شاعرِ دربارِ رسالت (ﷺ) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نام و نسب
حسان نام، ابو الولید کنیت، شاعر رسول اللہ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) لقب تھا۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 852ھ) نے آپ کا نسب یوں بیان کیا ہے:
حسان بن ثابت بن المنذر بن حرام بن عمرو بن زید بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار الانصاری الخزرجی ثم النجاری۔
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کا نام فریعہ بنت خالد بن جیش بن لوذان خزرجیہ تھا۔
صاحب سیرالصحابہ، جناب مولانا سعید انصاری مرحوم رقمطراز ہیں:
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آباؤ اجداد اپنے قبیلہ کے رئیس تھے۔ فارغ کا قلعہ جو مسجد نبوی سے مغرب کی جانب باب الرحمہ کے مقابل واقعہ تھا، انہی کا سکونت گاہ تھا۔ سلسلہ اجداد کی چار پشتیں نہایت معمر گزریں، عرب میں کسی خاندان کی چار پشتیں مسلسل اتنی طویل العمر نہیں مل سکتیں۔ حرام جو کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پردادا تھے ان کی عمر 120 سال تھی۔ ان کے بیٹے منذر اور ثابت بن منذر اور حسان بن ثابت سب نے یہی عمر پائی۔
سیر الصحابه، 3: 281، اداره اسلامیات لاهور
قبول اسلام
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حالت ضعیفی میں ایمان لائے۔۔ ہجرت کے وقت ساٹھ برس کی عمر تھی۔
غزوات میں شرکت
ڈاکٹر ایم ایس ناز اپنی تصنیف انسائیکلو پیڈیا اصحاب النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی غزوات میں شرکت کی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوات میں شرکت کی۔ انہوں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنے نفس اور زبان سے جہاد کیا۔ غزوہ خندق میں حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتوں کے ساتھ قلعہ میں تھے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت عبدالمطلب بھی اسی قلعہ میں تھیں۔ ایک یہودی نے قلعہ کے گرد چکر لگایا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اندیشہ ہوا کہ اگر یہودیوں کو اطلاع ہوگئی تو بڑی مشکل پیش آئے گی کیونکہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد میں مشغول تھے۔ انہوں نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: اس کو مارو ورنہ یہود کو جاکر خبر کردے گا۔ اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: آپ کو معلوم ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ جواب سن کر خود خیمہ کی چوب اٹھائی اور یہودی کو قتل کرکے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: اب جاکر اس کا سامان اتار لاؤ۔ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے: مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
(دکتور ایم ایس ناز، انسائیکلو پیدیا اصحاب النبیؐ، مقبول اکیدمی، لاهور)
اہل و عیال
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کا نام سیرین تھا جو کہ زوجہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن تھیں۔ ان سے عبدالرحمن نامی ایک لڑکا پیدا ہوا۔
اخلاق و عادات
ان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ دربار نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر تھے اور حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے کفار کی مدافعت میں اشعار کہتے تھے۔ جس پر رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی کہ خدایا! روح القدس سے ان کی مدد فرما۔ اس بناء پر بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کو خاص تقرب حاصل تھا۔
طبیعت کی کمزوری کے باوجود اخلاقی جرات موجود تھی۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کیا تو جواب دیا کہ میں تم سے بہتر شخص کے سامنے پڑھا کرتا تھا۔
زمانہ جاہلیت میں شراب پیتے تھے لیکن جب مسلمان ہوئے تو قطعی طور پر پرہیز کیا۔ ایک مرتبہ ان کے قبیلہ کے چند نوجوان مے نوشی میں مصروف تھے۔ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو بہت لعنت ملامت کی، جواب ملا یہ سب آپ ہی کا فیض ہے۔ اس پر آپ نے ایک شعر میں ان کو جواب دیا:
و نشربها تمتر کنا ملوکا
واسدا ماینہنہنا اللقاء
ہم اسی کے بموجب پیتے ہیں، خدا کی قسم جب سے مسلمان ہوا شراب منہ کو نہیں لگائی۔
(سیرالصحابه، 3: 301)
فضائل و مناقب حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے المستدرک میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: مشرکین کی ہجو بیان کر بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس سے تمہاری تائید کرتا ہے۔ بے شک جب تم ان کی ہجو (مذمت) کرتے ہو روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہوتے ہیں)۔
(المستدرک، 3: 478)
حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان کے لئے مسجد میں منبر رکھتے تھے۔ جس پر وہ کھڑے ہوکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے اظہار فخر کیا کرتے تھے اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس سے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید و مدد کرتے ہیں۔ جب یہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے اظہار فخر اور مقابلہ کرتے ہیں۔
(مسلم، 2: 144)
حضرت امام محمد بن علی الشوکانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1250ھ) نے اپنی تالیف فضائل صحابہ و اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بحوالہ ابن عساکر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسان مومن اور منافقین کے درمیان ایک امتیاز ہے۔ مومن حسان سے محبت کرتا ہے اور منافق ہی اس سے بغض رکھتا ہے۔
(امام محمد بن علی الشوکانی، فضائل اهل بیت و صحابه کرام رضی الله تعالیٰ عنهم: 305، بیت العلوم، لاهور)
حضرت علامہ علاء الدین علی متقی بن حسام الدین (متوفی 975ھ) نے اپنی تصنیف کنزالعمال میں حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت نقل کی ہے:
ایک مرتبہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک مجلس کے پاس سے گزرے تو حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل مجلس کو اشعار سنارہے تھے مگر اہل مجلس محظوظ نہیں ہورہے تھے۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ مل بیٹھے اور کہا: تم لوگ شوق سے ان کے اشعار کیوں نہیں سنتے؟ حالانکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے اشعار سنتے تھے اور اسے داد دیتے تھے اور آپ اعراض نہیں کرتے تھے۔
(کنزالعمال، 13: 157)
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایات
الاصابہ کے مطابق حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث روایت کی ہیں اور حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
جنگ احد کے موقع پر جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تمام لوگ بھاگ چکے تھے آپ اس نازک وقت میں بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ وہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے رہے حالانکہ دشمن آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باکل قریب تھا اور آپ پر چڑھ دوڑا تھا۔ ان کے جسم کا اکثر حصہ خون سے لتھڑا ہوا تھا۔ اس بات کے ڈر سے کہ کہیں لوگ یہ باتیں نہ کریں کہ ان کے جذبات ٹھنڈے پڑگئے ہیں۔
(المستدرک، 3، رقم:5617)
مدحت و نعت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت حبیب بن ابی ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مندرجہ ذیل اشعار سنائے:
شہدت باذن الله ان محمدا رسول الذی فوق السما وات من عل
وان ابا یحیی ویحیی کلاهما له عمل فی دینه متقبل
وان اخا الاحقاف اذقام فیهم یقول بذات الله فیهم ویعدل
میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے یہ گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العزت کے برگزیدہ رسول ہیں اور بے شک ابویحییٰ (حضرت زکریا علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ علیہ السلام دونوں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں مقبول عمل ہیں اور حضرت ہود علیہ السلام جب اپنی قوم میں کھڑے ہوتے تو فرماتے: اللہ کی ذات کی قسم! وہ نبی آخرالزماں ان میں ہیں اور وہ عدل و انصاف کرنے والے ہیں۔
(ابن ابی شيبه، المصنف، 5: 273، رقم:26017)
تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور وہ (نبی آخرالزماں) میں ہی ہوں۔
وفات
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں 120 سال کی عمر میں وفات پائی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“