دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے اور دو کشتیوں میں سفر کرنے والا منزل پر نہیں‘ پانی کی تہہ میں پہنچتا ہے ؛ تاہم اس حقیقت کا ادراک تحریکِ انصاف کو نہیں تھا۔ آج ان کے لیڈر کا نام ان اصحاب کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے قائداعظم کو قائداعظم کہنا تو درکنار‘ اُن کا کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ جس ملک کو آج انہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے‘ اس ملک کے بانی کا نام لینا گوارا نہیں! اور تحریکِ انصاف ان کے ساتھ‘ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ ترکوں پر جب جدیدیت کا بھوت سوار تھا اور وہ مسلمان کہلوانے سے گریز کرتے تھے تو عقل مند انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ تم جو چاہو کرلو‘ تمہیں مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ تحریکِ انصاف کے لیڈر بظاہر اپنے آپ کو عسکریت پسند نہ کہیں‘ سو بار نہ کہیں‘ عسکریت پسندوں نے انہیں اپنا حصہ سمجھا ہے اور ڈنکے کی چوٹ اعلان بھی کیا ہے۔
فتح محمد گدھے پر ریت لاد کر بیچا کرتا تھا۔ اس کے باقی تین بھائی پڑھے لکھے امیر کبیر تھے۔ اس کا ان کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں تھا۔ سوشل لائف اس کی اور تھی‘ اُن کی اور تھی ، لیکن جب کبھی بھائیوں کا شمار ہوتا تو پھتّے (فتح محمد) کا نام امیر کبیر بھائیوں کے ساتھ ہی لیا جاتا اس لیے کہ اس سے مفر نہیں تھا۔ یہ تو ریکارڈ کی بات تھی ، آج جب مغربی سرحد سے ہم نفسوں ، ہم نوائوں کی فہرست سامنے آئی تو اس میں تحریکِ انصاف کے معزز‘ مقبولِ عام لیڈر کا نام کیسے نہ شامل ہوتا اور کیوں نہ ایسا ہوتا، ریسرچ کر کے دیکھ لیجیے‘ خان صاحب دہشت گردی کی مذمت کرتے آئے ہیں‘ دہشت گردوں کا نام کبھی نہیں لیا۔
تو کیا بساط الٹ چکی ہے؟ کیا قائداعظم کا پاکستان اُس طبقے کے سپرد ہونے والا ہے جس کے نزدیک قائداعظم قائد ہیں نہ اعظم! فہرست دیکھ لیجیے‘ دو اصحاب ان جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ڈٹ کر کی تھی۔ آج تک انہوں نے اپنے کیے پر ندامت کا اظہار نہیں کیا حالانکہ فائدہ اٹھانے والوں میں سرِفہرست ہیں۔ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے آج تک‘ چھیاسٹھ برس گزرنے کے باوجود… پاکستان بننے اور بنانے کے ’’گناہ‘‘ کو معاف نہیں کیا۔ ڈیڑھ ماہ پہلے وہاں ایک عالمی کانفرنس ہوئی، اس میں پاکستان سے تیس رکنی وفد گیا ، لیکن یہ وفد انہی علماء پر مشتمل تھا جو اس ’’گناہ‘‘ میں شریک نہیں تھے۔ اس حقیقت میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ اس وقت دینی علوم میں مفتی رفیع عثمانی اور ان کے بھائی جسٹس تقی عثمانی کا مقام بلند ترین ہے۔ تصنیف و تالیف میں‘ اسلامی احکام کی ترویج میں‘ مضامین کے تنوع میں‘ ان حضرات کی خدمات نمایاں ترین ہیں لیکن چونکہ ان کے والد محترم مفتی محمد شفیع مرحوم تحریکِ پاکستان کے سپاہی تھے اس لیے سارے علم و فضل کے باوجود دارالعلوم دیوبند اس خانوادے کو اپنے ہاں آنے کی دعوت نہیں دے سکتا۔ یہ مفتی محمد شفیع ہی تھے جنہوں نے 1944ء میں تدریس سے استعفیٰ دیا اور رات دن تحریکِ پاکستان کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ جن حضرات کو اس حالیہ کانفرنس میں بھارت کے اس مدرسہ نے دعوت دی‘ ان میں سے اکثر کا علم و فضل ’’واضح‘‘ ہے۔ یہ بظاہر ایک سیاسی جماعت ہے جس کو دعوت دی گئی۔
مفتی رفیع عثمانی صاحب کا یہ جرم بھی تو ’’ناقابلِ معافی‘‘ ہے کہ انہوں نے جمہوریت کو کفر قرار دینے والوں کے ساتھ اتفاق نہ کیا۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے جب ایک وڈیو کا شہرہ ملک کے طول و عرض میں تھا، جس کی رُو سے جمہوریت کو کفر اور دجالی نظام کا تسلسل قرار دیتے ہوئے عوام کو ووٹ ڈالنے سے منع کیا گیا تھا اور مسلح جدوجہد کی ترغیب دی گئی تھی تو مفتی محمد رفیع نے وضاحت کی کہ ووٹ شرعی اعتبار سے اہم فریضہ ہے اور یہ کہ قرآن و حدیث کی رُو سے ووٹ کی تین شرعی حیثیتیں ہیں۔ پہلی شہادت‘ دوسری سفارش اور تیسری وکالت۔ ان تینوں حیثیتوں کو سامنے رکھ کر عوام امیدوار کے بارے میں ہر ممکن حد تک تحقیق کریں اور امانت دار، باصلاحیت اور محب وطن امیدواروں کو ووٹ دیں۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ بددیانت اور نااہل کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت‘ بری سفارش اور ناجائز وکالت کے مترادف ہے اور یہ تینوں بدترین گناہ ہیں۔ ووٹ ڈالنے سے روکنے والے یا عوام کو ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور کرنے والے قومی مجرم ہیں۔
مفتی صاحب کی اس تقریر یا وضاحت کے بعد ان کے خلاف ایک غوغا برپا ہوا، یہاں تک کہ بات بات پر علما کے احترام کی تلقین کرنے والے حضرات نے مفتی صاحب اور ا ن کے عالم و فاضل بھائی کے خلاف نازیبا الفاظ تک استعمال کیے۔
تاریخ ایک سفاک کھیل ہے۔ یہ کھیل اپنے قوانین رکھتا ہے۔ اس کا پہلا اور بڑا قانون یہ ہے کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور بساط الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ جب اورنگ زیب عالم گیر دہلی اور آگرے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا تھا تو داراشکوہ افغانستان جاتے ہوئے پکڑا جا رہا تھا اور پابہ زنجیر مغل دارالحکومت کی طرف بھیجا جا رہا تھا۔ شیر شاہ سوری اصلاحات کے نفاذ سے برصغیر کی شکل اور تاریخ دونوں تبدیل کر رہا تھا ؛ عین اس وقت ہمایوں‘ ایرانی بادشاہ طہماسپ کا ایسا مہمان تھا جسے طہماسپ عقائد تبدیل کرنے کی تلقین کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہمایوں سر پر وہی ٹوپی پہنا کرے جو اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ایران
میں پہنتے تھے۔ آج جب میاں نوازشریف اور تحریک طالبان پاکستان دونوں اپنی اپنی سعی کر رہے ہیں کہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچیں تو یہ جنگ شروع کرنے والے جنرل پرویز مشرف ایک سرکاری ہسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مقید ہیں۔ یہ کمرہ جتنا بھی وی وی آئی پی ہو‘ ہے تو ایک کمرہ۔ ہفتوں سے اس کمرے میں محبوس‘ جنرل پرویز مشرف کہیں نہیں جا سکتے۔ چند کلو میٹر کے فاصلے پر‘ ان کا عالی شان فارم ہے جس کے اندر ایک ایسی رہائش گاہ ہے جس میں جدید معیارِ زندگی کی ہر شے موجود ہے اور کروڑوں پاکستانی جس کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں‘ جاگتے میں نہیں دیکھ سکتے‘ لیکن جنرل صاحب اس کی آسائش سے محروم ہیں ، ان کے پاس روپوں‘ ڈالروں‘ پائونڈوں‘ درہموں اور دیناروں کی کمی نہیں‘ جہاز کی فرسٹ کلاس سیٹ تو کیا‘ وہ پورا جہاز بحرِ اوقیانوس کے اس کنارے یا اُس کنارے کے لیے چارٹر کرا سکتے ہیں لیکن تاریخ سفاک ہے۔ وہ چاہے تو ارب پتی پرویز مشرف کو ایک کمرے میں بند کردے‘ چاہے تو اس نوازشریف کو جس کے ہاتھ کھردری رسی سے جہاز کی نشست کے ساتھ باندھ دیے گئے تھے‘ اُس ایوانِ وزیراعظم میں بٹھا دے جو ہسپتال کے چھوٹے سے کمرے سے چند ہی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور چاہے تو افغان سرحد سے اٹھنے والے اور چند سالوں میں ہر طرف چھا جانے والے خاک نشین طالبان کو ایٹمی طاقت کی مالک ریاست کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا کردے ع
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں