سن 2000 کے ابتدائی سالوں میں ایک خاتون ڈاکٹر نینا پئیرپونٹ کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ ایک میڈیکل ڈاکٹر جو پرنسٹن اورییل جیسے اداروں سے پڑھی تھیں اور جان ہاپکنز میں ریزیڈنسی کی تھی۔ انہیں اپنی بیماری کی تہہ تک پہنچنا تھا۔ اور ان کی اپنے بارے میں کی گئی تشخیص نے انہیں بتایا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن مسئلہ برقرار رہا۔ اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ معاملہ ان کے ساتھ نہیں، ماحول میں ہونے والی کسی تبدیلی کے ساتھ ہے۔ وہ اس علاقے میں بہت برسوں کے بعد واپس آئی تھیں۔ مسئلے کی وجہ بہت سی چیزیں ہو سکتی تھیں۔ انہیں ان میں سے ایک چیز کھٹکی۔ اور یہ وہ چیز تھی جو انہیں برسوں سے ناپسند تھی۔ یہ بجلی پیدا کرنے کے لئے لگائی گئی ونڈ ٹربائین تھی۔ انہیں اور ان کے شوہر کو یہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ اس کے خلاف پہلے سے مضامین لکھے تھے۔ ان کے خیال میں یہ نیچرل دنیا پر انسان کے غلبے کی علامت تھی۔ ایک قابلِ نفرت علامت۔ انسان کے اس سیارے کی ہر شے کو تابع کر لینے کی خواہش کا دیوہیکل نشان۔ خوشنما مناظر پر بدصورت دھبا۔ تو قصور لازماً انہی کا ہو گا۔ لیکن کیا واقعی؟ کیا دوسرے متاثرین بھی ہیں؟
ڈاکٹر پئیرپونٹ نے مقامی اخبارات میں اشتہار لگایا۔ دکانوں پر اشتہار آویزاں کئے۔ کہ اگر کسی کو ان ٹربائین سے منفی اثرات کا سامنا ہے تو انہیں آ کر بتائیں۔ اپنا فون نمبر دیا اور پھر رابطہ کرنے والوں سے انٹرویو کرنا شروع کئے۔ اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ بہت سے لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ پھر ان کے دوست اور خاندان کے دوسرے افراد مل گئے۔ انہوں نے 23 انٹرویو کئے اور 38 کیس دریافت کر لئے۔ یہ تعداد کم تھی لیکن اتنی تھی کہ انہوں نے اپنی یہ دریافت شائع کر دی۔ یہ ونڈ ٹربائین سکنس (ہوا کی چکی کی بیماری) تھی۔
یہ کامیاب ہو گئی۔ اور خاص طور پر ان میں جنہیں ہم نرم الفاظ میں “متبادل سوچ والے” کہتے ہیں۔ اب جب کوئی نیا ٹاور لگنے لگتا تو احتجاج کرنے والے پہلے ہی وہاں پہنچ جاتے۔ مقامی لوگوں کو قائل کرتے۔ گھروں میں جا جا کر بتاتے، جلسے کرتے، بینر لگاتے۔ یہ مقامی آبادی کی مدد کے لئے ایسا کر رہے تھے۔ یہ سب کو بتانا چاہتے تھے کہ یہ کس قدر بری شے ہے اور صحت کے لئے کتنی مضر۔ اور ابھی اس کو پکڑ لیا جائے تا کہ یہ پھیلنے نہ پائے۔ اور جس جگہ پر جاتے، ان کے ہم خیال بن جاتے۔ یہ بیماری پھیلنے لگی۔ جتنا دور تک تفتیش کی گئی، اتنی بیماریوں کی کہانیاں مزید مل گئیں۔ متلی ہونا، کبھی کبھار جسم میں درد، چکر آنا، تھکن، جوڑوں کی تکلیف جیسی چیزں اس بیماری کی علامات میں سے تھیں۔ اور جن علاقوں میں یہ تحریک پہنچی، وہاں پر دس فیصد آبادی سے زیادہ میں یہ بیماری مل گئی۔
اس بیماری کے ساتھ ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ یہ اصل نہیں۔۔۔۔ یہ سائیکوسوماٹک ہے۔ گروہی سراب ہے۔ اس کی تمام علامات ان لوگوں میں پہلے سی تھیں یا پھر اس یقین کی وجہ سے نمودار ہو گئی تھیں کہ ان کو ہونا چاہیے تھا۔ ویسے جیسے آپ فیصلہ کر لیں کہ آپ کا لکی نمبر چھ ہے اور اس کے بعد اس نمبر کو اپنی خوش قسمتی میں ہر جگہ دیکھنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نینا پئیرپونٹ کا تعلق میڈیکل سے تھا۔ اس لئے ان کی کہی بات میں ان کے پیروکاروں کو وزن بھی زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ (اگرچہ ان کا تعلق بچوں کی نفسیات کے شعبے سے تھا لیکن ان تفصیلات میں اب کون پڑے)۔ یہ ونڈ ٹربائین کی بیماری نہیں تھی، ونڈ ٹربائین سنڈروم تھا۔ اس کے پہلے دو متاثرین ۔۔ ڈاکٹر اور ان کے شوہر ۔۔۔ ان کے وجود سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ ان کے لئے اسے اصل سمجھنا بہت آسان تھا۔ اور پھر انہیں اپنی اس کی نفرت اور اس تبدیلی کی علامت کے خوف میں ساتھی مل گئے۔ اس کو نوسیبو ایفیکٹ کہا جاتا ہے۔ یہ پلاسیبو ایفیکٹ کا متضاد ہے۔ اور اس کا انحصار انسانی suggestibility پر ہے۔
اگر آپ ایک کلاس میں نیلی آنکھ والے بچے ایک طرف کر دیں اور بھوری آنکھ والے ایک طرف اور بتائیں کہ جو ٹیسٹ دیا جائے گا، اس میں نیلی آنکھ والے اچھا سکور نہیں لیتے تو نیلی آنکھ والے گروپ کے ٹیسٹ میں نمبر واقعی کم آئیں گے۔ اچھا یا برا ۔۔۔ ہم ایسے ہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ونڈ ٹربائین سنڈروم ایک آبادی سے دوسری میں پھیلتا رہا کیونکہ لوگوں کو پہلے سے بتایا جاتا تھا کہ توقع کیا رکھنی ہے۔ اس نے وہ panic پیدا کیا جو ان کے لئے نقصان دہ تھا۔ اور نئے “مریضوں” کا مسئلہ ونڈ ٹربائن سے نفرت نہیں تھا۔ اس کی ابتدا کرنے والے ڈاکٹر اور ان کے شوہر کے برخلاف انکا مسئلہ ہجوم کی نفسیات تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر تحقیق کرنے والے نے لوگوں کی بیماری کی خودتشخیصی علامات کے ریکارڈ لینا شروع کئے۔ سب سے دلچسپ اس وقت رہا جب لوگوں کو بتایا کہ ٹربائن کی رفتار بڑھا دی گئی ہے۔ ان کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا۔ جبکہ اصل میں خاموشی سے اس علاقے سے ٹربائین بند کر دی گئی تھیں۔ جن علاقوں میں باہر سے لوگ اس بیماری کی آگاہی دینے آئے تھے، ان میں دس فیصد لوگ اس بیماری کا شکار تھے۔ جبکہ جن علاقوں میں کوئی بھی نہیں پہنچا تھا۔ وہاں متاثرین کی تعداد صفر تھی۔ وہ لوگ بھی، جو ٹربائین کے عین نیچے رہتے تھے، ان کو بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بیماری اب بھی پھیل رہی ہے اور محض حادثاتی طور پر نہیں۔ بدنیتی کی وجہ سے بھی۔
کسی مقام پر توانائی کی کمپنیوں کو اس بیماری اور اس طریقے کی بھنک پڑ گئی اور انہوں نے اس پھیلاوٗ میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اس نے کینیڈا میں ہوا سے توانائی میں اضافہ روک دیا۔ اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے آسٹریلیا میں توانائی کے اداروں میں ایک ڈاکٹر کی خدمات لیں کہ وہ نینا پئیرپونٹ والا کردار ادا کر سکیں۔ یہ کام کرنے والی ڈاکٹر سارا لوری ہیں۔ اب سارا اس بیماری کو ایک نئے برِاعظم میں پھیلائیں گی۔ ایک بڑی دور دراز جگہ پر یہ انفیکشن پھیل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر ایک اہم سوال: ہاں، ونڈ ٹربائین سنڈروم ذہنی مرض ہے۔ لیکن جو اس کا شکار ہیں، ان کے لئے یہ اصل ہے۔ جس نے بھی نینا سے شکایت کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شکایت ان میں نینا نے انجیکٹ کی تھی۔ ان کے اندرونی خوف کو سطح پر لے آئی تھیں۔ ان کا تخلیق کردہ نوسیبو دنیا میں پھیلا۔ اس وبا کی جڑ ہمیں ان کے ذہن میں ملتی ہے۔ یہ تکلیف ٹربائین کی پیدا کردہ نہیں، ایک خیال کی پیداکردہ ہے۔
ان سب کی تکلیف کا ذمہ دار کون ہے؟ ڈاکٹر نینا؟ اگر وہ ایسا فزیکل وائرس پھیلانے کا سبب ہوتیں تو ہم انہیں کوارنٹائین کر دیتے۔ لیکن انہیں خود بھی علم نہیں کہ وہ کر کیا رہی ہیں۔ اگرچہ انہیں بار بار بتایا جا چکا ہے۔ وہ ونڈ ٹربائین کی بیماری پر یقین رکھتی ہیں۔ اپنے کہے ہر لفظ کو ٹھیک سمجھتی ہیں اور ان کا اپنا یقین اس کے پھیلانے کی وجہ ہے۔ کیا کوئی قانون بن سکتا ہے جو ان کا بیماری پھیلانے والا منہ بند کر سکے؟ کیا یہ قانون اس طریقے سے بن سکتا ہے کہ اس کی آڑ میں حکومت اپنے لئے ناپسندیدہ خیالات کو کہے جانے کے لئے استعمال نہ کرے؟ یہ آسان سوالات نہیں۔ اور آسٹریلیا کی ڈاکٹر سارا اور ان کی خدمات حاصل کرنے والے؟ وہ تو یہ کام جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ ان کا ارادہ تو واضح ہے۔ وہ جان کر ایک جعلی بیماری پیدا کر رہے ہیں جس کی علامات اصل ہیں۔ سینکڑوں یا پھر شاید ہزاروں لوگوں کو اس امید میں کہ تا کہ متبادل توانائی کے پراجیکٹس کے خلاف انہیں استعمال کیا جا سکے۔ اور انہیں معلوم ہے کہ ان کی پکڑ کرنا ممکن نہیں کیونکہ وہ جو بیماری پیدا کر رہے ہیں، وہ اصل تو ہے ہی نہیں۔ کیا انہیں روکنا اور پکڑنا نہیں چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس آرٹیکل کے ذریعے میں کیا کر رہا ہوں؟ اس کے ذریعے میں بھی یہ بیماری نہیں پھیلا رہا؟ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ پڑھنے والوں میں سے ایک قلیل تعداد ان کی ہے جو اس کو سمجھنے کے لئے تو پڑھتے ہی نہیں۔ اور یہ تحریر ان کے ذةن میں کئی طرح کے “دلچسپ خیالات” کو جنم دے سکتی ہے۔
ونڈ ٹربائین سنڈروم اور ایسی دیگر بیماریاں انفارمیشن کی بیماریاں ہیں۔ جتنے لوگوں تک انفارمیشن پہنچتی ہے، اتنا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ کسی کے ذہن میں ایک نئے عارضے کو جنم دے سکتی ہیں۔ خاص طور پر متبادل حقیقت میں رہنے والوں کو۔ جو انفارمیشن کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تو ہاں، یہ مضمون بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کو بیمار کر سکتا ہے۔ اور اس کو لکھتے وقت مجھے اس کا علم ہے۔ کیا ایسی صورت میں قصوروار ہوں گا؟
ڈاکٹر پئیرپونٹ کی طرح اس کو بھی اچھی نیت سے لکھا گیا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ۔۔۔ یہ جانتے بوجھتے لکھا گیا ہے کہ یہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اور اس سے ایک قدم آگے جائیں تو یہ مخمصہ اب آپ کے سپرد ہے۔ اس نالج کا ہونا آپ کو اس کا ایسا کیرئیر بنا دیتا ہے جس میں علامات نہیں ہیں۔ آپ اس انفارمیشن کو آگے بڑھا کر کسی کو بیمار کر سکتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگوں کو بتائیں گے، اتنا مسئلہ خراب ہو گا۔ خواہ آپ سب کو یہ بتا رہے ہوں کہ یہ ایک مسئلہ ہے اور اس سے خبردار رہیں۔ کیا آپ ایسا کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ہوا کی یہ ٹربائیں صرف کینیڈا اور آسٹریلیا کے کچھ لوگوں کو ہی کیوں بیمار کرتی ہیں اور باقی دنیا کو کیوں نہیں؟ کیونکہ ان علاقوں کے کئی لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ یہ ایسا کر سکتی ہیں۔ باقی جگہ پر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ونڈ ٹربائین سنڈروم کے بارے میں
اس کا مواد اس ویڈیو سے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...