حضرت اسماعیل علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ پیغمبرتھے، قرآن مجید میں آپ علیہ السلام کو نبی اوررسول دونوں القابات سے یاد کیا گیا ہے جس سے آپ کے مقام ومرتبہ کے بلندہونے کاپتہ ملتاہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحب زادے تھے۔اللہ تعالی نے انہیں قرآن مجیدمیں ”صادق الوعد“کالقب عطاکیاہے۔حضرت حاجرہ علیھاالسلام ان کی والدہ محترمہ ہیں اورحضرت اسحق علیہ السلام ان کے چھوٹے بھائی تھے،عرب قبائل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔لفظ اسماعیل دوالفاظ کامجموعہ ہے، ”اسمع“یہ دعاکاحصہ ہے یعنی سنیے اوردوسرا”ایل“جوعبرانی زبان میں اللہ تعالی کا اسم مبارک تھا۔تولفظ”اسماعیل“کامطلب ہوااے اللہ تعالی ہماری(دعا)سن لیجئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دعامانگی تھی تویہی الفاظ استعمال کیاتھے جوبعدمیں نومولودکانام بن گیا۔چھوٹے سے تھے تو والدمحترم آپ علیہ السلام کووالدہ ماجدہ کی معیت میں بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آئے۔حضرت حاجرہ علیھاالسلام نے کچھ روزتوپانی اورکھجوروں پر گزارہ کیالیکن جب مشکیزہ خشک ہوگیااور گتھلی خالی ہوگئی تودودھ ااترنابندہوگیا۔چنانچہ جب آپ علیہ السلام بھوک اورپیاس کے مارے ایڑھیاں رگڑرہے تھے کہ زم زم کاچشمہ پھوٹ پڑاجوآج تک جاری ہے۔تھوڑے سے اونچے ہوئے تو والدمحترم نے اللہ تعالی کے راستے میں ذبح کرناچاہا،آپ کی سعادت مندی کہ بلاچوں و چراراضی ہوگئے۔وقت ذبح جنت سے لایاگیا مینڈھاچھری کے نیچے دھردیاگیا،حضرت ابراہیم نے تکبیرپڑھی اوربیٹے کی گردن پرچھری چلادی اورجب آنکھوں سے پٹی اتاری توبیٹے کوصحیح سلامت پایا۔حضرت اسماعیل علیہ السلام تیرہ برس کی عمرمیں ختنے کاحکم نازل ہواتوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس شعائراسلام کوجاری فرمایا۔آغازشباب میں اپنے والدبزرگوارکے ساتھ مل کرخانہ کعبہ کی تعمیرکی۔بہشت سے اتاراگیا”مقام ابراہیم“نامی پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوجاتے،وہ اللہ کے حکم سے بلندہوجاتااور حضرت اسماعیل علیہ السلام نیچے سے پتھرپکڑاتے جسے دیوارمیں چن دیاجاتا۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نیچے اترناہوتاتووہ پتھراللہ تعالی کے حکم سے نیچے آجاتا۔تعمیرکعبہ کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام مسجدحرام کے پہلے متولی بنے۔وہ کعبۃ اللہ کے دروازے کے ساتھ تشریف فرماہوتے تھے اور لوگ ان سے فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔
تاریخ میں ”بنوجرہم“نامی ایک قبیلے کا ذکرملتاہے۔یہ خانہ بدوش قبیلہ تھاجو پانی کے ذخیروں پر قیام کرتااورپانی ختم ہونے پر اگلی منزل پرسدھارجاتا۔آسمان پرپرندے دیکھے تو اسی سمت پر چل کھڑے ہوئے،دیکھاکہ ایک شیریں پانی کاابلتاہواچشمہ ہے اورساتھ ایک خاتون اور ایک بچہ ہیں۔اجازت ملنے پروہیں قیام پزیرہوگئے اور چونکہ یہ چشمہ کبھی بھی خشک ہونے والانہیں تھااسی لیے مستقل یہیں کے ہورہے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام اسی قبیلے کے ماحول میں پلے بڑھے اوراس قبیلے کی دومحترم خواتین سے آپ نے شادی بھی کی۔آپ کو نبوت عطاہوئی تو قبیلہ بنوجرہم،یمنی اور عمالیق قبایل کی طرف آپ مبعوث کیے گئے۔