ہزارہ کا قدیم نام ارشہ یا اورش ھے۔ کہا جاتا ہے ارشہ ہی مہابھارت کا ارگا ھے، دریائے جہلم اور سندھ کے مابین اس علاقے کو بطلیموس نے اپوا یا اواپاؤ کا نام دیا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ اپوا ہی بعد کا اتیاگرہ پورہ ( اگرور ) ہے۔ یونانی فاتح سکندر کے حملہ کے وقت ابھی سارا یہاں کا راجہ تھا۔ ابھی سارا کی حکومت میں آرسس (ہزارہ) کے علاوہ بھمبر، پونچھ اور راجوری کے علاقے بھی شامل تھے۔ ابھی سارا جہلم کے راجہ پورس کا دوست تھا جس نے ٹیکسلا کے راجہ امبھی کے برعکس سکندر اعظم کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ سکندر جب راجہ پورس سے جنگ آزما ھونے کے بعد جانے لگا تو اس نے ہزارہ اور کشمیر کے علاقوں کا حاکم ابھی سارا کو ہی مقرر کیا تھا۔ سکندر کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد ہندوستان میں موریہ خاندان کی طاقت زور پکڑ گئی، 273 ق م میں چندرگپت کا پوتا اشوک اعظم تخت نشین ہوا۔ اشوک جو اپنے باپ بندوسارا کے دور حکومت ہزارہ کا گورنر رہ چکا تھا اب بنگال سے کابل اور میسور سے نیپال تک ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت کا بادشاہ بنا۔ اشوک کی زندگی کی پہلی اور آخری لڑائی، جنگ کلنگ تھی جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ اس جنگ نے اشوک کو اس قدر غمزدہ کیا کہ اس نے زندگی بھر جنگ نہ کرنے کی قسم کھا لی اور بدھ مذہب اختیار کر کےاس کی تبلیغ کرنے لگا۔ اس نے راستبازی، نیکوکاری اور محبت وتقوی کی ترویج کے لیے دھرم ( law of piety ) کے اصول وضع کیے جن کا ذکر مانسہرہ میں اشوک کے کتبات میں تفصیل سے ملتا ہے۔ اشوک کی سن وفات اور مقام وفات کی تفصیلات نہیں ملتیں تاہم تبت کی بدھ روایات کے مطابق اس نے 236 میں ٹیکسلا میں وفات پائی۔ اشوک کے بعد اس علاقے پر حکومت کرنے والا دوسرا بڑا بادشاہ کشان خاندان کا کنشک تھا- کنشک (120 تا 162ء) کی حکومت قندھار، ہزارہ و کشمیر بنارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی حکومت میں سندھ بھی شامل تھا جبکہ مگدھ اور مالوہ کی حکومتیں اس کی باجگزار تھیں۔ کنشک کی حکومت میں چینی ترکستان کا علاقہ کاشغر بھی شامل تھا جس کا پایہ تخت پرشاپورہ (پشاور ) تھا۔
ہزارہ میں دوسری صدی کے ہندو ہیرو راجہ رسالو کے قصے کہانیاں بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح راجہ سرکپ سے اس کی جنگی داستانیں۔ ایبٹ آباد کے قریب کوہ سربن میں راجہ رسالو کی ایک غار میں جائے آرام اور گندھگر میں رانی کونکلاں کی بیوفائی کا قصہ اور راجہ کا دیو کو غار میں بند کرنے کا قصہ تو بہت مشہور ہے۔ چینی زائر ہیون تسانگ نے 630ء میں ہزارہ کے راستے کشمیر کا سفر کیا، وہ کشمیر کی شمال مغربی سرحد پر وولاشی کی حکومت کا ذکر کرتا ہے، جس کا پایہ تخت مانگلی تھا اس کے کھنڈرات اب بھی ندی مانگل کے قریب پائے جاتے ہیں۔ ہیون تسانگ نے اپنے سفر نامے میں ارشہ کے حالات لکھے ہیں، جس کے بعد 759ء میں اوکانگ یہاں آیا۔ یہ دونوں زائرین برسوں تک ہزارہ اور برصغیر کے دیگر علاقوں میں بودھ خانقاہوں کی زیارتیں اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔
پنڈت کلہن اپنی مشہور زمانہ کتاب راج ترنگنی (1148-9ء) میں ہزارہ کے مفصل حالات بیان کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے شنکر ورمن کشمیر کا ایک انتہائی طاقتور راجہ تھا، آس پاس کے راجواڑوں کے تمام راجے اس سے خوفزدہ رہتے تھے۔ وہ جب جموں و گجرات کے بادشاہ الکھان گوجر کی سلطنت فتح کر کے دریائے سندھ کے کنارے پر علاقے فتح کر چکا اور خوفزدہ راجے اس کی اطاعت کا اظہار کر چکے تو وہ واپس اپنے ملک کی طرف لوٹا لیکن جس وقت وہ ارشہ ( ہزارہ ) میں سے گزر رہا تھا تو فوجوں کے خیمہ زن ہونے کے متعلق باشندگان ارشہ سے جھگڑا ہو گیا۔ ایک سوپک نے جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر متعین تھا راجہ کی طرف ایک تیز تیر چلایا جو اس کی گردن کے آر پار ہو گیا۔ سکھراج اور اس کے دوسرے وزیروں نے دشمن کے علاقہ میں سے گزرتے ہوئے فوجوں کو محفوظ رکھا آخر جب چھ دن بعد وہ بلیاسک نامی اپنے علاقے کے شہر میں پہنچے اور ان کا خطرہ دور ہوا تو انہوں نے اسے جلانے کی رسم ادا کی۔
کلہن کے مطابق اگلی صدی میں کشمیر کے راجہ کلش (1063 تا 1089ء) کے جرنیل مل نے غیرملکی مہمات کے دوران ارشہ کے راجہ ابھے کی سلطنت فتح کر لی اور تمام گھوڑوں پر قبضہ کر لیا تو 1087ء میں ایک ہی وقت آٹھ راجے اس کے دارالسلطنت میں جمع ہوئے جن میں ارشہ کا فرمانروا راجہ سنگت بھی شامل تھا۔ ان راجاؤں کی یہ مجلس تاریخ میں پہاڑی راجاؤں کے منڈل کے نام سے مشہور ہے۔ راج ترنگنی میں ایک بار پھر کشمیر کے راجہ جے سنگھ (1128 تا 1149ء) کے آخری زمانہ حکومت میں اتیاگرہ پورہ (موجودہ اگرور) اور ارشہ کے راجہ دوتیہ کے علاقے پر یلغار کا ذکر ملتا ہے۔
1399ء میں تیمور لنگ نے ہندوستان پر یلغار کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے واپسی پر ہزارہ میں ترکوں کی کالونی آباد کی۔ مغل تیمور کو اپنا پیشرو خیال کرتے تھے اور اسے صاحب قران کہہ کر پکارتے تھے۔
مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں ہزارہ، صوبہ لاھور کی سندھ ساگر Attock Governorship میں شامل تھا جسے ابوالفضل ھزارہ قرلق اور ھزارہ گوجراں کا نام دیتا ھے اور ہر دو پرگنہ جات میں متعین سوار اور پیادہ افواج کی تفصیل بتاتا ہے۔ تنول، میدان پکھل بشمول بالائی ہزارہ اور کشمیر کے پکھلی سرکار کا حصہ تھے اور صوبہ کابل میں شامل تھے۔ اکبر نے نومبر 1592ء میں اور جہانگیر نے 1619ء میں ہزارہ کے راستے کشمیر کا سفر کیا۔ ابوالفضل لکھتا ھے یوں تو ہندوستان سے کشمیر میں داخل ہونے کے 26 راستے ہیں مگر سب سے آسان راستہ ہزارہ سے ہو کر کشمیر کو جاتا ہے۔ اس کا اظہار تو ابوریحان البیرونی کتاب الہند میں بھی کر چکا اور یہ جرنیلی سڑک جو بادشاہوں، فوجوں، سفارتکاروں، زائرین، حملہ آوروں کی کبھی راہگزر ہوا کرتی تھی بادشاہیہ راہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سڑک پر شاہی افواج کی قائم کردہ پہاڑیوں کی مانند پتھر کی بڑی بڑی ڈھیریاں گویا شاہی زمانہ کی واحد یادگاریں ہیں جو کبھی سنگ میل اور سنگنل کے مقاصد سے کام آتی تھیں۔ سڑک پر بنائے گئے جو ہالٹ تھے ان پر ایک بڑا تالاب ( بن ) ضروری تھا جہاں جانوروں کو پانی پلایا جاتا تھا پاکستان بننے کے بعد جب موٹر گاڑی عام ہوئی، اس راہ پر آمد ورفت متروک ہو کر رہ گئی۔ اب راہ کا نشان باقی ہے راھی کوئی نہیں۔
ابوالفضل پکھلی کی بابت لکھتا ہے پکھلی کے کوہستان میں ہمیشہ برفباری ہوتی ہے اور جنگلوں میں کبھی کبھی سردی، گرمی سے زیادہ ہوتی ہے۔ ملک تین دریاؤں کشن گنگا (نیلم)، بہت (جہلم) اور سندھ سے سیراب ہوتا ہے۔ میووں میں زردآلو، شفتالو اور چارمغز خودرو ہیں۔ پکھلی میں پھلوں کی زراعت کا دستور نہیں ہے۔ اس ملک کے اکثر فرمانروا راجگان کشمیر کے باجگزار ھیں۔
جہانگیر کے ہزارہ میں سفر کے دوران دو عجیب واقعات نے اسے بہت متاثر کیا۔ ایک دن بادشاہ سمیت تمام لوگوں نے ایک عجیب گرجدار آواز سنی اس وقت آسمان پر بادل بھی کہیں موجود نہیں تھے (بادشاہ کا قافلہ اس وقت گندھگر کے دامن میں سلطان پور کے قریب تھا) بادشاہ نے بہت تحقیق کروائی مگر کوئی سراغ نہ مل سکا۔ اور جب شاہی قافلہ مانگلی کے قریب تھا تو زبردست طوفانی بارش اور برف باری کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس سے بہت سے جانور مارے گئے اور وہ دو دن مزید پیش قدمی نہ کر سکے۔ جہانگیر نے اس واقعہ کو اپنی یادداشت میں انتہائی حیرت زدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق جب اس کا باپ اکبر یہاں سے گزر رہا تھا تو زبردست برفباری ہوئی تھی۔ وہ کہتا ہے ان دو موقعوں کے علاوہ یہاں کبھی برفباری نہیں ہوئی۔
پنجاب اور کشمیر کے علاقے 1752 ء میں احمد شاہ ابدالی کے قبضے میں آ گئے۔ ابدالیوں نے کشمیر اور کابل کے مابین پل کا کام دینے والے علاقے ھزارہ میں مقامی سرداروں کو بڑی بڑی مراعات دیکر اپنا ہم خیال بنایا۔
ہزارہ میں جن قبائلی سرداروں کو ابدالیوں کی آشیرباد حاصل تھی ان میں نجیب اللہ خان، جعفر خان، احمد علی خان اور سادات خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ ایک انگریز افسر لکھتا ہے کشمیر کے گورنر کی جب کابل روانگی ھوتی تو ہزارہ بھر میں منادی کر دی جاتی تھی۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں ابدالی حکومت کمزور ہونے لگی اور انیسویں صدی کے اوائل میں سکھوں کے لیے جواز مداخلت کے واقعات رونما ہونے لگے۔ انب کے نواب نے اپنے ہی قبیلے کے لوگوں کو حق ملکیت اراضی سے محروم کردیا اور سرداری کی کشمکش میں دو پالال سردار مارے گئے سواتی اور جدون علاقائی حدود کے تنازعہ میں باہم دست و گریباں تھے۔ ادھر جدون قبیلہ نے دلہ زاکوں کو بگڑہ سے بیدخل کر دیا۔ گوجری پٹی کے گاؤں چنبہ پنڈ میں اتمان زئی اور گوجر قبیلے کے مابین گندھگر کے جنوبی حصے کی ملکیت پر لڑائی اور موٹہ کے مقام پر حکما سنگھ اور مقدم مشرف کےمابین جنگ۔ ھاشم خان ترک نے کمال خان کو قتل کر دیا جو کہ سردار محمد خان ترین کا دوست تھا۔ ھاشم خان نے راولپنڈی کے گورنر مکھن سنگھ کو ہزارہ پر حملہ کی دعوت دی۔ سکھوں نے کم بیش 31 سال ہزارہ پر حکومت کی، یہ بات قابل غور ھے اور دلچسپی کا باعث ہے کہ ابدالیوں کے بر عکس سکھوں کو ہزارہ میں بڑی عزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پر خالصہ راج کے دوران ہزاروں سپاہیوں کے علاوہ جن سرکردہ جرنیلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ان میں مکھن سنگھ، دیوان رام دیال، امر سنگھ مجیٹھہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہاں کی مہمات میں بذات خود راجہ رنجیت سنگھ، شہزادہ شیر سنگھ (رنجیت سنگھ کا بیٹا)، مائی سدا کور (رنجیت سنگھ کی خوشدامن)، جرنیل ہری سنگھ نلوہ، جرنیل الہی بخش، جرنیل مہاسنگھ، اربیل سنگھ، دیوان ابراہیم، دیوان ملراج اور چھتر سنگھ جیسے جرنیلوں نے حصہ لیا جو انگریزوں کی آمد تک گاہے بگاہے سردارن ہزارہ سے برسر پیکار رھے۔
29، مارچ 1849ء کو خالصہ راج کا سورج غروب ہو گیا اور درہ خیبر میں قلعہ جمرود اور قلعہ بالا حصار انگریزی عملداری میں آگئے۔ انگریز نے دھلی تا پشاور علاقے کو برطانوی ھند قرار دے کر ایک صوبہ بنایا جس کا نام پنجاب کہلایا۔ یوں یونین جیک بادشاہی قلعہ لاہور اور قلعہ بالا حصار پشاور پر لہرانے لگا۔ پشاور ایک کمشنری بنا دی گئی ہزارہ کو ایک ضلع بنا کر پشاور ڈویژن میں شامل کر دیا گیا۔ جیمز ایبٹ ہزارہ کا پہلا ڈپٹی کمشنر بنا اور ہری پور ضلعی صدر مقام قرار پایا۔ ہری پور سکھ جنرل ہری سنگھ نلوہ نے 1822ء میں آباد کیا تھا، ہزارہ میں سکھوں کے خلاف مزاحمت کے پیش نظر، ہری سنگھ نے ہری پور میں ھرکشن گڑھ کے نام سے ایک قلعہ بھی بنایا اور اسکے گرد ایک خندق بنوائی جسے قریبی ندی دوڑ کے پانی سے بھر دیا جاتا تا کہ اسے کوئی عبور نہ کر سکے۔ اس قلعہ کی عمارت تا حال اچھی حالت میں ہے اور ہری پور کا تحصیل آفس، ضلعی پولیس لائن اور ہری پور کا تھانہ اسی عمارت میں قائم ہے۔
1853ء میں جیمز ابیٹ کے نام پر آباد ہونے والے نئے شہر ایبٹ آباد کو ضلعی صدر مقام کا درجہ دے کر ضلع ہزارہ کا ھیڈ کوارٹر بنا دیا گیا۔
ضلعی دفاتر ابیٹ آباد منتقل ہو گئے تو 1874ء میں ہزارہ کی ابتدائی دو تحصیلوں ہری پور اور مانسہرہ سے کچھ علاقے لے کر ایبٹ آباد کو ہزارہ کی تیسری تحصیل بنایا گیا۔ اب ایبٹ آباد صحت افزا مقام ہونے اور فوجی چھاؤنی کے ساتھ ساتھ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی وجہ سے انتہائی شہرت کا حامل بن گیا۔
