"چل آ فیصل تجھے استاد کے پاس لے جاتا ہوں" شاکر اس کا ہاتھ تھامے گلی کی نکڑ پہ کھڑا تھا..
"نہیں شاکر، یہ گناہ ہے یار" شاکر نے مسکرا کے اس کے کندھے پہ ہاتھ دھرا "تُو رب دی قسم سچ کہتا ہے مگر جب اپنوں کے جسم بھوک سے پنجر بننے لگتے ہیں تو…. ٹُو کوشش کر لے، کوئی کام مل جائے، تُو صاف دل ہے، تیری رب ضرور سنے گا"… شاکر سلام لے کے چل دیا اور وہ گھر لوٹ آیا.. ٹوٹے دروازے کا پٹ کھول کے اندر آیا، دروازہ چیخ چیخ کے "جی آیاں نوں " کہہ رہا تھا.. پٹ یوں ہلے جا رہا تھا جیسے سلامیاں دے رہا ہو.. ماں چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں اینٹ پہ بیٹھی، چولہے میں گیلی لکڑیوں کو پھونکنی سے سلگانے کی کوشش کر رہی تھی.. سارے میں دھواں بھرا تھا.. گیلی لکڑی دل کی طرح، نہ جلے ہے نہ بجھے ہے، بس دھواں ہی دھواں.. ماں کھانستے جا رہی تھی، پانی آنکھوں سے بہے جا رہا تھا.. جیسے گاؤں کے باھر کا بڑا نالہ ساون میں بہے ہی جاتا ہے، جس میں کبھی کبھی قیمتی چیزیں بھی مل جاتی تھیں مگر یہ ماں کی آنکھ کا نالہ تھا، یہاں دکھ ہی دکھ ملتے تھے… بہت قیمتی دکھ.. سینے سے لگا کے رکھنے والے دکھ.. شوھر کے مر جانے کا دکھ.. چودہ سالہ فیصل، نو سالہ سعدیہ کا دکھ.. بھوک اور مستقبل کا دکھ.. آنے والے کل کا دکھ.. جاتے ہوئے پل کا دکھ..
دو آلو، پانی میں ڈالے، ہنڈیا چولہے پہ رکھے، وہ رو رہی تھی کہ آگ جلا رہی تھی.. اندر کی آگ تھی کہ چولہے کی، دھواں دھواں کر رہی تھی..
فیصل کھانسنے لگا تو ماں نے مڑ کے دیکھا "آ گیا پتر، کوئی کام ملا؟"… یہ سوال سب سلام دعا سے پہلے آتا ہے.. "وہ اچھّو ویلڈنگ والے کے پاس گیا تھا اور عاطی سائیکلوں والے پاس بھی.. کہتے ہیں پہلے ہی اتنے بندے ہیں، تیرا کیا کریں گے ہم.. ناجُو نائی کے پاس بھی گیا تھا.. کہتا ہے چھوٹی سی دکان ہے، دو کرسیاں ہیں، دونوں بھائی کام. کرتے ہیں، تیرے لئے تیسری کرسی کہاں رکھوں اور کہاں سے رکھوں "… ماں کھانسنے لگی اور فیصل آنکھیں پونچھتا اندر گھس گیا.. سعدیہ سو رہی تھی، اس نے بہن کا ماتھا چوما تو ٹھٹک گیا، ماتھا تھا کہ توا.. تپ رہا تھا.. ہونٹ جل اٹھے تھے…" ماں سعدیہ کو بخار ہے"وہ ماں کے کندھے کھڑا تھا.." ہاں ہے تو.. ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ ماتھے پہ، ٹھیک ہو جائے گی".. ماں کھانسنے لگی.. وہ ٹھنڈے پانی میں پٹیاں بھگو بھگو رکھتا رہا.. اس نے سعدیہ کو ہلایا جلایا مگر وہ بہت گہری نیند میں تھی شاید.. ہلی تک نہیں… فیصل ڈر گیا.. وہ چیخا "ماں، سعدیہ بے ہوش ہے، اٹھتی ہی نہیں "… ماں کے ہاتھ سے پھونکنی گر پڑی اور دوڑی اندر گئی، سعدیہ کو آوازیں دیں، ہلایا جلایا مگر……..
وہ دونوں اسے اٹھا کے ڈاکٹر اکرم کی بیٹھک میں لے آئے، ڈاکٹر اکرم نے نبض چیک کی، یوں چل رہی تھی جیسے کوئی ٹرین سٹیشن پہ رکنے لگی ہو… ڈاکٹر نے اپنی سی کی مگر بـے سود.. ٹرین سٹیشن پہ رک گئی تھی.. سٹیشن آ گیا تھا، آخری سٹیشن.. بس دو چیخیں تھیں ، باقی خاموشی ہی خاموشی تھی.. سٹیشن ویران پڑا تھا… دفنا دیا.. اتنی سی جان کو.. ماں کی طرح قبر بانہیں پھیلائے کھڑی تھی.. ماں بیٹی کا ملن تھا .. ہو گیا
دو چار دن.. دو ہفتے.. ایک ماہ.. دو ماہ گزر گئے.. وہی صحن تھا.. وہی ماں تھی، وہی گیلی لکڑیاں سلگاتی، کھانستی، روتی.. وہی فیصل ہر جگہ کام کی بھیک مانگ آیا مگر عجب قحط پڑا تھا اب کے..
ماں کمرے میں منہ لپیٹے جانے کس کس کا ماتم کر رہی تھی.. فیصل اٹھا اور دروازہ کھول کے باھر نکل گیا.. دروازے کا "خدا حافظ" دور تک سنائی دیتا رہا… وہ شاکر کے پاس گیا تھا…
شاکر ایک جیب کترا تھا.. فیصل ہی کی عمر کا تھا… باپ فالج نے چارپائی پہ ڈال دیا تھا، ماں گونگی تھی اور کسی کے گھر برتن دھوتی، صفائی کرتی تھی.. دو چھوٹی بہنیں گھر کے آنگن میں دوڑتیں تو تین سیکنڈ میں سارا صحن ناپ لیتیں.. پیٹ خالی رہیں تو بددعائیں ہیں.. یہ دوزخ بھرنے ہی ہوتے ہیں سو شاکر یہ دوزخ چوری کی لکڑیوں سے بھر رہا تھا..
پھر وقت نے "Note It" کا سائن بورڈ لگایا، اسی جیب کترے شاکر کے ساتھ فیصل، استاد کے سامنے دو زانو بیٹھا اسرار و رموز سیکھ ریاتھا.. ایک ہنر منتقل ہو رہا تھا.. دو انگلیاں، نئی دو انگلیوں کو ہنر بخش رہی تھیں، ہنر کیا، رزق بخش رہی تھیں.. ہفتے، دو ہفتے میں فیصل ٹھیک ٹھاک ہاتھ دکھانے لگا.. ماں کو اس نے یہی بتایا کہ گاڑیوں کی ورکشاپ پہ کام کرتا ہوں.. دو وقت کی روٹی چلنے لگی.. وقت گزرتا جاتا ہے یہ دیکھے بنا کہ کون جی رہا ہے، یا کیسے جی رہا ہے.. وقت ہاتھی ہے، روندتا نکل جاتا ہے.. سال ہو چلا تھا، فیصل محنت کی کما رہا تھا، کھا رہا تھا، کھِلا رہا تھا..
ایک دن اس نے استاد کو جا لیا "استاد یہ کام گناہ ہے، تو پھر بھی یہ کرتا ہے.. کیوں"… یہ بات اسے بہت کھٹکتی تھی.. کئی بار تو جیب کاٹتے اس کے ھاتھ باقاعدہ کانپ جاتے تھے.. شاکر اسے کہتا تھا کہ جب تو جیب مار کے آتا ہے تو رس گلے سے شِیرے کی طرح، تیرے منہ سے شرمندگی ٹپک رہی ہوتی ہے، صاف لگتا ہے تُو جیب مار کے آیا ہے.. اسی بات کو لے کے فیصل کئی راتیں آنکھوں میں کاٹ چکا تھا.. آج استاد کو پوچھ ہی لیا.. "تُو کل آنا شاکر کے ساتھ، تجھے تیرا جواب دِکھا دوں گا"…
اگلی سہ پہر استاد اپنی ٹانگ لنگڑاتا آگے آگے تھا اور دونوں شاگرد باادب پیچھے پیچھے.. استاد کی دائیں ٹانگ بچپن سے خراب تھی اور وہ وزن بھی نہیں اٹھا سکتا تھا.. بہت دور چلنے کے بعد "محلہ نون پورہ" آیا.. جھُگیوں کا دیش…
جھگیاں یوں سَر جوڑے کھڑی تھیں جیسے مائی نیامت، کسی عورت کے کان میں کسی کے فحش راز کھول رہی ہو.. استاد جیسے ہی محلے میں داخل ہوا، بارہ چودہ بچے "لالا آیا.. لالا آ.. یا…" کے نعرے لگاتے اس کی جانب لپکے.. استاد بچوں کو ٹافیاں دیتا جا ریا تھا.. استاد ایک بڑی والی جھُگی میں گھس گیا.. فیصل اور شاکر اندر گئے تو حیران رہ گئے.. نیچے ٹاٹ پڑے تھے، اوپر بستے اور قاعدے پڑے تھے.. سکول کی کتابیں.. فیصل منہ کھولے استاد کا منہ دیکھنے لگا..
"یہ میرا محلہ ہے، محلہ نون پورہ.. ایسے ہی کسی محلے میں میں ننگ دھڑنگ بچپن کاٹا ہے.. ایسے ہی مجھے کسی نے پالا تھا.. اب میں انھیں پال رہا ہوں.. ان سے میرا کوئی رشتہ نہیں، یہ میرا خاندان ہیں.. میں چھے جماعتیں پڑھا ہوں، سو شام کو انھیں پڑھاتا ہوں.. انھیں سکھاتا ہوں کہ جھوٹ نہ بولو، بھیک نہ مانگو، چوری نہ کرو، چوری کرنا گناہ ہے "یہ کہتے ہوئے استاد رو دیا.. اس کی دونوں آنکھیں یوں ٹپکنے لگیں جیسے بارش میں نون پورہ کی جھگیاں ٹپکتی ہیں…" اب میں کیا کروں، مجھے کوئی کام نہیں آتا، وزن اٹھا نہیں سکتا، چل پھر نہیں سکتا.. اب کیا کروں، یہ میری ذمہ داری ہیں.. میں استادی نہ کروں تو یہ چوری کرنے لگیں.. بھوکے مریں.. بھیک مانگنے نکل پڑیں، پھر کوئی استاد جنم لے، پھر نئے فیصل اور شاکر ھر وقت کے چکر میں شامل ہوتے رہیں.. یہ سلسلہ چل پڑے گا، مگر نہیں نہیں.. یہ جو سلسلہ میں نے شروع کیا ہے، اب یہ چلے گا.. یہ پڑھیں گے، کام کریں گے.. بھیک نہیں مانگیں گے، چوریاں نہیں کریں گے.. اب یہ سلسلہ چل نکلے گا.. پھر کوئی استاد، کوئی فیصل، کوئی شاکر اس دھرتی پہ بوجھ نہیں ہو گا.. "… استاد کا چہرہ جذبات سے لَش پَش تھا..
فیصل نے سر اٹھایا" استاد میں بھی سکول جاتا رہا ہوں، میں شام کو پڑھا دوں انھیں؟"… استاد نے کھینچ کے اسے گلے لگا لیا.." بڑا احسان ہو گا فیصلے تیرا… ".. فیصل کان کھجاتا ہوا بولا" احسان کیسا استاد، یہ میرے اپنے ہیں، میں بھی انھیں کی نسل کا ہوں ، میری ذات بھی غریب ہے، میرا سلسلہ نسب بھی بھوک سے جا ملتا ہے "…
پھر وہ ہر شام نون پورہ جانے لگا.. بچے پڑھ رہے تھے.. ایک جیب کترا علم. کی روشنی ذہنوں میں بھر رہا تھا.. ایک اندھا، راستہ دکھا رہا تھا.. ایک چور، ایک نسل بچا رہا تھا..
گھر آتا تو ماں سے ادھر ادھر کی باتیں سنتا اور سناتا، جی بہلاتا.. ماں سو جاتی تو خود سے باتیں کرنے لگتا.. بِیتے دن یاد آتے.. گزرتا دن بھولنے کی کوشش کرتا.. اب ایک خواب اس کی آنکھوں کی گلی کے چکر کاٹتا تھا.. وہ ایک دنیا بنانے چلا ہے، جہاں سب برابر ہوں گے.. جہاں سب ہاتھ تھامے، کندھا ملائے، ساتھ چلیں گے.. بس ایک ہی رشتہ ہو گا مسکراہٹ کا رشتہ..
غریب کے خواب بھی کتنے عجیب و غریب تھے..
پھر ایک دن استاد کو پولیس نے پکڑ لیا اور سال بھر کے لیے جیل میں ڈال دیا.. بڑی منت سماجت کی، کچھ مال بھی دینا چاہا مگر غریب کا واسطہ ایماندار افسر سے پڑ گیا تھا.. اب استاد کے بعد، ان بچوں کی مکمل ذمے داری فیصل پہ تھی.. وہ اپنا فرض ادا کرنے لگا..
دن گزر رہے تھے.. نون پورہ کے بچے شوق سے پڑھ رہے تھے.. جیبیں کٹ رہی تھیں، پیٹ بھر رہے تھے.. خدا کا بڑا کرم تھا..
پھر ایک دن بھرے بازار میں دو متحارب گروہوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ خیالات ہوا.. دونوں اطراف کے کچھ لوگ زخمی ہوئے مگر پانچ راہ گیر مارے گئے.. ان میں سے ایک فیصل کی ماں بھی تھی جو سبزی لینے نکلی تھی.. فیصل کو خبر ملی تو اسے لگا کہ جیسے سَر سے آسمان ہی ہٹ گیا ہو.. تیز دھوپ میں کھڑا ہے.. سورج عین سَر کے اوپر برس رہا ہے.. وہ بہت رویا.. بہت ٹوٹ کے رویا.. مگر جانے والے واپسی کے مسافر نہیں ہوتے، ان کی ریٹرن ٹکٹ نہیں ہوتی.. ماں کو سعدیہ کے ساتھ دفنا آیا.. ہزاروں قبروں میں ایک اور قبر.. شہروں سے زیادہ تو قبرستان آباد تھے..
سعدیہ بھی گئی، اب ماں بھی.. وہ بالکل اکیلا ہو گیا.. اکیلے گھر میں کبھی چولہے کے پاس رکھی اینٹ پہ بیٹھا روتا، کبھی کمرے میں چارپائی پہ لیٹ کے روتا رہتا.. گھر تھا کہ تنہائی کا قبرستان..آباد کھنڈر جیسے.. پانچ دن سے نہ وہ گھر کے باھر نکلا نہ کام پہ گیا.. ہاں ہر شام کو شاکر آتا، رات ڈھلے تک بیٹھتے.. نون پورہ کی خبر لے آتا..
اس رات لیٹا تو سوچ نے راہ نکالی کہ اب تو نہ ماں ہے کہ سعدیہ.. اکیلا ہوں.. جیب کتری ترک کر دوں یہی بہتر ہے.. کچھ اور کرتا ہوں.. اب جینا مرنا ایک سا ہے.. بھوکا مروں یا پیٹ بھر کے جیوں.. وہ روتے روتے سو گیا.. نیند نے آنکھیں پونچھ لیں..
صبح بہت دیر سے اٹھا، نہایا چائے بنائی، رس بھگو بھگو کے کھائے.. جمعہ کا دن تھا.. کمرے میں بیٹھ ریا.. صحن گندا تھا، برتن دھونے جوگے تھے.. مگر وہ کمرے میں بیٹھا رہا.. اس کی حالت ایسی ہی تھی.. جہاں بیٹھا ،پھر بیٹھا رہتا.. خیالوں میں جنگ چلتی رہی.. مسجد کا لاؤڈ سپیکر کھلا.. اذان ہوئی، وہ بیٹھا رہا.. نعتیں سنتا رہا.. پھر مولوی صاحب وہی رٹی رٹائی تقریر دوہرانے لگے.. یوں کرو گے تو یوں ہو گا، ووں کرو گے تو ووں ہو گا.. نمازیں پڑھو یا روزے رکھو، بس جنت کے لیے کرو.. مسجدیں بناؤ، کسی کا گھر ہو نہ ہو مسجدیں بناؤ.. کوئی رات بجری پہ لیٹے، فٹ پاتھ پہ کاٹے مگر مسجدیں بناؤ.. پھر خود مسجد سنبھال لو.. چندہ اکٹھا کرو.. کھاؤ، عیاشی کرو.. خدا کا مال ہے، خدا بھی تو اپنا ہے، اس کا مال بھی پھر اپنا ہی ہوا ناں.. پھر خدا کا کون سا پیٹ ہے، جو بھرنا ہے.. ہمارا تو ہے ناں.. سو اس کا جو کچھ ہے، اپنا ہے.. کھاؤ پیو.. ڈکار مارو.. الحمدللہ.. وہ سوچتے سوچتے غنودگی میں چلا گیا.. عصر کے بعد اٹھا منہ ہاتھ دھو، پھر چائے بنا کے پی کے مسجد کو نکل پڑا.. مولوی صاحب اکیلے ہی تھے، وہ کہنے لگا "مولوی صاحب آپ خدا کے بہت قریب ہو.. پانچ وقت اس کے پاؤں پہ ماتھا ٹکاتے ہو.. اگر کوئی سب سوچ سمجھ کے کیے گئے بڑے سے بڑے گناہ کی معافی مانگے تو مل جاتی ہے؟"….
مولوی صاحب پگڑی درست کرتے ہوئے بولے "ہاں بیٹا، وہ بڑا رحیم کریم ہے، توبہ کے دروازے ھر وقت، وقت بـے وقت سب کے لیے کھول رکھے ہیں اس نے "…
" مولوی صاحب میں جیب کترا ہوں"… مولوی صاحب نے فوراً جیب پہ ہاتھ رکھا.." اب نہیں کاٹتا، نہیں کاٹنا چاہتا.. مگر کوئی بھی کام ہے کہ مل کے نہیں دے رہا"…
" نہ بیٹا، توبہ کرو.. وہ رحیم بھی ہے.. وہ رازق بھی ہے، وہ کیڑے کو پتھر کے اندر رزق دیتا ہے، تجھے بھی دے گا.. یہ گناہ چھوڑو، کام تلاشو"..
وہ سر جھکائے سن رہا تھا.. "مولوی صاحب، ہر جگہ ڈھونڈا مگر… چلیں میں تو جی لوں گا جیسے تیسے مگر ایک جھگیوں کا محلہ ہے، اتنے اتنے سے بچے رہتے ہیں وہاں.. ان کا خرچہ.. ان کی بھوک.. کیسے ہو گا "..
مولوی صاحب جلال میں آتے جا رہے تھے" تُو خود تو حرام کھا رہا ہے، اور کتنے پیٹوں کو بھی اس حرام کی آگ میں دھکیل رہا ہے.. ان سب کا گناہ تیرے سر ہو گا.. "…
" مگر وہ بچے انھیں پیسوں سے پڑھ رہے ہیں، بھوکے نہیں سوتے.. ان کو ایسے چھوڑ دوں گا تو یہ گناہ کس کے سَر جائے گا مولوی صاحب"…. مولوی صاحب نے داڑھی کھجائی" حرام کا ایک ذرہ بھی پیٹ میں ہو تو عبادت تک نہیں ہوتی "…
" مولوی صاحب، مگر عبادت بھی تو بھوکے پیٹ نہیں ہوتی "…. مولوی صاحب جھلا اٹھے" تُو بحث کرنے آیا ہے توبہ… خود تو ڈوبے گا ساتھ نسلیں ڈبوئے گا… تُو پڑھائے گا بچوں کو.. کیا پڑھائے گا، جیب کترا ایک چور کیا پڑھائے گا.. جیب کاٹنا ہی سکھائے گا.. توبہ توبہ اتنی سی عمر میں ہی حرام کھانا کمانا شروع کر دیا ہے… قیامت کی نشانیاں ہیں.. اور اوپر سے وکالت کر رہا ہے حرام کمائی کی"…. فیصل اٹھا اور گھر کو چل دیا…
شام ہونے لگی تھی.. وہ سوچ میں پڑا تھا.. سمندر جتنی گہری سوچ.. توبہ کا دروازہ کھلا ہے مگر پھر نون پورہ کے بچوں پہ علم کا، مستقبل کا دروازہ بند ہو جائے گا.. دروازے کو کُنڈی لگ جائے گی.. وہ کیا کرے، کیا نہ کرے.. منہ دھونے اٹھا اور وضو کرنے لگا… عجیب کشمکش میں بھی جان.. جیسے جان کنی کا عالم ہو.. اللہ اکبر.. اللہ اکبر.. اذان ہونے لگی تھی.. گھر سے نکل پڑا…
حیّی علی الفلاح.. آؤ فلاح کی طرف.. وہ مسجد کے دوراہے پہ کھڑا تھا… ایک طرف مسجد تھی.. لوگ سَر پہ ٹوپیاں رکھے، مسجد کو لپک رہے تھے.. ایک طرف نون پورہ کو جاتا تھکا دینے والا راستہ تھا.. وہ دوراہے پہ دوراہا بنا سر جھکائے کھڑا تھا.. سَر اٹھایا آسمان کو دیکھا.. آنسو گال پہ لڑھک آئے…. فیصل کے پاؤں محلہ نون پورہ کی طرف اٹھ گئے.. کانوں میں ایک آواز یوں گونج رہی تھی جیسے مولوی صاحب کی آواز مسجد کے گنبد میں گونجتی ہے..
حیّی علی الفلاح.. حیّی علی الفلاح… آؤ فلاح کی طرف.. آؤ فلاح کی طرف….