ارے ! ارے!! ارے!!! کیا کررہے ہو؟ وہی کررہا ہوں بھیا۔۔۔ جو لیلیٰ نے مجنوں کیلئے کیاتھا۔۔۔، رانجھا نے ہیر کیلئے کیاتھا ۔۔۔رومیو نے جولیٹ کیلئے کیا تھا۔۔ سوسائیڈ !۔۔۔ سوسائیڈ!! (فلم شولے سے)
عورت کو پانے کیلئے مرد ناجانے کیا کچھ کرجاتاہے۔ لڑائی جھگڑے خون خرابے یہاں تک کے خودکشی بھی۔
کائنات میں عورت کا وجود ایک مسلم حقیقت ہے۔ عورت کے بغیر یہ کائنات نامکمل ہے اور یہ بھی کہ عورت کے بغیر گھر بھی نامکمل ہے۔ اسی لئے شادی کرنے کو گھر بسانا بھی کہاگیاہے۔ بیوی کو گھروالی، گھر کی زینت، دیہات میں بیوی کو گھر کا کھوٹا بھی کہا جاتا ہے جس سے تمام گھر باندھا جاتاہے۔ اور اگر یہ کھوٹا نہ ہو یا اکھڑ جائے تو گھر کا گھر برباد ہوجاتا ہے اوربے گھر کی طرح رہنے لگتاہے۔ کوئی کہیں جارہاہے تو کوئی کہیں۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ یہ عورت ہی ہے جو نانی، دادی، ماں، بیٹی، بہو، بیوی، بہن اور کئی روپ میں گھروں کو سجا سنوار کرسمبھالے ہوئے ہے۔ جس کیلئے عورت کو کئی ایک قربانیاں بھی دینی پڑھتی ہیں۔ قربانیاں وقت کی، قربانیاں جان کی، قربانیاں مال کی، قربانیاں جسم کی، قربانیاں خواہشات کی، قربانیاں خوشیوں کی، قربانیاں آرزوں اور ارمانوں کی۔ اسی لئے قدرت نے مرد سے زیادہ عورت پر بھروسہ کیاہے۔پھر بھی پتہ نہیں کیوں اکثر مرد عورت سے ناخوش اور نامراد نظر آتاہے۔
بیوی نے بازارجاتے ہوئے شوہر سے کہا ـ’’میں بازار جارہی ہوں دو گھنٹے کیلئے ۔۔آپ کیلئے کچھ لاؤں‘‘ شوہرنے کہا
بس اتنا ہی کافی ہے۔
مرد عورت سے بھاگنا بھی چاہتاہے اور قریب بھی رہنا چاہتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ الگ الگ گھر کے الگ الگ مسائل ہوسکتے ہیں۔ مختلف شوہروں اور مختلف بیویوں کے مختلف مسائل ہوسکتے ہیں۔ کسی انگریزی فلاسفر نے کہا ہے کہ
Wife is a Part of Life, and beeing with wife is a Art of Life.
جس شخص کو عورت کی اہمیت سمجھ آگئی اور اس کے ساتھ جینے کا سلیقہ مل گیا وہ شخص اپنی زندگی کو خوشگوار طریقے سے گذار سکتاہے۔ جس سے ایک اچھے خاندان کی بنیاد پڑھتی ہے، اچھے خاندان سے اچھا معاشرے بنتا ہے۔اور اچھے معاشرے سے دیش اچھا ہوتا ہے۔ جب دیش اچھے ہوجاتے ہیں تو یہ دنیا اچھی ہوجاتی ہے اور یہ دنیا ایک جنت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’’مرد کی تعلیم فرد کی تعلیم، اور عورت کی تعلیم معاشرے کی تعلیم‘‘۔
زیر نظر کتاب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر ‘‘بھی ایک ایسی ہی عورت کی کہانی ہے جس نے ایک اچھے بھلے انسان کو ایک بڑا ادیب بننے میں اپنا اہم کردار نبھایا۔میری مراد حیدر قریشی سے ہے۔جی ہاں یہ وہی حیدرقریشی ہیں جنہوں نے عوامی گیت کو ماہیہ کا درجہ عطا کیا۔ جن کی بدولت ماہیہ آج ایک صنف کی حیثیت رکھتاہے۔ حیدرقریشی نے جہاں ماہیے لکھئے وہیں غزل، نظمیں یادداشت نگاری، خاکہ نگاری، سفر نامہ نگاری کے علاوہ تنقیدی مضامین بھی لکھ کر دنیا ادب میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔ اردو ادب کو پوری دنیا میں روشناس کروایا خصوصا مغربی ممالک میں حیدرقریشی صفحہ اول کے ادیب و صحافی جانے جاتے ہیں۔ حیدرقریشی نے ایک رسالہ ’’جدید ادب‘‘ کا اجرا کیا جو پہلے پاکستان میں شائع ہوتا رہا پھر جرمنی سے شائع ہوا۔ جدید ادب دراصل ایک کتابی سلسلہ رہا جس کے اجرا کیلئے جو مشکلات پیش آئی اور اس میں ان کی اہلیہ ’’مبارکہ حیدر ‘‘کا کیا رول رہا حیدرقریشی کے خاکے ’’پسلی کی ٹیڑ‘‘ کے اس اقتباس سے پتہ چلتاہے۔
’’میں نے کتابی سلسلہ ’’جدید ادب‘‘ جاری کیا۔ اس میں مبارکہ کی تمناؤں کا لہو شامل تھا۔ ہر شمارے کے ساتھ اس کا ایک آدھ زیور بک جاتا۔ اس اللہ کی بندی نے اس دفعہ بھی تکرار نہیں کی۔ جب تک اس کا زیور ساتھ دیتا رہاـ ’’جدید ادب‘‘ جاری رہا۔ زیور ختم تو ’’جدید ادب‘‘ بھی بند ہوگیا۔ میرے اچھے برے ہر طرح کے کاموں میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ کسی نازک موڑ پر آکر اگر ساتھ دینا ممکن نہیں رہا تو اس نے کنارے پر کھڑے ہوکر نظارہ کیا مگر مجھے دباؤ ڈال کر روکنے کی کوشش نہیں کی‘‘ (کتاب ’حیات مبارکہ حیدر ‘ مضمون پسلی کی ٹیڑھ‘ (خاکہ) ص ۱۳)
جہاں اتنا سپورٹ ہو اتنی قربانیاں اور اپنایت ہو ، دونوں میاں بیوی ایک گاڑی کے دو بیل کی طرح ایک دوسرے کے اشارے پر چلتے ہوں منزلیں خود بہ خود آسان ہوتی اور نزدیک چلی آتی ہیں۔ وہیں ایک اچھا معاشرا ، اچھا ادب پروان چرھتا ہے۔ حیدرقریشی کی ادبی دنیا بہت وسیع ہے۔ وہ اپنے یہاں چند شعری مجموعے، چند نثری کاوشیں، چند کتابیاں یا چند یادیں نہیں رکھتے بلکہ ایک پوری ادبی کائنات رکھتے ہیں۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Haider_Qureshi ، http://my27books.blogspot.com/، https://issuu.com/haiderqureshi/docs، اس لنک پر حیدقریشی کی تمام ادبی کاوشیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یا http://my27books.blogspot.com/ پر کتابیں ڈاونلوڈ کی جاسکتی ہیں۔
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ حیدرقریشی کی ترتیب دی گئی 256 صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ جس کے پہلے صٖفحہ 1تا 96’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ مرتب شعیب حیدر (مکمل کتاب) ہے۔ بقیہ 97تا 256 مذکورہ کتاب پر لکھئے گئے مضامین و تبصرے ہیں۔ یہ دونوں کو ملا کر حیدرقریشی نے بڑے دلکش انداز میں ایک نئی کتاب ترتیب دی ہے۔ اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ دوسرے حصے کومزید چار حصے کئے گئے ہیں جو اس طرح ہیں۔ ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ پر لکھے گئے تبصرے: تاثرات اور مضامین، وفات کی خبر اور تعزیتی پیغامات، جذبات واحساسات، یادیں ہی یادیں، دوسرے حصے میں جملہ 44مشمولات شامل ہیں۔ اس میں کہیں منظوم تاثرات ہیں، تو کہیں انتقال پر اظہار افسوس، کہیں تعزیتی پیغام ہے تو کہیں خاندان کے لوگوں کے جذبات و احساسات۔
