میری اگر کوئی فیکٹری ہو تو میں اس میں ایک منیجنگ ڈائریکٹر رکھوں گا۔ اس کے نیچے ایک منیجر بھی ہوگا۔ یہ دونوں تنخواہ لیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ فیکٹری کے احاطے میں ان کے لئے معقول رہائش گاہوں کا بھی بندوبست کرنا پڑے۔ بصورت دیگر یہ کرائے کی مد میں علیحدہ الائونس لیں گے۔ تنخواہ اورمراعات کے بدلے میں یہ میری فیکٹری کو چلائیں گے۔ مزدوروں اور سپروائزروں کی نگرانی کریں گے اور ان کے مسائل سے بخیروخوبی نمٹیں گے۔
فرض کیجئے ایک شام مجھے اطلاع ملتی ہے کہ فیکٹری میں کوئی مسئلہ درپیش ہے، جا کر دیکھتا ہوں تو حالات دگرگوں نظر آتے ہیں۔ مشینیں بند پڑی ہیں۔ مزدور غیر حاضر ہیں۔ سپروائزر حضرات چائے پی رہے ہیں اور سیاست پر بحث کر رہے ہیں۔ صفائی کا انتظام کلی طور پر ناقص ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے مجھے کیا ایکشن لینا چاہیے؟ کیا یہ عقل مندی ہے کہ میں مزدوروں کو نکال دوں۔ سپروائزروں کو ڈانٹ پلا دوں اور پھر گھر واپس آ جائوں؟ یا میں ایم ڈی کو بلا کر وارننگ دوں کہ تین دن کے اندر اندر معاملات سوفیصد درست ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو چوتھے دن تم فارغ ہو اوراسی دن دوپہر تک رہائش گاہ خالی ہونی چاہئے!
یہ ہے وہ نکتہ جو ہمارے حکمران سمجھ نہیں پا رہے، یا سمجھتے ہیںمگر حکومت چلاتے وقت اس دیانت کو بروئے کار نہیں لاتے جو اپنی فیکٹریاں چلاتے وقت ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ ڈسٹرکٹ ہسپتال قصور کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ صفائی کا حال برا ہے، بیت الخلا غلیظ ہیں۔ پانی میسر ہے نہ روشنی ہی کا انتظام ہے۔ بستروں کی چادریں گندی ہیں۔ ادویات عدم دستیاب ہیں۔ وزیراعلیٰ اس پر ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کرتے ہیں اور پھر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں ایک اور دعویٰ کرتے ہیں کہ دکھی انسانیت کی خدمت نہ کرنے والوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
صوبے میں کوئی نہ کوئی صاحب وزیر صحت کی ذمہ داریاںسنبھالے ہوئے ہوں گے۔ ان کے نیچے ایک بیورو کریٹ سیکرٹری صحت کے منصب پر فائز ہوگا۔ ایک عالی شان بنگلہ وزیر کے تصرف میں ہوگا۔ بہترین سواری حکومت نے دی ہوئی ہوگی۔ ڈرائیوروں کی بٹالین اور پٹرول کا ماہانہ بل اس کے علاوہ ہوگا۔ جی او آر میں کئی کنال پر مشتمل برطانوی زمانے کی یاد دلانے والی کوٹھی سیکرٹری صاحب کو بھی حکومت نے دی ہوئی ہوگی۔ ان کی سواری کا بندوبست اطمینان بخش طریقے سے سرکار الگ کر رہی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہسپتال انتظامیہ کی’’سرزنش‘‘ سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ وزیراعلیٰ نے ہسپتال کا معائنہ کرکے جس صورتحال کا سامنا کیا، کیا اس کا تقاضا یہ نہ تھا کہ متعلقہ وزیر کو دو دن کا نوٹس ملتا اور سیکرٹری کو فارغ کرکے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جانے والی بس میں بٹھا دیا جاتا؟
فرض کیجئے !آج وزیراعلیٰ ، اپنے وزیر صحت کو طلب کرتے ہیںاور نوٹس دیتے ہیں کہ پندرہ دن کے بعد آزاد میڈیا کے ارکان صوبے کے ہسپتالوں کا دورہ کریں گے۔ اگر ان کی رپورٹ تسلی بخش نہ ہوئی تو آپ کو فارغ کر دیا جائے گا۔ کیا آپ کو اس بات میں رمق بھر بھی شک ہے کہ وزیر صاحب پندرہ دن میں اتنا کام کریں گے جتنا انہوں نے ساری زندگی نہیں کیا؟
آپ عوامی کوچ سے قصور تشریف لے گئے۔ قابل تحسین! مگر آپ اگر سرکاری امور سے اس انداز میں نہیں نمٹتے جس انداز میں اپنا ذاتی کاروبار چلاتے ہیں تو عوامی کوچ کیا، پیدل تشریف لے جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں! حکومت چلانا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی درست کرنا ایک سائنس ہے یہ ایک جدید علم ہے۔ اس سائنس کے اس جدید علم کے آپ ماہر ہیں۔ جبھی تو ذاتی کاروبار کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ اس کا اطلاق سرکاری امور پر نہیں ہوتا۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ پارٹی کے ارکان کو خوش رکھنا ہے۔ بیورو کریسی میں کچھ ’’اپنے‘‘ ہیں کچھ ’’پرائے‘‘ ہیں۔ نتیجہ وہی ہے جوقصور کے ہسپتال میں نظر آیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قصور ہسپتال کی حالت محض اتفاق تھی اور صوبے کے دوسرے ہسپتالوں میں حالات بہتر ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ اپنے آپ کو فریب دینے والی بات ہے!
