ایک وقت تھا جب احمد علی کے لیے سرپٹ بھاگنے کے باوجود وقت کے قدموں سے قدم ملا کر چلنا مشکل تھا۔ اسے ہمیشہ گھڑی کی تیز رفتاری اور اپنی سست رفتاری کا گلہ رہتا۔ کتنے ہی کام وقت پر نہ ہو پاتے۔ کتنے ہی ضروری کام ادھورے رہ جاتے۔ جوانی میں اس کے سیر و تفریح کے بہت سے ارادے نوکری اور خاندانی ذمہ داریوں کی وجہ سے عملی شکل نہ اختیار کر سکے۔
مگر اب ایسی کوئی مجبوری یا کوئی دشواری نہیں تھی۔ احمد علی اب اپنے گھوڑے ہر سمت دوڑا سکتا تھا۔ ابھی وہ پنسل گھڑ پر قبضے کے لیے چھوٹے بھائی سے گتھم گتھا ہونے کے بعد ماں کے ہاتھوں سے بری طرح پٹا تھا اور بھاں بھاں رو رہا تھا اور پھر فورا" ہی وہ اس قطار میں پہنچ گیا جس میں گاون پہنے، بال سنوارے، دھڑکتے دلوں، جوان ولولوں والے گریجوئیٹس اپنی ڈگریاں وصول کرنے کے منتظر تھے۔ وہ جہاں چاہتا جا سکتا تھا۔ اس کی بیوی رخسانہ کو گزرے کئی سال ہو گئے تھے۔ اب تو اس کی قبر میں بس ہڈیاں ہی باقی رہ گئی ہوں گی۔ مگر احمد علی کو کوئی بھی اس کا گھونگٹ اٹھانے سے روک نہیں سکتا تھا۔ وہ حیات گیر لمحہ اس کی دسترس میں تھا۔ رخسانہ کا وہ شرم سے گلنار چہرہ اور دل کی دھڑکن ایسی کہ مانو دل ابھی اس کا سینہ پھاڑ کے باہر آ گرے گا۔ پھر جب اس نے اپنی دلہن کو پہلی بار چھوا تو اس کا جسم سراپا لرزش بن گیا تھا۔ وہ خوفزدہ تھی۔ اور وہ خود بھی ۔۔۔۔ اور پھر وہ دنوں بے خوف ہو گئے تھے۔
احمد علی بند آنکھوں اور مسکراتے چہرے سے اپنی گذشتہ زندگی کے حسین لمحے اور بچھڑ چکے پیاروں کو بڑی سہولت سے دیکھتا، اور گزری زندگی کے جن لمحوں کو جب چاہتا جی لیتا۔ خوشی کا وہ ناقابلِ فراموش لمحہ جب وہ باپ بنا تھا اور پھر وہ وقت جب وہ دادا بن کر اپنی بھرپور کامیاب زندگی کے اطمینان سے سرشار ہو گیا تھا۔ بچپن کے دوستوں کے ساتھ ملاقات میں بھی کوئی دشواری نہیں رہی تھی۔ وہ جب چاہتا ان کے ساتھ بچپن کے کھیل کھیل لیتا۔ زندگی کو پھر سے جی لینے کا یہ تجربہ بیش قیمت اور بے مثال تھا۔ تیزرفتار وقت پر اس کا یہ اختیار اور مسافتوں کی ایسی سہولت اب اس کی بہت بڑی آزادی اور تفریح تھی۔
——
اس کے کمرے کے باہر برآمدے میں قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کسی نوجوان آواز نے پوچھا:
"دادا جی کیسے ہیں؟ "
کسی ادھیڑ عمر نے جواب دیا:
"ویسے تو ٹھیک ہیں ۔۔۔۔۔ مگر آنا جانا بالکل ختم کر دیا ہے ۔۔۔۔ سارا دن بستر ہی پر گزارتے ہیں۔ "