پچھلے چند برسوں میں بہت سا وقت سوشل میڈیا پر ضائع کرنے کے بعدیہ سبق سیکھا ہے کہ فیس بک کو زندگی میں شامل رکھناہے، مگر اس کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرنی۔ایک معروف صوفی بزرگ کا قول ہے ،’[ہم نے دنیا کو دل میں نہیں آنے دیا، اسے باہر بٹھا دیا ہے، جس چیز کی ضرورت ہو، ہاتھ بڑھا کر لے لی اور دروازہ بند کر دیا۔“اس خوبصورت جملے میں تصوف کا پورا فلسفہ سما گیا ہے۔اس مثال کو بالکل ہی مختلف تناظر میں منطبق کرنے لگا ہوں، میرے خیال میں سوشل میڈیا کی بھی اتنی ہی حیثیت ہونی چاہے ۔اپنے خیالات کے ابلاغ کے لئے اسے استعمال کیا جائے، فیس بک فرینڈز کی آرا جاننے ، منتخب اہل علم کی تحریریں پڑھنے اور دوستوں کے ساتھ سوشل نیٹ ورکنگ کے لئے اسے ضروربرتیں، مگر دن بھر کے معمولات میں اس کے لئے پانچ ، دس فیصد سے زیادہ وقت قطعی طور پر صرف نہیں ہونا چاہیے ۔ڈاکٹرکہتے ہیں کہ ہفتہ میں پانچ دن ورزش کی جائے،ویک اینڈ کے دونوں دن البتہ آرام کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں یہ اصول ضرور لاگو کرنا چاہیے، ہفتہ کے آخری دونوں دن اگر فیس بک، واٹس ایپ بند رکھا جائے تو زندگی میں خاصی خوشگوار تبدیلی محسوس ہوگی۔ کوئی چاہے تو فوری تجربہ کر کے دیکھ لے۔
مجھے سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ خاصے عرصے سے پینڈنگ پڑی کتابوں کی طویل فہرست بن چکی تھی، یکسوئی نہیں مل رہی تھی۔ اب دو ہفتوں میں تین چار ضخیم کتابیں پڑھ ڈالی ہیں۔ اروندھتی رائے کا ناول بے پناہ شادمانی کی مملکت(The Ministry of Utmost Happiness)پڑھا ، جس نے کئی دنوں سے اپنے سحر میں لے رکھا ہے ،کوشش کروں گا کہ کسی روز اس پر کچھ لکھا جائے، اکیسویں صدی کے چند بڑے ناولوں میں سے ایک ہے۔ مشہورایرانی مصنف صادق ہدایت کا مختصر مگر بڑا پر معنی اور اہم ناول بوف کور(اندھا الو)بھی پڑھ ڈالا۔ اجمل کمال نے اسے فارسی سے ترجمہ کیا۔یہ ایک بہت مختلف ذائقے کا ناول ہے، جسے پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ آج کل احمد بشیر مرحوم کا ناول ”دل بھٹکے گا“زیر مطالعہ ہے۔ احمد بشیر بڑے دبنگ لکھاری تھے، ان کی خاکوں کی کتاب ”جو ملے تھے راستے میں“بڑی مشہور ہوئی تھی۔احمد بشیر بذات خود ایک بڑا حوالہ ہیں، مگر بعض قارئین کے لئے شائد یہ امر دلچسپی کا باعث ہو کہ وہ معروف اداکارہ بشریٰ انصاری کے والد ہیں، اب تو بشریٰ کی دوسری بہنیں بھی ڈراموں میں تواتر سے کام کر رہی ہیں، معروف ادیبہ نیلم احمد بشیر بھی بشریٰ کی بہن ہیں۔ احمد بشیر کا ناول بری طرح نظرانداز ہوا۔ شائد اس لئے کہ یہ نو سو صفحات پر محیط ہے اور ہمارے بیشتر نقاد اتنی ضخیم کتاب پڑھنے کی زحمت نہیں فرماتے،یا یہ کہ احمد بشیر ایک منہ پھٹ اور بولڈ آدمی تھے، ان کی کوئی لابی نہیں تھی ، ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ فکشن کی طرف کم ہی نقاد رخ کرتے ہیں، زیادہ تر شاعری پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ ”دل بھٹکے گا“ ایک طرح سے احمد بشیر کی سوانح ہے۔ممتاز مفتی کا مشہور ناول” علی پور کا ایلی“بھی ان کی سوانح یا آپ بیتی ہی تھی، مگر انہوںنے اسے یوں کمال خوبصورتی سے لکھا کہ قارئین کو اندازہ نہیں ہوا، انہیں
