عزت مآب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس گلزا ر احمد نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کا ارشاد نامہ ان کی خود نوشت سوانح حیات تجربہ اور علم کا ایک بہترین ذخیرہ ہے۔اس پیشے سے وابستہ ہر شخص اس سے زیادہ زیادہ سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کے روز جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح عمری ارشاد نامہ پیش کرنے کی سپریم کورٹ میں منعقدہ تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جسٹس ارشاد حسن خان اور دیگر ججز بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے۔
جسٹس (ر) ارشاد حسن خان جنور ی 2000 سے جنوری 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہے تھے۔وہ اوسط درجے کے وکیل تھے۔ 1970کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر کا الیکشن لڑا تھا لیکن بری طرح ناکام ہوئے تھے۔ ارشاد حسن خان بطور وکیل ہمیشہ صاحب اقتدار شخصیات کے قریب ہونے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔
جولائی 1977میں جب جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تو ارشاد حسن خان کے من کی مردا بھر آئی۔ جنرل ضیا ء کے قریبی ساتھی جنرل کے۔ایم عارف ان کے دور پار کے رشتہ دار تھے۔جنرل عارف سے رشتہ داری کو ارشاد حسن خان نے عدلیہ میں تقرری اور ترقی کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیاتھا۔1979 میں اپنے اس تعلق کی بنا پر انھیں ڈپٹی اٹارنی جنرل مقرر کردیا گیا۔اپنے عہدے کو استعمال کرتے ہوئے انھوں فوجی جنتامیں اپنے تعلقات کو وسعت دینے کا آغاز کیااور اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے تھے۔فوجی حکام سے تعلق کا معاوضہ انھیں 1981 لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر کرے دیا گیا تھا۔اس تقرری کے کچھ ہی عرصہ بعد انھیں وفاقی وزارت قانون کا سیکرٹری بنادیا گیا۔ اس اہم عہدے جو فوجی جنتا کے لئے لایف لائن کا درجہ رکھتا تھا، کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے فوجی جنتا سے اپنے تعلقات کو مزید وسعت دی اور مستحکم کیا تھا۔ وہ وفاداریاں بدلنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان کی زندگی کا منشا ومقصد اپنی پرموشن تھی خواہ وہ کسی بھی قیمت پر کیوں نہ ہو۔
جب1993میں بے نظیر دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو ارشاد حسن خان پیپلزپارٹی کے حلقوں میں اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے تھے لیکن ارشاد حسن خان نے جلد ہی بے نظیر حکومت میں شامل شخصیات سے تعلقات استوار کرلئے۔ انہی تعلقات کی بدولت انھیں 1995میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا حالانکہ وہ سنیارٹی کے اعتبار سے جونئیر تھے۔سپریم کورٹ جج بنتے ہی انھوں نے خود کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرلیا تھا۔ یہ وہ عہدہ تھا جس پر ان کی نظر کئی سالوں سے تھی۔
جسٹس ارشاد حسن خان چیف جسٹس (ر) سجاد علی شاہ کے قریبی ساتھیوں میں تھے لیکن کوئٹہ بنچ کا وہ فیصلہ جس کی بدولت سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا اس کے بڑے محرک جسٹس ارشاد حسن خان ہی تھے۔ جب جنر ل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت برخاست کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو ارشاد حسن خان پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں میں پیش پیش تھے یہ ارشاد حسن خان ہی تھے جنھوں نے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کوان کو گھر بجھوانے کا اہتمام کیا تھا۔
نواز شریف حکومت کو برخاست کرنے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو یہ اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان ہی تھے جنھوں نے ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ لکھا تھا جس میں جنرل ضیا کے غیر قانونی اقدام کو قانونی جواز فراہم کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ سے ریٹائیرمنٹ سے قبل انھوں نے پوری کوشش کی تھی کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی ریٹائیر منٹ کی عمر میں تین سال کی توسیع کی جائے۔انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو ایسا کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا جو بوجوہ انھوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سپریم کورٹ سے ریٹائیر منٹ کے بعد ان کی فوجی اقتدار کو قانونی جواز فراہم کرنے کا معاوضہ انھیں چیف الیکشن کمشنر مقرر کرکے دیا گیا تھا۔
ایک ایسا جج جس کی تقرری اور بعد ازاں ترقی اس کے غیر اخلاقی، غیر آئینی اور غیر قانونی اقداما ت کی مرہون منت ہو اس کی حاضر چیف جسٹس کی جانب سے تعریف و توصیف غیر مناسب اور بلا جواز ہے۔ کیا عزت مآب چیف جسٹس گلزاراحمد ججوں اور وکلا کو ایک ایسے جج کے تجربات سے مستفید ہونے کا کہہ رہے ہیں جو ملک میں آئین مخالف اقدامات کا محافظ رہا ہے۔ یہ ان کے آئینی عہدے کے شایان شان نہیں ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...