ہی نہ ہورہتےبلکہ خوش دلی سےاجازت بھی دیدیتے۔محض یہ جان کرکہ ان کاپلڑابھاری ہےاوران کےساتھ تو بلےبھائی صاحب ہیں کہ جو بابا کو پل بھرمیں قائل کرلینےکافن جانتےہیں توبھلامجھ جیسےکوقائل ہونےمیں کتنی دیرلگےگی ۔سجادانکل کاکہناتھابلےبھائی صاحب نےتووہاں ادبی اورثقافتی سرگرمیوں کےحوالےسےتہلکہ مچارکھاتھا۔ایک ایک دن میں کئی کئی تقریبات معمول تھا ۔ خودمیں متعدد بارکئی کئی پہر مسلسل تقریبات میں شرکت کرنے میں گزارتاتھا ۔ان کےقیام کے دوران ہی ایک شام اچانک بیٹھےبیٹھےسجادانکل نےہما رے پیارےباباسائیں(ابّو)سےفرمائش کی بھائی صاحب آج تودل مچل رہا ہے، بابا بہت یاد آرہے ہیں۔ آج میں آپ سےایک ایک کرکے وہ تما م کلام سنانے کی گزارش کروں گا کہ جن کی فرمائش بابا آپ سےکیا کرتےتھے۔بس پہلےتوآپ “رقص میں ہے”والی نظم ۔پھراپنا قول ترانہ ” من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ “پھرِ “ہے قیدِ عصر سےوالعصر ماورا بھی علی “والی منقبت اور پھر حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے۔ اس کے بعدغزلیں اورنظمیں مگر نظم “با رانِ کرم”ضرور سنائیےگا ۔ہم سب کےسب ڈرائنگ روم میں ابّواور سجادانکل کےگردجمع ہوگئےاوراچانک سجادانکل نےکہابلےبھائی صاحب ذرا ٹھہرئیےگا۔پہلےمیں اپناکلام پیش کروںگا کیونکہ آپ نے بعد میں فرمائش کردی تو،،، آپ کےبعد، یہ ممکن نہ ہوگا ۔ابھی سجادانکل نےکلام سناناہی شروع کیاتھا کہ عرش صدیقی صاحب،حسن رضاگردیزی صاحب،جناب حیدرگردیزی،جناب مقصود زاہدی سمیت کئی اہل قلم تشریف لےآئے۔یہ محفل بہت یادگاررہی ۔سب نےاپنااپنا کلام سنایا اورآنس معین سےتوسجاد انکل نےیہ کہہ کرکلام سنانےکی فرمائش کی کہ آپ توہمارےبابا کےکمسن سقراط ہیں۔کیسےممکن ہےکہ آپ کےکلام کےبنامحفل مکمل ہوسکے۔
جوش صاحب کےبعد خروش صاحب بھی اللہ کوپیارے ہوچکے ہیں۔عرش صدیقی بھی نہیں رہے۔فخرالدین بلے بھی اتنی دور چلے گئے ہیں کہ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا،لیکن اتنی حسین یادیں چھوڑگئے ہیں کہ کبھی کبھی توایسالگتا ہے کہ یہ سب ہم میں موجود ہیں۔
اس میں شک بھی نہیں کہ جوش ملیح آبادی اورسیدفخرالدین بلے آج بھی اہلِ ادب کے دلوں میں زندہ ہیں اور فضاؤں میں مجھے سید فخرالدین بلےکےاس شعرکی گونج سنائی دے رہی ہے۔
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنےکےباوجود