چھوٹا بیٹا ایک مقامی سکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم ہے۔
پہلی کلاس سے ہی تقریباً روزانہ اُسے بُھنا ہوا ایک دیسی انڈا پراٹھے میں لپیٹ کر یا دیسی گھی کی چوری ، گھی شکر وغیرہ سکول میں کھانے کے لئے دے دیتا ہوں جو کہ عموماً وہ کھاتا کم ہی ہے۔ لیجاتا بھی ضرور ہے لیکن کھاتا بھی نہیں۔
بہت بار پوچھا کہ صاحب جی جب آپ اپنی مرضی کی چیزیں بنوا کر لے جاتے ہو تو کھاتے کیوں نہیں ، پہلے خود پوچھا، چونکہ میرے سے قدرے جِھجھکتا بھی ہے تو پھر اُسکی بڑی بہنوں سے کہا کہ بھائی سے پوچھ کہ بتاؤ۔ یہ ضد کر کہ کھانا سکول لے جاتا لیکن کھاتا نہیں تو ساری بات جو مُجھے سمجھ آئی کہ کُچھ دوسرے بچے بیکری آئٹمز ، سموسے، کریم رول اور براؤنیز وغیرہ لے کر آتے ، رنگ برنگی چیزیں ہوتیں ۔ دیکھنے میں یا ناموں سے خوش نُما جبکہ میرا بیٹا وہ ہی گھر میں کھایا جانے والا سب کچھ لے جاتا۔ تو اب جبکہ دوسرے بچے تَلی ہوئی اور کیمیکل رنگوں سے بنی ہری ، نیلی پیلی چیزیں کھاتے ہیں تو میرا بچہ گھر کا سادہ انڈہ پراٹھا کیوں کھائے گا ۔
جس وقت دوسرے بچے سموسے، دہی بھلے، لیز والے چِپس، برائلر کے لیگ پیس اور دوسری چٹ پٹی چیزیں کھا رہے ہوتے ہیں تو میرے والے کو کچھ احساس کمتری ہوتا، یہ اُنہیں کھاتا دیکھ کر تَرستا اور پھر علیحدہ ہو کر سائیڈ پر سکول گراؤنڈ میِں چلا جاتا ۔ بچے کا خیال ہے کہ دوسرے بچے بہت اعلی اور امیروں جیسی چیزیں کھاتے جب کہ میرا باپ مُجھے سادہ سا غریبوں والا کھانے کو دیتا ہے۔
اب میری بھی مجبوری ہے۔ کُچھ سال پہلے بچہ بہت بیمار ہوا تھا تو تب سے میں اُس کے کھانے پینے میں سخت احتیاط کرتا ہوں ۔ بیٹے کی اچھی صحت کے لئے اوون میڈ ، کیمیکل کلر والی یا بیکری کی بنی چیزیں بچے کو نہیں کِھلا سکتا۔
پہلی تا پانچویں میں بچے کو بیس، تیس روپے روز کی پاکٹ منی دیتا رہا۔ بیٹے نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ اب خیر سے چھٹی کلاس میں چلا گیا تو اِس بیس تیس پر اعتراض شروع ہو گیا ۔ بیٹے کے کہنے پر میں نے وہ بیس ، تیس بڑھا کر روزانہ کے پچاس روپے کر دئیے ۔ روزانہ شام اُسے بڑے بھائیوں سے پچاس کے علاوہ مزید پیسے بھی مل جاتے، اِس کے باوجود چند دن پہلے بیٹے نے ایک دم سے دھماکہ کر دیا کہ مُجھے روز کے روز سکول کے لئے ایک ہزار روپیہ چاہیئے ۔ بڑی حیرانگی ہوئی ۔ بہت پوچھا ، بہت کہا کہ بیٹا ٹھیک ہے ۔ روز کا ہزار ہی دیا کروں گا لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے ہزار خرچ کیسے کرنا ۔ اتنا کیا کھانا کہ جو ہزار روپے کا آتا ہے تو جواب ملا کہ ابو میرے چند دوست روزانہ گھر سے ہزار روپیہ پاکٹ منی لے کر آتے تو میں نے بھی ہزار روپیہ ہی لینا ۔
بولا کہ میرے دوست جو کھاتے میں بھی وہی کھاؤں گا ۔ یہ کیا ہوا کہ میرا دوست پاکٹ میں ہاتھ مار کر ہزار کا نوٹ نکالے اور میں جیب میں ہاتھ ماروں تو آپ کا دیا وہ سڑا ہوا پچاس روپیہ نِکلے ۔
ابھی کھانے پینے اور ہزار روپیہ پاکٹ منی لینے کے لئے بیٹے اور میرا جھگڑا چل رہا ہے ۔ میں پچاس کا سو روپیہ تک روزانہ کر دوں گا ، اِس سے زیادہ بالکل نہیں کیونکہ میں نہیں چاہتا میرا بیٹا وہ چیزیں کھائے جِن سے اُس کی صحت خراب ہو ۔
گھر کے اور بھی بہتیرے اخراجات ہیں ۔ بچے کو روز کا ہزار روپیہ دینا میرے لئے مشکل ہے پر ناممکن نہیں ، دے سکتا ہوں لیکن بالکل نہیں دوں گا ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ ہزار روپیہ روزانہ کا کرے گا کیا ۔ ویسے بھی آج اگر میرا بیٹا دوسروں کو دیکھ کر مجھے پریشان کر رہا تو کل کو دوسرے بچے میرے والے کو دیکھ کر اپنے والدین کو پریشان کریں گے ۔
میرا خیال ہے کہ ایک گیارہ سالہ بچے کی پاکٹ میں زائد از ضرورت اور اَن گِنت پیسے ہونا پہلے اُسے اور پھر مجھے خراب کرے گا ۔