جنوب میں وادی ہرو کے کھنڈرات ہزارہ کو ٹیکسلا کے ساجھے دار بنا کر مشرقی گندھارا کی عظیم الشان تہذیب کے امین بناتے ہیں، اور یہی کھنڈرات انسانی تہذیبوں کے باہم ہمراز بھی ہیں۔ سرجان مارشل نے 1925ء میں ٹیکسلا سے جڑے کھنڈرات کی کھدائی کر کے گویا تہذیبوں کو متسلسل کیا اور ٹیکسلا کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، مجھے بھمالہ اسٹوپا کے قریب کھرالہ کی حدود میں بدھ مت دور کی ایک مصنوعی غار میں اترنے کا اتفاق ہوا۔ جگر کو تھام کے ہم تین ساتھی ٹارچ جلا کر غار میں اترے۔ ہم کوئی 30 میٹر تک اندر جا سکے، اس سے آگے جانا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔
غار میں اترنے کے بعد چند سوالات نے میرے ذہن میں جنم لیا اور تا حال مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں مل پایا۔ اول یہ کہ یہ غار سر جان مارشل کی نظروں سے کیونکر اوجھل رہا ہو گا؟ دوئم، اب جب زمانے کی نظروں کے سامنے آیا تو محکمہ آثار قدیمہ نے کیوں ضروری نہ سمجھا کہ غار کی حقیقت کو آشکار کر کے اٹھارہ سو سال پہلے کی تہذیبی تاریخ کو رقم کر مکمل کریں۔ سوئم یہ کہ آیا بدھ بھکشووں یا جن ارباب اختیار نے یہ غار بنوائی تو کس قدر انکے کام آئی ھو گی؟ یہ تمام باتیں سوچنے کی ہیں، جو انگریز کر گیا، کر گیا۔ لے دے کے پاکستانی محکمہ آثار قدیمہ جناں والی ڈھیری دریافت کر پایا ہے۔ بدون اس کے ہزارہ میں جولیاں، بھمالہ، پیپلاں، ترناوہ، پنڈ گاکھڑا، بادل پور، لال چک، سرسکھ، مارچ آباد، چٹی، میر پور ماونڈ، گرم تھون (برج یا توما)، بھاری ڈھیری (کوٹیڑہ)، کامل پور کے اسٹوپا اور خانقاہیں زیادہ تر انگریز (سرجان مارشل) کی مرہون منت ہیں۔
انگریزوں نے ہزارہ کا انتظام سنبھالنے کے فورا بعد 1850ء میں ہرو کے قریب 28 گاؤں سمیت 270 گاؤں ضلع راولپنڈی میں شامل کر دیئے تھے۔ اسی طرح ضلع راولپنڈی کی تحصیل اٹک کا ایک گاؤں کامل پور 1860ء تحصیل ہری پور میں شامل کر لیا تھا جبکہ خیرہ گلی کے جنوب میں گاؤں باڑیاں کو 1893ء میں ضلع راولپنڈی میں شامل کیا گیا۔ 1900ء میں پوری تحصیل اٹک کو چوتھی تحصیل کے طور پر ضلع ہزارہ میں شامل کر لیا گیا تاہم 1901ء میں صوبہ سرحد کی تشکیل کے وقت تحصیل اٹک کو دوبارہ ضلع راولپنڈی کی حیثیت سے پنجاب میں رہنے دیا گیا۔ ہزارہ جو اب تک پشاور ڈویژن کا حصہ چلا آرہا تھا 1976ء میں کوہستان کو ضلع کا درجہ ملنے پر کوہستان سمیت ایبٹ آباد اور مانسہرہ اضلاع پر مشتمل ہزارہ ڈویژن قرار پایا۔ پھر 1992ء میں ہری پور اور بٹگرام کو ضلع کا درجہ ملا جس کے بعد حال ہی میں کالا ڈھاکہ (تور غر)
کے بعد لوئر کوہستان الگ ضلع بن گیا یوں اب ہزارہ ڈویژن 7 اضلاع پر مشتمل ہے اور ایبٹ آباد ان تمام اضلاع کا انتظامی، تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی مرکز ہے۔ ہزارہ کی عام زبان ھندکو ھے جب کہ پشتو، گوجری، شیناکی اور پہاڑی یہاں کی دیگر اہم زبانیں ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...