یہ میری دوسری جماعت کی کتاب تھی۔ یاد نہیں کہ اردو کی تھی یا جغرافیہ کی۔ کتاب میں ایک سبق تھا جس میں پاکستان کے مختلف علاقے کے لوگوں کی تصویریں تھیں۔ ایک کھیت کے پاس ، سامنے سے اٹھی ہوئی دھوتی، کرتے میں ملبوس اور سروں پر رومال یا چھوٹی سے پگڑیاں لپیٹے کچھ نوعمر کسانوں کی تصویر کے سامنے لکھا تھا پنجاب کے کسان بچے۔ ایک اور تصویر میں بڑی سی گھیر دار شلوار ، فراک جیسا گھیر دار کرتا اور کرتے پر واسکٹ، سر پر کلاہ پہنے ایک بچے کی تصویر تھی جس کے نیچے لکھا تھا سرحد کا آفریدی بچہ۔ ایک اور تصویر جسے میں آج تک بھلا نہیں پایا ہوں کچھ بچیوں کی تھی جنہوں نے عجیب وغریب لباس پہنا ہوا تھا۔ بچیوں کے بالوں میں سفید پھولوں کے گجرے، کانوں میں بڑے بڑے سے بندے، گردن میں چوڑے چوڑے گلوبند تھے۔ انہوں نے بلاؤز ا ور دھوتیاں پہنی ہوئی تھیں ۔ چھوٹے قد کی ، چھوٹی چھوٹی آنکھوں اور صاف رنگت والی ان بچیوں کی تصویر کے نیچے لکھا تھا “ مشرقی پاکستان کے چکما بچے”۔
یہ میرا مشرقی پاکستان سے پہلا تعارف تھا۔ اور یہ چکما قبیلہ ہی میرا مشرقی پاکستان سے آخری تعلق بھی ثابت ہوا۔ پھر وہ بنگلہ دیش بن گیا ۔مشرقی پاکستان ہمارے دلوں میں تو اب بھی کہیں چھپا بیٹھا اور گاہے بگاہے اس کی یاد انگڑائی لیتی رہتی ہے۔ ہماری اگلی نسلوں کو تو شاید خبر بھی ںہ ہو کہ کبھی ہم میں اور “ ان “میں بھی قرار تھا۔اور کبھی ہم بھی وہ بھی تھے آشنا۔ بے داغ سبزے کی بہار، حسین آنکھوں، مدھر گیتوں والے سندر دیش سے جدائی کبھی ایک بھیانک خواب تھی لیکن اب وہ ایک بھولی ہوئی داستان اور گذرا ہوا خیال بن کر رہ گئی ہے۔
اور شاید چوتھی جماعت کی کتاب میں ایک مضمون تھا جس کا عنوان تھا “ سنہری ریشہ “ ۔ مجھے ریشے کے معنی نہیں معلوم تھے اور میں اسے رشتہ کے ہم معنی سمجھتا تھا ۔ یہ ریشہ ہی شاید اس رشتے کو ختم کرنے کا باعث بنا کہ میرے بنگالی بھائیوں کو اسلام آباد کی سڑکوں سے اسی سنہری ریشے یعنی پٹ سن کی بو آتی تھی۔
اور یہ رشتہ بھی کچھ عجیب ہی تھا۔ ہمارے نزدیک یہ مدقوق، منحنی، سیاہ رو اور عسرت زدہ بنگالی ایک ایسے غریب رشتہ دار کی مانند تھے جس کے رشتہ کو ہم شرمندگی اور لاتعلقی سے قبول کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ تھے بھی اور نہیں بھی تھے۔ کراچی میں اکثر متمول گھرانوں میں بنگالی نوکر ہوتے جن میں زیادہ تر خانساماں ہوتے۔ لیکن عام طور پر یہ بنگالی ہماری تحقیر کا نشانہ ہوتے۔ میرے ساتھ البتہ اس کے برعکس معاملہ ہوا۔ میری پہلی ملازمت میں ، جو ایک عارضی سرکاری ملازمت تھی، میرا باس یعنی میرے محکمے کا سربراہ ایک بنگالی تھا جو مجھ سے ہی نہیں بلکہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا تھا اور کوئی جملہ تحقیر و تضحیک کے بغیر نہیں بولتا تھا۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان کو الگ ہوئے تین چار سال ہوچکے تھے۔ خیر جی، اپنی اپنی قسمت ہے۔
یہ بات تو یونہی نکل آئی۔ میں نے کہا ناں کہ وہ ہمارے ساتھ تھے بھی اور نہیں بھی تھے۔ ساتھ یوں تھے کہ ریڈیو پر قومی خبریں پہلے بنگلہ میں نشر ہوتی تھیں۔
“ پوربو پاکشتانے ایکاروٹا، پوشچن پاکشتانے باروٹا” دلارا ہاشم کھو بور پوڑچھین۔
