فیصل آباد کے ادبی افق پر گزشتہ چھ عشروں سے چمکتے روشن ستارے حاتم بھٹی کے نام اور کام سے کون واقف نہیں ۔۔فیصل آباد میں اردو یا پنجابی ادب کے فروغ میں نمایاں ادیبوں کی جب بھی فہرست تیار کی جاۓ گی تو محترم حاتم بھٹی کا نام بھی انہی سر فہرست لوگوں میں شامل کیا جاۓ گا ۔۔بزم چناب رنگ ہو یا چناب رنگ ڈائجسٹ ، شمع بک سٹال ہو یا ہیلو بکس یا شمع پبلشرز ۔۔۔۔۔ان کی خدمات ان تمام حوالوں سے معتبر مانی جائیں گی۔ ۔۔حاتم بھٹی صاحب کی دکان شمع بکس ہمیشہ شاعروں، ادیبوں کا مرکز رہی ہے۔ ۔آپ جب بھی اس دکان میں جاتے تھےتو آپ کو فیصل آباد کے علاوہ لاہور، جھنگ ، گجرانوالہ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، سرگودھا، ساہیوال ، ملتان ، اوکاڑہ ، شیخو پورہ ، جڑانوالہ ، گوجرہ جیسے بڑے شہروں کے علاوہ مضافات کے ادیبوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہوگا__راقم (اظہار احمد گلزار) بیشمار ملک گیر شہرت کے حامل ادیبوں شاعروں کو پہلی بار ان کی دکان پر ہی ملا ہے ۔ اسی جگہ پر نامور قلم کاروں کو پہلی بار دکھنے کی سعادت ملی۔۔۔ حاتم بھٹی صاحب اسم با مسمی ہیں ۔ہر آنے والے مہمان ادیب کی چاۓ پانی سے ضرور تواضع کر کے ادب دوستی اور سنت نبوی کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے ۔ ۔۔سب کو محبت و اخلاص اور پیار سے ملتے ہیں۔ عجز و انکساری کا پیکر ہیں ۔۔ عمر کی ستر سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ۔چہرے پر ہر وقت بشاشت ،مسکراہٹ سجاۓ محبتیں بانٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ۔
بھٹی صاحب کی دکان چند نامسائد حالات کی وجہ سے مکمل بند ہو گئی ہے۔ بھٹی صاحب آج کل بالکل فارغ البال ہیں۔۔ان کی دکان کی وہ رونقیں ، وہ بہاریں ،وہ قہقہے ، وہ مسکراہٹیں قصہ پارینہ بن گئی ہیں ۔۔۔۔۔کیونکہ کتابوں کی روشنی اب وہاں ماند پڑ چکی ہے ۔آپ اس دکان میں ایک ٹیلر ماسٹر سلائی کے کام میں مگن نظر آتا ہے ______حاتم بھٹی صاحب میرے ابا جان رانا محمّد گلزار خاں کپور تھلوی مرحوم اور تایا جان نور محمّد نور کپور تھلوی مرحوم کے حلقہ دوستاں میں شامل تھے۔حاتم بھٹی صاحب سے میرا تعلق چچا بھتیجے جیسا ہے۔میں جب جب بھی حاتم بھٹی صاحب کو ملتا ہوں تو وہ مجھے اپنی بچوں کی طرح شفقت اور پیار سے ملتے ہیں ۔گھر کے ایک ایک فرد کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔ان سے مل کر دل فرواں و شاداں ہو جاتا ہے۔۔حاتم بھٹی دا نام کی حوالیاں نال اک اک معتبر حوالے دا درجہ رکھدا اے ۔ویسے تے ایس شہر وچ پنجابی ادیباں تے شاعراں دے کئی حلقے ہر عہد وچ بڑے سر گرم رہے نیں ۔پنجابی بزم ادب _پنجابی پرھیا ، پنجابی سنگت تے کئی ہور ۔۔۔۔ایسے طراں صائم چشتی ، جوہر جالندھری، اسماعیل سفری، سعید الفت ، اغا محمد رفیق ساقی ،طالب جالندھری ، احمد دین امرتسری ، نادر جاجوی ، افضل احسن رندھاوا ،ے ایچ عاطف تے ہور کئی ادیباں تے شاعراں نے وی اپنے اپنے طور تے پنجابی زبان دی سیوا کیتی ۔اینہاں وچوں حاتم بھٹی دا نام اچیچے طور تے یاد کیتا جاندا اے کہ اینہاں نے پنجابی وچ تخلیقی کم۔
کرن دے نال نال تربیتی تے اشاعتی کم وی کیتا ۔اینہاں کماں وچوں اک وڈا کم”چناب رنگ” دا آغاز اے ۔اردو ڈائجسٹاں دی بھیڑ وچ اونہاں نے پنجابی زبان ،ادب ،کلچر ،آرٹ ،تے فلم دی سیوا لئی نہ صرف اپنی اک “بزم چناب رنگ”دا مڈھ رکھیا بلکہ ایہدے نال اک رسالہ وی جاری کیتا ۔ایہہ نہ صرف ساڈے لائل پور ( فیصل آباد) وچ اک نویں روایت دی بنیاد بنیا بلکہ پنجاب بھر وچ ایہہ اپنے وکھرے رنگ روپ ،مزاج تے گٹ اپ پاروں مشہور ہویا۔۔قارئین نوں یاد ہوے گا کہ پنجابی دا مڈھلا رسالہ “پنجابی دربار” وی فیصل آباد نال تعلق رکھدا اے ۔پچھلی صدی دی دوجی دہائی وچ ایہہ رجحان ساز رسالہ جوشوا فضل دین دی ادارت وچ شائع ہوندا رہیا سی۔۔۔ حاتم بھٹی ہوراں نے “چناب رنگ “دے راہیں پنجابی پیاریاں نوں اکٹھا کیتا ۔اردو ادیباں دی توجہ اس طرف کرائی کہ وہ وی پنجابی لکھن ۔۔۔ایس طرح احسن زیدی ، علی اختر تے کئی ہور لوگ چناب رنگ راہیں پنجابی ول آئے۔۔ایہہ حاتم بھٹی ہوراں دی پنجابی نال محبت دا ثبوت اے کہ اونہاں نے چناب رنگ نوں بڑے سچجے انداز نال کئی مہینیاں تیک چلایا۔۔۔۔۔۔حاتم بھٹی ہوراں دی تنظیمی خدمت وچ اونہاں دی “بزم چناب رنگ” دا وی بہت وڈا ہتھ اے ۔۔ایس راہیں وی شہر فیصل آباد تے شہروں باہر دے سینکڑیاں ادیباں دیاں مجلساں ، کتاباں دیاں رونمائیاں تے مشاعرے ہوۓ ۔اونہاں دے اشاعتی ادارے نے وی پنجابی دیاں کئی کتاباں چھاپیاں تے ایس طراں ایس شہر وچ اک ادبی ماحول قائم کیتا ۔۔۔۔
حالات زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم بھٹی کے نام سے ادبی دنیا میں شہرت پانے والے عبدالحمید کے آباؤاجداد مشرقی پنجاب کے ضلع جلندھر کے قریب ایک گاؤں گناں چاؤر کے رہنے والے تھے ۔ان کے پردادا کا نام محمد عبداللہ تھا ۔دیوڑ فیملی سے تعلق رکھنے والی وہ ایک مزدور پیشہ ور شخص تھے جو کمہاروں کے پیشہ کے ساتھ لوہاروں ترکھانوں کا کام بھی کر لیتےتھے ۔کچھ مویشی پال رکھے تھے اور مٹی کے برتن پاس پڑوس کے دیہاتوں میں بیچا کرتے تھے۔ وہ اپنے گاؤں میں عبداللہ بھٹی کے نام سے جانے جاتے تھے ۔جو کئی صدیوں قبل سے اسلام قبول کرچکے تھے ۔عبداللہ بھٹی کی اولاد میں ایک بیٹا میاں فتح محمد بھی تھا یہ میاں فتح محمد’ حاتم بھٹی کے دادا تھے۔میاں فتح محمد کو اللہ تعالی نے 10 اولادیں دیں جن میں سے چار بچے کم سنی میں فوت ہوگئے ۔ جو چھ بچے بڑے ہوئے ، وہ جالندھر سے نقل مکانی کرکے لائلپور آ بسے ۔۔میاں عمر دین یہ حاتم بھٹی کے والد محترم تھے ان کے بعد میاں امام دین ، میاں کرم دین ، میاں خوشی محمد ، جنّت بی بی اور زینت بی بی شامل ہیں۔۔
حاتم بھٹی 1944ء میں گاؤں گناں چادر ضلع جالندھر ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام عمر دین اور والدہ کا نام رحمت بی بی تھا۔ والدین نے ان کا نام عبدالحمید رکھا ۔ان کے بڑے بھائی کا نام عبدالرشید تھا ۔عبدالحمید حاتم بھٹی کی پانچ بہنیں تھیں جن میں سے چار ان سے بڑی تھیں اور ایک ان سے چھوٹی تھی ۔۔
حاتم بھٹی کے دادا نے ستیانہ روڈ پر واقع ایک گاؤں چک نمبر 32 گ ب میں تھوڑی سی زمین لے لی اور کاشتکاری شروع کر دی تھی ۔کچھ مویشی پال لیے اور آراء روئی کی مشین اور آٹا پیسنے کی چکی لگا کر بچوں کا پیٹ پالنے لگے ۔ان کے ایک چچا میاں کرم دین لائل پور شہر میں اپنے ایک رشتہ دار کے اینٹوں کے بھٹھے پر منشی گری کرتے تھے ۔عبدالحمید حاتم بھٹی کے والد میاں عمر دین جو میاں فتح محمد کے سب سے بڑے بیٹے تھے انہوں نے ضلع جالندھر کے قریب ایک گاؤں مانگٹاں میں رہائش رکھی ہوئی تھی مانگٹاں ان کے آبائی گاؤں کے قریب ہی ایک اور چھوٹا سا گاؤں تھا میاں عمر دین یہیں چھوٹا موٹا کاروبار کر لیا کرتے تھے۔قیام پاکستان کے تاریخی اعلان کے بعد انہوں نے اپنی فیملی کو لے کر اپنے والد اور بھائیوں کے پاس لائل پور چک نمبر 32 گ ب کی طرف ہجرت کی اور یہی ایک مکان لے کر رہنے لگے۔
عبدالحمید حاتم بھٹی ان دنوں بہت کمسن تھے ۔
عبدالحمید حاتم بھٹی کا بچپن تنگدستی میں گزرا ۔مالی تنگ دستی کے دنوں میں والدین نے تعلیم کے لیے عبدالحمید حاتم بھٹی کو سکول بھی بھیجا ۔ابتدائی تعلیم کے لئے حاتم بھٹی نے کچھ عرصہ پاکستان ماڈل ہائی سکول سے چند جماعتیں پاس کیں ۔حاتم بھٹی کے کہنے کے مطابق اس دور میں 1953/54 میں اپنے گھر سے اسکول خرچ کے لئے انہیں دو پیسے موری والے سکے ملا کرتے تھے۔ جب کہ ان کے ایک کلاس فیلو محمد ریاض کو اپنے گھر سے ایک روپیہ روزانہ ملتا تھا ۔محمد ریاض کے والد کا سنگ تراشی کا کاروبار تھا اور ان دنوں خوب چلتا تھا ۔
معاشی تنگدستی کی وجہ سے گھر والوں نے حاتم بھٹی کو اسکول سے ہٹا لیا اور جرابیں بنانے والے لوگوں کے ساتھ بھیج دیا۔یوں ہفتہ کے چھ دن مشینوں پر گزر جاتے ۔ساتواں دن جمعہ کا دن اپنا ہوتا تھا ۔۔۔
پڑھائی کا سلسلہ ختم ہونے کی وجہ صرف معیشت ہی نہ تھی اس گھرانے میں بچوں کی تعلیم کا کچھ خاص چلن بھی نہ تھا ۔تھوڑا سا قد کاٹھ نکالتے تو کام کاج میں جوت دیے جاتے تھے ۔بچپن میں کچھ عرصہ حاتم بھٹی کو مستریوں کے ساتھ مزدوری بھی کرنا پڑی۔مزدوری کے پیشے میں کبھی کبھی کئی روز تک کام نہیں ملتا تھا۔۔۔حاتم بھٹی کا والد مزدوروں کے ساتھ کام کرتا تھا لیکن آئے روز دیہاڑی نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی سے دوچار ہونا پڑتا ۔۔ اس لیے حاتم بھٹی کے والد کو کسی نے مشورہ دیا کہ کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں کی بھرتی ہو رہی ہے وہاں کوشش کر کے انہیں نوکری پر لگوا دیں ۔اس طرح کچھ دوڑ دھوپ کے بعد انہیں کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کے کپڑا بنانے والے یونٹ میں کام مل گیا ۔حالات میں پھر سے ٹھہراؤ آ گیا۔ وقت کا پہیا پھر سے حرکت کرنے لگا اور اس گھرانے کے مالی حالات کچھ بہتر ہوگئے ۔کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کی ملازمت سے ان کے گھر کی معیشت کو تو استحکام مل گیا لیکن کپڑے کی ملز میں مسلسل کام کرنے سے انہیں اڑتی روئی کی وجہ سے بیماری لاحق ہو گئی اور پسلیوں میں شدید درد رہنے لگا ۔شروع میں محلہ کے ڈاکٹر سے علاج کرواتے رہے لیکن مرض بڑھتا گیا ۔جوں جوں دوا کی کے مصداق روز بروز طبیعت خراب تر ہونے لگی ۔پھر ہسپتال سے علاج کرانے لگیں علالت بڑی تو ملز کی ملازمت چھوڑ نا پڑی اور بالآخر ان کے والد اسی مرض سے جانبر نہ ہو سکے اور یکم اگست انیس سو اکسٹھ میں اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
میلہ منڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دنوں لائلپور میں میلہ منڈی مویشیاں باقاعدگی سے سال میں دو بار لگتا تھا ۔ان منڈیوں کی رونق بڑھانے کے لیے سرکس اور فلمی تھیٹر وغیرہ بھی لگائے جاتے تھے ۔۔۔۔حاتم بھٹی کے بچپن میں یہ میلہ شہر کے بیچوں بیچ لگتا تھا شہر کے معتبر بزرگوں کی روایت کے مطابق بھی یہ میلہ منڈی مویشیاں کسی زمانے میں جھنگ بازار سے باہر والی غلہ منڈی میں بھی لگتا تھا ۔جاوید سینماکے مالک ملک شائق احمد چودھری کے بڑے بھائی عاشق حسین چودھری کاہلوں کے دھوبی گھاٹ اور میلہ منڈی کے درمیان صرف میلہ منڈی کی بیرونی دیوار ہی حائل ہوتی تھی ۔اس لیے جب ملا لگتا تو دوستوں کے ساتھ حاتم بھٹی بھی شب و روز وہیں گزارتے ۔وقت کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا ۔۔۔پلک جھپکتے میں وقت گزر جاتا ۔۔حاتم بھٹی کی طبیعت میں شعر گوئی کا ملکہ ودیعت تھا ۔اس لیے رات دن گانوں کا شور سن کر ان مصروں کی تحریف خودبخود زبان پر آجاتی ۔۔ہاتھوں بھٹی کے ایک دور کے چچا جن کا نام محمد بشیر تھا وہ دیکھنے میں سو کہے ہوئے دھان پان سے تھے لیکن رتی دے اتنے جیسے بدن میں بجلی بھری ہوئی ہو ۔۔دوستوں نے ان کا نام بشیر شرلی رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے کسی گانے کی نقل میں ان کے بارے میں ٹکڑا لگا کر مصرع جوڑا ۔۔۔ .
کچھ لکھے بشیر شرلی
رانجھا پیا وجاوے مرلی
. . . . پا گئی سانوں عمراں دا رولا ۔۔
جب دوستوں کو سنایا تو بہت خوش ہوئے ۔اس طرح کے دو چار اور گانوں کا بھی حلیہ بگاڑا ہوا دیکھ کر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست محمد ابراہیم نے مشورہ دیا کہ ٹامک ٹویاں مارنے کی بجائے شاعری پر باقاعدہ توجہ دینی چاہیے ۔۔انہوں نے طبع آزمائی شروع کی جو کچھ بھی سامنے آتا لکھ لیتے مگر بات تھی کہ بن نہ سکی ۔۔ ملا منڈی میں آنے والے فنکاروں میں فوک گلوکار عالم لوہار اور عنایت حسین بھٹی کے چرچے بہت تھے ۔۔اداکارہ بالی جٹی کا بھی بہت شہرہ تھا ۔ہیٹ سٹوری کے لحاظ سے جو مقام استادگامن کا تھا وہ اسی کا حصہ تھا ۔۔روز روز ملنے میں سارا وقت بتانے سے یوں تو سارے فنکاروں کے ساتھ سلام دعا رہتی مگر ایک گلوکار لڑکا سندھ سے تعلق رکھتا تھا اس کے ساتھ دوسروں کی نسبت زیادہ تعلقات بن گئے ہر چھ ماہ بعد منڈی لگتی تھی کوئی کام نہ بھی ہوتا تو ان سے ملنے چلے جاتے ہیں اور جب اس سے ملنے گئے ۔تو اس نے بتایا کہ کل سے ایک نئی پارٹی میں نا تھئیٹر کے نام سے کام شروع کر رہی ہے اگر کام کرنا چاہو تو تمہارا نام لکھوا دو حاتم بھٹی نے ہاں کر دی اور دوسرے دن سے ” مینا تھیٹر” میں ملازمت کر لی شام کو تین بجے سے رات 12 بجے تک ڈیوٹی ہوتی ہے کہ کوئی پردے کے نیچے سے بغیر ٹکٹ اندر نہ آئے دوسری ٹی یہ تھی کہ میڈم مینا شوری صاحبہ کی گاڑی ہجوم کے باعث تھیٹر تک نہ پہنچ سکتی تھی ۔تو پرفارمنس کے وقت انہیں گاڑی سے بحفاظت گھر تک پہنچانا ہوتا تھا ۔مینا شوری اپنے زمانے کی مقبول ترین فلم اسٹار تھی ۔مینا شوری شہر کے ایک ہوٹل میں قیام کرتی پہلے ساڑھے پانچ بجے چار پانچ لڑکے وہاں جاتے اور انہیں ملے تک لیتے اور کا حلقہ بنا کر انہیں گاڑی سے گھر تک پہنچایا جاتا اس کے بعد پڑوس کے دوسرے تھیٹر سے عنایت حسین بھٹی کو لایا جاتا تو عنایت حسین بھٹی تب تک فلم انڈسٹری کے بہت معروف گلوکار کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔عنایت حسین بھٹی دو ، تین گانے پیش کرتے اور مینا شوریٰ ان پر رقص کرتی۔رقص کے اختتام پر پھر پانچ چھ لڑکے ان کو بحفاظت گاڑی تک چھوڑ آتے ۔۔۔ کچھ عرصہ انٹرو پر کام کرنے کے بعد انہوں نے دھوبی گھاٹ کی ملازمت کو پھر شروع کردیا ۔۔میلا منڈی کے شہر سے باہر منتقل ہونے سے حاتم بھٹی کی تھیٹر کی مصروفیات ترک ہوگی لیکن بعض اداکاروں دے جیسے عالم لوہار وغیرہ سے حاتم بھٹی کے تعلقات بدستور قائم رہے۔۔جب انہوں نے رسالہ “چناب رنگ ڈائجسٹ” شروع کیا تو عالم لوہار کا انٹرویو کرنے گئے۔ فلمی رسالہ “شہنائی “کے اجراء کے بعد تو بہت سی فلمیں شخصیات سے تعلق رکھتا تعلقات قائم رہے ۔اسی طرح ان کے تھیٹر کے لوگوں سے تعلقات بھی تا دیر قائم رہے ۔۔
شاعری میں شاگردی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم بھٹی نے شاعری میں علامہ صائم چشتی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا۔علامہ صائم چشتی اردو اور پنجابی کے ایک قادر الکلام شاعر تھے اعلی پائے کے خطیب اور بہترین مترجم تھے ۔حاتم بھٹی 1965 کی جنگ کے بعد علامہ صائم چشتی کے تلامذہ میں شامل ہوئے ۔۔علامہ صائم چشتی کے تلامذہ میں شامل ہونا محض حسن اتفاق کا نتیجہ نہ تھا اس میں حاتم بھٹی کے ارادے اور کوشش کا بہت دخل تھا۔۔
حاتم بھٹی کی مجلسی زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ سے قبل حاتم بھٹی نے دھوبی گھاٹ کی مزدوری کو مستقل طور پر خیرباد کہہ دیا ۔والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا میلہ منڈی کی رونقیں شہر سے باہر منتقل ہوگئی تھیں والدہ نے میلہ منڈی کے فنکاروں کے ساتھ مستقل روزگار اختیار کرنے سے منع کر دیا تھا ۔بڑے بھائی نے کبھی گرانے کی کفالت نہ کی والدہ اور چھوٹی بہن کچھ سلائی کڑھائی کی کچھ محنت کر لیتی ۔کبھی کبھار حاتم بھٹی بھی کچھ محنت مزدوری کر کے کما لاتے تو جیسے وقت گزرتا رہا ۔۔شعر گوئی سے پیٹ نہیں بھر سکتا تھا علامہ صائم چشتی سے ملاقات کے لیے حاتم بھٹی اکثر جھنگ بازار جاتے ۔بیروزگاری کے اس زمانے میں ایک دن علامہ صائم چشتی کے بڑے بھائی فضل کریم نے کچھ مشہور اور فوری فروخت ہونے والی کتب نکالیں اور لکڑی کے ایک پھٹے کا بندوبست کیا ریگل سینما کے باہر مولانا محمد سردار صاحب کی مسجد کی طرف کھلنے والے گیٹ کے پاس عبدالحمید حاتم بھٹی کا اسٹال لگوا دیا اور روزگار کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ۔جنگ ستمبر کی وجہ سے گاہک بہت کام آتے تھے حاتم بھٹی کو اس کاروبار کا زیادہ تجربہ بھی نہ تھا ۔اور پڑھنے والوں سے واقفیت بھی نہ تھی ۔شام تک گاہک تو کوئی نہ آتا البتہ تھانہ جھنگ بازار کا ایک اہلکار ہر شام لڑی شعوری والوں سے چار آنے فی سٹال اکٹھا کرنے کے لئے بلاناغہ آ جاتا ۔حاتم بھٹی نے سارا دن میں چار آنے کی شکل تک نہ دیکھی ہوتی اس کو چاہنے کہاں سے دیتے ۔اور اگر ہوتے بھی تو بتا دینا ان کی طبیعت کے خلاف تھا اس سے لئے دو تین دن بعد سپاہی سے روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ کر گزار سے بستر گول کرنے کا ارادہ کرلیا ۔۔ایک روز ٹہلتے ٹہلتے نر والا چوک کی طرف آئے۔بھوانہ بازار کے باہر ایک بجلی کا کھمبا نظر آیا جس کو سہارا دینے والی تار زمین میں گڑی ہوئی تھی،یہ جگہ بک سٹال کے لیے زیادہ موزوں لگی تو اپنی کتابیں اور پھٹا اٹھا کر یہاں لے آئے ۔انہی دنوں میں حبیب چودھری نے اخبار فروشی کا مشورہ دیا ۔حبیب چودھری کچہری بازار میں اپنا بکس سٹال چلاتے تھے اور روز بھوانہ بازار سے گزرتے تھے ۔انہوں نے پہلے اخبار فروشی اور پھر رسائل رکھنے کا مشورہ دیا ۔اخبار فروشی کم سرمائے سے شروع ہونے والا کام تھا اور الصبح گھروں میں اخبار ڈال کر فراغت بھی میسر آ سکتی تھی ۔انہی دنوں بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ کا شہر میں داخلہ ممنوع نہ تھا بلکہ فیصل آباد میں سے گزرنے والی اکثر بڑی بسیں نڑوالا چوک دھوبی گھاٹ کے پاس سے گزرا کرتی تھیں۔بیرون بھوانہ بازار ان بسوں کا مستقل اسٹاپ تھا ۔حاتم بھٹی نے اخبار اور رسائل بیچنے کا روزگار اختیار کر لیا ۔کچھ مستقل گاہک بھی مل گئے جن کے لیے اخبار مارکیٹ سے اخبار لا کر ڈال آتے۔کچھ زائد اخبار لاتے اور سائیکل پر رکھ کر نڑوالا چوک بیرون بھوانہ بازار میں بیٹھ جاتے۔ چوک سے مسافر لوگ گزرتے تو شام تک زیادہ تر اخبار بک جاتے ۔
شمع بک اسٹال کا قیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم بھٹی نے نڑوالا چوک میں مستقل بیٹھنا شروع کیا تو کچھ ہفتہ وار اور ماہنامہ رسالے بھی کچہری بازار سے لا کر پاس رکھ لیتے۔۔چند ماہ میں سائیکل پر لگنے والی اخباروں نے ایک ننھے سے بک اسٹال کا روپ اختیار کر لیا۔ سائیکل کے ساتھ ایک چھوٹا سا پھٹا لگا لیا۔اس پر پرائز بانڈ کی لسٹیں مقامی اخبارات اور تازہ رسائل سجا لیتے۔اہستہ اہستہ یہ ننھا سا بک اسٹال صحافیوں اور عام خریداروں کا ایک مستقل مرکز بن گیا۔غلام محمد اباد یا جھنگ بازار سے آنے والے گاہکوں کو اخبار یا رسالے کی خریداری کے لیے چوک گھنٹہ گھر کا رخ نہ کرنا پڑتا۔ وہیں کھڑے کھڑے اخبار دیکھتے ، کوئی کام کی خبر ہوتی تو اخبار خرید لیتے یا رسالہ سے دلچسپی ہوتی تو من پسند رسالے کا تازہ شمارہ لے لیتے ۔۔پھٹے کے ساتھ ایک چھوٹا سٹول رکھ کر حاتم بھٹی بیٹھے رہتے اور خود اخبارات پڑھتے رہتے۔۔بیٹھ بیٹھ کر تھک جاتے تو نیچے کپڑا بچھا کر لیٹ جاتے اور ابن صفی کے تازہ ناولوں سے دل بہلاتے رہتے ۔صائم چشتی اور ان کے کئی شاگردوں کی راہ گزر بھی یہیں تھی۔ آتے جاتے کئی احباب سے صاحب سلامت ہوتی۔شعر گوئی کے شغف کی وجہ سے کئی شاعر دوست رکتے اور اخبار پڑھتے ، تازہ کلام سناتے اور چائے کا کپ نوش کر کے چلے جاتے ۔غرض یہ کہ اخبارات کے پھٹے سے کام چل نکلا ۔گندے نالے کے عقب میں ایک قدیم گھر کی بیٹھک خالی تھی، گھر والے ضرورت مند تھے معقول کرائے پر حاتم بھٹی نے وہ کمرہ لے لیا۔۔اب ننھے سے بکس اسٹال نے باقاعدہ دکان کی صورت اختیار کر لی۔شمع بک اسٹال کے نام کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا اور شاعروں اور ادیبوں کو ایک مستقل ٹھکانہ مل گیا۔۔چھوٹے چھوٹے ہفتہ وار مشاعرے اسی بیٹھک میں ہونے لگے ۔گورنمنٹ کالج لائل پور پاس ہی تھا ۔اکثر پروفیسر صاحبان ڈیوٹی سے فارغ ہو کر ادھر آ نکلتے۔اخبارات اور رسائل کے ساتھ اب تازہ ترین ادبی کتب بھی میسر آتی تھی ۔مستقل آنے والوں میں پروفیسر شوکت علی قمر، پروفیسر غلام رسول شوق، پروفیسر عظمت اللہ خان_ ڈاکٹر انور محمود خالد ، پروفیسر محمد جہانگیر عالم ،پروفیسر افضال احمد انور اور ڈاکٹر سید احسن زیدی کے نام نمایاں ہیں ۔
یوم آزادی ہے یا محفل مذاکرہ ،کسی کتاب کی تقریب رونمائی ہو یا کسی شخصیت کی پذیرائی،شمع بک اسٹال کا کمرہ جھٹ پٹ کی کسی بھی تقریب کا فوری مرکز بن جاتا ۔نادر جادوی پاکستان ماڈل اسکول سے فارغ ہو کر سیدھے ادھر کا رخ کرتے ۔سید زیارت حسین جمیل، رشید ہادی، نور محمد نور کپور تھلوی ، اخلاق حیدر آبادی ،اشرف اشعری ، فراز صدیقی بسمل شمسی ،سکندر ایاز سید ،محمود رضا سید ، علی اختر ،اقبال گوریجہ ،نصرت صدیقی اور کئی احباب مستقل طور پر تشریف لانے لگے ۔۔گورونانک پورہ میں معروف شاعر نور محمد نور کپور تھلوی کے چھوٹے بھائی اور نوجوان شاعر اور دانشور ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کے والد گرامی رانا محمد گلزار خاں کپور تھلوی بھی مستقل طور پر اس مرکز علم و ادب پر آنے لگے جو خود بھی عمدہ ادبی ذوق رکھتے تھے اور باقاعدہ مقامی اخبارات میں کالم بھی لکھا کرتے تھے ۔۔۔۔۔رانا محمد گلزار خاں کپور تھلوی مطالعہ کی بہت شوقین تھے۔سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) میں ملازمت کرتے تھے۔۔ڈیوٹی سے آتے اور جاتے ہوئے وہ ضرور شمع بکس اسٹائل پر بیٹھتے۔کسی نہ کسی ڈائجسٹ کا مطالعہ کرتے ،اخبار پڑھتے اور حاتم بھٹی صاحب سے گپ شپ کر کے چلے جاتے۔۔چونکہ ان کا لاہور روزانہ آنا جانا ہوتا تھا۔تو لاہور کے اردو بازار یا اخبار مارکیٹ کا چھوٹا موٹا کام حاتم بھٹی ان کے سپرد کر دیا کرتے تھے ۔
حاتم بھٹی نے اخبارات کی تفصیل کے لیے اپنے ایک بھانجے کو ساتھ ملازم رکھ لیا۔ خود کتابوں کے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ دو تین ریگ لگا دیے گئے اور انہیں کتابوں سے بھر لیا تاکہ خریدار خواتین ہوں یا حضرات، کتاب سے محبت کرنے والے اگر اندر آ کر ایک نظر کتاب پر ڈال لیں تو انہیں فرحت اور مسرت کا احساس ہو۔دوسری طرف تازہ رسائل دیوار کے ساتھ قطار میں چن لیے گئے ۔بیچوں بیچ ایک سب بچھا لی گئی ۔اسی صف پر شاعر اور ادیب بیٹھے رہتے اور سخن کا بازار گرم رکھتے ۔شمع بک اسٹال صرف علم و ادب کی نامور شخصیات کا مرکز نہیں رہا بلکہ اس سے حاتم بھٹی کی نجی زندگی میں بھی یادگار حیثیت حاصل رہی ہے ۔اسی کمرہ میں حاتم بھٹی کی شادی کے بعد کچھ عرصہ ان کی اہلیہ نے بھی قیام کیا۔حاتم بھٹی کے فرزند اکبر محمد اختر حمید ابھی کمسن تھے اور کوئی اولاد نہ تھی تو کچھ عرصہ میاں بیوی نے اسی کتب خانے کو گھر کی چھت کے طور پر استعمال کیا ۔
یہ کمرہ ایک بک اسٹال سے بڑھ کر ایک تہذیبی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔یہیں سے پنجابی کے ڈائجسٹ چناب رنگ ڈائجسٹ لائل پور کا اجراء بھی کیا گیا.
حاتم بھٹی نے کتابوں کی اشاعت کا اغاز کیا۔شعروں کے انتخاب، لطائف کی مجموعے، اقوال زریں، مجموعہ ہائے حمد و نعت کے ساتھ تنقید اور تحقیق کے موضوعات پر گراں قدم مطبوعات شائع کی گئیں۔اگرچہ باقی بزم رخصت ہوئی لیکن کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا ۔۔۔۔۔۔ابن صفی کے انتقال کے بعد اشتیاق احمد کے جاسوسی ناولوں کا دور آیا۔۔اشتیاق احمد سے کاروباری تعلق ایسا مستحکم ہوا جو گھریلو دوستی میں تبدیل ہو گیا۔۔حاتم بھٹی نے اشتیاق احمد کے اعزاز میں میونسپل کمیٹی ہال میں ایک شاندار تقریب منعقد کی جس کی صدارت کے لیے بابا جی اشفاق احمد سے رابطہ کیا گیا تو اشفاق احمد خان نے بتایا کہ میرے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں کہتے ہیں کہ اشتیاق احمد اپ سے زیادہ مقبول ہیں ۔میں اس تقریب کی صدارت کر کے بہت خوش ہوتا مگر اس روز سرکاری ڈیوٹی ہے اس لیے معذرت خواہ ہوں ۔یوں پھر اس تقریب کی صدارت جناب منو بھائی نے کی ۔اور مہمان خصوصی کے طور پر ڈرامہ ارٹسٹ غیور اختر اور صحافی جناب طفیل اختر کو ٹھہرایا گیا ۔80 کی دہائی میں اداکار غیور اختر کو پی ٹی وی کے ڈراموں سے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی ۔شمع بکس اسٹال فیروز سنز ، شیخ غلام علی اینڈ سنز_ مکتبہ القریش اور مقبول اکیڈمی وغیرہ کی کتب کی دستیابی کا عام مقام رہا۔شمع بک سٹال اور حاتم بھٹی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو مدعو کرنا چندہ مشکل نہ ہوتا تھا۔۔۔۔۔عبدالحمید حاتم بھٹی کی قائم کردہ ادبی تنظیم بزم جناب رنگ ان دنوں اپنی بھرپور جوانی میں تھی بلکہ دوسری تنظیموں کے نہ صرف ہم پلہ بلکہ پراپگنڈا میں بھی سب سے منفرد اور سب سے آگے آگے تھی۔یہ بزم اس لیے بھی آگے آگے تھی کہ اخبارات سے، اخباری فوٹوگرافرز سے اور اخبار نویس برادری سے حاتم بھٹی کا خوب تعلق قائم تھا، صحافتی زندگی سے وابستگی کے مختصر دور میں ان سے مراسم قائم ہو گئے تھے۔محترم حمید آغا اور اقبال کریمی سے مراسم کی وجہ سے جب کسی مشاعرہ یا علمی ادبی تقریب میں سامنا ہو جاتا تو وہ تصویر بنا کر دو تین روز بعد انہیں پیش کر دیتے اور وہ انہیں فوٹو کی ادائیگی کر دیتے۔ اخبارات کے علاوہ قومی اخبارات ،ہفتہ وار ادبی اشاعتیں کراچی کے ہفت روزہ اخبار جہاں ،اخبار خواتین ،سنڈے میگزین، ہفتہ روزہ فیملی میگزین وغیرہ پر رنگین جب بلیک اینڈ وائٹ ڈائری یا خبر ہفتہ یا دو ہفتے بعد ضرور شامل ہوتی تھی ۔
ہیلو بکس کا قیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1990 کے لگ بھگ کی بات ہے شہر میں کتاب کے قاری مل جاتے تھے ،محلوں کی لائبریریز کے ساتھ کتاب فروشوں کے پاس بھی پڑھنے والے مشکل طور پر اتے تھے ۔شمع بک سٹائل کا کام بھی اچھا چل رہا تھا ۔۔حاتم بھٹی نے اپنے قریبی دوستوں علی اختر، محمود رضا سید اور اقبال شیدا سے مشورہ کیا کہ شمع بکسٹال کا اکلوتا چھوٹا سا کمرہ کتابوں سے لدا بھرا رہتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ رسائل کو کمرے میں جگہ نہیں ملتی۔رسائل کا سٹاک رات کو باہر سڑک کنارے رسی سے باندھ کر چھوڑنا پڑتا ہے ۔ان کے سیف الرحمان نامی ملازم جو طویل عرصے سے شمع بک اسٹال پر کام کرتا تھا۔اس لیے لوگ انہیں حاتم بھٹی کا چھوٹا بھائی یا بیٹا تصور کرتے تھے۔وہ رسالوں کے کام کو دیکھتا تھا اور حاتم بھٹی کتابوں کے کام کاج کو۔۔۔۔ سب نے مشورہ دیا کہ سامنے بننے والے پلازے میں دکان لے کر کاروبار کو وسعت دینی چاہیے ۔سامنے پلازہ تیار ہوا کچھ ایڈوانس رقم دے کر بیسمنٹ میں دکانیں بک کروا لی گئیں ۔۔لاہور میں اچھی ساکھ تھی ۔امتیاز بک ڈیپو کے مالک امتیاز علی مکتبہ القریش کے چودری محمد علی مقبول اکیڈمی کے چودھری مقبول احمد ماورا بکس کے خالد شریف ، چودھری بک ڈپو کے خالد چودھری ، مشتاق بک کارنر کے مشتاق بٹ اور جہانگیر بک ڈپو کے مالکان غرض حاتم بھٹی کی نئی دکان کی نئی دکان کی خبر جس کو ملی اس نے دل کھول کر کتابوں کے کارٹن بھر بھر کر حوالے کر دیے ۔۔۔ جنوری 1993 کے آخر تک دکان تیار تھی۔کتابوں کا یہ شو روم اتنا دلکش اور کشادہ تھا کہ اس سے قبل فیصل آباد میں کتابوں کی ایسی دکان کی مثال موجود نہ تھی ۔ہاں البتہ لاہور میں فیروز سن یا محاورہ کے شوروم ایسے ضرور تھے یہاں خریددار کو براہ راست کتاب تک رسائی ملتی تھی ۔فیصل آباد کا رواج یہی تھا کہ کتابیں بڑے بڑے کاؤنٹر کے پیچھے شیلفوں میں لگی ہوتی اور سیل مین صرف مطالبہ پر کتاب نکال کر دکھاتا تھا ۔حاتم بھٹی کا خواب تھا کہ اس طرح کا شوروم ہو یہاں لوگ گھوم پھر کر اپنی مرضی سے کتابیں دیکھیں اور پسند کریں ۔علی اختر نے شوروم کا نام “ہیلو بکس” تجویز کیا ۔ محمد افضل حمید اس وقت میٹروکولیشن کے آخری سال میں تھے ،وہ اسکول سے فارغ ہو کر ہیلو بکس پر آ جاتے ۔علی اختر بینک ڈیوٹی سے فارغ ہو کر آجاتے، محمود رضا سید اور علامہ نادر جاجوی ہر روز کے آنے والوں میں شامل تھے ۔علی اختر کتاب میلے کو مقبول بنانے کے بارے میں صلاح مشورہ دیتے۔۔ ان کے مشورے سے شہر بھر میں معروف مقامات پر کپڑے کے بینرز اور سینکڑوں کی تعداد میں مطبوعہ اشتہارات لگوائے گئے ۔ایک ہفتہ تک پی ٹی وی پر کتاب میلہ کا اشتہار چلا ۔پھر خریداروں کا ایسا ٹھٹھ پڑا کہ شہر میں کتاب دوستی کی نئی مثال قائم ہو گئی ۔پروفیسر شبیر احمد قادری نے روزنامہ “عوام” فیصل آباد کے ہفتہ وارد بھی ایڈیشن “شعر و ادب” میں اپنے مستقل “کالم کاف الف لام میم” میں حاتم بھٹی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے لکھا کہ
“ہیلو بکس کے قیام اور کتاب میلے کے اہتمام کی صورت میں حاتم بھٹی نے جو شمع روشنی کی ہے وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جادہ ادب پر چلنے والوں کے لیے مژدہ جانفزا سے کم نہیں ۔۔حاتم بھٹی جو پاکستان رائٹرز گلڈ فیصل آباد ریجن کے سیکرٹری بھی ہیں وہ حرمت لفظ سے آگاہ اور کتاب کی اہمیت سے واقف ہیں۔۔۔۔اپنی اس عمل خیر کے ذریعے حاتم بھٹی نے اہل شہر کو کتاب سے قریب تر لانے کی مساعی جلیلہ کی ہیں۔””
شمع بک اسٹال کی طرح ہیلو بکس نے شاعروں، ادیبوں کے مرکز کی حیثیت اختیار کر لی۔1994 سے 2008 تک شہر میں اگر کسی کو کتاب نہ ملتی تو ہیلو بکس سے حاتم بھٹی منگوا کر دے دیا کرتے تھے۔ہیلو بکس اور مستقل طور پر کتب رعایتی نرخ پر فراہم کی گئیں ۔بسا اوقات مخصوص کتاب میلوں کے لیے بھی اداروں نے اس شو روم کا انتخاب کیا۔
شمع بک ڈپو سے ہیلو بکس کے سفر کے حوالے سے ڈاکٹر محمود رضا سید رقم طراز ہیں کہ
“حاتم بھٹی سے تعارف بچپنے سے ہی ہے کیونکہ ساٹھ اور ستر کی دہاٸی میں ہمارے گھر اخبار کے علاوہ سپورٹس ٹاٸم اور کرکٹر دینے آیا کرتے تھے پھر حاتم بھٹی لاہور چلے گٸے اور اپنی اخبار والی ذمہ داری اپنے بھانجے غلام رسول کو دے گٸے اگر آپ کو یاد ہو تو ایک فلمی رسالہ آیا کرتا تھا ” شہناٸی “ حاتم بھٹی صاحب نے لاہور سے نکالنا شروع کر دیا اور اس رسالے کے لٸے اتنی محنت کی کہ ہر پروذیوسر اور اداکار کا پسندیدہ رسالہٰ بن گیا بھٹو کا سارافف دور رسالہ اپنے عروج پر تھا کیونکہ وہ دور فلم انڈسٹری کے عروج کا زمانہ تھا اور رسالہ شو بز سے وابستہ تھا آٸے دن اداکاروں اور اداکاراوں کے انٹرویوز اس رسالے کی زینت بنتے حاتم بھٹی خود بھی شوخ مزاج تھے اور حق سچ کی صحافت کرتے تھے فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا غلط کو غلط کہا اور سچ کو سچ کہا۔
