فیضؔ صاحب کی کتاب شامِ شہرِ یاراں کا دیباچہ ’ملامتی صوفی‘ کے عنوان سے ہمارے بابا صاحبا اشفاق احمد نے لکھا۔ اپنے اور فیض صاحب کے نظریاتی اختلاف کے سیاق وسباق میں خودکوملامتی اوراپنےممدوح ومحبوب شاعرکوصوفی ٹھہراتےہوئے اشفاق صاحب لکھتےہیں ’تاریخ میں ڈھونڈنےسےآپ کوکئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں ایک شرعی کی صوفی سےدوستی ہوگئی اوردونوں نےایک دوسرےکےہاتھ میں ہاتھ ڈال کرآخری منزلیں طے کیں۔ لیکن ایک شرعی آدمی کی کسی ملامتی سے دوستی نہیں ہوئی‘
صاحبو ہماری آج کی کہانی اشفاق صاحب کی بیان کردہ دونوں صورتوں اور ان سے متعلق تاریخی مثالوں سے انحراف کرتے ہوئے مخالف سمت میں چلتی ہے۔ اس میں قندھار کے ایک شرعی کا ذکر ہے جس نے ایک صوفی کو دھتکارتے ہوئےحسن ابدال کی پہاڑی سے اُس پر پتھر دے مارا تھا۔
ساتھ ہی ساتھ یہ کہانی ایکسل لیب کے تین سرکردہ مینیجروں کے گرد گھومتی ہے جن میں بالترتیب تینوں نظریاتی عیوب ہونے کے باوجود گہرا یارانہ رہااور یہی نہیں بلکہ اتوارکی ایک سہانی سلونی صبح ایک شرعی، ایک صوفی اورایک ملامتی نےہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرکچھ تاریخی مقامات کی سیر اور سلوک کی منزلیں اکٹھے طے کیں۔
اب یہاں راویِٔ رنگیں بیاں ایکسل کےتاریخی ریکارڈسےثابت کریں گےکہ چیچہ وطنی کےصوفی اورواہ کینٹ کےشرعی کایارانہ قرن ہا قرن سےچل رہاتھاجب راولپنڈی سےتازہ بہ تازہ ریٹائرڈملامتی نے آؤٹ ریچ کی کرسی پرشب خون مارا۔مگرصاحبوایچ آرکےآرکائیول ریکارڈاورلیب کےبائیومیٹرک حاضری کےگوشواروں سے پرے بلیوایریاکےابوالقاسم فضل الحق روڈ کےپار سی ڈی اے کی ناک کے عین نیچےاسی محکمےکی اندرکھاتےملی بھگت وآشیرواد سےچلنے والےچائےکےڈھابےکی ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی کرسیاں، مشترکہ ایش ٹرےمیں گل ہوتےسانجھےپیکٹ سےنکلےسگریٹوں کےبٹ اورملائی مارکہ چائےکےپیالوں کااندراج توسیدھا یاروں کےدل پرہوتاہے
اوراللہ بھلا کرےکہنےوالےکہہ گئےہیں کہ حسابِ دوستاں در دل۔ اب اس حساب کوٹٹولنےکھنگالنےبیٹھیں توجان پائیں گےکہ کیسےایک کہنہ مشق شرعی اورصوفی نےکُھلےدل سےایک نوآموزملامتی کو خوش آمدیدکہا تو اس نے بھی عہدِ ترک عشق کو تہہ کرکے جیب میں ڈال بے اختیار ان دونوں کے گلے میں باہیں ڈال دیں۔
صاحبو داستان لمبی ہوئی جاتی ہےاور ابھی تو اس مختلف العقیدہ تکون کو آنے والے دنوں میں موبی لنک پاکستان کے سردوگرم چشیدہ ایک دلنواز سبھاؤ اور اسی خصوصیت کی مسکراہٹ سے لیس چوتھے درویش کی صحبت بھی میسر آنی تھی، مگر یہ کہانی کسی اور دن پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لینے کے بعد مینیجر آؤٹ ریچ کی اسامی میں ایکسل لیب میری پہلی سویلین نوکری تھی۔ چک لالہ کے TCS Outlet میں لاڈلے کے ہمراہ ہم ایک کوریئر کروانے آئے تھے جب وہیں لفافے پر ہم جس سمے ایڈریس لکھ رہے تھے لاڈلا کاؤنٹر پر پڑا اخبار کھنگال رہا تھا۔
