’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ اپنی نوعیت کی ایک بالکل انوکھی اور دلچسپ کتاب ہے۔27 مئی 2019 ء کو جرمنی میں مقیم معروف شاعراورادیب حیدر قریشی کی اہلیہ مبارکہ حیدر وفات پا گئیں۔تب ہی حیدر قریشی نے اپنی اہلیہ کے ساتھ 48 سالہ رفاقت کا حال کچھ لکھنا اور کچھ مرتب کرنا شروع کر دیا۔16 اگست کو کتاب مکمل ہو گئی اور اب چھپنے کے بعد قارئین تک پہنچ چکی ہے۔’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘256 صفحات پر مشتمل ہے۔اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلے حصے میں کتاب ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘مرتب کردہ شعیب حیدرجوں کی توں شامل کی گئی ہے۔ 96 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 2015 ء میں شائع ہوئی تھی۔اس پر ڈاکٹر انور سدید کا یہ تبصرہ حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے۔
’’اب یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب حیدر قریشی کی تحریروں سے مرصع کی گئی ہے اور وہی اس کے بنیادی اور اولین مصنف ہیں۔میں کہہ سکتا ہوں کہ’’ہماری امی‘‘اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس کی ترتیب و تدوین پر حیدر قریشی کے بچے مبارک باد کے مستحق ہیں۔سرورق پر مبارکہ حیدر کی تصویر ہے۔یہ تصویر ان کی اپنی ہے لیکن سرپر ٹوپی حیدر قریشی کی ہے جو ان کے’’سرتاج‘‘ہیں۔‘‘
دوسرے حصے میں ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘پر لکھے گئے تبصرے،تاثرات اور مضامین شامل ہیں۔اس حصہ میں ڈاکٹر انورسدید،گلزار،ترنم ریاض،صادق باجوہ،ناصر علی سید،سید نصرت بخاری،عظیم انصاری ، پروفیسر عبدالرب استاد،نسیم انجم،ڈاکٹر رضینہ خان،ڈاکٹر قمرالنساء،خالد یزدانی،حمیرا حیات،زارا حیدراورفیصل عظیم کے تاثرات اور مضامین شامل ہیں۔
کتاب کے تیسرے حصے میں مبارکہ حیدر کی وفات کی خبراور تعزیتی پیغامات شامل ہیں۔وفات کی خبرروزنامہ نوائے وقت(خالدیزدانی۔لاہور)،پنجند ڈاٹ کام(وقاص سعید۔آسٹریلیا) اور صبحِ اردو (شاہد ماہلی۔ دہلی ) نے اپنے اپنے طور پر شائع کی۔اس حصے میں عبدالرب استاد اور طاہر عدیم کے منظوم تاثرات بھی شامل ہیں۔
صفحہ نمبر 151 سے164 تک دنیا بھر سے ملنے والے تعزیتی پیغامات کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔
چوتھے حصے میں ’’جذبات و احساسات‘‘کے تحت مندرجہ ذیل ادبی احباب اور قریبی رشتہ داروں کے مضامین میں شامل ہیں۔لکھنے والوں میں صادق باجوہ،عبداللہ جاوید،شہناز خانم عابدی،ڈاکٹر ریاض اکبر،نازیہ خلیل عباسی،خالد یزدانی،راحت نوید،عظمیٰ احمد،کنول تبسم اور نذیر بزمی شامل ہیں۔
کتاب کا پانچوں اور آخری حصہ ’’یادیں ہی یادیں‘‘ہے۔اس میں حیدرقریشی کے پانچوں بچوں درِ ثمین انور،طارق محمود حیدر،رضوانہ کوثر،عثمان حیدر،اور شعیب حیدرکے مضامین شامل ہیں جو اپنی والدہ مبارکہ حیدر کی خوشگوار یادوں سے معمور ہیں۔ان یادوں سے مبارکہ کی زندگی کے مزید روشن پہلو سامنے آتے گئے ہیں۔یہ مضامین جیسے جیسے لکھے گئے ویسے ویسے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر چھپتے گئے ۔ اس کے نتیجہ میں ہر مضمون پر قارئین کے تاثرات بھی موصول ہوتے رہے۔چنانچہ ہر مضمون کے بعد موصولہ تاثرات بھی درج کر دئیے گئے ہیں۔اس حصے کا سب سے اہم مضمون حیدرقریشی کا’’پسلی کی ٹیڑھ ‘‘ ہے۔حیدر قریشی نے انتیس سال پہلے اسی عنوان سے مبارکہ کا خاکہ لکھا تھا اور اب ان کی وفات پر ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘کا دوسرا حصہ قلم بند کیا ہے۔یہ ذاتی طور پر بھی اور ادبی طور پر بھی ایک شاندار فن پارہ ہے۔اس کے بعد حیدرقریشی نے ’’کچھ اور یادیں،کچھ اور باتیں‘‘کے عنوان سے مبارکہ کی مزیدیادیں لکھی ہیں۔اسی حصہ میں مصری ریسرچراحمد عبدربہ عباس کے عربی مقالہ کا ایک اقتباس،اورکنول رعنا نوشی کا تاثراتی مضمون بھی شامل ہے۔آخر میں حیدرقریشی نے اپنے والد کے دو خواب درج کرنے کے ساتھ ان کی تعبیر کے چند اہم شواہد پیش کیے ہیں۔
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘پیش لفظ سے لے کر آخر تک ہماری ادبی دنیا کے لیے ایک پیغام دے رہی ہے ۔ہمارے ادیبوں نے دنیا جہان کے موضوعات کھنگال لیے۔انہیں چاہئے کہ اپنے بہت ہی قریبی اور پیارے عزیزوں کو بھی اپنی تحریروں کا موضوع بنائیں۔
ڈاکٹر انورسدید نے لکھا تھا’’حیدرقریشی نے اسے(خاکہ کو)اپنی اہلیہ کی یادوں سے سجایاتھااور انہیں بیوی کی بجائے ایسے مخلص ترین دوست کا درجہ دیا تھا جو بد خواہوں سے ورغلایا نہیں جا سکتا۔‘‘یہ تو جیتے جی کی بات ہے مبارکہ نے تو اپنے اور حیدر قریشی کے رشتے کے بارے بہت پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ’’رشتہ بہت ہی پکا ہے۔مرنے کے بعد بھی نہ ٹوٹنے والا۔‘‘(فلیپ سے ماخوذ)
یہ حقیقت ہے کہ مبارکہ کے جیتے جی بھی ان کے رشتہ کو توڑنے کی سازش کرنے والے ناکام و نامراد رہے تھے اور اب ان کی وفات کے بعد بھی ایسی کوئی شرارت کرنے والے ناکام و نامراد ہی رہیں گے۔
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘حیدر قریشی اور مبارکہ حیدر کی بحیثیت میاں بیوی 48 سالہ محبت اور رفاقت کی لازوال داستان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