حشرات الارض بہت بڑے کیوں نہیں ہو سکتے؟
حشرات کے بہت بڑے نہ ہو سکنے کہ وجہ صرف جینیاتی ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق حشرات کے جسمانی سٹرکچر اور بنیادی بیالوجی سے بھی ہے – عام جانوروں کی ہڈیاں جسم کے اندر ہوتی ہیں اور مسلز ان کے اوپر ہوتے ہیں – اس کے برعکس حشرات کے جسم کا باہری حصہ سخت ہوتا ہے جو ہڈیوں کی طرح کام کرتا ہے اور جسم کو مخصوص ساخت دیتا ہے – اس قسم کی ساخت کو exoskeleton یا بیرونی ڈھانچہ کہا جاتا ہے – حشرات کا جسم جتنا بڑا ہو گا انکا بیرونی ڈھانچہ بھی اتنا ہی سخت اور موٹا ہونا چاہیے تاکہ جانور کے عضلات کا وزن سہار سکے – بہت بڑے جانور کی صورت میں یہ بیرونی ڈھانچہ اتنا وزنی ہو جائے گا کہ جانور کے اندرونی مسلز ہی اس کا بوجھ نہیں سہار پائیں گے اور جانور حرکت کے قابل ہی نہیں رہے گا – اسے بعض اوقات مربع – مکعب کا قانون یا square-cube law کہا جاتا ہے جس کی رو سے جب کسی جانور (یا کسی بھی مادی شے) کی لمبائی بڑھتی ہے تو اس کے جسم کی سطح لمبائی کے مربع کے حساب سے بڑھتی ہے جبکہ حجم اور وزن لمبائی کے مکعب کے لحاظ سے بڑھتا ہے – اگر کسی حشرہ کی لمبائی کو دگنا کر دیں تو اس کے بیرونی ڈھانچے کے رقبہ میں چار گنا اضافہ ہو گا لیکن اس کے حجم اور وزن میں آٹھ گنا اضافہ ہو گا جسے اس کا بیرونی ڈھانچہ برداشت نہیں کر پائے گا
اس کے علاوہ حشرات کا بیرونی ڈھانچہ ان کے پھیپھڑوں کا کام بھی کرتا ہے یعنی حشرات اپنے جسم کے بیرونی حصے کو استعمال کر کے ہوا سے آکسیجن براہِ راست جذب کرتے ہیں – جانور جتنا بڑا ہو گا اتنی ہی اس کی آکسیجن کی مانگ زیادہ ہو گی لیکن صرف سطح پر آکسیجن جذب کرنے سے بہت بڑے جانور کی آکسیجن کی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی – اگر کسی جانور کی لمبائی دگنی ہو جائے تو اس جانور کی آکسیجن کی ضرورت اس کے حجم کے حساب سے آٹھ گنا بڑھ جائے گی لیکن جس عضو سے آکسیجن جسم میں جذب ہوتی ہے (یعنی بیرونی ڈھانچہ) اس کے رقبہ میں صرف چار گنا اضافہ ہو گا یعنی اس کی آکسیجن جذب کرنے کی قابلیت اس کی جسمانی ضرورت سے آدھی ہو گی – یہ امر بھی حشرات کی جسامت کے بڑھنے میں مانع ہے
آج سے کروڑوں برس پہلے زمین کے کرہِ ہوائی میں آکسیجن کا تناسب ہوا میں آکسیجن کے موجودہ تناسب سے زیادہ تھا اس لیے کروڑوں سال پہلے حشرات موجودہ جسامت سے زیادہ جسامت کے ہو پاتے تھے – اب تک جس بڑے سے بڑے اڑنے والے حشرہ یعنی insect کے فاسلز ملے ہیں وہ ایک ڈریگن فلائی ہے جس کے پروں کی کل لمبائی اڑھائی فٹ کے لگ بھگ تھی – زمین پر رینگنے والے حشرات میں سب سے بڑا کنکھجورا (millipede) تقریباً آٹھ فٹ لمبا تھا اور اس کی چوڑائی تقریباً اڑھائی فٹ تھی لیکن یہ بہت چپٹا کیڑا تھا جس وجہ سے اس کے بیرونی ڈھانچے کا رقبہ اس کے حجم کی نسبت زیادہ تھا جو آکسیجن جذب کرنے میں مدد دیتا تھا – جیسے جیس فضا میں اکسیجن کی مقدار کم ہوتی گئی ویسے ویسے بڑے حشرات کا زندہ رہنا مشکل ہوتا گیا اور حشرات کی اوسط جسامت بھی کم ہوتی گئی – اس کے علاوہ پرندوں کے ارتقاء سے بھی حشرات کی جسامت پر منفی سیلیکشن پریشر پڑا – بڑی جسامت کے حشرات کے لیے اپنے آپ کو پرندوں کی نظر سے چھپانا مشکل ہوتا ہے جبکہ چھوٹے حشرات گھاس پھونس اور جھاڑیوں میں نسبتاً آسانی سے چھپ جاتے ہیں
حشرات کا بیرونی ڈھانچہ خود بخود بڑا نہیں ہوتا اس وجہ سے بڑے حشرات کو بڑھنے کے لیے اپنی کینچلی کو بدلنا پڑتا ہے یعنی پرانا بیرونی ڈھانچہ چھوٹا پڑ جائے تو حشرات کو اسے پھاڑ کر اس میں سے نکلنا ہوتا ہے جس کے بعد ان کے جسم پر ایک نیا اور بڑا ڈھانچہ بنتا ہے اس عمل کو molting کہا جاتا ہے – اس عمل کے دوران حشرات کو نہ صرف آکسیجن حاصل کرنے اور حرکت کرنے میں دشواری پیش آتی ہے (اور حشرات جتنے بڑے ہوں یہ دشواری اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے) بلکہ اس دوران یہ بالکل غیر محفوظ ہوتے ہیں اور چونکہ آسانی سے اپنا دفاع نہیں کر سکتے اور نہ ہی بھاگ سکتے ہیں (یعنی fight or flight ریسپانس کے قابل نہیں رہتے) اس لیے جلد ہی کسی درندے یا پرندے کا نوالہ بن جاتے ہیں
ان وجوہات کی بنا پر چھوٹی جسامت کے حشرات ارتقائی طور پر زیادہ کامیاب رہے ہیں جب کہ بڑی جسامت کے حشرات صرف قصوں کہانیوں یا بی گریڈ کی سائنس فکشن کی فلموں میں ہی نظر آتے ہیں
آرٹیکل کا لنک
https://www.quora.com/Is-there-a-genetic-…/…/Donna-Fernstrom
اردو زبان میں سائنس کے ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کیجیے
https://www.youtube.com/sciencekidunya
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