اور کبھی “ عندل چودھری” کھو بور پڑھتے تھے۔ بنگلہ خبریں بھلا کون سنتا لیکن چونکہ اس کے بعد اردو خبریں ہوتی تھیں تو کانوں میں بنگلہ الفاظ بھی پڑ جاتے اور کچھ نہ کچھ مطلب سمجھ میں آہی جاتا۔ “ ہندوشتانیر پردھان منتری بولین” تو سمجھ میں آجاتا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے کہا۔ پھر کبھی ریڈیو سے نذرل گیتی سنائی دیتی۔ پھر جب ٹی وی آگیا اور جب ہمارا ٹی وی بہت زیادہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور لہو ولعب کے دوسرے پروگراموں کے ساتھ رقص و موسیقی کے پروگرام بھی آتے تھے جن میں رقص کے پروگرام زیادہ تر ڈھاکہ ٹی وی کے ہوتے جن میں سیاہ لمبے بالوں اور جادو بھری آنکھوں والی رقاصائیں “ منی پوری” ا” کتھا کلی” اور “بھارت نا ٹیم “کے نرت بھاؤ دکھلاتی تھیں۔
اور ایک چیز اور تھی جسے مغربی پاکستانی اور خاص کر پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے مغربی پاکستانی قدر کی نگاہ سے دیکھتے وہ تھے مشرقی پاکستان کی اردو فلمیں ، جو عام طور پر بہت معیاری ہوتیں۔ ان کی کہانیاں حقیقت سے زیادہ قریب ہوتیں۔ رحمان، شبنم، ہارون ، روزی، مصطفے ، خلیل، سلطانہ زمان، ریشماں ، شبانہ اور سبھاش دتہ اب ہمارے ہاں بھی مقبول تھے۔ مشرقی پاکستانی موسیقی دل کو چھو لیتی تھی اور فردوسی بیگم، بشیر احمد، فیروزہ بیگم کے گیت فرمائشی پروگراموں میں پہلے نمبر پر ہوتے۔ فیض صاحب نے فلم کی دنیا میں قدم رکھا تو اپنی فلم “ جاگو ہوا سویرا” مشرقی پاکستان میں ہی فلمائی جسے ملک میں تو پذیرائی نہیں ملی لیکن سنجیدہ بین الاقوامی میلوں میں بہت پسند کیا گیا۔ یہیں سرور بارہ بنکوی نے “ آخری اسٹیشن” جیسی فلم بنائی۔ یہ مشرقی پاکستان ہی تھا جہاں مشترکہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم “ سنگم “ بنی جس کا گیت “ ہزار سال کا جو بڈھامرگیا” اس زمانے کی ہر پکنک میں نوجوانوں کا مقبول گیت تھا۔ پاکستان کی پہلی سینیما اسکوپ فلم “ بہانہ” بھی مشرقی پاکستان میں بنی۔ اور پھر جب ایک مغربی پاکستانی اداکار نے مشرقی پاکستانی فلم کے زریعے دھوم مچائی تو پہلی پلاٹینم جوبلی فلم “ چکوری” بھی اسی مشرقی پاکستان کی تھی۔
اور فلم سے پہلے ایک چیز چلا کرتی تھی جسے کہتے تھے “ پاکستان کا تصویری خبر نامہ” ، جس میں صدر ایوب کو مغربی اور مشرقی پاکستان کے دورے کرتے دکھاتے۔ کبھی یہ فلم رنگین بھی ہوتی تھی اور جب اسکرین پر گہرا سبز رنگ چھاجاتا جس کے درمیان سے نیلے دریا گذرتے دکھائی دیتے جن پر کوئی دبلا پتلا، کالا سا مانجھی “ سمپان” کھے رہا ہوتا تو ہم سمجھ جاتے کہ یہ مشرقی پاکستان کی کوئی خبر ہے۔ کپتائی ڈیم کے افتتاح کی یا کرنافلی پیپر مل کی یا پٹ سن کے کسی کارخانے کی کوئی کہانی ہے۔
اور یہی مشرقی پاکستان تھا جس کے ڈھاکہ کے نیشنل اسٹیڈیم میں 1954 میں پاکستان نے اپنا پہلا سرکاری ٹسٹ میچ بھارت کے خلاف کھیلا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت کوئی بھی بنگالی کھلاڑی اس ٹیم میں نہیں تھا۔ پہلا اور آخری بنگالی کھلاڑی اس کے چودہ سال کے بعد کھیلا لیکن نیاز احمد بھی پوری طرح بنگالی نہیں تھا۔ اور اس کے کئی سالوں بعد اسی نیشنل اسٹیڈیم میں جو اب بنگلہ بندھو نیشنل اسٹیڈیم بن گیا تھا ان بنگالیوں نے پاکستان کو ایک روزہ میچ میں پہلی بار شکست دی تو جدائی کی ساری کہانی سمجھ میں آگئی۔