پانچ جولاٸی 1977 کے مارشل لا کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور شوبز کے کاموں میں مولوی ازم آ گیا اسی کی دہاٸی میں حاتم بھٹی واپس لاٸلپور آگٸے میری ان کی یہاں پہلی ملاقات 1983 میں ہوٸی بزم چناپ رنگ کا مشاعرہ تھا شمع بک ڈپو کے اڈے کے ساتھ ہی کتابوں کا سٹور کمرہ تھا جس پر دری بچھی ہوٸی تھی اور مشاعرہ جاری تھا غالبا اقبال شیدا اس مشاعرے کی صدارت فرما رہے تھے میں نے کہا کہ میں نے بھی مشاعرے میں شرکت کرنی ہے۔پھر میں نے بھی اس مشاعرے میں کلام پڑھا۔ اس مشاعرے میں اقبال گوریجہ ۔۔علی اختر ۔۔خاور زیدی ۔۔۔۔احمد شہباز خاور ۔۔احسن زیدی مر حوم بیکس بٹالوی مرحوم ۔۔۔سرفراز شاٸق اور بہت سے شعرا شامل تھے بعد ازاں بزم چناب رنگ کے ہفتہ وار مشاعروں میں شامل ہونا میرا معمول بن گیا آپ کو بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر سید احسن زیدی مرحوم بزم چناب رنگ لاٸلپور کے تا حیات صدر تھے اور ان کا آنا جانا شمع بک ڈپو پر روزانہ کا معمول تھا ان کو دیکھتے دیکھتے میں نے بھی روزانہ حاتم بھٹی صاحب سے ملنے شمع بک ڈپو پر آ جانا اور گھنثوں بیٹھے رہنا یہاں فراز صدیقی ۔۔اقبال گوریجہ ۔۔بابا عبیر ابوزری ۔۔۔نادر جاجوی علی اختر ۔۔۔خاور زیدی ۔۔۔ طالب جالندھری ۔۔۔۔غلام رسول چشتی۔۔۔پروفیسر جہانگیر عالم مرحوم اور پروفیسر ڈاکٹر انور محمود خالد صاحب سے ملاقات رہتی ۔ علی اختر جو حبیب بینک میں ملازمت کر رہے تھے جاب کے بعد شمع بک ڈپو آ جاتے اور ان سے خوب گپ شپ رہتی شہر والوں کی نظر میں ہم ادبی جوڑی قرار پا چکے تھے یہاں بیٹھنے کا فاٸدہ یہ ہوا ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی اور مفت میں رساٸل اور کتب کا مطالعہ بھی ہو جاتا تھا ۔بزم چناب رنگ کے ہفتہ وار مشاعرے بھی ساتھ ساتھ جاری تھے حاتم بھٹی صاحب نے میری روزانہ کی حاضری کو دیکھتے ہوٸے مجھے بزم چناب رنگ کا جواٸنٹ سیکریٹری بنا دیا اور کہا کہ ہفتہ وار مشاعرے تم کروایا کرو گے۔ رابطے بھی میں کرتا اور مشاعرے میونسپل لاٸبریری میں کرواتا اور ان ہفتہ وار مشاعروں کی رپورٹ اور خبر بنا کر اخبارات میں شایع کرواتا ان مشاعروں میں عبیر ابوذری ۔۔اظہار احمد گلزار ۔۔۔انور محمود خالد ۔۔۔۔دلشاداحمد چن ۔۔۔ڈاکٹر ریاض مجید ۔۔رشید ہادی ۔۔۔حافظ محمد حسین حافظ ۔۔۔درد جالندھری ۔۔حکیم رمضان اطہر ۔۔۔رفیق ارم ۔۔۔صدف جالندھری ۔۔۔ظہیر قرہشی ۔۔۔نصرت صدیقی ۔۔۔ قیوم ناصر ۔۔ناصر مجید ۔۔۔اقبال فیصل آبادی ۔۔۔اشفاق بخاری ۔۔۔نرگس رحمت ۔۔۔سمیتہ رحمت ۔۔ریاض احمد پرواز ۔۔شاکر غوری ۔۔۔سعادت علی ثاقب ۔۔حمید محسن ۔۔عطاالحق قاسمی ۔۔۔مسعود انور ۔۔۔انعام الحق جاوید ۔۔احمد شہباز خاور ۔۔۔عبدالحمید آرٹسٹ ۔۔بری نظامی ۔۔۔۔جوہر نظامی ۔۔۔۔اقبال گوریجہ ۔۔۔اقبال شیدا ۔۔۔اے ایچ عاطف ۔۔۔شاہد شیخو جنہوں نے بعد میں اپنا نام شاہد اشرف کر لیا ۔۔۔۔افضل احسن رندھاوا ۔۔۔۔خاور زیدی ۔۔۔اختر سدیدی ۔۔۔۔بیکس بٹالوی ۔۔۔۔۔سرفراز شاٸق ۔۔۔۔فاروق انجم ۔۔۔۔۔طالب جالندھری ۔۔۔۔عابد بخاری ۔۔۔سید میثاق حسین زیدی ۔۔۔۔انجم سلیمی ۔۔۔نذر جاوید ۔۔۔نعیم ثاقب ۔۔مقصود وفا ۔۔۔۔۔عارف بخاری ۔۔۔۔صاٸم چشتی ۔۔۔پروفیسر ریاض قادری ۔۔اعجاز وقار ۔۔۔ڈاکٹر امداد حسین امداد ۔۔۔۔بسمل شمسی ۔۔پروفیسر شبیر قادری ۔۔۔احسن زیدی ۔۔۔باسط ممتاز سید ۔۔۔آس لدھیانوی ۔۔توقیر آس کاظمی ۔۔۔۔
شفیق احمد شفیق ۔۔۔حامد رضا زیدی ۔۔۔سکندر ایاز سید ۔۔۔۔سید ذوالفقار زلفی ۔۔۔منشا منصف ۔۔۔۔اخلاق حیدر آبادی ۔۔۔ سرور خان سرور ۔۔ڈاکٹر شوکت علی قمر مرحوم ۔۔ڈاکٹر ریاض شاہد ۔۔۔پروفیسر کاشف نعمانی ۔۔ سید یونس جیلانی۔۔۔ ساغر ہاشمی ۔۔۔اشرف یوسفی ۔۔۔عامر سلیم بیتاب ۔۔۔رانا راشد علی خاں اور ناصر بشیر جیسے شعرا و ادبا سے ملاقات رہتی۔”
💣 پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن فیصل آباد کی سیکرٹری شپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعراء کرام کو متحرک رکھنے کے لیے ادبی تنظیمیں خوب کام کرتی ہیں فیصل اباد میں اس 80 کی دہائی میں ہلکا ارباب ذوق اور پاکستان رائٹرز گلڈ خوب فعال تنظیمیں ہوتی تھیں ۔۔حلقہ ارباب ذوق تو اب بھی کامیابی سے ہفتہ وار اجلاس منعقد کروا رہا ہے ۔۔مگر پاکستان رائٹرز گلڈ کی فعالیت میں کمی واقع ہو گئی ہے ۔1982 میں شوق عرفانی کی سیکرٹری شپ کی مدت ختم ہو گئی تو حاتم بھٹی کے حلقہ احباب میں شامل دوستوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ کا الیکشن لڑنے کا عزم کیا۔جب لاہور مرکز سے نئے الیکشن کا اعلان کیا گیا تو ان دوستوں نے مل کر اپنی ایک ٹیم بنائی ۔علامہ صائم چشتی کو ریجن فیصل اباد کے لیے سیکرٹری نامزد کیا گیا۔ علامہ نادر جاجوی خازن اور حاتم بھٹی ، علی اختر، منظر مفتی ،اقبال شیدا کو مجلس عاملہ کے اراکین کے لیے نامزد کر کے کاغذات پور کر کے لاہور بھجوا دیے گئے۔اور مقامی طور پر ایک متحرک انتخابی مہم شروع کر دی ۔روزانہ رات کو حاتم بھٹی محفل ہوٹل چنیوٹ بازار سے ڈاکٹر ریاض مجید کو ساتھ لیتے اور رات گئے تک شہر کے دوستوں سے مل کر انہیں بتاتے کہ ہم پاکستان رائٹرز گلڈ کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔۔ برائے کرم ہمیں اپنا قیمتی ووٹ دے کر کامیاب کرائیں۔یوں 10 12 روز حاتم بھٹی اور ڈاکٹر ریاض مجید نے خوب دوڑ دھوپ کی اور حاتم بھٹی کا چناؤ بطور سیکریٹری ہو گیا اور نادر جج بھی خازن مقرر ہو گئے۔۔۔۔بزم چناب رنگ اور پاکستان رائٹرز گلڈ فیصل اباد ریجن کے باہمی اشتراک سے بہت سے یادگار مشاعرے حاتم بھٹی اور ان کے احباب نے منعقد کروائے ۔۔۔
حاتم بھٹی بنیادی طور پر مشاعروں کے شاعر ہیں ان کی شعری پرداخت پنجابی بزم ادب کے مشاعروں سے ہوئی۔۔ برصغیر کی سرزمین تخلیق و تحقیق کے شعبہ میں برسہا برس سے زرخیز چلی آ رہی ہے ۔یہاں علم بادب کے میدان میں خلاق ذہنوں نے اپنی کمال تخلیقات کے بیچ بو کر شعر وادب کے فن کے آبیاری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔اور اپنے تہذیبی ورثہ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنایا ہے ۔ورثہ جو کسی بھی قوم کی شناخت ہوتا ہے اور زندہ قومیں اپنے ورثہ کی حفاظت جان کی بازی لگا کر کرتی ہیں ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا تہذیبی و ادبی ور صاحب بے حد امیر ہے ۔اس ورثہ کو سنبھالنا اور سنوارنا بھی ضروری تھا تاکہ اس نسل تک پچھلی نسل کا پیغام شاندار اور باحفاظت طریقے سے پہنچے۔۔اور نہ صرف اس نسل تک پہنچے بلکہ ائندہ انے والی نسلیں بھی ان سے مکمل طور پر فیض یاب ہوں ۔
حاتم بھٹی کی شاعری کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم بھٹی کی مجموعی شاعری جو “حرفاں ہار پروئے” اور “لفظاں دے اتھرو” کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ان میں ان کی غزلیات ،حمد و نعت سلام، نظم ،قطعات رباعیات کے ساتھ ساتھ فردیات یا منظومات بھی شامل ہیں۔۔ان کا کلام بنیادی طور پر پنجابی زبان میں ہے لیکن موخر الذکر کتاب میں ان کا اردو کلام بھی شامل ہے۔ اس کلام میں حاتم بھٹی کا اپنا اسلوب فن اور معیار نظر آتا ہے۔اور بہ اعتبار مقدار بھی یہ تمام اصناف اتنی زیادہ ہیں کہ ان کے لیے الگ سے ایک طویل مضمون لکھا جا سکتا ہے ۔۔۔۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ کیہ جانے چھو بدلاں نوں کنج توڑی دے تارے
جہنے ویکھے ہون تماشے بہہ کے سدا کنارے
ویکھاں جد وی سکے پتر ٹہنیاں نالوں جھڑ دے
انج لگے جیوں اک اک کر کے وچھڑن یار پیارے
کیتی سائنس ترقی جگ تے بچیاں کول مزائیل
گھر دے جھگڑیاں وچ پھسے آں اج تیک اسیں وچارے
جیوں جیوں تیزی دے نال سونا اگلے ساڈی دھرتی
تیوں تیوں مشکل وقت لنگھاون بھکھاں درداں مارے
آ جا تیرا رستہ تک تک اکھیاں وی
پتھرائیاں
رکھ حیاتی والا راہ وچ لگ پیا کھان بلارے
سورج دی اگ ، بارش ،بدل ،ہسڑ ، تیز ہواواں
روتاں وانگوں بدل رہے نیں سجناں دے ورتارے
تیری میری پیار کہانی رہ گئی کویں ادھوری
خورے جھوٹھ دے سینے وچوں کد کوئی کوئی سچ نتارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہاسے دے وچ شامل ہو گئے لکھاں ہاسے
جد رویا تے کسے نہ پچھیا کیہڑی گل توں رویا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
من تیرے وچ وسدا مولا مسجد وچ کیہ لبھیں
رب جیہدے وچ نظر نہ آوے ڈھا دے اوہ مسیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ڈگدے نوں ٹھیڈے مارن بن گیا اک اصول
ہر چڑھدے سورج دی پوجا اس دنیا دی ریت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدھر ویکھاں چار چوفیرے جھوٹ نے تنبو تانے
کسے وی جھولی وچ نہیں دسدی سچ ورگی سوغات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہندی دنیا تیکر تینوں خلقت بھل نہ سکے
رب دے بندیاں دے نال حاتم پیار جا اینا کر کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