ابھی جواب پر آتے ہیں، سب سے پہلے تو ایمرٹس ایرلائنز کا کمرشل چیک کریں۔ یہ کمرشل، انٹرنیٹ پر دھومیں مچا رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کمرشل ایکسپو دبئی 2020ء اور ایمرٹس کا مشترکہ ہے جس میں نیک پروین دنیا کی بلند عمارت کے ٹاپ پر کھڑی ہو کر آپ کو پیغامات دے رہی ہے۔ یقیناً کوئی اہم بات ہو گی۔ کیا آپ کو کبھی کسی پروین نے یوں چھت سے اشارات دیے ہیں؟ کدھر ہیں وہ آجکل؟ خیر.. واپس موضوع پر آتے ہیں۔ کیا آپ نے نوٹ کیا کہ 2022ء میں ”ایکسپو دبئی 2020ء“ چل رہی ہے؟ اِس سُستی کی کیا وجہ ہے؟ یہ کورونا وبا کی وجہ سے تاخیر ہے مگر انہوں نے ایکسپو کو کینسل نہیں کیا تھا، نہ ہی نام بدلا۔ آپ میں اتنی مستقل مزاجی ہے؟
خیر، پوسٹ کا موضوع ہوائی جہاز کی اونچی اُڑان ہے مگر ویڈیو میں ایمرٹس جہاز اے380 بہت نیچی پرواز کر رہا ہے اگرچہ کافی اونچی پرواز لگ رہی ہے۔
اب اصل سوال کی جانب آتے ہیں۔ پاکستان کے ایک فلکیاتی گروپ میں غلط ملط اردو میں سوال پوسٹ ہوا۔ اردو مَیں نے ٹھیک کر دی ہے:
”میرا سوال یہ ہے کہ ہوائی جہاز اتنی زیادہ اونچائی پر کیوں اڑتا ہے؟ یہ تھوڑی کم اونچائی میں بھی تو اڑ سکتا تھا۔“
پیج پر اہلِ علم نے یوں جوابات عنایت فرمائے:
1) نیچے گھر دیکھائی دیتے ہیں۔
2) نیچے سے لوگ وٹے مارتے ہیں اس لیے۔
3) تاکہ مسافر اور پائلٹ لوگوں کی بہو بیٹیاں نہ دیکھ سکیں۔
4) کوئی پتھر مار سکتا ہے۔ کوئی لنگر مار کے گرا سکتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو اوپر اڑاتے ہیں۔
5) پھر اندر کے لوگ، باہر کے لوگوں پہ تھوکتے۔
6) زیادہ اونچائی میں اس لیے اڑتا ہے کیونکہ کم اونچائی میں نہیں اڑ سکتا۔
7) کونسا جہاز؟
😎 زیادہ بلنــدی میں ہوا کا پـــریشر کم جبــــکہ بیلنس اور سپیڈ زیادہ ہوتا ہے۔
9) کم بلند سطح میں پرندوں سے ٹکـــر کا رجحان ہے۔
10) آسمان پہ ہم جتنی بلندی پہ جاتے ہیں، ہوا کا دباؤ اتنا کم ہوتا جاتا ہے۔ فیول اور اڑنے والی طاقت کم ہوتے ہیں۔ فاصلہ کم وقت میں زیادہ طے ہو جاتا ہے۔
11) ہوائی جہاز نے اقبال کے شعر یاد کیے ہوتے ہوئے ہیں۔
12) اگر نیچے اڑتا ہوتا تو آپ پوچھتے کہ نیچے کیوں اڑتا ہے، اوپر کیوں نہیں اڑتا۔
13) سیاسی سوال مت پوچھیں…
یہ تمام جوابات پڑھ کر میرے پیروں تلے توتے اُڑ گئے۔ کیا زبردست سائنس چل رہی ہے پاکستان میں۔ یہ سارے ٹاپ یونیورسٹیز کے سائنٹسٹ سٹوڈنٹس کس غار میں چھپے بیٹھے ہیں؟ کوئی سامنے کیوں نہیں آتا؟ بہرحال، آپ کو کونسا جواب پسند آیا؟ ویسے ایک بار امان اللہ نے بتایا تھا کہ بڑے جہاز کو پینٹ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب وہ بلندی پر جا کر چھوٹا سا ہو جاتا ہے، تب پینٹ کیا جاتا ہے۔