یہی بنگال تھا اور یہی ڈھاکہ تھا جہاں 1906 میں مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی تھی اور اسی بنگال کا سلہٹ کا شہر تھا جس نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ نواب سراج الدولہ اور شہید تیتو میر نے اسی بنگال میں آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ لیکن جب آدھی سے زیادہ آبادی والے حصے کا ایک بھی لڑکا آپ کی ٹیم میں شامل نہ ہو تو نہ مسلم لیگ نہ اسلام آپ کو جوڑے رکھ سکتے ہیں۔ دسمبر کے مہینے میں مسلم لیگ بنی تھی اور اسی دسمبر کے مہینے میں ہی پاکستان ٹوٹ کر دو لخت ہوا تھا۔
اور یہ بنگالی جنہیں ہم کوئی اہمیت نہ دیتے تھے ، ہم سے کہیں زیادہ سیاسی شعور رکھتے تھے۔ کورنگی میں ہمارے محلے کے کئی لوگ پاکستان ائرفورس کورنگی کریک میں ملازم تھے۔ ان کے دوست جو کورنگی کریک میں رہتے تھے ہمارے محلے میں بھی آتے تھے۔ ان میں ایک بنگالی نوجوان بھی تھا جو شائد ٹیکنیشن یا کلرک تھا۔ اس کی آواز بڑی خوبصورت اور سریلی تھی اور جب بھی یہ ہماری گلی میں آتا تو ہم اس سے مجیب عالم کے گیت سنتے۔ اور اس سے گیت سننے میں ہی عافیت تھی کہ جب یہ بولتا تھا تو ہم سب اپنے آپ کو جاہل محسوس کرتے۔ وہ اس قدر دلیل سے اور سلجھے ہوئے انداز میں بات کرتا کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ اس کی انگریزی اس قدر شاندار تھی کہ ہم منہ دیکھتے رہ جاتے ۔ ہم سب کا ہاتھ انگریزی میں ویسے ہی تنگ تھا۔
یہ سب باتیں تھیں جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان دیکھے بغیر بھی یوں لگتا کہ وہ ہمارے آس پاس ہی کہیں ہے۔ ڈھاکہ میں اردو مشاعرے ہوتے۔ عندلیب شادانی تو وہیں رہتے تھے۔ سرور بارہ بنکوی بھی وہیں چلے گئے۔ رائٹرز گلڈ کا پہلا سالانہ اجلاس جس میں قدرت اللہ شہاب، عالی جی اور قرات العین حیدر وغیرہ شامل تھے، اسی ڈھاکے میں ہوا۔
میں مشرقی پاکستان نہیں گیا لیکن اخباروں میں ڈھاکہ کے بیت المکرم مسجد اور پلٹن میدان میں جلسوں کی خبریں یوں آتی جیسے نشتر پارک اور بھاٹی گیٹ کی خبریں ہوتیں۔ شاہ باغ ہوٹل، صدر گھاٹ، رمنا، لال منیر ہاٹ، سات گنبد مسجد کاذکر یوں ہوتا جیسے لالوکھیت اور ناظم آباد کا ہوتا تھا۔ یہیں کہیں میر پور اور محمد پور بھی ہیں جہاں آج بھی کئی آنکھیں پاکستان کی جانب دیکھ رہی ہیں ۔ جنہوں نے ہمیں اب تک نہیں بھلایا لیکن جنہیں ہم بہت پہلے بھلا چکے ہیں۔ ڈھاکے کی ململ ہمیشہ ایک اچھے کپڑے کی مثال کے طور پر یاد کی جاتی تو کراچی میں کئی جگہ بنگال کے “رش گلے” کی دکانیں خریداروں کی توجہ کا مرکز ہوتیں۔ ہمدرد دواخانہ کا پتہ کراچی، لاہور اور ڈھاکہ کے بغیر مکمل نہ ہوتا۔
ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان کا دوسرا بڑا شہر جسے ہم کبھی چاٹگام پکارتے، تو کبھی چٹا گاؤں تو کبھی چٹاگانگ اور جو اب “ چٹا گرام” ہوگیا ہے۔ چاٹگام کے ساتھ ہی چٹاگانگ ہل ٹریکٹس اور دریائے کرنافلی ، بندرگاہ، ریلوے اسٹیشن اور جوٹ اور کاغذ کے کارخانے ذہن میں آتے۔ چٹاگانگ جو آج کے بنگلہ دیش کی معیشت کا اہم ترین ستون ہے لیکن بنگالیوں نے اس کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو ہم نے اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کراچی کے ساتھ روارکھا ہے۔
