حضور! آپ کے سر کی کلغی کہاں ہے؟
گرمی تھی اور لُو‘پتہ پوچھا تو ایک صاحب نے کہا‘یہاں بیٹھ جائو۔ابھی دن ڈھلے گا اور شام اترے گی تو یہیں سے گزریں گے۔آہستہ آہستہ سائیکل چلاتے ہوئے۔
کیا خوش نصیب تھے ساہیوال کے گلی کوچے جہاں اردو زبان کے سب سے بڑے نظم گو نے زندگی کے آخری اٹھائیس برس گزارے۔تنہا:
دل نے ایک ایک دکھ سہا تنہا
انجمن انجمن رہا تنہا
کہنہ یادو ں کے برف زاروں سے
ایک آنسو بہا‘بہا تنہا
ڈوبتے ساحلوں کے موڑ پہ دل
اک کھنڈر سا رہا سہا تنہا
گلی کے ایک طرف‘ایک مکان کے زینے پر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا۔بالآخر وہ آ گئے‘آہستہ آہستہ سائیکل چلاتے ہوئے‘سامنے دیکھتے ہوئے۔ اس بڑھیا کی طرح جس نے کسی زمانے میں بادشاہ کے گھوڑے کی باگ پکڑی تھی ،میں نے ان کے سائیکل کا ہینڈل تھام لیا۔سوال سیدھا اور صاف تھا۔
’’جناب مجید امجد!مسلم لیگ نون کی حکومت آج کل شاعروں کے نام پر ٹرینیں چلا رہی ہے ،کیا آپ کو اس بارے میں کچھ خبر ہے؟
اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟انہوں نے آہستگی سے کہا ؎
میرے نشان قدم دشت غم پہ ثبت رہے
ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا
ہم تو اپنا کام کر گئے ؎
طلوع صبح کہاں، ہم طلوع ہوتے گئے
ہمارا قافلۂ بے درا ،روانہ ہوا
مجید امجد نے میرا گال تھپتھپایا اور ایک ادائے بے نیازی سے سائیکل پر سوار ہو کر چلے گئے۔آہستہ آہستہ! ؎
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں روز ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
مجید امجد کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ نون لیگ کی حکومت کس کے نام پر ٹرینیں چلا رہی ہے اور کس کے نام پر گدھا گاڑیاں!لیکن اردو ادب کے طالب علم ضرور حیران ہیں کہ یہ فیصلے کون کر رہا ہے یا کرا رہا ہے۔کون کون سے شاعر اور ادیب ہیں جو ادبی اور ثقافتی شعبوں میں پارٹی کی ’’رہنمائی‘‘ کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے جو ’’انقلابی‘‘ کارنامہ انقلابی جماعت (پیپلز پارٹی) نے بھی سرانجام نہیںدیا ،وہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے سرانجام دے دیا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے زمانے میں جب ’’انقلابی ‘‘ شاعر برطانوی فوج کی وردی پہن کر کرنیل جرنیل بنے ہوئے تھے تو ہفت روزہ ’عروج ‘کے صفحہ اول پر جس شاعر کی نظم نے برطانوی سامراج کو للکارا تھا وہ مجید امجد تھے۔ اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں اخبار کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ بھارت نے مجید امجد کی زندگی میں جب بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا‘مجید امجد کی قلم تلوار بن گئی ۔اپنے شہیدوں کے لیے جو نظمیں مجید امجد نے لکھیں ‘نون لیگ کے ممدوح ’’انقلابی‘‘شاعر ایسی نظموں کو دقیانوسیت خیال کرتے تھے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے مولفین نے جب نصاب کی کتابیں مرتب کرائیں تو مجید امجدکو بلیک آئوٹ کردیا۔اس تعصب کی بنیاد تونامعلوم کیا تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلم لیگ نون کی حکومت جن شاعروں کی عقیدت کا حلقہ‘کان چھدوا کر پہن رہی ہے‘ اس عقیدت کی بنیاد کیا ہے؟
چلیے‘ مجید امجد کو بھی رہنے دیجیے‘ کیا احمد ندیم قاسمی بھی اس قابل نہیں تھے؟کیا نون لیگ کی حکومت کے نزدیک احمد ندیم قاسمی کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے نعت کی صدیوں کی تاریخ میں ایسا لازوال شعر کہا جو ہمیشہ زندہ رہے گا ؎
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
یا پاکستان کے لیے کی گئی شاعری ناقابل معافی ہو گئی ہے؟ ؎
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات بوجھ نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
احمد ندیم قاسمی نے افریقہ اور سوویت یونین سے زیادہ ایشیا کو اہمیت دی ؎
جنس ناموس آدم کے سوداگرو
یہ صدی ہے مرے ایشیا کی صدی
اب جو مانگو تو برگ گلاب ایشیا
اور چھینو تو موج سراب ایشیا
ایشیائی سربلندی کا خواب وہ شاعر کیسے دیکھ سکتے تھے جن کی وفاداری کی جڑیں ایشیا سے کوسوں دور‘استعمار کے دل میں تھیں۔مشرق سے نکلتا ہوا سورج ماسکو اور لینن گراڈ کی دھند میں دکھائی ہی نہیں دیتا تھا!
اگر احمد ندیم قاسمی کی زندگی بھی بورژوائی ہوتی ‘ اگر وہ بھی ’’صاحب‘‘بن کر استعمار کی ’’مذمت‘‘ کرتے ،اگر ان کے پس ماندگان میں بھی ایسا خانوادہ ہوتا جو میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو کھٹملوں اور پسوئوں کی طرح پَے جاتا اور نسل درنسل روابط اور نیٹ ورک کی بنیاد پر چھایا رہتا‘ اگر قاسمی صاحب کی شاعری بھی طالبان علم کے بجائے اقبال بانو‘ٹینا ثانی اور مہدی حسن کو سونپ دی جاتی‘اگر طبقہ بالا میں قاسمی صاحب کا نام بھی ظاہری فیشن کی علامت بن جاتا ،اگر قاسمی صاحب کی شاعری کو بھی سیاست اور نام نہاد روشن خیالی کی بیساکھی مل جاتی تو آج مسلم لیگ نون اس خالص پاکستانی‘اس سو فیصد پاکستانی عظیم شاعر کے نام کی بھی کوئی ٹرین چلا دیتی !لیکن احمد ندیم قاسمی کا تو قصور ہی یہ تھا کہ ان کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز و محور کوئی ماسکو تھا نہ لینن گراڈ‘انہوں نے زندگی کو بیروت میں رہ کر پرتعیش نہ بنایا۔ وہ لاہور کے عام محلوں میں رہے‘ افسانے لکھے‘شاعری کی‘کالم تحریر کیے ‘نصف صدی تک فنون کا دبستان زندہ رکھا۔
اس دبستان میں ایک نہیں‘ دو نہیں تین نسلوں نے تربیت پائی۔ ان میں ہمارے وہ دوست بھی شامل ہیں جو آج مسلم لیگ نون کے ثقافتی کان اور ادبی آنکھیں بنے ہوئے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد اگر کوئی شاعر،اگر کوئی ادیب ‘اپنی ذات میں ادارہ تھا تو وہ احمد ندیم قاسمی تھے ۔ یہ ذات‘یہ ادارہ‘ اول سے آخر تک‘جسم کے اندر چھپی ہوئی ہڈیوں تک‘ ہڈیوں کے اندر بھرے ہوئے گودے تک‘شریانوںمیں دوڑتے لہو تک خالص، پکا، ٹھیٹھ پاکستانی تھا۔احمد ندیم قاسمی کی زندگی دو نقطوں کے گرد ہی گھومتی تھی۔اول ذات مصطفیٰﷺ اور دوم ارض پاکستان۔
وہ کسی نام نہاد انقلابی شاعر سے روشن خیالی میں پیچھے تھے نہ حریت پسندی میں۔ اگر کوئی اس شعر کا جواب لے کر آئے تو ہمیں بھی بتا دے ؎
جب حریت فکر کا دستور ہوا طے
خود جبر مشیّت نے قسم کھائی ہماری
اور طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر احمد ندیم قاسمی ہی یہ کہہ سکتے تھے ؎
میرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی
راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں تیری سیاست فن میں
زہر کیوں گھولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
مجید امجد اور احمد ندیم قاسمی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
پڑھنے والوں کے سرہانوں کے نیچے
لوگوں کی میزوں پر
سفری تھیلوں میں
انہیں فقیر بھی پڑھیں گے‘سیم تن اور گل بدن بھی‘طالب علم بھی اور دانشور بھی۔
ٹرینیں اور بیل گاڑیاں تو ذرائع نقل و حمل ہیں۔ اس سے عظمت میں اضافہ ہوتا ہے نہ تخلیق کا معیار بلند تر ہوتا ہے۔
اور آخر میں احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر جو یوں لگتا ہے انہوں نے مسلم لیگ نون کے اقتدار کو مخاطب کر کے کہا تھا ؎
حضور! آپ کیوں بوکھلانے لگے ہیں
مکافات پر جب مواد جہاں ہے
حضور! آپ روپوش ہو جائیں لیکن
حضور! آپ کے سر کی کلغی کہاں ہے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