اگر ممکن ہو تو یہ کالم پڑھنے سے پہلے کسی گوشہء تنہائی میں جابیٹھئے۔ توجہ الفاظ پر رکھئے اور بلند آوازپڑھتے جائیے۔ کالم میں پڑھنے لائق کچھ نہیں۔ لیکن پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ اختتام تک پہنچتے پہنچے آپ کی آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی ضرور چل جائے گی۔آئیے شروع کرتے ہیں۔۔۔’’بولتے ہاتھ۔انکل سرگم۔ آخری چٹان۔ تنہائیاں۔صبح کی نشریات۔چاچا جی۔ ففٹی ففٹی۔خواجہ اینڈ سن۔ شب دیگ۔سورج کے ساتھ ساتھ۔وارث۔من چلے کا سودا۔ توتا کہانی۔ جانگلوس۔ایک محبت سو افسانے۔ ویلے دی گل۔ فرمان الٰہی۔بھول نہ جانا پھر پپا۔ کیوی ایک پرندہ ہے۔ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ بناکا گیت مالا۔ ایگل اور ٹی ڈی کے کی کیسٹ ۔ نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر۔ دس روپے کی برف۔پانی سے بھرا واٹر کولر۔وی سی آر۔ وی سی پی ۔ گھوڑے کی ٹاپ۔ فجر کے وقت گلی میں سے گذرتے کسی بابے کے درودشریف پڑھنے کی آواز۔ روشندان۔ہینڈ پمپ۔ قلم دوات۔ ہولڈر۔ جی کی نب۔ فلاوری انگلش۔تختی۔گاچی۔بستہ۔چھٹیوں کا کام ۔ لکیروں والا دستہ۔ دستے پر اخبار چڑھانا۔ مارکر۔ حاشیہ۔خوشخطی۔ رف کاپی۔رف عمل۔سلیٹ۔سلیٹی۔ کریم کی خالی شیشیاں بھرنے والا۔ گلیوں میں چارپائیاں۔ لکن میٹی۔ چور سپاہی۔ اڈا کھڈا۔ سٹاپو۔ باندرکلا۔ کوکلا چھپاکی۔ یسو پنجو‘ چڑی اُڑی کاں اُڑا۔صراحی۔چائے کی پیالیاں۔سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ۔بتیوں والا چولہا۔ٹارزن۔ عمروعیار۔ زنبیل۔ افراسیاب۔ چھڑی اور سائیکل کا ٹائر۔دوکاندار سے چونگا۔نیاز بٹنا اور آواز آنا’’ میرے بھائی کا بھی حصہ دے دیں۔‘‘
مرونڈا۔ گچک۔سوکھادودھ۔ڈیکو مکھن ٹافی۔لچھے۔ون ٹین کا کیمرہ۔مائی کا تنور۔کوئلوں والی استری۔ہمسائے کے ٹیلی فون کا پی پی نمبر۔گولی والی بوتل۔جمعرات کی آدھی چھٹی۔ٹٹوریل گروپ۔ بزمِ ادب۔ششماہی امتحانات۔پراگرس رپورٹ۔عرس کے میلے میں دھمال ڈالتا سائیں۔ٹیڈی پیسہ۔ چونی۔ بارہ آنے۔پُتلی تماشا۔گراری والا چاقو۔سیمنٹ کی ٹینکی۔شا م کے وقت گلی میں پائپ سے پانی کا چھڑکاؤ۔ دروازے کی کنڈی۔دیسی تالا۔ہاون دستہ۔ دادی کی کہانیاں۔ اُڑن کھٹولے کے خواب۔ ڈھیلی جرابوں کے اوپر ربڑ چڑھانا۔لوہے کی بالٹی۔ جست کے برتن۔ بھانڈے قلعی کرالو۔ بندر کا تماشا۔ بچے کی پیدائش پر خواجہ سراؤں کا رقص۔ گلی میں پکتی دیگ۔چھت کی نیند۔ تاروں بھرا آسمان۔دوپٹے کے پلو میں بندھے پیسے۔انٹینا۔چھت پر مٹی کا لیپ۔شہتیر۔ بالے۔ پھونکنی۔ تندوری۔چڑیوں کا آلنا۔مسہری۔ شوخ رنگوں کے پائے والا پلنگ۔ بان کی چارپائی ۔کھرا۔ نالی۔پلاسٹک کی ٹونٹی۔کپڑے دھونے والا ڈنڈا۔مسی روٹی۔ پنجیری۔پِنّیاں۔بالوشاہی۔دو ٹیوٹر والا ڈیک۔دستر خوان۔ صبح کا مشترکہ ناشتہ۔ رات کا مشترکہ کھانا۔دانتوں پر ملنے والا منجن۔ سٹیل کے گلاس۔ سٹیل کی پلیٹیں۔سٹیل کے جگ۔موڑھے۔سائیکل کی قینچی۔اسکائی لیپ کی خبریں۔سیلاب کا خوف۔ماں کی آغوش۔ باپ کاڈر۔ دھوتی۔ سلوکا۔ مشترکہ بیڈ روم۔اینٹوں والا فرش۔ بیٹھک۔اُستادوں کی مار۔ مولا بخش۔کاربن پیپر۔ سوجی کی مٹھائی۔ڈیموں کے لڑنے پر تالا رگڑنا۔ڈیموں کے ساتھ دھاگا باندھ کر اڑانا۔ سرخ آندھی۔ بالٹی میں ٹھنڈے کیے ہوئے آم۔
دو غباروں کے درمیان ڈوری باندھ کر ’واکی ٹاکی‘ بنانا۔پانی سے بھری بالٹی میں اُلٹا گلاس ڈال کر بلبلے نکالنا۔ صابن سے سر دھونا۔نانی جان کے لیے پانی کی بوتل میں نمازیوں سے پھونکیں مروا کے لانا۔سردرد کے لیے مولوی صاحب سے دم کروانا۔بوتل کے سٹرا کو پائپ کہنا۔ آدھی رات کو ڈراؤنے قصے سننا۔رات دس بجے کے بعد سڑکوں کا سنسان ہوجانا۔ خالی کمرے میں کسی بابے کا گمان ہونا ۔بچی کچھی روٹیوں کے ٹکڑے کباڑیے کو بیچ دینا۔ مقدس عبارت والے اوراق چوم کر کسی دیوار کی درز میں پھنسا دینا۔ بیلٹ کے بغیرپینٹ پہننا اور محلے داروں سے شرماتے پھرنا۔ کُنڈلوں والے بال۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے۔ سکول جاتے ہوئے بس کی چھت پرپڑے ٹائر میں بیٹھ کر سفر کرنا۔ گلابی رنگ کا سٹوڈنٹ کارڈ جیب میں رکھنا۔ کڑھائی والا رومال۔ خوش آمدید والے تکیے۔ ہاتھوں سے گھولی ہوئی مہندی۔ رنگین آنچلوں کی خوشبو۔بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرنا فیشن۔ سُرمے کی لکیر خوبصورتی کی علامت۔ پسینے بھری قمیص اتار کر چلتے ہوئے پیڈسٹل فین پر ڈال دینا۔ فیوز بلب کو ہلا کر اُس کی تار پھر سے جوڑ دینا۔ بجلی کے میٹر گھروں کے اندر۔ بجلی کا سانپ کی طرح لمبا بل ۔سینماؤں کے پوسٹر پر نظریں جم جانا۔ سائیکل روک کر مجمع باز کی گفتگو سننا۔ صاف کپڑوں کے ساتھ جیب میں صاف رومال بھی رکھنا۔ قمیص کی جیب میں پین لٹکانا۔ بٹوے میں چھوٹی سی ٹیلی فون ڈائری رکھنا جس میں Aسے Z تک سے شروع ہونے والے ناموں کے الگ خانے ہوتے تھے۔کسی پرانے سال کی ڈائری میں اقوال زریں‘ نعتیں اور اشعار لکھنا۔ٹی وی کے اوپر خوبصورت غلاف چڑھائے رکھنا۔کسی کے تالا لگے ٹیلی فون کے کریڈل سے ٹک ٹک کرکے کال ملانے کی کوشش کرنا۔
عید میلاد النبی پر چراغ جلانا۔ محرم میں حلیم بانٹنا۔ سبیل سے میٹھا پانی پینا۔باراتوں پر سکے لوٹنا۔دولہا کا منہ پر رومال رکھنا۔ دلہن کا دوسرے شہر سے بارات کے ساتھ بس میں آتے ہوئے راستے میں دل خراب ہوجانا۔سردیوں میں اُبلے ہوئے ایک انڈے کو بھی پورا مزا لے کر کھانا۔محلے میں کسی کی وفات پر تدفین تک ساتھ رہنا۔ مسجد کے مولوی صاحب کے لیے گھر میں الگ سے سالن رکھنا۔ ٹی وی ڈرامے میں کسی المناک منظر پر خود بھی رو پڑنا۔فلم دیکھتے ہوئے ہیرو کی کامیابی کے لیے صدق دِل سے دُعا کرنا۔ لڑائی میں گالی دے کر بھاگ جانا۔ بارش میں ایک دوسرے پر گلی کے پانی سے چھینٹے اڑانا۔سونے سے پہلے تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر چاروں کونوں میں پھونک مارنا۔ ماؤں کا گھر کی پیٹی میں چپکے چپکے بیٹیوں کا جہیز اکٹھا کرنا۔ ایک پاؤ گوشت کے شوربے سے پورے گھر کا خوشی خوشی کھانا کھانا اور شکر الحمدللہ کہہ کر سوجانا۔ مہمانوں کی آمد پر خصوصی اہتمام کرنا اور محلے والوں کا خصوصی طور پر کہنا کہ ’’مہمان نوں ساڈے ول وی لے کے آنا‘‘۔بسنت کے دنوں میں چھت پر ڈور لگانا‘ مانجھا لگانا۔بازار سے پنے‘ گچھے اور چرخیاں خریدنا۔ گڈیاں لوٹنا‘ ڈوریں اکھٹی کرنا۔چارپائی پر بیٹھ کر ٹوٹا ہوا شیشہ سامنے رکھ کر چہرے پر صابن لگا کرشیوکرنا۔صبح کام پر نکلنا تو ماؤں کی دعاؤں کی آوازیں گلی کی نکڑ تک سنائی دینا۔جسمانی تھکاوٹ کی صورت میں دودھ میں ہلدی ڈال کر پی جانا اور اگلی صبح بھلے چنگے ہوجانا۔سکول سے چھٹی کا بہانہ بناتے ہوئے بغلوں میں پیاز رکھ کر جسمانی حرارت تیز کرلینا اور پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجانا۔ سلیٹ ہمیشہ تھوک سے صاف کرنا۔محلے کے بڑے بوڑھوں سے اکثر مارکھانا اور بھول جانا۔پنکج ادھاس کی غزلیں یاد کرنا اور’ میکدہ‘کے لفظ سے ناآشنائی کے باعث گاتے پھرنا’’ایک طرف اُس کا گھر‘ ایک طرف میں گدھا‘‘۔اگر آپ کو یہ سب یاد ہے تو آپ خوش قسمت ہیں کہ سادگی بھرے ماحول کو انجوائے کرآئے۔ اِن میں سے شائد ہی کوئی چیز باقی بچی ہو‘ اور اگر ہوگی بھی تو خالص نہیں رہی ہوگی۔ یہ تھا ماضی۔۔۔یہ تھے لوگ۔۔۔یہ تھی زندگی۔۔۔ہائے ۔۔۔ہائے ۔۔۔ہائے!!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...