باربرا ٹک مین 1912ء میں پیدا ہوئی اور 1989ء میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس نے بجلی یا ریڈیو قسم کی کوئی حیرت انگیز ایجاد نہیں کی ،نہ کوئی اور ایسا کارنامہ انجام دیا جو اس کا نام نصاب کی کتابوں میں داخل کروادیتا۔ وہ تاریخ کی پروفیسر تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پڑھاتی رہی۔ امریکی نیوی کے وارکالج میں بھی لیکچر دیتی رہی۔ ان اداروں میں لاتعداد پروفیسر پڑھاتے رہے۔ وہ بھی ان میں سے ایک تھی۔
لیکن ایک کارنامہ باربراٹک مین نے ایسا سرانجام دیا کہ عقل و دانش کی وادیوں میں سفر کرنے والے اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ فلسفۂ تاریخ میں اس نے ایک نظریہ پیش کیا جو حیرت انگیز طورپر ماضی میں بھی سچ ثابت ہوتا رہا، آج بھی ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ باربرا کی مشہور تصنیف ’’دی مارچ آف فولی‘‘ (حماقتوں کا مارچ) میں یہ نظریہ مثالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ ہرزمانے میں اور ہر جگہ حکومتوں کی پالیسیاں خودکُش رہی ہیں۔ حکومتیں ایسی پالیسیاں بناتی اور چلاتی ہیں جو ان کے مفاد کے خلاف ہوتی ہیں۔ وہی لوگ جوحکومت میں احمقانہ فیصلے صادر کرتے ہیں، اپنی نجی زندگی میں ہرفیصلہ عقل مندی سے کرتے ہیں۔ وہ اپنا کارخانہ یا جاگیر سمجھ بوجھ سے چلاتے ہیں۔ اپنے بچوں کی شادیاں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ اپنے گھروں کو کمال دانش مندی اور احتیاط سے چلاتے ہیں۔ لیکن جب حکومتی فیصلے کرتے ہیں تو عقلمندی اور دوراندیشی کو باہر بٹھا دیتے ہیں۔ باربرا عقل مندی (وزڈم) کی تعریف یوں کرتی ہے کہ فیصلہ تین بنیادوں پر کیا جائے: تجربہ، کامن سینس اور میسر اطلاعات اور اعدادوشمار ۔ حکومتیں فیصلے ان تینوں کی بنیاد پر نہیں کرتیں۔
ایک حکومت کی پالیسی کو نقصان دہ اس وقت کہا جائے گا جب وہ تین شرائط پوری کررہی ہوگی۔ اول‘ اس پالیسی کو اس وقت بھی غلط قرار دیا جائے جب یہ بنائی اور نافذ کی جارہی ہو۔ یہ نہیں کہ سالہا سال بعد اسے غلط کہا جائے۔ دوم‘ اس پالیسی کا متبادل بھی موجود ہو۔ یہ نہ کہا جاسکتا ہو کہ اس پالیسی کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ سوم‘ یہ پالیسی پورے گروہ نے بنائی ہو، ایک شخص کا فیصلہ نہ ہو۔
باربرا کے نظریہ کا پاکستان پر بدرجہ اتم اطلاق ہوتا ہے۔ آپ پیپلزپارٹی کی حالیہ حکومت کی ’’کارکردگی ‘‘ کا جائزہ لے لیجیے۔ احمق سے احمق شخص کو بھی معلوم ہو رہا تھا کہ پالیسیاں پارٹی کے لیے اور ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔ چلیے‘ پیپلز پارٹی کو چھوڑیے کہ وہ مرفوع القلم ہے اور اُس کی ’’عقل مندی‘‘ اور ’’سنجیدگی‘‘ محتاجِ بیان ہی نہیں! دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی خودکُش پالیسیاں اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مسلسل ایسے فیصلے کیے جوان کے اپنے مفاد کے خلاف تھے۔ اے این پی کا یہ فیصلہ دیکھ لیجیے کہ صوبے کا نام خیبر پختونخوا ہوگا۔ یہ ایک بیج تھا جو اس پارٹی نے بویا اور اس کے درخت پر صوبے کی تقسیم کا ثمر لگے گا۔ پارٹی نے صوبے کے ان تمام باشندوں سے پنگا لے لیا جو نسلاً پختون نہیں ہیں۔ ہزارہ صوبہ محض آغاز ہے۔ اسے موخر تو کیا جاسکتا ہے، روکا نہیں جاسکتا اور تو اور قبائلی علاقے جو پختون ہیں ابھی سے الگ صوبے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
