ایک خوبصورت برہمن نوجوان سندھ کے حکمران رائے سہاسی کی دربار میں ملازمت کی درخواست لیکر داخل ہوتاہے۔
اور رائے سہاسی اس کا علم اور ادب پر عبور دیکھ کر اس سے متاثر ہوتا ہے۔مگر اس کے پہلو میں بیٹھی ہوئی اس کی بیوی رانی سونہہ دیوی اس برہمن پر پہلی نظر میں عاشق ہوجاتی ہے۔
اور سندھ کی دربار میں سیکریٹری کے فرائض انجام دینے والے چچ نامی اس نوجوان سے کہتی ہے کہ ’’میں تم پر عاشق ہوں‘‘ لیکن چچ اس کو جواب دیتا ہے کہ ’’میں برہمن بھی ہوں اور ایک پروفیشنل شخص بھی۔ اس لیے میں اپنے مالک کے زندہ ہوتے ہوئے اس کی بیوی کے ساتھ عشق نہیں لڑا سکتا‘‘
اور یہ مختصر سا جملہ کافی تھا اس رانی کے لیے جس نے اس دن سے اپنے شوہر ’’آہستہ آہستہ اثر انداز ہونے والا زہر ‘‘ (slow poison) دینا شروع کیا۔راجہ کی صحت بگڑتی رہی اور رانی اقتدار پر چچ کی گرفت بڑھاتی رہی۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب رانی سوہنہ دیوی نے چچ کو بلاکر کہا کہ اب راجہ کا آخری وقت آگیا ہے اور تم اقتدار پر قبضہ کرلو۔ پھر ساہسی رائے کے سارے رشتہ داروں اور وفاداروں کو محل میں بلا کر ان سب کے سر قلم کیے جاتے ہیں اور چچ سندھ کا راجہ بن جاتا ہے اور سونہہ دیوی اس کی رانی! جس کے بطن سے راجہ داہر جنم لیتا ہے!!
تاریخ کی ان محلاتی سازشوں کو تصور کی نظر سے دیکھتے ہوئے شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ ’’انگریز ڈرامہ نویس راجہ چچ کی زندگی کے بارے میں جانتا تو اس پر اپنا خوبصورت ڈرامہ لکھتا۔ مگر نہ چچ انگلینڈ میں پیدا ہوا اور نہ شیکسپےئر سندھ میں!!‘‘
شیخ ایاز کی اس بات کو یاد کرتے ہوئے مجھے خیال آ رہا ہے کہ اگر امریکہ کے تاریخ کی مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’’گیم آف تھرونز‘‘ کے تخلیقار ڈیوڈ بینی آف کو اس ڈرامہ سیریل کے بعد فرسٹریشن محسوس ہوئی تو وہ مشرقی تاریخ کے عجیب کردار حسن بن صباح کی زندگی پر ایک دلچسب ڈرامہ پیش کرسکتا ہے۔وہ شخص جس کے بارے میں تاریخ مخصوص انداز کے ساتھ مسکرا کر خاموش ہوجاتی ہے۔ اور صرف اتنا بتاتی ہے کہ وہ عمر خیام کا کلاس فیلو تو تھا مگر اس کا گلاس فیلو بننے کے بجائے گیارہ سو سال قبل اسلامی دنیا کی مقبول اسماعیلی تحریک کا مشنری بن گیا۔وہ نوجوان جو باغی خیالات کی وجہ سے مشرق وسطی میں گرفتار ہوتا ہے۔ پھر آزاد ہونے کے بعد بحری جہاز میں سفر کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوتا ہے اور پھر اپنے ملک ایران میں داخل ہوکر چلتے چلتے بہت دور نکل جاتا ہے اور ایران کی دور افتادہ پہاڑی سرحد کے قریب ایک قلعے پر قبضہ کرکے اسے اپنا محفوظ مرکز بناتا ہے اور وہاں ایک مختصر سی دنیا بناتا ہے۔ جس کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے وہاں ایک مقدس دنیا آباد کی تھی مگر مشہور خیال یہ ہے کہ اس نے ایک ایسی بستی بنائی تھی جہاں وہ اپنے مریدوں کو چرس پلا کر خودکش حملہ آور بناتا تھا۔مگر مختلف خیالات کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنے کمرے سے باہر بہت کم آتا تھا اور سارا وقت مطالعہ کرتا رہتا تھا۔ وہ مذہب؛ تاریخ؛ پامسٹری؛ علم نجوم ؛ پامسٹری اور خاص طور پر ریاضی اور جغرافیہ پر عبور رکھتا تھا۔
اور لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب اسے اپنے کسی فدائی کو کسی مشن پر بھیجنا ہوتا تھا وہ اسے اپنے پاس بلاتا تھا اور اپنی بنائی ہوئی جنت میں اسے سیر کراتا تھا۔اور اسے آخر میں کہا کرتا تھا کہ ’’یہ جنت کچھ بھی نہیں۔ اس جنت کے مقابلے میں جو تمہارے نام ہو چکی ہے‘‘
جدید دنیا کے اکثر دانشور یہ سمجھتے ہیں خودکش حملوں کا بانی حسن بن صباح ہے۔مگر اب تو یہ کام ایک انڈسٹری بن چکا ہے۔مگر حسن بن صباح کے لیے اپنی چھوٹی سی دنیا کو بچانے کا یہ واحد طریقہ تھا۔اسے جب بھی محسوس ہوتا کہ کوئی حکمران اس کے لیے خطرہ بن رہا ہے تو وہ ایک تربیت یافتہ فدائی کو اس کے محل میں داخل ہونے کا راستہ بتاتا۔ وہ فدائی کبھی اس حکمران کے محل کا ملازم بن جاتا اور موقعہ پاکر اس کے تکیے کے نیچے خطرناک خنجر کے ساتھ یہ مختصر خط چھوڑ دیتا کہ ’’اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو خنجر تمہارا سر بھی کاٹ سکتا ہے‘‘ وہ خط پڑھ کر حکمران کانپ جاتا اور جو خوف کا شکار نہ ہوتا تو حسن بن صباح اسے قتل بھی کروا دیتا ۔ مگر اس نے خون کم کیے اور خوف زیادہ پیدا کیا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ خوف سب سے بڑا ہتھیار ہوا کرتا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ خوف ایک سایہ ہوتا ہے جو اصل حقیقت سے بڑا کیا جا سکتا ہے۔ حسن بن صباح نے خوف کو ہتھیار بنایا اور اپنے دور کے حکمرانوں کو غیر محفوظ ہونے کا احساس دلا کر خود پوری زندگی محفوظ رہا۔ وہ ایک ذہین شخص تھا۔ اس کو صرف علم و ادب پر ہی نہیں بلکہ سیاست اور سائنس پر بھی دسترس حاصل تھی۔ اس لیے وہ کھانا بہت کم کھاتا تھا۔ اپنے کمرے میں مطالعے کے معرفت ذہنی اور جسمانی مشق کے طور پر جسمانی وزرش بھی کیا کرتا تھا۔ اس لیے اس نے لمبی عمر پائی۔ اس کے مرجانے کے بعد قلعہ ’’الموت‘‘ میں اس کی مسند پر جو شخص امیر بن کر بیٹھا وہ اس سسٹم کو نہ چلا سکا ۔ اس طرح حسن بن صباح کی وہ افسانوی ریاست منگولوں کے وحشی حکمران ہلاکو خان کے حملے سے تباہ ہوگئی۔ مگر تاریخ کے صفحے پر حسن بن صباح کا نام چنگیز خان کا پوتہ اپنی پیاسی تلوار سے نہ مٹا پایا۔ حسن بن صباح آج بھی ایک معمہ اور دلچسب کردار ہے۔سیاست اور تاریخ کے علماء کہتے ہیں کہ اگر منگولوں کا مقابلہ حسن بن صباح سے ہوتا تو شاید مشرق کی تاریخ مختلف ہوتی۔
اسلامی دنیا میں عقائد کے حوالے سے بہت سارے علماء اور رہنما حسن بن صباح کو ایک منفی کردار قرار دیتے ہیں ۔ اور وہ تھا بھی۔ مگر اس کی صلاحیتیں اور اس کی حاصلات اور سب سے زیادہ اس کے امیج کا تصور کرکے وہ اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح جس طرح دنیا کے بہت سارے جمہوریت پسند اپنے مطالعے کی میز پر الیگزینڈر؛ میکاولی؛ نپولین بونا پارٹ اور ہٹلر کی کتابوں کو صرف اہمیت سے نہیں بلکہ محبت کے ساتھ بھی رکھتے ہیں۔کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ طاقت نظریے سے اہم کرتی ہے۔ نظریہ اچھا ناشتہ ضرور ہے مگر پورے دن کے لیے انسان کو طاقت کے کھانے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ نپولین نے نظریے کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ جب اس نے اپنے آپ کو اپنے دور کا سیزر قرار دیا تھا تب اس کی حمایت کرنے والے بہت سارے دانشوروں کے دل ٹوٹ گئے تھے۔ مگران کے سینوں میں بکھری ہوئی کرچیوں کو پھر سے سمیٹنے اور انہیں جوڑنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس نے اپنی فتوحات کا سفر جاری رکھا۔ جب وہ مصر پہنچا تب اس نے اہلیان مصر کو اپنا بنانے کے لیے کہا تھا کہ ’’مجھے اس ملک میں گونجنے والی اذانوں کا ترنم یہاں کھینچ لایا ہے‘‘ مگر جب وہ فرانس واپس ہوا تب اس نے بیان دیا تھا کہ ’’نوٹرڈم چرچ کی گھنٹیاں مجھے کہیں رکنے نہیں دیتیں‘‘
مشرق میں اپنے فن خطابت اور مطالعاتی ذہانت کے معرفت لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے والے کچھ علماء زبانی طور پر تو حسن بن صباح کو برا کہتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں اور مریدوں کو بتاتے ہیں کہ ’’قلعہ الموت‘‘ میں رہنے والا شخص شداد کا دوسرا جنم تھا۔ وہ اپنی لیکچرز میں حسن بن صباح کے کو منفیت کے آخری مقام پر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ علماء کو حسن بن صباح اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے لیے مخصوص لباس ڈزائن کرواتے ہیں۔ الگ انداز کی ٹوپی پہنتے ہیں۔