سلہٹ کے چائے کے باغات کی تصویریں دیکھو تو طبیعت کسی گرما گرم کڑک چائے کی طرح بشاش ہوجاتی۔ سرما ندی کے کنارے بسے اس شہر میں مسلم، ہندو اور بدھسٹ ایک زمانے سے شیرو شکر رہتے چلے آئے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی شاید کوئی بھی فلم کا کسس بازار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔ طویل ترین سنہرا، ریتیلا ساحل قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ ہم خبروں میں “کھلنا “ کا بھی بہت ذکر سنتے۔ نیوی کا ایک اہم مستقر کھلنا دراصل سندر بن کے گھنے جنگلوں کا دروازہ ہے جہاں “ رائل بنگال ٹائیگر” آپ کا منتظر ملے گا۔ اور پھر راجشاہی تھا جس کا نام سن کر ہم مغربی پاکستانی احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے کہ اس کے نام کے ساتھ یونیورسٹی اور تعلیم وتربیت کا ذکر ضرور آتا جہاں اس وقت کے پاکستان کا دوسرا میڈیکل کالج تھا۔ حاجی گنج فورٹ اور جندہ پیر ( زندہ پیر) مسجد والا نارائن گنج اپنے جوٹ کے کارخانوں کی ہڑتال کے سبب خبروں میں رہتا۔ اور “ جلاؤ گھیراؤ” والے مولانا بھاشانی کا تانگیل، چتی دار کیلوں کے لیے مشہور “ کومیلا” اور نواکھالی جہاں پاکستان کی بقا اور بنگلہ دیش کی آزادی کی گھمسان جنگ لڑی گئی۔ ا ور پھر جیسور اور بار یسال جن کے نام ہم انہی دنوں زیادہ سنتے۔
بہت عرصہ قبل ایک ہندوستانی دوست کے ہاں جہاں علیگڑھ کے کچھ نوجوان جمع تھے ایک لڑکا جو اپنی ملازمت کے سلسلے میں انہی دنوں ڈھاکہ سے ہوکر آیا تھا۔ اس سے یاروں نے بنگلہ دیش کا حال احوال پوچھا۔ اس نے جو مختصر مگر جامع تبصرہ کیا وہ مجھے اس وقت بہت چبھا تھا۔ اس نے کہا کہ بنگالیوں نے دو کام اچھے کئے۔ ایک تو پاکستان سے آزادی لے لی، اور دوسرا یہ کہ ہندوستان کو اپنے سر پر سوار نہیں ہونے دیا۔
بظاہر تو دونوں باتوں سے بنگالیوں کی پاکستان سے بے وفائی اور بھارت سے احسان فراموشی کی بو آتی ہے لیکن اگر غیر جانبدار ہوکر سوچا جائے تو بنگالیوں نے وہی کیا جو ان کے مفاد میں تھا۔ آج بنگلہ دیش کسی کا محتاج نہیں اور میری آنکھیں چمک جاتی ہیں جب میں دوبئی میں کوئی لباس خریدتا ہوں اور اس پر “ میڈ ان بنگلہ دیش” کا لیبل نظر آتا ہے۔ بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کررہا ہے۔
عمررسیدہ تاریخ رکھنے والا ڈھاکہ آج ایک جدید شہر ہے، بلند و بالا عمارتیں، جدید شاپنگ مالز، بڑے بڑے اسپورٹس اسٹیڈیم، فیشن ایبل ہوٹل اور ریستوران، نئی وضع کی خوبصورت کوٹھیاں ، نئے نئے کارخانے، آزاد خارجہ پالیسی ہم سے کہیں زیادہ مضبوط کرنسی ، یہ سب دیکھ کر اس علیگڑھ کے نوجوان کی بات سچ نظر آتی ہے۔
اور ہاں یہ تو بتانا بھول گیا کہ “ چکما” کس طرح میرا پہلا اور آخری تعلق ثابت ہوئے۔ پہلی بار مشرقی پاکستان کو چکما بچوں کے حوالے سے پہچانا تھا۔ مشرقی پاکستان ختم ہوگیا لیکن ہمارا وزیر سیاحت ایک “ چکما” سردار، راجہ تری دیو رائے تھا۔ اس سے پہلے نورالامین کا انتقال ہوچکا تھا۔ راجہ تری دیو رائے کے ساتھ ہی حسین آنکھوں اور مدھر گیت والے اس سندر دیس سے ہمارا آخری تعلق بھی ختم ہوگیا۔
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو