چند سال سے شوشل میڈیا پر سنجیدہ مواد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔جس سے بہت سے گمنام لکھاریوں سے واقفیت ہوتی رہتی ہے۔ حال ہی میں شوشل میڈیا پر پیر صاحب کے نام سے شہرت پانے والے مظہر حسین بودلہ نامی شخص سے تعارف ہوا ہے۔ مظہر حسین بودلہ کو میں چار سال سے پڑھ رہا ہوں۔ کمال کی لکھت کرتے ہیں۔ مظہر کی کہانی دکھ دائق ہے۔
مظہر نے پاکپتن میں جنم لیا۔ میٹرک تک والدین کے زیرِ سایہ تعلیم حاصل کی۔ مظہر کے والد کاروبار سے گزر بسر کرتے تھے۔ مظہر کے والد کو کاروبار میں نقصان ہوا جس سے گزر بسر دشوار طلب ہونے لگی۔ اسی وجہ سے مظہر کے والد نے مظہر کو ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی۔ نکما ہونے کی طعنہ زنی شروع کر دی۔ جس سے آخر کار مظہر بھائی دل برداشتہ ہو کر گھر سے بھاگ آئے۔
گھر سے بھاگنے کے بعد مظہر نے فٹ پاتھوں پر روز و شب گزارے۔ لنگر خانوں سے پاپی پیٹ کو سیراب کرنا شروع کیا۔ پھر زندگی کی ٹھوکریں زندہ دلانِ لاہور کے در سے روشنیوں کے شہر کراچی لے گئی۔ وہاں پر مظہر پر قدرت کہہ لیں یا کچھ اور مہربان ہوئی ایک شفیق انسان نے مظہر کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور مظہر نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ پھر مظہر انا پرستی اور ضدی پن کی وجہ سے وہاں اس شخص کے ہاں ٹک نہ پائے۔ پھر مظہر دوبارہ لاہور لوٹے۔ یہاں فیکٹری میں چوکیداری شروع کر دی۔ ساتھ ساتھ تعلیمی سلسلے کو چلانے کی سعی بھی کرتے رہے۔ مظہر نے ٹوائلٹ کے کمرے میں قالین ڈال کر بھی زیست کے تلخ ایام گزارے۔ مگر ہمت نہیں ہاری اور کرتے کراتے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرلی۔ مظہر نے تین بیاہ رچائے۔ جن میں پہلے دو نا کام ٹھہرے۔ پہلا نکاح اخبار میں اشتہار پڑھ کر لڑکی والوں تک رسائی حاصل کرکے کیا۔ شادی تو ہوگئی مگر شادی کے بعد یہ عقدہ کھُلا کہ وہ لڑکی اپنے منہ بولے باپ جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اُن کی معشوقہ تھی۔ مظہر نے تلخی حیات سہہ رکھی تھی۔ نبھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو پائے۔ اور بھیانک انجام کے ساتھ مظہر کو بالآخر طلاق دینی پڑی۔ پہلی عورت کے بطن سے مظہر کی ایک بیٹی بھی تھی جو پہلی بیوی نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔
دوسری شادی بھی اسی طرز پر ہوئی۔ دوسری شادی بھی جھگڑوں میں گزری۔ مظہر کی دوسری بیوی نے ایک رات کے لئے مہمان مظہر کی ماں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔ جس کے سبب مظہر کو چار و ناچار سہنا پڑا۔ مگر اس بار بھی قسمت کی دیوی نے مظہر پر رحم نہیں کھایا اور مظہر کو بالآخر طلاق دینی پڑ گئی۔
مظہر نے لاہور سے دوبئی بھی بسلسلہ روزگار رختِ سفر باندھا۔ کچھ ماہ وہاں گزارے اور پھر لاہور لوٹ آئے۔ مظہر نے خالی ہاتھ گھر سے بھاگ نکلنے کے باوجود لاکھوں کی فیسیں ادا کرکے یو ایم ٹی لاہور جیسی مہنگی جامعہ سے ایم فل مکمل کیا ہے۔ گلبرگ میں رہائش پذیر رہے۔
مظہر کی منگنی ہوئی تیسری مرتبہ مگر پھر وہی حشر ہوا ٹوٹ گئی۔ مظہر کی تیسری شادی خالہ کی بیٹی کے ساتھ ہوئی۔ آج کل لاہور میں بیگم کے ساتھ رہ رہے ہیں ازدواجی زندگی کے لئے نیک خواہشات ہیں۔
مظہر نے اس کٹھن سفر میں بہت دکھ اور مصائب برداشت کئے ہیں۔ مظہر کی زندگی میں ایک اور قابل ذکر شخصیت ان کے باس کی ہے جو مظہر پر کافی مہربان نظر آتے ہیں۔ وہ مظہر کے مرید ہی ہیں۔
شوشل میڈیا پر مظہر کی قابلِ ذکر فین فالوونگ ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مظہر اول درجے کے لکھاری رہے ہیں۔ مظہر پہلے ڈیلی خبریں سے وابستہ رہے۔ بعدازاں ہم سب کے لیے لکھتے رہے۔ مظہر کا اندازِ تحریر کافی رہتا تھا۔ اسی وجہ سے مظہر کی دو تحریریں جن میں ایک,, آؤ کہ مشت زنی پر اتفاق کرلیں،، شامل تھی۔ اس سے شائع کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد مظہر کسی اخبار یا ویبسائٹ کے لئے نہیں لکھا۔ جنبشِ قلم اپنی وال تک محدود کرلی۔
قارئین سے گزارش ہے کہ آپ کو مظہر حسین بودلہ کی داستان اچھی لگے تو مظہر سے فیس بک ضرور جُڑیں اور ان کے علم سے حالات زندگی سے ضرور سیکھیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...