20اپریل 1938ء ان کی چار پائی گول کمرے میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا جمگٹھا تھا۔ میں کوئی نو بجے کے قریب کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔
پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’میں جاوید ہوں۔‘‘ ہنس پڑے اور بولے۔ ’’جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔‘‘ پھر قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہوئے۔ ’’چودھری صاحب‘ اسے میرے جاوید نامہ کے اخیر میں وہ دعا ’’خطاب بہ جاوید‘‘ ضرور پڑھوا دیجئے گا۔‘‘ اسی دوران آنٹی ڈورس منیرہ کو لے آئیں۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس گئیں اور ان کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگیں۔
رات کے تقریباً دس بجے آنٹی ڈورس نے منیرہ کو لے جانا چاہا کیونکہ یہ ان کے سونے کا وقت تھا مگر وہ بولیں کہ آنٹی ڈورس تھوڑی دیر اور۔ والد نے مسکراتے ہوئے آنٹی ڈورس سے انگریزی میں کہا کہ اس کی چھٹی حس اسے آگاہ کر رہی ہے کہ آج باپ سے آخری ملاقات ہے۔ اس لئے اسے کچھ دیر یہیں رہنے دیں۔ بالآخر منیرہ والد کے بستر میں سو گئیں اور آنٹی ڈورس انہیں اپنی گود میں اٹھا کر اندر لے گئیں۔
اس رات ہمارے ہاں بہت سے ڈاکٹر آئے ہوئے تھے۔ ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا کیوں کہ ڈاکٹروں کے بورڈ نے کہہ دیا تھا کہ آج کی رات مشکل سے کٹے گی۔ کوٹھی کے صحن میں کئی جگہوں پر دو دو تین تین کی ٹولیوں میں لوگ کھڑے باہر سرگوشیاں کر رہے تھے۔ والد سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی تھی مگر وہ بڑے تیز فہم تھے۔ انہیں اپنے احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر یقین ہو گیا تھاکہ بساط عنقریب الٹنے والی ہے۔ اس کے باوجود وہ اس رات ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔
مجھے بھی اصل صورتحال سے آگاہ نہ کیا گیا۔ اس لئے میں معمول کے مطابق اپنے کمرے میں جا کر سو رہا مگر صبح طلوع آفتاب کے وقت علی بخش نے آ کر مجھے جھنجھوڑا اور چیختے ہوئے کہا کہ جاؤ دیکھو تمہارے باپ کو کیا ہو گیا ہے۔
نینداچانک میری آنکھوں سے کافور ہو گئی۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اپنے بستر سے اس خیال سے نکلا کہ جاکر دیکھوں تو سہی کہ انہیں کیا ہو گیا ہے۔ جب میں اپنے کمرے سے گزرتا ہوا ساتھ کے کمرے میں پہنچا تو منیرہ تخت پر اکیلی بیٹھی اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے رو رہی تھی۔ مجھے والد کے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر وہ میری طرف لپکیں اور میرے بازؤ سے چمٹ گئیں۔ ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ میرے ساتھ چل رہی تھیں۔
ہم دونوں والد کے کمرے کے دروازے تک پہنچ کر رک گئے۔ میں نے دہلیز پر کھڑے کھڑے اندر جھانکا۔ ان کے کمرے میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ چار پائی پر سیدھے لیٹے تھے۔ انہیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی۔ والد کی آنکھیں بند تھیں‘ چہرہ قبلہ کی جانب تھا‘ والد کی آنکھیں بند تھیں‘ مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر میرے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔
والد کے وفات کی خبر لاہور میں آگ کی طرح پھیلی۔ صبح ہی سے لوگ جوق در جوق ان کے آخری دیدار کی خاطر جاوید منزل میں جمع ہونے لگے۔ والد کے خاندان اور شہر کی دیگر خواتین بھی آتی چلی گئیں۔ والدہ آفتاب بھی ان میں موجود تھیں۔ اسی طرح بھائی آفتاب سارا دن اپنے باپ کی پائینتی کی طرف فرش پر بیٹھے کبھی ان کے پاؤں کو چومتے اور کبھی اپنی آنکھوں سے لگاتے رہے۔
اس وقت والد کے احباب کے سامنے سب سے اہم مسئلہ میت کو دفنانے کے لئے موزوں جگہ کا انتخاب تھا۔ اس ضمن میں ان کے زیر غور تین مقامات تھے۔ اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ‘ نیلا گنبد کی مسجد اور میڈیکل کالج کے درمیان خالی قطعہ اراضی اور بادشاہی مسجد کی بائیں دیوار کے ساتھ۔ چودھری محمد حسین کی نگاہ میں موزوں جگہ بادشاہی مسجد کی دیوار کے ساتھ تھی۔(موجودہ مقام مزار اقبال) کیونکہ اس مقام کی تاریخی اہمیت تھی۔ نیز والد نے اپنے ایک شعر میں یہ دعا بھی کر رکھی تھی کہ ان کی آخری آرام گاہ مسجد کے سایہ ٔ دیوار میں ہو۔
سب نے چودھری محمد حسین کی تجویز سے اتفاق کیا‘ لہٰذا اس کی اجازت لینے کے لئے چیف منسٹر پنجاب سرسکندر حیات خان کو تار بھیجی گئی کیونکہ ان دنوں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کی خاطر کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ جواب میں سرسکندرحیات نے بادشاہی مسجد والے مقام کی اجازت تو نہ دی لیکن نیلا گنبد والی جگہ کو مناسب سمجھا۔ یہ رائے والد کے احباب نے مسترد کر دی۔ نتیجہ میں میاں امیر الدین‘ سید محسن شاہ اور لاہور کے دیگر معتبرین ایک وفد کی صورت میں پنجاب کے گورنر سرہنری کریک کے پاس گئے۔ انہوں نے شاہی مسجد والی جگہ پر میت دفنانے کی اجازت دے دی۔
بالآخر شام چار بجے کے قریب جنازہ اٹھا۔ چارپائی کو لمبے لمبے بانس باندھے گئے تاکہ بیک وقت زیادہ سے زیادہ لوگ کندھا دے سکیں۔ جنازہ ہزاروں لوگوں کے ساتھ قلعہ گوجر سنگھ کے بازار اور فلیمنگ روڈ سے گزرتا اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ میں پہنچا۔ یہاں سینکڑوں لوگ جنازے کا انتظار کر رہے تھے۔ اس لئے پہلی مرتبہ نماز جنازہ وہیں پڑھی گئی۔ معلوم ہوا کہ اسی طرح لا تعداد لوگ بادشاہی مسجد میں بھی جنازے کے منتظر ہیں۔ لہٰذا اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ سے جنازہ نکلا اور موچی دروازہ کے باہرسے ہوتا ہوا بادشاہی مسجد پہنچا۔
وہاں خطیب صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ والد کے لئے مسجد کے زیر سایہ مدفن کے لئے تجویز کردہ مقام پر قبر کھودی جا چکی تھی۔ میت کو ایک لکڑی کے تابوت میں رکھا گیا مگر دفنانے سے پیشتر تابوت قبر کے قریب رکھ دیا گیا۔ کیونکہ سیالکوٹ سے والد کے برادر شیخ عطا محمد اور چند دیگر عزیزوں کی آمد کا انتظار تھا۔ ان کے آنے پر میت قبر میں اتاری گئی اور اس عمل میں تقریباً رات کے دس بج گئے جب میں چند عزیزوں کی معیت میں واپس جاوید منزل پہنچا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...