مسلم لیگ نون نے پے درپے ایسی پالیسیاں اپنائیں جو اس کے مفاد کے خلاف تھیں۔ میاں صاحبان نے پوری قاف لیگ کو اپنی آغوش میں لے لیا لیکن چودھریوں سے مخالفت جاری رکھی حالانکہ دوسروں کا قصور چودھریوں سے کم نہیں تھا۔ وہ دوسروں کو ’’مشرف کی باقیات‘‘ کا طعنہ دیتے رہے اور یہ نہ سوچا کہ خلق خدا ہنسے گی۔ ایک اور مثال۔ ملکی میڈیا کے غالب حصے نے میاں صاحبان کو سمجھانے کی کوشش اور مسلسل کوشش کی کہ وہ ایک ہی شہر پر سارے وسائل نہ صرف کریں اور اپنے آپ کو پورے صوبے کا والی سمجھیں لیکن ان کے محدو د وژن نے ادراک ہی نہ کیا۔ آج اگر کچھ ایسے لوگ ان کے ساتھ ہیں جنہوں نے ہر حال میں منتخب ہونا ہے اور جنہیں ELECTABLESکہا جارہا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صوبے کے عوام نے ان کی خودکُش پالیسیاں فراموش کردی ہیں۔ یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے، سوائے ان حضرات کے جن کی دنیا رائے ونڈ سے شروع ہوتی ہے اور سیالکوٹ پر ختم ہوجاتی ہے کہ بہاولپور، ڈی جی خان، لودھراں، میانوالی، اٹک، تلہ گنگ، چکوال ، جھنگ، راولپنڈی ، پنڈی گھیب ، جہلم اور دوسرے دورافتادہ علاقوں کے عوام کو اس سرگرمی میں آخر کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جو پانچ سال تک ایک ہی شہر میں دکھائی جاتی رہی! بیس وزارتوں کو اپنی جیب میں ڈالنا بھی خودکش جیکٹ پہننے سے کم نہ تھا۔ اس کے بجائے بیس دیانت دار اور محنتی وزیر مختلف اضلاع سے لیے جاتے تو آج لوگ ایک بڑی ٹیم کو یادکررہے ہوتے اور ترقی کے ثمرات اپنی دہلیزوں پر دیکھ رہے ہوتے! لیکن جہاں وژن اتنا ’’وسیع‘‘ ہوکہ کمانڈر انچیف چننا ہو یا نگران وزیراعلیٰ ، نظراپنی برادری سے نہ ہٹے، وہاں پارٹی کے مفاد کو کون دیکھے گا۔
ایم کیوایم کا جنرل پرویز مشرف کی حمایت کا حالیہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اس سے پارٹی کو بے پناہ نقصان پہنچے گا۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت پرویز مشرف سے شدید نفرت کرتی ہے اور اکثریت میں ہرطبقہ شامل ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھیوں سے بھی عوام نفرت کرتے ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کی باقیات کو گلے لگایا ہے انہوں نے اپنے پیروں پر کلہاڑیاں ماری ہیں لیکن انہوں نے ایک عقل مندی دکھائی کہ پرویز مشرف کو نزدیک نہیں لگنے دیا۔ یہ سب سے بڑی کلہاڑی اگر ایم کیوایم نے اٹھالی ہے تو اس کا پائوں شدید زخمی ہوجائے گا۔ ایم کیوایم کو سوچنا چاہیے کہ پرویز مشرف کو الیکشن میں کامیاب کرانے کے لیے اگر اس نے کوئی کردار ادا کیا تو عوام کی اکثریت اسے شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گی اور ایک خاص چھاپ اپنے اوپر سے ہٹانے کی جو کوشش ایم کیوایم کررہی ہے، اسے نقصان پہنچے گا۔
پرویز مشرف کا ذکر آیا ہے تو اس کے عجیب وغریب بیانات پر بھی بات ہوجائے۔ کئی براعظموں میں شاہانہ زندگی گزار کر واپس آنے والا یہ شخص دُہائی دے رہا ہے کہ ملک تباہ ہوگیا ہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت نے پانچ سال میں بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اس ملک میں ایک عجیب و غریب فیشن ہے کہ نتیجہ سب دیکھتے ہیں، سبب کوئی نہیں دیکھتا۔ ضیاء الحق نے جوکچھ کیا، اس میں پیپلزپارٹی کا بھی حصہ تھا۔ یہ الگ بات کہ آج تک پیپلزپارٹی نے قوم سے معافی نہیں مانگی کہ اس نے میرٹ کو قتل کرکے ضیاء الحق کو سپہ سالار بنایا تھا۔ پرویز مشرف کو لہوولعب اور ہائوہو کے پاتال سے اٹھا کر اقتدار کی چوٹی پر مسلم لیگ نون کی قیادت نے بٹھایا تھا۔ آج مسلم لیگ نون کے طرفدار مشرف کے سیاہ کارناموں پر اثر انگیز مضامین رقم کرتے ہیں لیکن یہ اعتراف نہیں کرتے کہ میرٹ کو قتل کرکے ایک غیرسنجیدہ اور عیاش طبع انسان کو چننا بہت بڑی غلطی تھی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی حالیہ حکومت کو این آراو نے جنم دیا اور اس ولادت میں دائی کے فرائض پرویز مشرف نے انجام دیے ، بیسیوں کرپٹ، بھاگے ہوئے افراد کو این آراو کے حمام میں نہلا کر نئی پوشاکیں پہنائی گئیں اور اختیارات دے کر مسندوں پر بٹھادیا گیا۔ وہ پانچ سال تک خزانے کو لوٹتے رہے اور وطن کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔ آج پرویز مشرف کس منہ سے ان پر الزام لگارہا ہے ؟؟ بات یہ ہے کہ چہرے سے حیا کی باریک تہہ اتر جائے تو عزت نفس ختم ہوجاتی ہے۔ پرویز مشرف کروڑوں اربوں روپے کی (جائز؟) دولت کے ساتھ سب کچھ خرید سکتا ہے‘ عزت نفس نہیں خرید سکتا!
http://columns.izharulhaq.net/2013_04_01_archive.html
“