مِرے بدن پہ ترے وصل کے گلاب لگے
یہ میری آنکھوں میں کس رُت میں کیسے خواب لگے
مجھے یقین نہیں آرہا۔
میں عالم برزخ میں ہوں،
عالم خواب میں ہوں،
یا عالم حقیقت میں ہوں؟
”غالباً میں عالم حقیقت میں ہوں“ کسی وہم کی طرح مجھے یقین ہوجاتاہے اور میں اٹھ کر بیٹھ جاتاہوں۔ تھوڑی دیر بیٹھا رہتاہوں پھر اٹھ کر کھڑاہوجاتاہوں۔
۔۔۔۔۔میرا مستقبل میرے داہنے ہاتھ پر اور میرا ماضی میرے بائیں ہاتھ پر ہمیشہ رقم رہتاتھااور میں اپنے ماضی اور مستقبل کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ حال میں رواں رہتاتھا۔ مگر اب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی تحریر پڑھنا چاہی تو مجھے وہاں چاروں طرف دھند چھائی ہوئی نظر آئی۔ میں نے اپنے بائیں ہاتھ کی تحریر پڑھنا چاہی تووہاں دھواں دھواں فضاؤں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔۔۔ بے چارگی کے احساس کے ساتھ میں نے اپنے حال کی طرف دیکھنا چاہا تو مستقبل کی ساری دھند میری آنکھوں میں اُترآئی اور ماضی کا سارا دھواں میرے چاروں طرف رقص کرنے لگا۔ اس عذاب ناک حالت میں مجھے بچپن کی وہ دعائیں بھی بھول گئیں جو میری ماں نے مجھے یاد کرائی تھیں۔ لیکن میں مایوس نہیں ہوا۔ آخر دھوئیں کا رقص دھواں ہونے لگا۔ روشنی کی ایک لکیر ابھری اور ابھرتی چلی گئی،
”الم ترکیف فعل ربک با اصحاب الفیل“
۔۔۔۔دھند میری آنکھوں سے چھٹنے لگی اور دھواں دور ہٹنے لگا۔ مجھے اصحاب فیل کا انجام یاد آیاجو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ہوگئے تھے۔ میں نے اپنے سامنے بکھرے ہوئے ایٹم بم کاشکار ہونے والے منظر کو دیکھا اور مجھے اصحاب فیل کی خوش قسمتی پر رشک آنے لگاجو صرف کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کردیئے گئے تھے۔
۔۔۔۔عالمگیر ایٹمی جنگ ہوچکی ہے اور میں پتہ نہیں کیسے زندہ بچ گیاہوں۔ میرے چاروں طرف اس بھیانک جنگ کے اندھیرے پھیلے ہوئے ہیں۔ مجھے ان اندھیروں سے نکلنے کے لئے روشنی درکارہے۔ اور تب ہی جس قوت نے مجھے اس جنگ میں بھی زندہ رکھاتھا۔ مجھے روشنی عطاکرنی شروع کردی۔ روشنی کی جو لکیر پہلے ابھری تھی وہ اب ایک روشن ہالے کی شکل اختیارکرگئی ہے اور مجھ پر کرن کرن اتر رہی ہے،
”تجھے کیا معلوم ہے کہ حطم(ایٹم)کیاشے ہے؟ یہ اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جاپہنچے گی تاکہ اس کی گرمی ان کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو“
”دنیاپر ایک شدید مصیبت آنے والی ہے اور تجھے کیا معلوم ہے کہ وہ مصیبت کیسی ہے؟ اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اے مخاطب! تجھے کیامعلوم ہے کہ یہ عظیم الشان مصیبت کیاچیز ہے؟ یہ مصیبت جب آئے گی تو اس وقت لوگ پراگندہ پروانوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ اس پشم کی مانند ہوجائیں گے جو دھنکی ہوتی ہے۔“
”جب زمین کو پوری طرح ہلادیاجائے گا۔اور زمین اپنے بوجھ نکال کرپھینک دے گی اور انسان کہہ اٹھے گاکہ اسے کیاہوگیاہے؟“
مجھے یادآتاہے کہ میں ایک پہاڑی علاقہ میں ٹھہراہواتھا جب ایٹمی جنگ چشم زدن میں چھڑ گئی تھی مگر اب کہیں بھی کوئی پہاڑ نظر نہیں آرہا۔ میں خود ہی حیرت سے پکاراٹھتا ہوں“ یہ کیا ہوگیاہے؟“ اور قرآن کی صداقت کاایک گواہ بن جاتاہوں۔
۔۔۔۔۔مجھے یاد آتاہے۔دو بڑی قوتیں ساری دنیاپرپھیل رہی تھیں۔ ان میں مشرقی قوت کا جال زیادہ پھیلاہواتھالیکن مغربی قوت بھی کم نہ تھی۔ عجیب عجیب نعرے تھے۔ عجیب عجیب نظریات تھے۔دونوں ہی انسانیت کی فلاح کی باتیںکرتے تھے اور اب دونوں ہی انسانیت کی تباہی کا موجب ہوگئے تھے جنگ کی ابتدا مشرقی وسطیٰ سے ہوئی تھی۔ وہاں کی تیل کی دولت۔ جسے دونوں بڑی قوتیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی تھیں۔ پھر کیاہوا؟۔۔ مجھے واقعات کا علم نہیں۔ لیکن روشنی کا جو ہالہ مجھ پر کرن کرن اتر رہاہے وہ مجھے بتانے لگتاہے۔ اس کا اپنا انداز بیان ہے۔
”خداوند کہتاہے کہ میں نے اپنی غیرت سے اور قہر کی آتش سے کہا یقینااسی دن اسرائیل کی سرزمین میں ایک زلزلہ ہوگا۔ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور زمین کے چرندے اورسارے کیڑے مکوڑے جو زمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور سارے انسان جو روئے زمین پر ہیں چمیرے سامنے تھرتھراجائیں گے اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے اور کڑاڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی ایک شدت کا مینہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤں گا۔ اسی طرح میں اپنی بزرگی اور تقدیس کراؤں گا اور بہتیری قوموں کی نظروں میں پہچاناجاؤں گا اور وہ جانیں گے کہ خداوند میں ہوں“
”دیکھ میں ترامخالف ہوں اے جوج روش اور مسک اور تو بال کے سردار! میں تجھے پلٹ دوں گا اور میں تجھے ہر قسم کے شکاری پرندوں اور میدان کے درندوں کو خوراک کے لئے دوں گا۔تو کھلے ہوئے میدان میں گرپڑے گا اور میں ماجوج پر اور ان پر جوجزیروں میں بے پروائی سے سکونت کرتے ہیں ایک آگ بھیجوں گا اور آگے کو میں ہونے نہ دوں گا کہ وہ میرے پاک نام کو بے حرمت کریں“
”اور دنیامیں ایک حشر برپاہوجائے گا اور وہ اول الحشر ہوگااور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت و خون ہوگاکہ زمین خون سے بھرجائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایابھی آپس میں خوفناک لڑائی لڑے گی۔ ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور ان تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا“
”اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتاہوں اور آبادیوں کو ویران پاتاہوں“
۔۔۔۔۔۔میں خدا کی بزرگی اور تقدیس کااقرار اور اپنے عجزکا اعتراف کرتاہوں۔ روشنی کی کرنیں میرے جسم پر تو اُتر رہی ہیں مگر روح تک نہیں پہنچ پاتیں۔ شاید اسی وجہ سے میں صرف اپنے ماضی کی تحریریں ہی پڑھ سکاہوں۔ مستقبل کی تحریروں کی یاتو زبان بدل گئی ہے یااُنہیں پڑھنے کی میری قوت سلب ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔ایٹمی جنگ نے آدم کی نسل کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیاہے اور اب ابن آدم ہونے کے ناطے اس وقت مجھے اپنا سب سے پہلا فریضہ یہ معلوم ہوتاہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو آدم کی نسل کو اس دھرتی پر قائم رکھاجائے۔ شاید میں اس نئے عہد کا آدم ہوں۔
مگر نئی حوا۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔میں خدا کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے نئی حوا کی تلاش کے سفر پر روانہ ہوتاہوں راستے میں تباہیوں کے کئی بھیانک منظر آتے ہیں۔ روشنی کا وہ ہالہ میرے ساتھ ہے اور اب بھی کرن کرن میرے جسم پر اتررہاہے۔ میرا نامعلوم اور اَن دیکھا سفر جاری ہے۔ ایک جگہ تو تباہی کا ایسا منظر آتاہے جیسے یہاں ایک دم بیسیوں ایٹم بم گرادیئے گئے ہوں میں خوف زدہ ہوجاتاہوں۔ اور اس منظر سے چھپنے کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلیتاہوں۔
تب ہی روشنی کے ہالے کی کرنیں میری آنکھیں کھول دیتی ہیں،
۔۔۔۔۔”کیا یہ زمین میں نہیںپھرے کہ دیکھتے کہ ان سے پہلوں کا کیاانجام ہوا؟وہ ملک میںان سے تعداد اور طاقت میں بھی زیادہ تھے اورعمارت وغیرہ کے فنون میں بھی زیادہ ماہر تھے۔ لیکن ان کے اعمال نے ان کو کوئی نفع نہیں دیا تھا۔ اور جب ان کے پاس ان کے رسول نشانات لے کر آئے تو ان کے پاس جو تھوڑا بہت علم تھا اس پر فخر کرنے لگے اور جس عذاب کی ہنسی اُڑاتے تھے اسی نے ان کو گھیر لیا۔ پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھاتو کہہ اٹھے ہم تو اللہ کو ایک قرار دیتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ جن چیزوں کو ہم شریک قرار دیاکرتے تھے ان کا ہم انکار کرتے ہیں۔ پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ یہی اللہ کی مقررہ سنّت ہے جو اس کے بندوں میں جاری چلی آتی ہے“۔
۔۔۔۔۔میں تہیہ کرتاہوں کہ مجھ آدم سے جو نسل چلے گی اسے میں ان صحیفوں کی تعلیمات کے مطابق خود تربیت دوں گا اورمیری نسل شیطان کے چنگل میں دوبارہ اس طرح نہیں آئے گی کہ خدا کے عذاب کا شکار ہوجائے۔ نسل کی تربیت کے احساس کے ساتھ اپنے جیون ساتھی کی تلاش کا خیال پھر شدت سے ابھرتاہے۔ میرے لئے اب رات یا دن کی کوئی اہمیت نہیں اس لئے کہ روشنی کاہالہ اگر میرے ساتھ نہ ہوتو میرا دن بھی تاریک ہوجائے۔ جب بھی کہیں تھکن کااحساس ہوتاہے ٹھہرجاتاہوں، سستالیتاہوں۔ شاید نیند بھی کرلیتاہوں یا صرف اونگھ لیتاہوں۔ میں بدترین تباہی کے اس علاقہ سے تیزی سے نکلنے لگتاہوں پتہ نہیں ان دہشت ناک مناظر کے خوف سے یا جیون ساتھی کی تلاش کے خیال سے جو پہلے سے زیادہ شدید ہوگیاہے۔
۔۔۔۔۔۔جب میں اس علاقہ سے باہر آتاہوں تو مجھے پہلی دفعہ احساس ہوتاہے کہ میں نے کئی دنوں کی مسلسل مسافت کے باوجود کچھ کھایاپیابھی نہیں۔ بھوک کا احساس بیدا رہوجائے تو اسے سلانا مشکل ہوجاتاہے۔ بھوک کا احساس میرے جسم کے ساتھ ذہن اور روح پر بھی تھکن طاری کرنے لگتاہے۔
۔۔۔۔۔میں چل رہاہوں مگر مجھ سے چلانہیں جاتا۔ میرا وجود شل ہونے لگتاہے۔ میں اپنی بے بسی کے اقرار کے ساتھ خدا کی عظمت اور بزرگی کااقرار کرکے اس کی تسبیح اور تحمید کرتاہوں۔ تب ہی روشنی کے اس ہالے سے ایک کرن میرے جسم پر کسی تیر کی طرح اترتی ہے اور مجھ پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے،
۔۔۔۔”کیا انسان کو معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو ایک حقیر قطرہ سے پیداکیاہے۔ پھر وہ سخت جھگڑالو بن جاتاہے اور ہماری ہستی کے متعلق باتیں بنانے لگ جاتاہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتاہے۔“
میں خدا کے جلال کے آگے جھک جاتاہوں۔ لبوں سے یا دل سے کوئی دعانہیں نکلتی۔ آنکھوں میں آنسوؤں کی ایک جھڑی ہے جو تسبیح کے دانوں کی طرح ٹوٹ ٹو ٹ کر گر رہی ہے۔۔ یہ آنسو اپنی بے بسی اور خدا کی عظمت کا خاموش اقرار ہیں۔
۔۔۔میں کتنی دیر تک اسی کیفیت میں سر بسجود رہتاہوں جب دل کا بوجھ کسی حدتک اترجاتاہے تو سجدے سے سر اٹھاتاہوں۔ بھوک کی شدت میں بڑی حد تک کمی ہوگئی ہے اور تھکن کا احساس بھی ایک حد تک زائل ہوگیاہے۔ میں پھر اپنے سفر پر روانہ ہوتاہوں۔ چلتے چلتے مجھے دور کہیں ہریالی کا گمان ہوتاہے۔ میں بے ترتیب راستوں سے اس سمت چل پڑتاہوں۔
یہ تو کوئی خاصا زرخیز علاقہ ہے۔ دور دورتک ہرے بھرے کھیت ہیں اور کھیتوں کے ساتھ ہی ایک خوبصورت ساباغ بھی ہے۔ باغ بڑے جدید انداز میں آراستہ ہے۔ درمیان میں ایک خوبصورت فوارہ بھی لگاہواہے۔ اس خوبصورت باغ میں پہنچ کر تھکن تو دور ہوگئی مگر بھوک نے مزید شدت اختیارکرلی لیکن فوارے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھلیاں دیکھ کر میں ٹھٹھک گیاہوں۔
کھیتوں کے ہرے بھرے راستے سے لے کر اس باغ تک مجھے کوئی ذی روح نظر نہیں آیاتھا۔
ذہن پر زور دیتاہوں تو یا دآتاہے راستے میں کچھ جانور مَرے پڑے تھے۔ مگر چونکہ میں اس سے زیادہ بھیانک تباہیوں سے گذر کرآیاتھا اس لئے میں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی تھی۔ اب مجھے اندازہ ہوتاہے کہ اس علاقہ پر زہریلی گیس کے بم پھینکے گئے تھے۔ تمام ذی روح مرچکے ہیں اور ساری فصلیں اور پھل زہریلے ہوچکے ہیں۔
روشنی کا وہ ہالہ بدستور اپنی کرنیں میرے جسم پر اتاررہاہے۔ میں عجب گومگو کی حالت میں ہوں۔ بھوک اب اتنی شدت اختیارکرچکی ہے کہ مجھے لگتاہے اگر میں نے کچھ نہ کھایاتو موت سے نہیں بچ پاؤں گا۔ مگرسارے پھل زہریلے ہوچکے ہیں۔
”مرناہی ہے تو بھوکے پیٹ کیوں مراجائے“ یہ سوچ کر بالآخر میں نے پھلوں کو توڑ توڑ کر کھانا شروع کردیاہے۔ مجھے کچھ ہوش نہیں میں کب تک پھل توڑکر کھاتارہاہوں۔ ہوش تب آیا جب میں فوارے کا زہریلاپانی پی کر باہر آیا۔
اب میں اطمینان سے اپنی موت کا منتظر ہوں۔ مگر مجھے تو حیرت انگیز طورپراپنے اندرتوانائی کا احساس ہونے لگتاہے۔ روشنی کا ہالہ اب کتنی ہی کرنیں میرے جسم پراتاررہاہے،
”وہی ہے جو مایوسی کے بعد بارش اتارتاہے اور اپنی رحمت کو پھیلادیتاہے“
”اے نفس مطمئنہ !اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔ اس حال میں کہ تو اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی۔“
۔۔۔۔میںایک بارپھر خدا کے حضور سجدہ ریز ہوجاتاہوں۔ مجھے معلوم ہوتاہے کہ میں جہاں سے بچایاگیاہوں وہاں کے تابکاری اثرات میرے اندر کچھ اس طرح سرایت کرچکے ہیں کہ وہ میری ہلاکت کی بجائے ا س زہریلی گیس کی ہلاکت کاباعث بن گئے ہیں جو اس وقت موجود پھلوں اور پانی میں ہے۔ گویا وہ تابکاری اثرات اس طرح میری بقا کی ضمانت بن گئے ہیں۔ غالباً اسی لئے میں کتنے ہی متعفن مقامات سے گزرنے کے باوجود بیمار بھی نہیںہوا اور یہ جو اتنی قوت مجھ میں آگئی ہے کہ میں سینکڑوں میلوں کی مسافت طے کرکے یہاں تک آپہنچاہوں یہ بھی ان اثرات کے سبب سے ہی ہے۔
”پس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کروگے۔“
۔۔۔۔میں اپنی خوراک کے مسئلے سے اب بالکل مطمئن ہوجاتاہوں۔ مجھے اب ان دو بڑی مشرقی اور مغربی قوتوں کے انجام کا خیال آتاہے۔ دونوں قومیں ہی فتنے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھیں۔ روشنی کاہالہ میرے قریب آجاتاہے اور پھر کرن کرن میرے جسم پر اترنے لگتاہے۔