بعض روایات کے مطابق کم وبیش پچاش برس آپ علیہ السلام نے ان قبائل میں تبلیغ وتدریس کی اورانہیں شرک اوربت پرستی سے منع کرتے رہے اورتوحیدکی دعوت دیتے رہے۔آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹی کانکاح حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے سے کرنے کی وصیت کی تھی۔اس زمانے میں مکہ اور فلسطین میں بلامبالغہ ہفتوں کی مسافت کافاصلہ ہوگالیکن اللہ تعالی نے رشتہ داروں کے جو حقوق مقررکیے ہیں ان کاخیال رکھتے ہوئے ایک نبی نے پسندکیاکہ ان کی بیٹی کانکاح ان کے بھتیجے کے ساتھ ہواگرچہ وہ کوسوں دوررہتاتھا۔اس واقعہ سے دوباتیں آسانی سے سمجھ آجاتی ہیں،پہلی یہ کہ نکاح کے لیے اولین مستحق دراصل قریب ترین رشتہ دارہی ہوتے ہیں،پہلاحق ددھیالی رشتہ داروں کاہوتاہے جیساکہ حضرت اسمئیل علیہ السلام نے اپنی بیٹی اپنے بھتیجے کے عقد نکاح میں دی۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی بیٹی کے لیے خود سے رشتہ کی بات کرنابھی نبیوں کاطریقہ ہے۔ہماری معاشرت میں بیٹی کے نکاح کے لیے خودسے بات بڑھانامعیوب سمجھاجاتاہے جوکہ ہندوانہ رسم ہے۔حضرت اسماعیل کی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی حضرت موسی علیہ السلام سے اپنی بیٹی کے نکاح کی بات خود سے چلائی تھی اورحضرت موسی علیہ السلام کے سوال کاانتظارنہیں کیاتھا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مادری زبان قبطی تھی اورپدری زبان عبرانی تھی،اس طرح آپ علیہ السلام کو دوزبانوں پر عبور وراثت میں ملا۔ان کے علاوہ عربی زبان میں فصاحت و بلاغت کے بانی بھی آپ علیہ السلام ہی ہیں،اپنے وقت میں آپ علیہ السلام دریاکوکوزے میں بندکردینے والی عربی بولاکرتے تھے۔توریت اور زبورکے مطابق آپ علیہ السلام بہترین تیراندازتھے اور آپ علیہ السلام کانشانہ خطانہیں جاتاتھا۔آپ علیہ السلام پہلے انسان ہیں جس نے گھوڑے کوسدھایااوراسے سواری کے لیے آمادہ کارکیا۔اس سے قبل گھوڑوں کاشمار جنگلی جانوروں میں ہوتاتھااوروہ انسان کے قابومیں نہیں آتے تھے۔ان حقائق سے اندازہ ہوتاہے کہ آج سے ساڑھے تین ہزارسال قبل زبان دانی میں کمال اور فن حرب میں مہارت بہت قابل قدر فنون گردانے جاتے تھے۔وقت کانبی چونکہ وقت کاقائدوراہنماہوتاہے اس لیے آپ علیہ السلام نے ن دونوں فنون میں اوج کمال حاصل کیا۔آج کے فرزندان توحیدکے لیے بھی اس میں سبق ہے دین داری تقوی،علوم اسلامیہ اور باہمی رکھ رکھاؤ کے ساتھ ساتھ عصری علوم و فنون میں سندکمال کاحصول بھی لازمی ہے تاکہ ان کی بات میں اثرپیداہوسکے اور اہل دنیاان کی گفتگوسننے پرآمادہ ہوسکیں۔آپ علیہ السلام کے زمانے میں حج و عمرہ کی عبادات شروع ہوچکی تھیں۔شیریں چشمہ اور قبولیت دعاکی کی کشش لوگوں کو مکہ مکرمہ میں کھینچ کھینچ لاتی تھی۔اس مرکزیت کے حصول کے بعد آپ علیہ السلام کی زوجہ محترمہ نے خانہ کعبہ جیسی مقدس و محترم عمارت پر غلاف چڑھانے کی تجویزپیش کی۔اس تجویزکے پس منظرمیں حیادارخواتین کاخود ڈھکے رہناہو سکتاہے۔یہ خاتون چونکہ ایک برگزیدہ نبی کی اہل بیت میں سے تھیں اور یقیناََ حجاب میں ڈھکی چھپی رہتی ہوں گی،تب انہیں یہ خیال دامن گیرہواہوگاکہ اگرہمارے محترم وپاک دامن ہونے کاتقاضایہ کہ ہم ڈھکی رہیں تو کعبۃ اللہ اس پردے کازیادہ حق دارہے۔اہل خانہ کی تجویزکوحضرت اسمئیل علیہ السلام نے پسند فرمایا اورپہلے مطلوبہ پیمائش کی اور بھیڑوں کی اون اتارکر اس سے پیمائش کے مطابق غلاف کعبہ تیارکیا اور بیت اللہ کو ڈھانپ دیا۔تب سے اب تک ہرسال نیاغلاف تیارکرکے تو عیدقربان کے موقع پرخانہ خداپر چڑھادیاجاتاہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پانچ شادیاں منسوب ہیں۔توریت کابیان ہے کہ آپ علیہ السلام کے بارہ بیٹے اورایک صاحبزادی تھیں۔آپ علیہ السلام کے بیٹوں کے نام باالترتیب نبایوت،قیدار،ادبئیل،مبسام،مشماع،دومہ،مسا،حدد،تیما،یطور،نفیس اورقدمہ علیھم السلام ہیں۔آپ کے فرزندان میں ”نبایوت“اور”قیدار“کوبہت شہرت ملی۔اصحاب الحجر اوراصحاب الرس بالترتیب ان کی نسل سے تھے،قرآن مجید نے ان دونوں قبائل کاذکرکیاہے۔آپ ﷺ کاشجرہ نسب قیدارکی جدسے حضرت اسمئیل علیہ السلام تک جاملتاہے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام سے دوایسے واقعات منسوب ہیں جنہیں معجزات بھی کہاجاسکتاہے:ایک بارایک شخص ایک لاغر،کمزور،بیماراور نحیف و نزاربھینس لے کرآیااورشکایت کی کہ یہ دودھ نہیں دیتی،آپ علیہ السلام نے اس کے تھنوں پر اپنادست مبارک پھیراتواس کے تھن دودھ سے لبالب بھرگئے۔اسی طرح ایک بارکچھ مہمان آپ کے ہاں پہنچے لیکن کھانے کوکچھ بھی میسرنہ تھا،آپ علیہ السلام نے ایک دیگ میں زم زم کاپانی پانی ڈال کراسے سرخ رومال سے ڈھک دیا،کچھ دیربعدجب کپڑاہٹایاگیاتووہ اتنی بڑی دیگ کھانے سے لبالب بھری ہوئی تھی۔قرآن مجیدنے حضرت یعقوب کے بارے میں بتایاکہ انہوں نے اپنے وصال سے پہلے اپنے بیٹوں کوجمع کیااوران سے ایک خداکی عبادت کاوعدہ لیاتھا۔اسی طرح روایات کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی دم آخریں اپنے کل بیٹوں کو جمع کیاتھا،اس سے زیادہ کی تفصیلات اگرچہ معدوم ہیں لیکن ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ ایک نبی جس کی وراثت میں علم بطورترکہ موجودہوتاہے اوراس کاکل سامان زیست تقوی وخشیت الہی ہوتاہے وہ اپنی اولاد کوبھی انہیں اوصاف حمیدہ کی تلقین ہی کرے گا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کم و بیش 130سال عمرپائی اورمقامی روایات کے مطابق مطاف کعبہ میں ہی اپنی والدہ محترمہ کے پہلومیں دفن کیے گئے۔آپ علیہ السلام کے بعد آپ کابیٹا خانہ کعبہ کامتولی بنا۔حضرت موسی علیہ السلام کازمانہ آتے آتے جزیرہ نمائے عرب کے اکثروبیشترعلاقوں کے باسی اپنے بارے میں آل اسماعیل علیہ السلام ہونے کادعوی کرتے تھے۔آپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے بارے میں کوئی بہت زیادہ معلومات میسرنہیں ہیں،تاہم والدبزرگوارکی اطاعت گزاری ایسی صفت ہے جس کاقرآن مجیدنے بھی بصراحت ذکرکیاہے۔یہی صفت آپ کے عم زادگان،بنی اسرائیل میں بھی تھی کہ باردیگرجب وہ مصرسے واپس پہنچے توبن یامین ان کے ساتھ موجودنہیں تھے۔بزرگ اورنابیناباپ نے گھرداخل ہونے سے روک دیااورزبردست ڈانٹ بھی پلادی اورحکم دیاکہ ابھی کے ابھی واپس جاؤ اورمیرے دونوں بیٹوں کولے کرآؤاوراللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔دس کے دس لمبے چوڑے صحت منداورکڑیل جوان بیٹوں میں سے کسی نے چوں کرناتودورکی بات ہے آنکھ اٹھاکربھی نہ دیکھااورچپ چاپ الٹے پاؤں لوٹ گئے۔آل ابراہیم کی باپ کے ساتھ یہ سعادت مندی ان بہت سی وجوہات میں سے ایک ہے جوانہیں تاقیامت زندہ رکھے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...