حضرت ابراہیم بن ادم رحمتہ اللہ علیہ طریقت میں یکتا بلکہ اپنے ہم عصروں میں سرداروں کے سردار حضرت خضر علیہ السلام کے مرید تھے آپ کی ملاقات بہت سے مشائخ سے ہوئی تھی آپ نے حضرت ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت میں علم حاصل کیا تھا ۔روایت ہے کہ آپ بلخ کے بادشاہ تھے ۔ایک دن شکار کے واسطے بمعہ لشکر کے نکلے مگر جنگل میں ہرن کے شکار میں جب تعاقب کیا تو آپ اپنے لشکر سے علیحدہ ہو گئے مگر اللہ تعالی نے اس ہرن کو قوت گویائی بخشی اور نہایت احساس سے اس نے کہا ۔۔الھذا خلقت او بھا ذا امرت * کیا تمہیں اسی کام کے واسطے ہی پیدا کیا گیا ہے اور تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے اتنی ہی یہ بات سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور اسی وقت بارگاہ الہی میں توبہ کی اور تمام امور سلطنت کو ترک کرکے صرف زہد و پرہیزگاری اختیار کر لی ۔۔اس کے بعد حضرت فضیل بن عیاض اور حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیھا کی خدمت میں حاضر ہو کر صحبت اختیار کر لی اور پھر تمام عمر اپنے کسب حلال کے علاوہ اور کچھ نہ کھایا۔۔آپ کی بہت ہی کرامات مشہور ہیں اور تصوف کے حقائق میں بہت سے رموز آپ نے بیان فرمائے ہیں ۔۔حضرت جنید بغدادی کا بیان ہے "طریقت کے تمام علوم کی کلید حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ ہیں " ۔۔۔روایت ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے دنیا کے تمام کام ایک طرف چھوڑ کر اللہ تعالی کو اپنا دوست بنا لو ۔۔۔اصل یہ ہے کہ جب بندہ اللہ تعالی کی جانب متوجہ ہو جائے تو وہ اللہ تعالی کا مخلص محب ہو جاتا ہے ۔۔اور مخلوق اس سے اپنی توجہ ہٹا لیتی ہے کیونکہ مخلوقات کی صحبت کو اللہ تعالی کی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہی ایک حقیقت ہے کہ اگر صحیح توجہ سے ان کے فرمان ادا کیے جائیں، اسی کو مخلص کہا جائے کیوں کہ فرمانبرداری محبت سے ہی ہو سکتی ہے اور خالص محبت نفسیاتی خواہشات کی دشمنی سے پیدا ہوتی ہیں کیوں کہ خواہشات نفسانی کا غلام ہمیشہ حق تعالیٰ سے دور رہتا ہے اور جو شخص نفس سے قطع تعلق کر لے ، وہی اللہ تعالی سے امان پاتا ہے ۔۔۔۔یاد رکھو کہ اپنے حق میں تو تمام مخلوق ہے آپنے آپ سے تو
اعراض کریں تو پھر یہ اعراض تمام مخلوق سے ہو جائے گا ۔۔اور اگر تو ساری دنیا سے دور رہے اور اپنے آپ سے اعراض نہ کرے تو یہ ایک ظلم ہے ۔۔یاد رہے کہ تمام لوگ اگر کسی کام میں مصروف ہیں تو یہ اللہ تعالی کے حکم اور تقدیر سے ہے۔ تیری ذات کا معاملہ خود تیرے ہی ساتھ ہے ۔۔اور یہ بھی یاد رکھو کہ طالبان حق کے لیے ظاہر و باطن کی استقامت صرف دو چیزوں پر ہے ایک تو پہچان کے لیے اور دوسری اطاعت کرنے کے واسطے، جو پہچاننے کے لائق ہے ۔۔وہ یہ ہے کہ تمام خیر و شر میں اللہ تعالی کی تقدیر کو سمجھے یعنی تمام عالم میں بغیر مشیت الہی کوئی متحرک ساکن نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی ساکن متحرک ہو سکتا ہے۔۔مگر کام کرنے کے قابل صرف یہ ہے کہ احکام الہی کو بجا لائے اور اپنے اعمال کو صحیح رکھے ۔۔۔حلال و حرام میں تمیز جانے ،اس لیے کہ کسی حالت میں اللہ کی تقدیر و فرمان کو ترک کر کے محبت نہیں ہو سکتی ۔۔۔
مقرب مخلوق سے علیحدہ رہنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا جب تک خود اپنی ذات سے اعراض نہ ہواور جب تیرا اعراض اپنی ذات سے ہوگا تو اس وقت تمام مخلوق کی مراد حق کے حاصل کرنے پر آمادہ ہوجائے گی اور جب تو اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوجائے گا تو پھر تو احکام الہی کے کام کرنے کے واسطے تیار ہو جائے گا ۔۔۔تو معلوم ہوا کہ مخلوق سے آرام نہیں ہو سکتا اور اگر حق کے سوا کسی اور شہر سے تو آرام حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر غیر سے آرام حاصل کر کیوں کہ غیر سے آرام پانا توحید حق کو دیکھنا ہے اور اپنے ساتھ آرام تعطیل کا ثابت کرنا ہے ۔۔اس وجہ سے حضرت شیخ ابو الحسن سالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مریض کو اللہ کے حکم میں رہنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کے حکم پر ہے ۔۔۔یہ اس لیے کہ صحبت غیر اللہ کے واسطے ہے ۔۔اور اپنے نفس کی صحبت خواہش نفس کو پالنے کے واسطے ہوتی ہے ۔۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا جب میں جنگل میں چلا گیا تو ایک معمر شخص نے مجھ سے کہا، اے ابراہیم ! تو جانتا ہے یہ کونسی جگہ ہے یہاں پر تو فوج اور سواری لیے جا رہا ہے ۔۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ وہ تو شیطان ہے ۔۔اس وقت میرے پاس چاندی کے چار دانگ تھے جو میں نے ایک زنبیل بنا کر میں نے بطور مزدوری لیے تھے ۔۔میں نے اسی وقت اپنی جیب سے نکال کر پھینک دیے اور پھر یہ مضبوط ارادہ کر لیا کہ اب میں ہر میل کے خاتمہ پر چار سو نفل نماز ادا کروں گا چنانچہ میں نے اسی حال میں اس جنگل میں چار سال کا عرصہ گزار دیا مگر اللہ تعالی مجھے وقت پر برابر میرے لئے روزی پہنچاتا رہا ۔۔اور اس وقت میں حضرت خضر علیہ السلام میرے ساتھ رہے جنہوں نے مجھے اللہ تعالی کا اسم اعظم سکھایا ۔۔وہ صورت سے میرا دل مخلوق عالم سے بالکل بے نیاز ہو گیا ۔۔ اس کے علاوہ آپ کے بہت مناقب ہیں اور یہ توفیق اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہی ہے ۔۔۔۔
حضرت ابراھیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں بیت المقدس میں تھا ان دنوں کا واقعہ ھے کہ ایک رات جب ھم لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ھوئے اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو کچھ رات بیتنے کے بعد آسمان سے دو فرشتے اترے اور مسجد کی محراب کے پاس آ کر ٹھہر گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے کسی انسان کی خوشبو آ رھی ھے – دوسرے نے کہا کہ ھاں ! یہ ابراہیم بن ادھم ( رحمۃ اللہ علیہ) ہیں ۔ پہلے نے پوچھا ،
" ابراہیم بن ادھم (رحمۃ اللہ علیہ) بلخ کے رھنے والے ہیں؟ دوسرے نے کہا ،
"ھاں! وھی"
پہلے نے کہا:
"افسوس ! انہوں نے رب کی رضا حاصل کرنے کیلئے بڑی مشقتیں برداشت کیں ، مصیبتوں اور مشکلوں کے باوجود صبر سے کام لیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مرتبہ ولایت عطا کر دیا لیکن صرف ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے انہوں نے وہ مرتبہ کھو دیا"
دوسرے نے پوچھا:
"ان سے کیا غلطی سرزد ھوئی ھے؟"
پہلے فرشتے نے کہا:
"جب وہ بصرہ میں تھے تو ایک بار انہوں نے ایک کھجور فروش سے کھجوریں خریدیں اور کھجوریں لیکر جب وہ واپس پلٹنے لگے تو دیکھا کہ زمین پر کھجور کا ایک دانہ گرا پڑا تھا – انہوں نے سمجھا شاید یہ ان کے ھاتھ سے گرا ھے۔ لہٰذا انہوں نے اسے اٹھایا ، صاف کیا اور کھا لیا ۔ دراصل کھجور کا دانہ ان کے ھاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ کھجور کے ٹوکرے سے گرا تھا اور جونہی وہ کھجور ان کے پیٹ میں پہنچی ان سے مرتبہ ولایت واپس لے لیا گیا"
حضرت ابراہیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد کے دروازے کی اوٹ سے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو روتے ھوئے مسجد سے باھر نکلے اور اس پریشانی اور بے چینی کے عالم میں بیت المقدس سے بصرہ کی طرف روانہ ھو گئے۔ وھاں جا کر ایک کھجور فروش سے کھجوریں خریدیں اور پھر اس کھجور فروش کے پاس گئے جس سے پہلے کھجوریں خریدی تھیں ، اسے کھجور واپس کی اور ساتھ ھی سارا واقعہ بیان کیا اور آخر میں اس سے معافی بھی مانگی کہ غلطی سے تمہاری ایک کھجور کھالی تھی لہٰذا مجھے معاف کر دینا۔ اس کھجور فروش نے اسے کھلے دل سے معاف کر دیا اور پھر رو پڑا کہ حضرت کو ایک کھجور کی وجہ سے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ بصرہ سے پھر بیت المقدس روانہ ھو گئے اور بیت المقدس پہنچ کر رات کے وقت اس مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔
جب رات کافی بیت گئی تو آپ نے دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے اترے ، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے انسان کی خوشبو آ رھی ھے- دوسرے فرشتے نے کہا کہ ھاں یہاں ابراہیم بن آدھم موجود ہیں جو ولایت کے مرتبے سے گر گئے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم کے صدقے پھر وھی مقام و مرتبہ عطا فرما دیا۔
کبھی سوچا ھے کہ ہم انجانے میں اور جان بوجھ کر لوگوں کا کتنا حق کھا جاتے ہیں اور اس بات کی پرواہ ھی نہیں کرتے کہ روز محشر اسکا حساب دینا پڑے گا-
٭٭٭حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ٭٭٭٭
حضرت خواجہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ (متوفی162ھ) بلخ کے بادشاہ تھے ایک واقعہ سے متاثر ہو کر تارک الدنیا ہو گئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سے بزرگان دین سے شرف نیاز حاصل رہا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول آپ رحمۃ اللہ علیہ فقراء کے تمام علوم و اسرار کی کنجی ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے کہ جب گناہ کا ارادہ کرو تو خدا کی بادشاہت سے باہر نکل جاؤ۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰٰی علیہ ایک شہر میں تشریف لے گئے اور جا کر مسجد میں رکے۔ عشا کی نماز ہو چکی تو امام مسجد نے کہا مسجد سے نکلو میں دروازہ بند کروں گا اور اتفاق ایسا کہ موسم بھی سخت سردی کا۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: میں مسافر ہوں رات یہیں رکوں گا۔
امام مسجد: مسافروں کا تو یہ حال ہے کہ مسجد کی قندیلیں اور فرش چوری کر کے لے جاتے ہیں، میں تو کسی کو مسجد میں ٹھرنے نہیں دو گا چاہے ابرہیم بن ادہم ہی کیوں نہ آجائیں۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: میں ابراہیم بن ادہم ہی ہوں۔
امام مسجد: تمہارے لئے جاڑے کی شدت ہی بہت ہے اس پر جھوٹ کا اضافہ نہ کرو بہت باتیں کر چکے۔
اس کے بعد امام مسجد نے حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کی ٹانگیں پکڑ کر کھنچتے ہوئے مسجد سے باہر حمام کے تنور تک لایا اور وہاں چھوڑ کر چلا گیا ۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا وہاں حمام میں آگ جلانے والا ایک شخص موجود تھا ۔ سوچا اسی کے پاس چل کر رات گزاری کرنی چائے۔۔۔ میں اس کے پاس پہنچا اور سلام کیا ۔۔۔۔ وہ شخص موٹا بورئیے کا کرتا پہنے ہوئے تھا ۔۔ اشارہ سے مجھے بٹھایا اور ڈرتی نگاہوں سے داہنے بائیں دیکھتا رہا جب اپنے کام سے فارغ ہو کر کہا وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: میں نے سلام کب کیا تھا اور جواب اب دے رہے ہو ؟
ملازم حمام: میں کسی کا نوکر ہوں مجھے خوف ہوا کہ تمہارے جواب میں مشغول ہو کر میں خیانت کا مرتکب نہ ہو جاؤں۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: دائیں بائیں کیوں دیکھ رہے تھے؟
ملازم حمام: موت سے ڈرتا ہوں معلوم نہیں ادھر سے آجائے یا اُدھر سے
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: روزانہ کتنی مزدوری کر لیتے ہو؟
ملازم حمام: ایک درہم اور ایک دانگ کی۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: یہ پیسے کیا کرتے ہو؟
ملازم حمام: دانگ سے میرے اہل و عیال کی خوراک فرہم ہوتی ہے اور ایک درہم اپنے ایک مرحوم بھائی کی اولاد پہ خرچ کرتا ہوں۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: کیا وہ تمہارا حقیقی بھائی ہے؟
ملازم حمام: میں نے اس سے خدا کیلئے دوستی کی تھی اب وہ انتقال کر گیا تو اس کی اولاد کی پرورش کرتا ہوں۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللّہ تعالٰی علیہ: اچھا یہ بتاؤ کیا تم نے اللّہ تعالٰی سے کسی شۓ کی دعا مانگی ہے جو قبول ہوئی ہو۔
ملازم حمام: بیس 20 سال سے میں ایک بات کی دعا کرتا ہوں جو اب تک پوری نہیں ہوئی۔ وہ یہ کہ سنا ہے عرب میں ایک شخص ہے جو عابدوں اور زاہدوں میں بلند مرتبہ ہے۔ اسے ابراہیم بن ادہم کہتے ہیں میں نے دعا کی ہے کہ میں اس کی زیارت کروں اور اسی ولی اللہ کے سامنے مجھے موت آئے۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: اے میرے بھائی تمہیں مبارک ہو کہ اللہ تعالٰی نے تیری دعا قبول کی اور ابراہیم بن ادہم کو منہ کے بل گھسیٹوا کر تیرے پاس بھیج دیا۔
یہ سن کر ملازم حمام خوشی سے اچھل پڑا اور حضرت سے معانقہ کیا۔ اس وقت اس نے دعا کی۔ یا اللّہ تعالٰی تو نے میری تمنا پوری فرمائی میری دعا کو قبولیت سے نوازا اب میری روح کو بھی قبض فرما چنانچہ وہ فورا انتقال کر گیا۔
حضرت ابراہیم بن ادہم بلخ کے ایک شاہی خاندان کے فرد ہیں۔ آپ کی کنیت ابو اسحاق ہے اور شہزادوں میں آپ کا نسبِ عالی حضرت ابراہیم بن ادہم بن سلیمان بن منصور بلخی سے جا ملتاہے۔ حضرت جنید بغدادی آپ کی توصیف میں فرماتے ہیں۔: مَفَاتِحُ الْعُلُوْمِ اِبْرَاہِیْمُ علوم کی چابیاں حضرت ابراہیم ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم اپنے زمانے کے یگانہ عارفِ طریقت گزار تھے۔ آپ نے بہت سے قُدَ مَآئَ مشائخ کو دیکھا۔ اِمام الآئمہ حضرت اِمام ابوحنیفہ کے ساتھ رہ کر علم حاصل کیا۔ (نفحات الانس ص41 ‘فارسی)
بجٹ عوامی ہے نہ فلاحی، عوام کی آنکھوں میں د ھول جھونکی گئی
ایک مرتبہ حضرت اِمام اعظم ابوحنیفہؓ کی مجلس پاک میں حاضرتھے تو بعض لوگوں نے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا لیکن حضرت اِمام ابو حنیفہؓ نے اُنہیں سیّدنا کہہ کر خطاب فرمایا اور اپنے نزدیک جگہ دی اور لوگوں نے سوال کیا کہ اِنہیں سرداری کیسے حاصل ہوئی ۔ تو حضرت اِمام اعظم ابو حنیفہ ؓ نے فرمایا: اِن کا مکمل وقت ذکروشغل اور وظائف میں گزرتا ہے اور ہم دُنیاوی مشاغل میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں۔ (تذکرۃ الاولیا جلد1 ص85 فارسی)ایک دفعہ شکار کے لئے باہر جنگل میں نکل گئے۔ ہاتفِ غیبی نے آواز دی‘ اے ابراہیم تو اِس کام کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔آپ یہ آواز سنتے ہی متنبّہ ہوئے اور تمام مشاغل کو ترک کر دیا اور طریقت کی راہ اِختیار کی اور حصولِ طریقت پر سختی سے کار بند ہو گئے‘ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ وہاں حضرت سفیان ثوری‘ حضرت فضیل بن عیاض اور حضرت ابو یوسف غسولی سے اِستفادہ کیا اور اِن حضرات کی خدمت میں کچھ وقت گزارا۔ مکہ مکرمہ سے کچھ عرصہ کے لئے ملکِ شام کا رُخ کیا اور وہاں رزقِ حلال کے حصول کے لئے مصروف کار ہوئے۔ آپ باغات کی نگہبانی کر کے رزقِ حلال کماتے تھے۔ (4 تذکرۃا لاولیا جلد1ص85 فارسی)
(رضی اللہ تعالٰی عنہما و نفعنا بہ اٰمین)
“