یکایک روشنی کاہالہ پورے کا پورا میرے جسم پراترآتاہے،
”تم پر آگ کاایک شعلہ گرایاجائے گا اور تانبا بھی گرایاجائے گا پس تم دونوں ہرگز غالب نہیں آسکتے اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کروگے۔“
روشنی کا ہالہ پھر اپنے اصل فاصلے پر چلاجاتاہے اور پھر کرن کرن میرے جسم پر اترنے لگتاہے۔ میں دونوں بڑی قوتوں کی تباہی کا یقین کرلیتاہوں۔
جیون ساتھی کی جستجو کا خیال پھر مجھے مستعدکردیتاہے۔ اور میں نیا آدم ہونے کے ناطے بقائے نسل انسانی کے مقدس فرض کی خاطر ایک نئے عزم کے ساتھ چل پڑتاہوں۔
۔۔۔۔۔باغ والے اس گاؤں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک شہر آبادملتاہے۔ ساری عمارتیں سلامت ہیںمگر شہر پر موت کی حکمرانی ہے۔ دوکانیں کھلی ہوئی ہیں مگر لوگ نیچے گرے ہوئے ہیں۔ کہیں دیواروں کے ساتھ لگے کھڑے ہیں بیشتر دوکاندار کاؤنٹر پر یوں سر رکھے ہوئے ہیںجیسے آرام کررہے ہوں۔
۔۔۔۔مجھے بچپن کی وہ کہانی یاد آتی ہے جس میں ایک شہزادہ ایک ایسے شہر میں داخل ہوتاہے جہاں ہر آدمی پتھر کابت بناہوتاہے۔ مجھے محسوس ہوتاہے میں بھی کوئی شہزادہ ہوں۔ مگر کہانی والے شہزادے کو اُس شہر کو زندہ کردینے میں اس لئے آسانی ہوتی ہے کہ وہ کسی جادوگر کے طلسم کے باعث ویسا ہواہوتاہے۔ جب کہ یہ شہر تو انسان کے اپنے ہی طلسم کا شکارہوگیاہے۔ زہریلی گیس کے بموں نے سارے شہر میں کوئی ذی روح نہیں چھوڑا۔
۔۔۔۔میں کسی تھکے ہارے، افسردہ شہزادے کی طرح ایک خوبصورت ڈیپارٹمنٹل سٹور میں داخل ہوتاہوں۔ مگر ایک دم گھبراکے پیچھے پلٹنے لگتاہوں۔ سامنے کوئی وحشت زدہ آدمی کھڑاہے۔ میں پیچھے ہٹتے ہوئے پھر رک جاتاہوں۔ سامنے تو بڑا سا قد آدم آئینہ نصب ہے۔
”تو کیا؟ کیا یہ میں ہوں؟“
میں خود کو پہچاننے سے انکارکردیتاہوں۔ مگر بالآخر مجھے تسلیم کرناپڑتاہے کہ یہ میں ہی ہوں۔ اپنی پہچان کو تسلیم کرتے ہی مجھے پہلی دفعہ اپنی برہنگی کااحساس ہوتاہے۔ اسی اثنا میں آئینے میں مجھے بالکل اپنے ہی جیسی ایک وحشت زدہ عورت نظرآتی ہے۔ میں تیزی سے پلٹتاہوں۔ اپنی تمام تر وحشت کے باوجود اس کا چہرہ بتارہاہے کہ وہ مغربی عورت ہے۔ اس کی آنکھوں میں تلاش اور تجسس ہے۔وہ مجھے حیرانی سے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔پتہ نہیں اپنے باپ کو تلاش کر رہی ہے، بھائی کو تلاش کررہی ہے یا بیٹے کو اس کی آنکھوں میں یکایک چمک پیداہوتی ہے۔ جیسے اس نے پہچان لیاہو۔اور پھر وہ دوڑ کر مجھ سے بُری طرح چمٹ کرسسکنا شروع کردیتی ہے۔ میں نہیں جانتااس نے مجھے باپ سمجھاہے۔ بھائی سمجھاہے۔ بیٹا سمجھاہے یاکوئی اور۔۔لیکن میں مطمئن ہوںکہ اب آدم کی نسل اس دھرتی سے ختم نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔میرے ماضی اور مستقبل کی تحریریں میرے دائیں بائیں ادب کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اورمیرا ”برہنہ حال“میرے برہنہ جسم سے چمٹامشرق اور مغرب کی نفرتوں کو اپنے آنسوؤں سے صاف کررہاہے۔
۔۔۔۔روشنی کا ہالہ ہم دونوں کے جسموں سے گزرکرہماری روحوں میں اترجاتاہے اور ہم دونوں کے اندر سے ایک خوبصورت آواز ابھرتی ہے،
”اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکارکروگے۔“
٭٭٭