ہائے میرا یوسفی
مجھے یاد ہے۔ عالمی ادب اردو کانفرنس کراچی میں مشتاق احمد یوسفی کا ڈرامہ حویلی والا ختم ہوگیا تو لوگ تالیاں بجانے لگے۔ میں اور ڈاکٹر اعجاز یوسفزئی ایک دوسرے سے اپنے آنسو چھپاتے رہے۔
یوسفی صاب کو اسٹیج پر لایا گیا۔ کسی کو اس کی خراب صحت کے کیوجہ سے قریب جانے نہیں دیا جارہا تھا۔ اچانک میں اسٹیج پر چلا گیا۔ قریب آکر میں اپنا ہاتھ ماتھے تک لیکر گیا کہ یوسفی صاب کابلی والا اداب کہتا ہے۔ پان ملے گا؟ میری مونچھوں اور بھاری ڈیل ڈول سے یوسفی صاب کو شاید میاں اورنگزیب اف بنوں والے یاد اگئے۔ کھلکھلا کر میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ یوسفی صاب کیساتھ جتنی دیر رہا بس یہی لمحے میری زندگی کا سرمایہ حیات بن گئے۔
آج دوست کا فون آیا تو رندھی آواز میں خبر دی کہ یوسفی صاب اب ہم میں نہیں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گنگ کہ آنا للہ و آنا الیہ راجعون بھی نہیں کہہ سکا۔ اور مجھے اپنے گالوں پر گرم گرم آنسو محسوس ہوئے۔
یوسفی صاب میرے روحانی استاد ہیں۔ میں نے اردو ادب میں فقط یوسفی کو پڑھا ہے۔ اور اس کی ساری کتابیں مقدس صحیفوں کی طرح حفظ کی ہیں۔
لوگ اب ڈائس پر کھڑے ہوکر یوسفی پر نوحے تو پڑھیں گے۔ مگر اس کی زندگی میں مجھ سمیت کسی کی توفیق نہیں ہوسکی کہ کم از کم یوسفی کو اردو ادب کے سدا بہار طنزومزاح کا حقیقی خالق کہہ سکیں۔
آج عہد یوسفی کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ عہد یوسفی کا نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔
آج میرا سہیل اکبر کوروتانہ اور موسیو اظہر کمال رانا کے گلے لگ کر رونے کا بڑا دل کررہا ہے۔ کاش آج ہم تینوں با آواز بلند چیخ سکیں کہ اے اردو ادب کے جعلی پیروں تم جیسوں کیلئے پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