قریب سے جاننے والے ہی شائد کچھ سمجھ پائے ہوں۔مفتی جی نے البتہ چند برسوں بعد خودیہ اعتراف کر لیا کہ علی پور کا ایلی میری زندگی کی پہلے چالیس پچاس برسوں کی کہانی ہے۔ احمد بشیر کے سوانحی ناول میں بہت سے کردار باآسانی پہچانے جاتے ہیں۔مرکزی کردار جمال کے نام سے ہے۔ ممتاز مفتی کا نام مفتی، قدرت اللہ شہاب کا قدرت ہے، اشفاق احمد کو اشفاق کہہ کر پکارا، صفدر میر کو میرجبکہ ابولاثرحفیظ جالندھری کو ابوالاثرلکھا ، بعض دیگرکرداروں کی شناخت بھی مشکل نہیں۔ حمید اختر کو وحید کا نام دیا۔احمد بشیر کوامریکہ سے فلم میکنگ کی تربیت حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔ بعد میں انہوں نے ”نیلا پربت “کے نام سے ایک فلم بھی بنائی، جو اگرچہ ناکام ہوئی، مگر اسے پاکستان کی اولین آرٹ فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی کہانی ممتاز مفتی نے لکھی ،پیسے احمد بشیرکی بہن پروین عاطف نے دئیے، کچھ دوستوں سے ادھار مانگے اور فلم نگری میں کود پڑے۔ اپنے ناول میں اس فلم کی میکنگ کے حوالے سے خاصا کچھ لکھا، کئی واقعات تو عبرت ناک ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری نے ایک پڑھے لکھے ، منفرد سوچ رکھنے والے تخلیقی شخص کو کس طرح قدم قدم پر ذلیل اور تنگ کیا، کئی سال تک فلم مکمل ہونے کے بعد ڈبے میں بند رہی، کوئی اس کی نمائش کے لئے تیار نہیں تھا۔ آخر فلم سینماﺅں میں لگی، مگر احمد بشیر کو اس سے کچھ نفع نہ ہوا،، سب کچھ تقسیم کار ہی ہڑپ کر گئے۔
احمد بشیر نے لکھا کہ فلمی سٹوڈیوز میں ایک بات مشہور تھی، فلاں فلم کی ہوا بن رہی ہے یا فلاں کی ہوا بگڑنے لگی ہے۔ یہ عوامی تاثر تھا کہ لوگ اس فلم اور اسے بنانے والے کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔جس فلم کے بارے میں یہ رائے بن جاتی کہ اس کی ہوااچھی ہے، اسے خریدنے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والے بہتیرے مل جاتے۔ جس فلم یا فلمساز کی ہوا بگڑ جاتی ، اسے بے وقوف، جاہل یا ناکام سمجھاجاتا۔ کوئی اس کی فلم خریدنے پر آمادہ ہوتا اور نہ ہی کوئی سنجیدہ تقسیم کار اس پر سرمایہ کاری کرتا۔ سب یہی سمجھتے کہ یہ اپنا بیڑاغرق کرائے گا، ہم اس ڈوبتے جہاز میں کیوں بیٹھیں؟احمد بشیر ایک پڑھے لکھے شخص تھے، ہالی وڈ سے تربیت لے کر آئے ،کہانی انہوںنے ممتاز مفتی جیسے خالص ادیب سے لکھوائی، جس نے نفسیاتی موضوع کو چنا،موسیقار بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کرنے کا خواہش مند تھا، اس نے روشن آرا بیگم جیسی بڑی مگر کلاسیکل گلوکارہ کا گانا شامل کیا،روایتی قسم کے ناچ گانے، بھانڈ وغیرہ بھی نہیں تھے، اوپر سے احمد بشیر فلم بنانے سے پہلے گھنٹوں اپنے نوٹس بناتے،شاٹس کی ڈرائنگز بناتے، کسی سے بات کرنے کی فرصت نہیں تھی۔ فلم انڈسٹری والے انہیں چریا اورناکام ہدایت کار سمجھتے ، جو ایک شرطیہ ڈبہ فلم بنا رہا ہے۔ احمد بشیر ایک آدھ بار کسی سے ترنگ میں آ کر کہہ بیٹھے کہ ساری فلم انڈسٹری لغو ہے، کسی کو کام نہیں آتا، کیمرے کو کوئی نہیں سمجھتا، میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں ،خواہش ہے کہ فلم سازی کا کینڈا تبدیل کروں، نئی کہانیاں لاﺅں، نئے سٹائل متعارف کراﺅں ، نئی موسیقی سے لوگوں کے مذاق تبدیل کروں اور وہ کام کروں جو پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔ اس پر منفی ردعمل ہی آنا تھا۔ جن لوگوں کو فلم کی سمجھ تھی، وہ ان کے کام سے متاثر ہوکر اس کی پبلسٹی کرتے کہ یہ بندہ ہالی وڈ سے آیا ہے اور کوئی بہت بڑا تجربہ کرنے لگا ہے، ایسی منفرد اچھوتی فلم ہوگی جسے سمجھنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہوگا۔ بعض اخبارنویسوں نے اسی طرح کے تجزیے، تبصرے لکھ دئیے ، اس سے رہی سہی ہوا بھی بگڑ گئی کہ نجانے کیا افلاطونی فلم ہوگی ۔احمد بشیر نے اپنی کتاب میں لکھا تو نہیں، مگر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ان کے پاس کچھ مزید پیسے ہوتے اور وہ فلم بنانے کا دوسرا تجربہ کرتے تو یقیناً عوامی رجحانات کو سامنے رکھتے اور صرف تبدیلی لانے کا خواب ہی نہ دیکھتے۔ پریکٹیکل ہو کر صرف وہ کچھ کرتے جو ممکن ہو اور جس کا ثمر بھی وصول ہو سکے۔
سیاست فلم نہیں، یہ مختلف پلیٹ فارم ہے،مگر سیاستدان اس میں کچھ نہ کچھ فلمی رنگ لے ہی آتے ہیں۔ فلموں میں سیاست اور سیاستدانوں کو موضوع بنایا جاتا ہے اور مقبول سیاستدان بھی بیشتر اوقات فلمی ہیروز کی طرح عوامی نفسیات سے کھیلتے اور داد وصول کرتے ہیں۔ہمارے منتخب وزیراعظم عمران خان نے بھی اقتدار پنجابی ہیروز کی طرح بلند آہنگ نعروں اور دبنگ گفتگو سے حاصل کیا۔ سسٹم بدل دینے،سب کچھ الٹ پلٹ کر دینے اور تبدیلی لانے کا وعدہ انہوں نے کیا، اس خواب کو ووٹروں سے کیش کرایا اور آج پورے تزک واحتشام سے ایوان اقتدار میں براجمان ہیں۔ان کی حکومت کے پہلے چالیس روز تقریباً ہوچکے، ابھی دو ڈھائی ماہ کا سیاسی ہنی مون پیریڈ باقی ہے۔ان سے ہمدردی رکھنے والے چپ سادھے ، بے بسی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔عمران خان کو ناپسند کرنے والے اگرچہ ہلکے پھلکے تیر تو پھینک رہے ہیں، مگر اصل حملہ ابھی ہونا باقی ہے، اس کے لئے ہتھیار چمکائے ،دھار تیز کی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت اپنی اچھی ہوا بنا پائے گی یا شروع کے چند ہفتوں میں اس کی ہوا اکھڑنے لگی ہے؟عمران خان کے پاس ابھی وقت ہے، وہ اپنی غلطیوں پر قابو پا سکتے ہیں، اپنی اچھی ہوا بنا سکتے ہیں جو ان کا بھرپور عوامی تاثر جما سکے۔ ایسا کرنے کے لئے مگر انہیں عوامی رجحانات کو سامنے رکھنا ہوگا۔ بہت زیادہ آئیڈیلسٹ منصوبوں اور کتابی باتوں کے بجائے عملی اقدامات، لوگوں کو فوری ریلیف اور ان کی سمجھ میں آنے والے فیصلے ۔ ان کے اردگرد موجود افراد لگتا ہے کچھ اور کرانے کے موڈ میں ہیں۔ مسلسل غلطیاں کرائی جا رہی ہیں،ایک کے بعد دوسرا یوٹرن، پے درپے غلط تقرریاں۔ زلفی بخاری کے تقرر کا کون دفاع کر پائے گا؟ لگتا ہے بعض نادیدہ ہاتھ یہ تاثر بنانا چاہتے ہیں کہ عمران خان کی ہوا اکھڑ گئی ہے اور وہ ایک فلاپ ،ڈبہ فلم کے تخلیق کار ہیں، ایسی فلم جس کا کوئی مستقبل نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ خان ان منصوبوں، ارادوں کو کس حد تک ناکام بنا پاتا ہے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...