ساتھ لگی تصویر ایک افریقی آرٹ ورک ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں کئی متضاد چیزوں کی علامت ہے۔ اس کو جاننے کے لئے پہلے اس کا پس منظر۔
پرانی طاقتوں کے الٹ جانے دنیا کی تارٰخ نے نیا موڑ لیا۔ بیسویں صدی کے وسط میں عالمی نقشہ بدلا۔ نئے آزاد ہونے والے ممالک کی اپنی کہانیاں رہیں۔ برِصغیر میں یہ عمل بڑی حد تک پرامن رہا لیکن زیادہ تر جگہوں پر ایسا نہ تھا۔ اس کی ایک بدترین مثال موزمبیق تھی۔ یہ تخت موزمبیق کے آرٹسٹ نے بنایا ہے۔
افریقہ کی دوڑ نے اس برِ اعظم کا بڑا حصہ برطانیہ، فرانس اور پرتگال کے درمیان تقسیم کر دیا جبکہ کچھ حصہ جرمنی، اٹلی، بلجئیم اور سپین کے ہاتھ آیا۔ افریقی ممالک نے خودمختاری 1960 کے بعد سے حاصل کرنا شروع کی۔ لیکن یہ سب تلخ اور خون سے رنگی جدوجہد تھی اور بہت سی جگہوں پر غیرملکی حکمرانوں کے رخصت ہو جانے کے بعد بندوقوں کے رخ ایک دوسرے کی طرف ہو گئے۔
نئی، نازک اور ناتجربہ کار حکومتوں نے اپنی سپورٹ کے لئے دنیا کی نئی تقسیم کا سہارا لیا جو سرد جنگ کے دور میں مشرقی کمیونزم اور مغربی کیپیٹلزم کی تقسیم تھی۔ انیسویں صدی میں کالونیل دوڑ کے بعد بیسویں صدی میں معاشی نظریات کی دوڑ نے اس برِاعظم کو نئی جنگوں کی لپیٹ میں لے لیا۔ “مواقع برابر یا نتائج؟” کے سوال کے جواب کو طے کرنے کی لئے انسانی جانوں کی سب سے بھاری قیمت ان نئے آزاد ہوئے ملکوں نے ادا کی۔ افریقہ میں ہتھیاروں کی بھاری مقدار میں آمد ہوئی اور خونی تنازعات کا آغاز۔ ان میں سے سب سے ہولناک باب موزمبیق کا تھا۔
آزادی کے بعد فریلیمو نے اقتدار سنبھالا۔ ان کو آزادی کی جنگ کے لئے کمیونزم کی مدد حاصل تھی۔ اس لئے مارکسسٹ ریاست بنی۔ اپنے ہمسائیوں زمبابوے اور جنوبی افریقہ سے مختلف خیالات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمسایوں نے موزمبیق کی اپوزیشن کی مدد کی۔ اس پراکسی جنگ نے دس لاکھ جانیں نگل لیں۔ پچاس لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا۔ آتھ سال کے بچے جو اپنے قد جتنی بڑی بدوقوں سے لیس تھے یہ موزیبیق اور سئیرا لیون جیسے ممالک کی یادگاروں میں سے ہیں۔ پندرہ سال کی خانہ جنگی کے بعد 1992 میں امن معاہدہ ہوا۔ جنگ ختم ہو چکی تھی۔ ہتھیار باقی تھے۔ ہتھیار کبھی پھول نہیں اگلتے اور کئی جنگجووٗں نے ہتھیاروں کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں تھا۔ ان کا گولی سے کتاب تک کا سفر آسان نہیں تھا۔
افریقہ سے تعلق رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا اس بارے میں سٹیٹمنٹ، “جب میں ان لڑکوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے جنگ کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں تو ذہن میں خیال آتا ہے کہ اگر معاشرے کو آگے بڑھانا ہے تو ان کو نئی زندگی کے لئے تیار کرنا ہے۔ اپنے ماضی کو بھولنا تو نہیں لیکن اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان پرانے عفریتوں کو دفن کرنا ہے اور مشکل سوالوں کا سامنا کرنا ہے کہ ہوا کیا تھا؟ ہم یہاں تک پہنچے کیسے؟ کیا کیا جائے کہ ہم پھر اس دلدل تک واپس نہ پہنچ جائیں؟”
ان لاکھوں ہتھیاروں کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے “ہتھیار کے بدلے آلات” کا پروگرام ایک این جی او نے شروع کیا۔ بندوق کے بدلے ہل، سلائی مشین، سائکل، چھپ بنانے کیلئے میٹیریل دیا گیا جس کے تحت چھ لاکھ ہتھیار تلف کئے گئے۔ اس تخت کے تمام ہتھیار اس وقت کے ہیں۔
اس پس منظر کے بعد اب اس کرسی پر۔
یہ افریقہ کی ایک روایتی کرسی کی شکل ہے۔ اس کے سب سے پیچھے دو سب سے پرانی پرتگالی جی تھری رائفل ہیں۔ پرتگال نے یہاں پر پانچ سو سال تک حکومت کی تھی۔ اس کے بازو سوویت کلاشنکوف سے بنے ہیں۔ یہ ان کو جنگِ آزادی میں سوویت یونین کی طرف سے ملی تھیں۔ اس کی سیٹ پولینڈ اور چیکوسلاواکیہ میں بنی رائفل کا ہے۔ اگلی ٹانگوں میں سے ایک نارتھ کوریا کی اے کے ایم کی بیرل ہے۔ یہ سرد جنگ میں مشرقی بلاک کے ہتھیار تھے جو افریقہ کو سرخ کرنے کیلئے استعمال ہوئے تھے۔
اس کو بنانے والے افریقی آرٹسٹ کیسٹر اس پر کہتے ہیں،
“جب ہم کرسی کی بات کرتے ہیں تو انسان جیسے الفاظ میں، اس کے بازو اور ٹانگیں بھی ہوتی ہیں، کمر اور پیر بھی۔ یہ ہتھیار بازو اور ٹانگوں سے انسانوں کو محروم کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ میری یہ کرسی انسانی ٹریجڈی کی یادگار ہے لیکن اس سے زیادہ اس ٹریجڈی پر ہماری فتح کی۔ اب ہمارے درمیان کے جھگڑے ختم ہو چکے ہیں۔ اس کرسی کو غور سے دیکھنے پر ایک مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ ان ہتھیاروں کو ضائع کر دینے کے بعد پیدا ہونے والی مسکراہٹ۔ مجھے اپنے ملک کی تاریخ کی نمائندگی کرنے کا اس سے بہتر طریقہ نظر نہیں آیا۔”
موزمبیق کے پچھلے پندرہ سال آسان دور نہیں لیکن مجوعی طور پر کامیایوں کے سال ہیں۔ اپنے خونریز ماضی سے آگے بڑھ کر اور تنازعات کو حل کر لینے کی کامیابیوں کے۔ موزمبیق کے قومی جھنڈے پر اس وقت کلاشنکوف بنی ہے۔ نئے جھنڈے کو ڈیزائن کرنے کیلئے تجاویز لی جا رہی ہیں۔
یہ تخت بیسیوں صدی کے ایک سیاہ باب کی یادگار ہے۔ دو بڑی جنگیں، سٹالن کے قتلِ عام، ہولوکاسٹ، ہیروشیما، کمبوڈیا میں کھوپڑیوں کے کھیت، روانڈا کا قتلِ عام کی طرح بیسویں صدی کی ایک ناخوشگوار یادگار۔ بیسویں صدی کی مثبت تبدیلی یہ رہی ہے کہ ان کا نشانہ بننے والوں کو اب بھلایا نہیں جاتا۔
اچھا آرٹ اپنے اندر کئی طرح کے معنی رکھتا ہے۔