اس شام جامعہ مظفر آباد میں مشاعرہ تھا اور ہم سب دوست ہال کے باہر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔جہاں احمد عطأ اللہ ہوں وہاں گرمی سردی کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور اس شام بھی گرمی اپنے پر سمیٹے احمد عطأ اللہ کے قہقہوں میں کھوئی ہوئی تھی۔اس منظر میں اچانک ایک پروفیسر صاحب وارد ہوئے اور آتے ہی انھوں نے شعرا پر ایک جملہ کچھ اس ادا سے پھینکا کہ سب کو گھائل کر دیا۔وہ اسی پر اکتفا کر لیتے تو شاید شام کچھ خوش گوار ہو جاتی مگر ان کے ترکش میں ابھی کچھ اور بھی تیر باقی تھی۔مشاعرہ جب اپنے عروج پر پہنچا تو موصوف سٹیج پر تشریف لائے ۔وہ شاعر تو تھے نہیں کہ غزل سناتے مگر سٹیج پر آنے کا شوق جو لاحق تھا ،سو آئے اور اپنی گرہ سے ایک لطیفہ نکالا اور مشاعرے کو درہم برہم کر دیا۔میں اور احمد عطأ اللہ وہاں سے نکلے اور گھر پہنچ کر دم لیا۔
اس واقعے کا بظاہر اس کتاب سے کوئی تعلق نہیں جو اس وقت میرے پیش ِ نظر ہے مگر محترم حیدر قریشی کی یہ کتاب جب معرض ِ وصول میں آئی تو مجھے وہ پروفیسر صاحب بہت یاد آئے ۔انھوں نے اپنے گھر کی تلخی اور بیوی سے کشیدہ تعلقات کو ایک شاعر پر چسپاں کر کے لطیفے کا رنگ دیا تھا لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حضور اپنے گھر کی بات گھر ہی تک رہنے دیتے تو اچھا تھا۔یہ تو خیر ایک ایسے شخص کا واقعہ ہے جس کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا تھا لیکن بیوی سے متعلق لطائف اس کثیر تعداد میں سنے سنائے جا رہے ہیں کہ توبہ۔
ایسے میں حیدر قریشی کی کتاب کا منظر ِ عام پر آنا یقیناایک انوکھا واقعہ ہے ۔بقولِ ڈاکٹر افتخار مغل:
کہیں کہیں پہ محبت بھی کر رہے ہیں لوگ
کہیں کہیں پہ کوئی گھر بھی ہے مکانوں میں
ڈاکٹر افتخار مغل صاحب کا شعر یاد آیا تو معاً در ِ دل پر ایک اور شعر نے دستک دی ۔افتخار عارف صاحب یہ شعر کئی بار سنا ہے لیکن حیدر قریشی صاحب کی کتاب ہاتھ میں آئی تو یہ شعر ایک نیا تناظر لیے سامنے آیا :
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
اب یہ کھلا کہ کوئی مکان اس وقت گھر بنتا ہے جب اس میں محبت کے دیے جل رہے ہوں۔حیدر قریشی کی کتاب کے سرِ ورق پر سجی ہوئی تصاویر دیکھ کر وہ گھر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جہاں محبت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔اچھا ہوا یہ کتاب شائع ہو گئی ،بہت ممکن ہے اس کتاب کی وجہ سے کئی گھروں کی تلخیاں ختم ہو جائیں۔احمد عطأ اللہ کا شعر ہے:
آ جاتا ہے خط سال میں اک بار کسی کا
اور گھر میں کئی ماہ کی تلخی نہیں رہتی
حیدر قریشی سے میرا تعلق اردو ماہیے کا مرہون ِ منت ہے۔ماہیا بنیادی طور پر عشق و محبت کی واردات کے بے ساختہ اظہار کا وسیلہ ہے۔ماہیا دل سے پھوٹتا ہے اور دل میں گھر کر لیتا ہے۔اب یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ حیدر قریشی کا ماہیے سے جو رشتہ ہے اس کے عقب میں کون سا جذبہ کار فرما ہے،یعنی محبت ہی محبت۔۔۔۔۔۔۔
یہی نہیں ،حیدر قریشی کی شاعری ،افسانے،خاکے اور مضامین بھی محبت سے لبریز ہوتے ہیں۔’’حیات ِ مبارکہ حیدر‘‘کتاب نہیں بلکہ ایک ہوک ہے جو ایک گھائل دل سے نکلی ہے اور سارے میں پھیل گئی ہے۔بھابھی مبارکہ حیدر کی زندگی میںخاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘لکھا گیا تھا ،اب اس کا دوسرا حصہ بھی حیدر قریشی نے آنسوؤں کی لَو میں لکھ دیا ہے جو اس کتاب میں شامل ہے۔
کتاب دیکھتا ہوں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے اور اس حیرت کی کئی وجوہات ہیں۔مثلاً یہ کہ بیوی پر کتنا لکھا جا سکتا ہے۔ایک دو خاکے ،ایک دو نظمیں اور بس لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔مجھے جب یہ پتا چلا کہ حیدر قریشی اپنی مرحوم بیوی پر کتاب لکھ رہے ہیں تو میں یہی سوچ رہا تھا کہ ایک پوری کتاب کیسے لکھی جا سکتی ہے۔اب جو کتاب ملی تو میری حیرت پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے۔وہ سینہ جو دمکتے ہوئے زخموں کی لڑی ہے ،اس سے اٹھی ہوئی ہوک چاند کی کرنوں میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح لفظ لفظ روشن ہوئی جا رہی ہے اورمیں اس ہوک کی شدتوں میں کھو گیا ہوں۔
کتاب کے مشمولات پر کیا بات کی جائے کہ عائشہ الیاس نے میری کتاب’’صفحہ ٔ خاک ‘‘پر مضمون لکھا تو اختتام اس جملے پر کیا کہ غموں پر تبصرہ نہیں کیا جاتا۔مجھے عائشہ کی یہ بات بہت اچھی لگی اور اس کے اس جملے کی خوشبو ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے۔مجھے بھی حیدر قریشی کے غموں پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا مگر اتنا ضرور کہنا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جنھیں ہم کبھی اہمیت نہیں دیتے ،حیدر قریشی نے انھیں بھی کتاب کا حصہ بنا دیا ہے۔مبارکہ حیدر کی وفات کے بعد یہی چھوٹی چھوٹی باتیں کتنی اہمیت اختیار کر گئی ہیں اس کا اندازہ کتاب پڑھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔
حیدر قریشی کی تحریروں میں مافوق الفطرت عناصر کا ہونا مجھے اکثر ایک اور منطقے میں لے جاتا ہے۔وہ جب بھی معلوم سے آگے بڑھتے ہیں تو ان کی تحریروں کی جاذبیت اور بھی نکھر جاتی ہے۔اس کتاب میں ایسے کئی واقعات درج ہیں جن کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔یہ کتاب دراصل ایک ایسا مرقع ہے جس میں ماضی کی وہ تصویریں ہیں جن کی دل کشی دیدنی ہے۔حیرت ہے کہ حیدر قریشی لکھے ہوئے کسی لفظ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔مبارکہ حیدر کے بارے میں جس نے جو بھی لکھا ، جو بھی کہا وہ اس کتاب میں موجود ہے ۔واقعی یہ کتاب نہیں دل سے نکلی ہوئی وہ ہوک ہے جو سارے میں پھیل گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