' ہتھ نہ لانا ، ایہہ ساڈا بندہ اے ۔ ۔ ۔ '
( 17 نومبر 2016 ء اظہر جعفری کی موت پر ۔ یادداشتوں سے ایک اقتباس )
۔ ۔ ۔ یہ سن 1971 ء کی بات ہے ۔ میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے چکا تھا اور سکول کے زمانے سے روزنامہ ' امروز ' اور ' مشرق ' میں بچوں کے صفحے کے لئے لکھتے لکھتے دیگر صفحات پر بھی چھپ رہا تھا ۔ مجھے تصویریں کھینچنے کا شوق بھی تھا جس کی ابتداء میں نے اپنے والد کے ' کوڈک ڈبہ کیمرے ' ، جس کی نیگیٹو فلم میں ایک نیگیٹو کا سائز 620 ہوا کرتا تھا ، سے شروع کی تھی ۔ عزیز اثری مرحوم ، جنہیں میں سکول کے زمانے جانتا تھا ، سے ملنے اور اپنے مضمون ' امروز ' میں دینے کے لئے’ رتن چند بلڈنگ ‘ میں میرا آنا جانا رہتا تھا جہاں سے پاکستان ٹائمز ، امروز اور ہفت روزہ سپوٹس مین نکلا کرتے تھے ۔ عزیز اثری مرحوم سے ہی مجھے ایف ای چودھری کے بارے میں پتہ چلا جو ' پی پی ایل کے فوٹوگرافر تھے ۔ میں ان سے ملا اور فوٹوگرافی میں اپنے شوق کے بارے میں بات کی ۔ وہ مجھے خاصی شفقت سے ملے لیکن اپنی صحبت میں لینے کی بجائے مجھے مجید میر سے ملنے کا مشورہ دیا ۔ یہ نام مجھے کچھ جانا پہچانا لگا ۔ ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ ان کی کھینچی کچھ تصاویر تو میں نے اس وقت چھپنے والے ’ ہفت روزہ ' دہقان ' میں دیکھی تھیں جو ان دنوں نیا نیا نکلا تھا اور ہم نوجوانوں کو اپنے اک نئی طرز کے content کے حوالے سے fascinate کرتا تھا ۔ یاد رہے کہ یہ ہفت روزہ لاہور کا مارکسسٹ ، لیننسٹ اور ماﺅ نواز گروپ ’ پروفیسرز گروپ ‘ نکالا کرتا تھا جس کا ڈیکلریشن پیپلز پارٹی کے شیخ رشید ، جو بابائے سوشلزم کے نام سے مشہور ہوئے تھے ، کے نام تھا اور آزاد کوثری اس کے مدیر ہوا کرتے تھے ۔ ' پروفیسرز گروپ ' یہ رسالہ اس وقت تک نکالتا رہا جب تک شیخ محمد رشید بھٹو حکومت میں وزیر صحت نہیں بن گئے تھے ۔ دیگر کئی بائیں بازو کے گروپوں کی طرح پروفیسرز گروپ بھی اس وقت ملکی سیاست میں پیپلز پارٹی کا حمایتی تھا اور لاہور میں اس کی تمام تر کوشش شیخ محمد رشید کو انتخاب جتانے میں لگی ہوئی تھیں جو جماعت اسلامی کے اس وقت کے جنرل سیکرٹری میاں طفیل محمد کے خلاف پی پی پی کے امیدوار تھے ۔
میں نے مجید میر کی ' پی پی آئی ' اور روزنامہ ' مساوات ' کے دفاتر میں تلاش کی تو پتہ چلا کہ نوکری کے علاوہ ان کا نجی سٹوڈیو بھی ہے اور وہ شام میں بھاٹی گیٹ کے پاس داتا دربار کی طرف جانے والی پتلی سٹرک کی نکڑ پر لوئر مال پر واقع ' پائلٹ ہوٹل ' میں پائے جاتے ہیں ۔ مجید میر کا نجی فوٹو سٹوڈیو اسی ہوٹل کے سامنے کی آبادی میں واقع تھا ۔
دو تین دفعہ کے چکر ناکام رہے لیکن ایک شام مجھے ' پائلٹ ہوٹل ' کے ریستوراں میں مجید میر مل ہی گئے ۔ ان کے ساتھ ایک لمبا تڑنگا سانولا نوجوان بھی بیٹھا تھا ۔ رسمی تعارف کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ نوجوان ، جو میرا ہی ہم عمر تھا ، اظہر جعفری ہے اور مساوات میں نوکری کرنے کے علاوہ مجید میر کے ساتھ ان کے سٹوڈیو میں بھی ہوتا ہے ۔ میں کچھ عرصہ مجید میر کے سٹوڈیو جاتا رہا اور اُن سے ’ ڈارک روم‘ کے استعمال کے گُر سیکھتا رہا ۔
اظہر جعفری سے وہاں ہوئی علیک سلیک جلد ہی دوستی میں بدل گئی جب ہم ڈارک روم میں تصویریں Develop کیا کرتے تھے ۔ اس نے فوٹو گرافی کو بطور پیشہ اپنا کر اس میں نام پیدا کرنا تھا جبکہ میں تو بس ایسے ہی اپنے اس شوق کو پورا کر رہا تھا ۔ بعد میں یہ دوستی اس وقت اور بھی پکی ہو گئی جب میں ظفر یاب کی منڈلی ، جو مال روڈ پر فیروزسنز کے سامنے ’ گو گو ‘ اور فرنچ وائن سٹور کے پاس واقع ’ مال لگژی‘ اوپن ائیر ریستوراں میں جما کرتی تھی ، میں بیٹھنے لگا ۔ پنجاب یونیورسٹی کے قاسم خان ، قاسم جونئیر ، عرفی و دیگر کئی جن کا تعلق گورنمنٹ کالج ، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ اور اسلامیہ کالج سول لائنز اور ایم اے او کالج سے تھا ، اس منڈلی کا حصہ تھے ۔ میں اس وقت ' پروفیسرز گروپ ' میں شامل ہو چکا تھا اور اس کی طالب علم تنظیم NSO میں سرگرم تھا ۔ ظفر یاب اور قاسم خان بھی اسی تنظیم میں شامل تھے اور اس کے لیڈر تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جوں جوں زندگی کی مصروفیت بڑھی یہ منڈلی مال لگژری سے تتر بتر ہوتی گئی ۔ مجید میر بھی ملک چھوڑ سعودی عرب جا چکے تھے لیکن اظہر جعفری سے میری ملاقات کسی نہ کسی ادبی یا سیاسی بیٹھک میں ہو جایا کرتی تھی جہاں وہ اپنا کیمرہ کندھے سے لٹکائے موجود ہوتا ۔ اب وہ ایک اچھا پیشہ ور فوٹو گرافر تھا جس کی کھینچی تصویریں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔ وہ کسی سیاسی جماعت یا بائیں بازو کے گروپ سے وابستہ نہیں تھا لیکن بہت کھرے پن کے ساتھ روشن خیال تھا اوراس کی یاری بائیں بازو کے ہر گروپ کے جوانوں اور بزرگوں سے تھی ۔
1977 ء میں ضیاءالحق نے مارشل لاء لگایا ، دن بدن اس میں سختی آتی رہی ، تاریکی پھیلتی گئی ۔ یہ کڑے سنسر شپ ، کوڑوں ، پکڑ دھکڑ اور repression کا زمانہ تھا ۔ 1978 ء میں مساوات بند ہوا تو اظہر جعفری نے ' مسلم ' اخبار کے لئے کام شروع کر دیا ۔ میری سیاسی سرگرمیوں کی نوعیت بھی بدل چکی تھی ۔ اب میں کلچرل فرنٹ ( پاکستان آرٹسٹس ایکویٹی وغیرہ ) پر کام کرنے کی بجائے پروفیسرز گروپ کی clandestine سرگرمیوں کو منظم کرنے میں مصروف تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چار اپریل 1979 ء کی صبح بھٹو راولپنڈی میں پھانسی لگا ۔ یہ خبر میں نے ریڈیو پاکستان کے گیارہ بجے کے بلیٹن میں سنی اور انارکلی بازار ، جس کی ایک گلی میں میرا گھر تھا ، میں نکل پڑا ۔ لوگ معمول کے مطابق آ جا رہے تھے ، میں مال روڈ پر ٹولنٹن مارکیٹ کے چوک میں پہنچا تو پولیس کے جتھوں نے وہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ ادھر لوہاری دروازے کے باہر بھی سینکڑوں پُلسیے موجود تھے ۔ شام تک احتجاج اور خود سوزی کی اِکا دُکا خبریں تو ملیں لیکن لاہور میں کچھ زیادہ ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا البتہ حالات کی سنگینی اور بڑھ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ 1983ء آ گیا اور ایم آر ڈی کی تحریک کا آغاز ہوا جس میں سیاسی پارٹیاں تو تھیں ہی لیکن بائیں بازو کے دیگر گروپوں کے علاوہ ' پروفیسرز گروپ ' کا بھی اہم کردار تھا ۔
مجھ سمیت دیگر کارکنوں کو اپنے گروپ کی مرکزی قیادت کی طرف سے ہدایت تھی کہ طے شدہ گرفتاریوں کے علاوہ دیگر سب خود کو بچا کر رکھیں ۔ ہم کارکنوں کی کچھ ذمہ داریاں بھی لگی ہوتیں تھیں ۔ کچھ logistics میرے ذمہ بھی تھے چنانچہ ریگل یا لکشمی چوک ہو یا ہھر دیگر وہ جگہیں جہاں سے کسی ایک یا دو نے گرفتاری دینا ہوتی تھی ، میرا وہاں موجود ہونا لازم ہوتا تھا ۔ گرفتاری سے بچنا بھی ضروری تھا کہ ایم آر ڈی کے پاس گرفتاری دینے والوں سمیت logistics سنبھالنے والے کارکنوں کی کمی تھی ۔ ایسے میں اظہر جعفری میرے بہت کام آیا ۔ میں نے اس سے بات کی اور اسے اعتماد میں لیتے ہوئے اپنی limitations بتائیں ۔ اسے معلوم تھا کہ میں سرکار کا ملازم بھی ہوں ۔ میری بات سن کر اس نے حسب عادت کھل کر قہقہہ لگایا اور مجھے اپنا یشیکا کیمرہ ساتھ رکھنے اور اس کے آس پاس رہنے کا مشورہ دیا ۔ یوں میں ، لاہور میں ضیاء آمریت کے خلاف ایم آر ڈی کی اس ساری تحریک میں تمام گرفتاریوں کے مواقع پر موجود رہ کر اپنے ذمے لگے کام سر انجام دے سکا اور گرفتاری سے بچا بھی رہا ۔
کئی بار چِٹ کپڑیئے ' چَپ گروپ ' کے پُلسیے اور ایجنسیوں کے اہلکار میری موجودگی پر مشکوک بھی ہوئے لیکن اظہر جعفری میری ڈھال بنا اور اس نے انہیں ہر بار یہ کہا ؛
' ہتھ نہ لانا ، ایہہ ساڈا بندہ اے ۔ ۔ ۔ '
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153827527526895