واقعی پاکستان میں ہوائی جہاز نچلی پرواز کرے تو اُس کے ساتھ یہی سب کچھ ہو جو مندرجات میں بیان ہوا ہے۔ یقین کیجیے مَیں مذاق نہیں کر رہا۔ کوئٹہ سے چمن جانے والی ریل گاڑیوں کی کھڑکیوں پر لوہے کی جالیاں لگی ہوتی ہیں کیونکہ ریل جس قصبے میں سے بھی گزرتی ہے، وہاں کے لوگ اور بچے ریل پر پتھر مارتے ہیں۔ پہلے بہت لوگ زخمی ہوتے تھے، ریل کا نقصان الگ۔ بعد میں جالیاں لگا دی گئیں۔ پوچھیے اُن سے جو یہ سفر کر چکے ہیں، یا یوٹیوب پر سرچ کر لیں۔ چمن تو دور کی بات ہے، کراچی میں لوگ گرین بسوں پر وٹے مارتے ہیں۔ یہی رویہ ہے کہ پاکستان میں وی-آئی-پی روٹ لگتے ہیں۔ اگر تمام اہم شخصیات یونہی سڑکوں پر گھوم رہی ہوں تو عوام اُن کو جپھا ڈال لیں۔ مطلب، جپھا ہی سمجھیں۔
مگر یقین کیجیے کہ ہوائی جہاز اِن وجوہات کی بنا پر اونچا نہیں اُڑتا، وجوہات دوسری ہیں۔
یعنی، ہوائی جہاز ٹیک اوف کے بعد پہلی فرصت میں زمین سے دوری اختیار کر لیتا ہے۔ رُوٹ اور ہوائی جہاز کے حجم کے اعتبار سے یہ مختلف بلندیاں ہو سکتی ہیں۔ چھوٹے جہاز 20 ہزار فُٹ بلندی پر اُڑتے ہیں.. دو چار ہزار کم و بیش بھی ہو سکتے ہیں۔ ایویں سارے چھوٹے جہاز ایک ہی بلندی پر اڑنا شروع ہو جائیں تو وہ آپس میں ٹکرا بھی سکتے ہیں.. چناچہ انہیں ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے اُنہیں الگ الگ تین چار سو فُٹ کا فاصلہ دیا جاتا ہے۔
بڑے جہاز 40 ہزار فُٹ کے لگ بھگ اُڑنا پسند کرتے ہیں.. کم و بیش کچھ کلومیٹر اوپر نیچے۔ وجہ وہی کہ سب کی ایک ہی بلندی کے باعث وہ ٹکرا سکتے ہیں، لہذا اُن سب کے بیچ میں انفرادی طور پر فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ اس بلندی کے جہاز اپنے پروں میں سے سفید سفید ٹریل نکالتے ہیں، سفید دھواں وغیرہ۔ اُس بلندی پر درجہء حرارت اتنا کم ہوتا ہے کہ جیٹ انجن سے نکلنے والی گیسیں بھی جم جاتی ہیں۔ یعنی تقریباً منفی 50 ڈگری۔ چاہے زمین پر 46 ڈگری کی گرمی پڑ رہی ہو۔
مگر اُنہیں اتنا اونچا اُڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ بات یہ ہے کہ کرہء ارض کی سب سے نچلی تہہ سب سے زیادہ کثیف بھی ہے اور تمام طوفان، بجلیاں، بارشیں، آندھیاں، بادل، جھکڑ وغیرہ بھی اِسی تہہ میں آتے ہیں۔ اِس تہہ کو ٹروپوسفیئر یعنی Troposphere کہتے ہیں جو سطح زمین سے شروع ہو کر 19 ہزار فُٹ تک بلند ہوتی ہے۔ یہ تہہ ہوائی جہازوں کے لیے مناسب نہیں۔ اِس تہہ سے اوپر ایک اور تہہ شروع ہوتی ہے جو کم کثیف اور پرامن قسم کی تہہ ہے، وہاں کبھی بارش نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں بادل نہیں ہوتے۔ الغرض وہاں تغیرات نہیں ہوتے، ہمیشہ ایک ہی ماحول رہتا ہے۔ اِس تہہ کو سٹریٹوسفیئر یعنی Stratosphere کہتے ہیں اور یہ 19 ہزار فُٹ سے شروع ہو کر 50 کلومیٹر تک جاتی ہے۔ وہاں شدید سردی ہوتی ہے چاہے نیچے جمہوریت ہو۔ اس تہہ میں ہوا پتلی ہونے کی وجہ سے ہوائی جہاز کے انجنوں کو زیادہ ہوائی رگڑ برداشت نہیں کرنی پڑتی، یوں کم فیول میں وہ طویل فاصلہ جلدی طے کر لیتے ہیں۔ اُن کی رفتار 985 کلومیٹر فی گھنٹہ تک چلی جاتی ہے۔ یوں اوپر عوامی جوابات میں سے کچھ جوابات حقیقت کے قریب ترین ہیں۔
کچھ قوانین بھی ہیں۔ کسی اور ملک کی ایرسپیس کو ٹروپوسفیئر میں عبور کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اِسی لیے جہازوں کو سٹریٹوسفیئر میں اونچا اڑنا پڑتا ہے۔ وٹوں کی بات نہیں، بلکہ دشمن کے میزائلوں سے بھی بچت نہیں ہو گی۔ لہذا دشمن ملک سیدھا سیدھا اپنی ایرسپیس بند کر دیتا ہے۔
چھوٹے جہازوں کے پروں کا پھیلاؤ کم ہوتا ہے اس لیے وہ 20 ہزار سے 25 ہزار فُٹ تک بلندی کے اندر رہتے ہیں۔ اس سے اوپر فضا پتلی ہوتی ہے اس لیے وہ وہاں اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے۔ بڑے جہازوں کے پروں کا پھیلاؤ زیادہ، جیٹ انجن طاقت زیادہ اور رفتار تیز ہوتی ہے اس لیے وہ 40 ہزار فُٹ کی پتلی فضا میں بھی آرام سے سفر کر لیتے ہیں۔ مگر یہ جہاز 56 ہزار فُٹ سے مزید بلندی پر نہیں جا سکتے۔
البتہ آواز سے دوگنا تیز رفتار جہاز ”کانکرڈ“ 60 ہزار فُٹ بلندی تک پرواز کر سکتا تھا۔ آجکل وہ گراؤنڈڈ ہے۔ جبکہ ہیلی کاپٹروں کی انتہائے بلند پرواز 18 ہزار فُٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ پہلی تہہ یعنی ٹروپوسفیئر سے باہر نہیں نکل سکتے.. اُن کے پَر جلتے ہیں (مطلب، بے کار گھومیں گے، ایر لفٹ ختم ہو جائے گی)۔ یہی وجہ ہے کہ ہیلی کاپٹروں کو بلند پہاڑوں میں ریسکیو کرنے میں مسائل ہوتے ہیں۔
امید ہے جواب مل گیا ہو گا کہ پروین چھت پر کیا کر رہی ہے۔ اصل میں وہاں ہوائی جہاز نچلی پرواز کر سکتے ہیں کیونکہ وہاں لوگ وٹے نہیں مارتے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...