(Last Updated On: )
خانہ کعبہ کی عظمت سے کس کو انکار ہے ،یہ مقام اس وقت بھی لائق تکریم تھا جب قبلہ نہ تھا اور کُلِّ اسلام نے اس میں آنکھیں نہیں کھولی تھیں ۔ امیر المومنینؑ کی ولادت اندرون کعبہ ہوئی ہے۔یہ حقیقت ہے۔ اس لیے دشمنوں نے کوشش کی کہ آپ کی اس فضیلت کو چھپادیا جائے یا کم از کم مسخ کردیا جائے ۔ سوانہوں نے بہتیرے تاویلات کا سہارا لیا پھربھی بے دست و پا رہے اور حقیقت آشکارا ہوکر رہی۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جناب فاطمہ بنت اسد طواف کعبہ میں مشغول تھیں کہ اثنائے طواف میں ان پرآثار وضع حمل ظاہر ہوئے تو آپ نے بارگاہ الٰہی میں دست دعا بلند کئے اور عرض کیا: رب انی مومنۃ بک و بما جاءمن عندک من رسل و کتب ،انی مصدقۃ بکلام جدی ابراھیم الخلیل ، و انہ بنی البیت العتیق ، فبحق الذی بنیٰ ھٰذا البیت ، و بحق المولود الذی فی بطنی لما یسرت علی ّ ولادتی
خدا وندا! میں تجھ پر اور تیرے تمام پیغمبروں پر اور تیری کتاب پر ایمان رکھتی ہوں ۔ اپنے جد ابراہیم خلیل کی تصدیق کرتی ہوں کہ انہوں نے اس کعبہ کو تعمیرکیا ۔ خدایا! اس شخص کا واسطہ جس نے اس گھر کی بنیاد رکھی اور اس بچے کا واسطہ جو میرے بطن میں ہے ،اس کی ولادت میرے لئے آسان کر ۔
دعا ختم ہوتے ہی خانہ کعبہ کی پشت دیوار شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہو گئیں ۔ پھر دیوارکعبہ آپس میں مل گئی ۔جناب فاطمہ بنت اسد چوتھے روز حضرت علی علیہ السلام کو ہاتھوں پر لیے باہرآئیں۔علمائے اہل تشیع کا یہی عقیدہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی ولادت اللہ کے گھر میں ہوئی ہے ۔ اہل سنت کے عالم دین بھی اسی کے قائل ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اہل سنت کے جلیل القدر عالم ،امام حاکم نے المستدرک میں ایک روایت ذکر کی ہے : وَھِمَ مصعبٌ في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجہہ في جوف الکعبة
آخر میں مصعب کو غلط فہمی ہو گئی ،اس لیے کہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علی (کرم اللہ وجہہ) کو بیت اللہ کے اندر جنم دیا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب حکیم بن حزام القرشی رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: ۶۰۴۴، ۳/۵۵۰، طبع :دارالکتب العلمیہ۔المستدرک،حاکم،ج ۴،ص ۱۹۷،طبع: پاکستان)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: تواتر الاخبار ان فاطمۃ بنت اسد ولدت امیر المومنین علیاً فی جوف الکعبۃ فانہ ولد فی یوم الجمعۃ ثالث عشر من شہر رجب بعد عام الفیل بثلاثین سنۃ فی الکعبۃ و لم یولد فیھا احد سواہ قبلہ ولا بعدہ
متواتر روایت سے ثابت ہے کہ امیر المومنین علی روز جمعہ۱۳؍رجب ۳۰؍عام الفیل کو وسط کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ ، آپ سے پہلے اور نہ ہی آپ کے بعد کوئی شخص خانہ کعبہ میں پیدا ہوا۔(ازالۃ الخفاءعن ۔۔۔، ج۴ ، ص۲۹۹، طبع: بیروت)
علامہ ابن صبّاغ مالکی کابیان ہے کہ ’علی بن ابی طالب شب جمعہ۱۳؍رجب ،۳۰؍عام الفیل مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی کی وجہ سےاللہ نے اس فضیلت کوان سے مخصوص کیا ہے ۔‘ (الفصول المہمہ، ابن صباغ مالکی ،ص ۲۹،طبع :بیروت)
علامہ ابن جوزی نے ایک حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’فاطمہ بنت اسد کعبہ کا طواف کررہی تھیں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے ،اسی وقت کعبہ کا در کھلااورآپ کعبہ کے اندر داخل ہوگئیں ۔ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے۔ (تذکر الخواص،سبط ابن جوزی، ص۳۰ ،طبع: نجف، عراق)
آلوسی بغدادی کا کہنا ہے کہ ’یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے ۔اللہ نے ارادہ کیا کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہو۔ پاک و پاکیزہ ہے پر وردگار! وہ ہر چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔وہ آگے لکھتے ہیں: جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ( جس کے اندر پیدا ہونا ان کے لئے باعث افتخار تھا)اس کی خدمت کریں۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بتوں کو بلندی سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا ۔ حدیث کے ایک ٹکڑے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ نے بارگاہ خدا وندی میں شکایت کرتے ہوئے کہا : بار الٰہا !کب تک لوگ میرے چاروں طرف بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔ خداوند عالم نے اس سے وعدہ کیا کہ اس مکان مقدس کو بتو ں سے پاک کرے گا۔ (غالیۃ المواعظ ،ج ۲ص۸۹ ،الغدیر ،ج۶ ، ص۲۲)
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب ’مدارج النبوۃ‘ میں تحریر فرماتے ہیں:’ حضرت علی کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔
( مدارج النبوۃ، عبدالحق محدث دہلوی،ج ۲،ص ۵۳۱، طبع: پاکستان)
موفق بن احمد جو’ اخطب خوارزمی ‘سے مشہور ہیں اپنی کتاب ’مناقب‘ میں تحریر فرماتے ہیں:’علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳؍رجب ۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت اور بعثت سے ۱۰ یا ۱۲ سال پہلے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷)
شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے جلیل القدر علمائے کرام نے امیر المومنین علیہ السلام کی ولادت کو وسط کعبہ میں تسلیم کیا ہے۔اہل سنت کے علما میں دوقسم کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ایک گروہ تو حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کو کعبۃ اللہ میں تسلیم کرتا ہے جبکہ بعض علمانے اس سے اختلاف رائے بھی کیا ہےجن کاتشفی بخش جواب دیا جاچکا ہے جیسا کہ مصعب کے سلسلے میں ملتا ہے ۔ اگر شیعوں کی بات کی جائے تو یہ امر متفق علیہ ہے کہ آپ کی ولادت اندرون کعبہ ہوئی ہے ۔ اس میں کسی قسم کا نظریاتی اختلاف نہیں ۔اسے سب نے تسلیم کیا ہے ۔
“