’’ہماری امی‘‘کتاب پر ڈاکٹر انور سدید کے اظہار خیال سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ایک مشرقی عورت ہونے کے ناتے مبارکہ بیگم کے بے لوث محبت کے عمل نے حیدرقریشی کو سرشار رکھا اور انہوں نے جب بھی قلم اٹھایا تو موقع اور محل کے مطابق اپنی بیگم کا ذکر اس سلیقے سے کیا کہ مبارکہ بیگم کا کردار مثبت خطوط پر ابھرتا چلا گیا اور حیدرقریشی بھی اس الزام کی زد میں نہ آسکے کہ وہ جورو کے غلام ہیں۔ اس کی مثال ان کا خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ ہے جو ڈاکٹر وزیر آغا کے رسالہ ’’اوراق‘‘ میں شائع ہوا تھا تو حیدرقریشی نے اسے اپنی اہلیہ کی یادوں سے ہی سجایا تھا اور انہیں بیوی کی بجائے ایسے مخلص ترین دوست کا درجہ دیا تھا جو بدخواہوں سے ورغلایا نہیں جاسکتا۔ اب یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ یہ کتاب حیدرقریشی کی تحریروں سے مرصع کی گئی ہے اور وہی اس کے بنیادی اور اولین مصنف ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ ’’ہماری امی‘‘ اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس کی ترتیب و تدوین پر حیدرقریشی کے بچے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ سرورق پر مبارکہ حیدر کی تصویر ہے۔ یہ تصویر ان کی اپنی ہے لیکن سر پر ٹوپی حیدرقریشی کی ہے جو ان کے ’’سرتاج‘‘ ہیں۔ (ڈاکٹر انور سدید)
پروفیسر عبدالرب استاد کے منظوم اظہار تعزیت کے چند شعر ملاحظہ کریں جو کتاب کے بیاک کور پر دیاگیاہے۔
حیدر کے گھر میں ایک مبارک وجود تھا
ہر سمت جس سے نورِ ولا کا ورود تھا
اپنے ہوں یا کہ غیر، سبھی کے قریب تھا
وہ اک وجود سب کے لئے باسعود تھا
رشتوں کے سارے تار یہاں جھنجھناتے تھے
ان سب کو باندھ رکھے وہ ایسا سرود تھا
حیدر تو اپنی ذات میں بے مثل ہے مگر
بچھڑے ہوئے وجود میں گویا قیود تھا
ماہِ صیام، عشرۃ آخر کی پہلی رات
جنت کے در پہ جاکے وہ گویا شہود تھا
کتاب کا انتساب ’’مبارکہ کے نام ‘‘ہے۔ اور ایک شعر بھی پیش کیاگیاہے۔
اک زخم کہ سب زخم بھلاڈالے ہیں جس نے
اک غم کہ جو تا عمر بلوانے کے لیے ہے
اگلے صفحے پر ایک شعر
ہم نے ترے غم میں کوئی مالا نہیں پہنی
سینہ ہی دمکتے ہوئے زخموں کی لڑی ہے
پیش کیاگیاہے۔
فہرست کے بعد ایک ماہیہ جو کہ مبارکہ حیدر کے سانحہ ارتحال کے بعد والی حیدرقریشی کی کیفیت کو درشاتاہے۔
نہیں، ہم نہیں روئے تھے
چاند کی کرنوں میں
کچھ موتی پروئے تھے
بہرحال ایم ایم پبلی کیشن دہلی سے مع آئی ایس بی این، چھپی یہ کتاب جس کی قیمت صرف دو سو روپئے ہے قابل پڑھ ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے بہت سارے سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں، ادب کیا چیز ہے۔ زندگی کیاہے۔ پیار کیا ہے۔ محبت کس چڑیا کا نام ہے۔ رشتے کیا ہیں۔ اور اس کو کیسے نبھا یا جاتاہے۔ اچھا ادب اور اچھا معاشرہ کیسے پروان چڑھتاہے۔ بہت سارے سوالوں کے جواب اس کتاب میں مل سکتے ہیں۔محبان ادب و محبان حیدرقریشی سے امید کرتاہوں کہ اس کتاب کو ضرورپڑھیں گے۔ اور اس کتاب پراپنے تاثرات پیش کریں گے۔