کتابوں سے سجی ہوئی دیواروں والے کمروں میں مختلف اور مہنگی کرسی پر بیٹھ کر سادہ اور معصوم لوگوں کے عقائد سے کھیلتے ہیں اور اپنے جھوٹے خواب سنا کر رونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے سامعین کو سچا رلاتے ہیں اور پھر انہیں اپنے ذاتی مقاصد میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے لوگ ویسے تو اپنے مریدوں کو ’’یہ مت کرو‘‘ ’’وہ مت کرو‘‘ کی ہدایات دیتے رہتے ہیں مگر ان کی اپنی ذاتی زندگی حسن بن صباح کے اس قول کے گرد گھموتی رہتی ہے کہ 147Nothing is true, everything is permitted148 یعنی ’’سچ کچھ بھی نہیں۔ ہر چیز جائز ہے‘‘ اس لیے اسلام آباد کی خطرناک سردی کی بارش میں بھیگتے ہوئے معصوم بچوں کی ماؤں جوش خطابت کے ساتھ’’عظیم انقلاب‘‘ لانے کی ہدایت کرتے ہوئے اس بات کی پرواہ تک نہیں کرتے وہ پوری دنیا کی میڈیا صرف ان کا فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرے سے کہیں بیش قیمتی بنکر ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ میں کافی کا گرم کپ بھی دیکھ رہی ہے۔وہ لوگوں کو ایسی لکڑیاں سمجھتے ہیں جن کو جلا کر اپنے تن کے لیے تپش اور من کے لیے توانائی حاصل کرتے ہیں۔جب لوگ سردی میں ٹھٹھرتے ہیں۔ جب ان کے چہرے پیلے پڑ جاتے ہیں۔جس وقت ان کے حلق سوکھ جاتے ہیں مگر پھر وہ بھرپور آواز میں نعرے لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس وقت وہ اپنے آپ کو حسن بن صباح سمجھتے ہیں۔وہ لوگ جن میں اتنی ہمت نہیں کہ پہاڑوں کے چٹانوں پر قلعہ بنا کر اپنی دنیا آباد کرپائیں وہ لوگ مغرب کے محفوظ ممالک میں منتقل ہوجاتے ہیں اور وہاں ویسی عیاشیاں کرتے ہیں جیسی ان کے خیال میں حسن بن صباح کو میسر تھیں۔انہیں جب بھی کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ مغرب کے ان ممالک کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ اور وہاں بیٹھ کر جذباتی تقاریر کرتے ہیں۔ وہ خود تو شاہانہ طرز کی زندگی جیتے ہیں مگر اپنے مریدوں کی مفلسی کو خدا کی طرف سے عطا ہونے والی آزمائش قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’وہ سیاست نہیں بلکہ عبادت کر رہے ہیں تاکہ ان کی زندگیاں آزمائش سے باہر آجائیں‘‘
وہ لوگ ہر دن ایک نیا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ سیاست کی اسٹیج پر ایک عالم لیڈر کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنے والے وہ بہروپیے اس دنیا میں موجود سادگی کی وجہ سے کافی حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور ان کی طرف سے بنائے گئے حالات کی وجہ سے جب ان کے معصوم مرید کسی واقعہ کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں وہ انہیں عظیم شہید قرار دیتے ہیں۔ ان کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ان کی وجہ سے زخمی ہونے والے غریب شخص کو خون روکنے کی انجیکشن ملی یا نہیں مگر وہ اپنے سر درد کے لیے امپورٹڈ گولی کھاتے ہیں۔جہازوں کے بزنس کلاس میں سفر کرنے والے یہ لوگ اپنے پیروکاروں کو لانگ مارچ کا حکم دیتے ہیں۔ اور جب وہ اےئر پورٹ پر اترتے ہیں تب حکومتی حفاظت کے لیے چلاتے ہیں۔ ان کے لیے ہجوم میں موجود ہر شخص ایک اینٹ ہوا کرتا ہے اور وہ اپنے آپ کو انسانی قلعہ میں دیکھ کر خود کو حسن بن صباح سمجھتے ہیں۔
اگر یہ ساری باتیں پڑھ کر کوئی قاری یہ سمجھتا ہے کہ علامہ طاہر القادری اس دور کا حسن بن صباح ہے تو وہ مشرقی تاریخ کے اس عجیب شخص کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوگا۔ کیوں کہ اگر طاہر القادری حسن بن صباح کے دور میں ہوتا اور اس کی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرتا تو اس شخص کے دوغلے پن اورسطحی مکاری والے انداز کو دیکھ کر وہ اسے سخت سے سخت سزا نہ بھی دیتا تو کم ازکم اسے اپنے قلعہ ’’الموت‘‘ سے دھکا دے کر ضرور نکال باہر کرتا!!
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