اب وہ ہولناک واقعہ دیکھئے! مظفرگڑھ میں تھانے کے بالکل سامنے نوجوان لڑکی نے اپنے آپ کو نذر آتش کر دیا اور اس عدالت میں جا پہنچی۔ جہاں چالان پولیس والوں نے نہیں، فرشتوں نے پیش کرنا ہے! حوا کی اس بیٹی کو، خود پولیس والوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ تھانے کے چکر لگاتی رہی۔ انصاف نہ ملا تو خودسوزی کرلی! ایک ہیلی کاپٹر فضا میں پروں کو پھڑپھڑاتا بلند ہوا۔ع
ہوا میں تخت اڑتا آ رہا ہے، اس پری رو کا
صوبے کے حکمران اعلیٰ لڑکی کے گھر پہنچے اور بدقسمت والدہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’تہانوں میں خود انصاف دلاساں‘‘! دو’’سخت‘‘ اقدامات تو اسی وقت اٹھا لئے گئے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر کی ’’سخت سرزنش‘‘ کی گئی اور متعلقہ ڈی ایس پی کو ’’معطل‘‘ کردیا گیا۔ یاد رہے کہ معطلی کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔ اور آپ کا کیا خیال ہے ،پولیس والے اپنے ڈی ایس پی بھِرا سے معطلی کے دوران گاڑیاں ، کوٹھی اور کوٹھی پر مامور ملازمین کی فوج واپس لے لیں گے؟
اب اس دعوے کا کہ ’’تہانوں میں خود انصاف دلاساں‘‘ حال بھی سن لیجئے۔ کل رات ایک معروف ٹیلی ویژن چینل پر ایک جانے پہچانے اینکر، اپنے سامنے دستاویزات رکھے اعدادوشمار کی دہائی دے رہے تھے کہ اس قسم کے ماضی کے سارے معاملات میں، جہاں جہاں حاکم اعلیٰ نے انصاف کا وعدہ کیا، کسی ایک پولیس والے کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ اینکر نے حکومتی پارٹی کی ایک خاتون رہنما سے پوچھا تو موصوفہ کا لگا بندھا جواب تھا کہ سزا تو عدالتوں نے دینی ہے! جب اینکر پرسن نے دلیل دی کہ عدالتوں کو ثبوت پولیس والوں نے دینے ہیں تو وہ خاموش ہوگئیں! پولیس والوں کے ہاتھوں آج تک سینکڑوں (ہوسکتا ہے ہزاروں) شہری موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا۔ دو وکیلوں کو گولی مار کرہلاک کردیا گیا۔ آج تک کوئی ایک قاتل بھی اس وردی پوش گروہ سے تختہ دار پر نہیں لٹکا اس لئے کہ ؎
لگا ہے دربار، شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں، موم کے ہیں گواہ سارے
صرف پنجاب کو مطعون کرنا قرین انصاف بھی نہیں! دوسرے صوبوں میں حالات ابتر ہیں۔ پیپلزپارٹی کی ایک خاتون رہنما ٹیلی ویژن پر بتا رہی تھیں کہ ڈی این اے ٹیسٹوں کے باوجود سندھ میں مجرم چھوٹ گئے۔ اندرون سندھ میں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں عورت کا سماجی مقام پنجاب کی عورت سے کہیں نیچے ہے۔ کہیں سوارہ کی لعنت اس زمانے میں بھی رائج ہے، کہیں ونی ہے اور کہیں کاروکاری۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پنچایت جب کسی ساٹھ ستر سالہ بوڑھے اور دس سالہ بچی کے نکاح کا حکم دیتی ہے تو عالم دین بھی اس کارخیر کیلئے فوراً میسر آ جاتا ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما ہمیں آئے دن تلقین کرتے ہیں کہ مظلوم مسلمان کی مدد کرنا لازم ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو! مگر منبرومحراب سے ان سینکڑوں مظلوم عورتوں کے لئے کبھی آواز بلند نہ ہوئی جو اپنے وطن ہی میں مردانہ فسطائیت کا شکار ہیں اور جن کا مذہب کی غلط اور خودساختہ تعبیر کی بنیاد پر استحصال ہو رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک عورت اگر دہائی دیتی ہے کہ اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا ہے تو اس سے چار گواہ مانگے جاتے ہیں۔ چار گواہ وہ لا نہیں سکتی تو ’’اعتراف جرم‘‘ میں اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
رہی یہ بات کہ کوئی پولیس والا سزا نہیں پاتا۔ تویہ کالم نگار اپنی تھیوری پھر دہراتا ہے کہ اس ملک میں پولیس اور اہل اقتدار کے درمیان ایک خاموش غیر تحریری معاہدہ کارفرما ہے! پولیس ہرصاحب اقتدار گروہ کے لئے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے بدلے میں اسے مکمل آزادی حاصل ہے۔ جسے چاہے مقابلے میں ماردے، دوران تفتیش ہلاک کر دے۔ خودسوزی یا خودکشی تک لے جائے۔ کسی کا ماڈل ٹائون کردے، کسی کوسیالکوٹ بنادے۔ع
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“