سر ایکسل لیب کے بارے میں سُنا ہے کہ بہت اچھی ورک پلیس ہے، آپ یہاں کیوں نہیں اپلائی کرتے، یہ دیکھیں ایچ آرکوآرڈینیٹرکی اسامی کااشتہارآیاہواہے۔ ہم نےلگےہاتھوں سی وی اورکورنگ لیٹرکا پرنٹ آؤٹ ایکسل لیب کی جاب ویکنسی کےلیےمسلمان کیااور اسی TCS outlet سےدوسراکوریئرایکسل لیب ہیڈکوارٹر بلیو ایریا کو ارسال کردیا۔
صاحبو نہ تو کوریئرکوئی کبوتر تھا اور نہ ہی وہ عرضی کوئی پہلے پیار کی پہلی چٹھی تھی، مگر ایکسل لیب ان معدودے چند ساجنوں میں سے ضرور تھی جہاں سے ہمیں انٹرویو کا بلاوا آیا۔ اور ایکسل کے پہلے انٹرویو میں ہم آگ لینے گئے پیمبری لے کر لوٹے۔
لیب کےجہاندیدہ انٹرویو پینل نےعالمِ حیرت میں ایک نسبتاًجوان ریٹائرڈپنشن یافتہ شخص کودیکھااور ہمارےکوائف کومطلوبہ نوکری کےمقابلے پر اوور کوالیفائڈ قرار دےکر چلتا کیا کہ یہ اسامی تو نہیں ‘کچھ اور’ ہے جس کے لیے شاید آپ کو کچھ دنوں میں زحمت دیں
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے اب ایکسل میں ہمارے پیش رو سجادحیدریہاں کہتےہیں کہ اس دن ڈاکٹرصاحب کو مینیجر آؤٹ ریچ کی پوسٹ کے لیے ’بندہ‘ مل گیا تھا۔ مگر صاحبو ایکسل لیب سے آؤٹ ریچ کی اسامی کے بلاوے اور آفر لیٹر ہر دو کے بیچ ڈاکٹر نصیر احمد اور انٹرویو پینل سے ملاقاتوں اور ایکسل کےروزمرہ میں پوراایک دن گزارنے کی کچھ کھٹ مٹھی یادیں ہیں جنکا دفتر اگر یہاں کھول لیا تو ہماری کہانی مشتاق احمد یوسفی کی ڈومنی کی طرح تال بے تال گاتی کوئے ملامت کو نکل جائے گی۔
واپس ایکسل لیب کی مختلف العقیدہ مینیجروں کی تکون کو پلٹتے ہیں اس انتباہ کے ساتھ کہ اب ہم اگر کہیں بھٹکیں تو آپ کو اختیار ہے ہمیں کانوں سے پکڑ کر واپس راہِ راست پر لے آئیں۔
تو صاحب جس آؤٹ ریچ ڈیپارٹمنٹ کو ہم نے جوائن کیا تھا سجاد حیدروہاں سے آؤٹ گوئنگ مینیجر تھے انگریزی محاورے کے مطابق مجھ ناچیز نے جن کےجوتوں میں پورا اترنے کی کوشش کرنی تھی۔ آپ واہ کینٹ میں لیب فرنچائز کی داغ بیل ڈال چکے تھے اور اس رشتے سے اب لیب کے کلائنٹ اور بزنس پارٹنر تھے۔ سردوگرم چشیدہ عبدالوحید لیب کےآپریشنز مینیجر تھے اور آپکی اور ایکسل کی کیمسٹری خوب ملتی تھی۔ آپ چیچہ وطنی سے تھے اور ہماری طرح آپ کو بھی ریلوے کی محبت اپنے والد کے پیشے کےسبب ورثے میں ملی تھی۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا قول ہے کہ ایک دم میں ولایت حاصل کرنے کے لیے ادب اور خدمت کو اختیار کرنا چاہیے۔ صاحبو تصوف کی جس منزل پر ایک شرعی اور ایک صوفی دل کا دروازہ کھولے کھڑے ہوں تو کوئی کافر ہی ہوگا جو ادب اور خدمت کو اختیار نہ کرے۔
غالباً ایکسل میں ہمارے نزول کا دوسرا یا تیسرا ہفتہ ہوگا کہ یہ پیارے لوگ، مہدی حسن کی سُریلی غزل کے مصداق
پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے
اور بے تکلفی اس حد تک بڑھ گئی کہ گفتگو میں باقاعدہ ’گراری اڑنے‘ لگی
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و نظر کا انقلاب
یہ غالباًاس سےتیسرےیاچوتھےہفتےکاذکرہےجب پروگرام یہ طے پایاکہ اس اتوارمنہ کاذائقہ بدلنےکی خاطرچک لالہ کی واہیات کمپنی کو آرام دیتےہوئےایکسل لیب کی واہیات کمپنی کےہمراہ ایک یاترا ترتیب دی جائے۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ جگہ کی مد میں قرعۂ فال حسن ابدال کے نام نکلا تو یہ غلط بیانی ہوگی۔
ہم کچھ بھی کرلیتے قرعہ حسن ابدال کا ہی نکلنا تھا کہ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اول سجاد حیدر واہ کینٹ کے رہائشی تھے اور ان کی پرواز اور مار کے علاقےکی حد اپنے ڈرائنگ روم کے صوفے کے 6 میل کے قطر کے اندر اندر تھی۔ دوم انہوں نے ہمیں اپنے غریب خانے پر ایک پرتکلف ناشتے کی دعوت دے ڈالی تھی
جسکے جملہ مشمولات میں ملائی مارکہ چائےاورفروٹ کیک بھی شامل تھے۔ اب اپنے پڑھنےوالوں سےکیا چھُپانا، صاحبواس نعمت مترقبہ کےہردو اجزا فروٹ کیک اور چائے اور اول الذکر کو ثانی الذکر میں ڈبو لینے کی لذت پر ہم ایک آنکھ میچ کر اپنی پوری زندگی تیاگ دیں یہ تو پھر واہ کینٹ تک کی ڈرائیو تھی۔
پروگرام کچھ یوں تھاکہ راولپنڈی سےایک صوفی کی ہمراہی میں چک لالہ کےملامتی نےترنول پھاٹک کی سمتی شست میں گرینڈ ٹرنک روڈکاراستہ پکڑ لیناتھااورسیدھا واہ کوآبسرام کرنا تھا۔ وہی واہ جس کا نام ایک مغلیہ روایت کی رو سے تب پڑا جب دریائے ہرو کے ہم نام شہر کے باہر گرنےوالی آبشارکے جلو میں اس خطےکے بےمثال حُسن پرشہنشاہ جلال الدین محمداکبرکی نظر ٹھہری توتحسین کی مدمیں مہابلی کےمنہ سےبےاختیار ’واہ‘ کالفظ نکلا۔ لفظ واہ میں کینٹ کی اضافت بعدکاقصہ ہے، چونکہ ابوالفضل کےاکبرنامےاور تزکِ جہانگیری میں کینٹ کاذکر نہیں ملتا گمان غالب ہے کہ یہ مغلیہ سلطنت کے بعد کی تعمیر ہے۔
صاحبو اسی واہ سے اگر منہ اور نیت پشاور کی ہو تو جہاں آج کی ہزارہ ایکسپریس وے گرینڈ ٹرنک روڈ کو خدا حافظ کہتی ہے اس سنگم پر حسن ابدال آباد ہے۔ ابدال کا لاحقہ تو خود گواہی دیتا ہے کہ اس شہر کو کسی تگڑے ولی کی آشیرواد ہے۔
صاحبو اسی شہر کی وجہِ شہرت سکھ مذہب کی مقدس عبادت گاہ گوردوارہ پنجہ صاحب بھی ہے جہاں ایک چشمے کی قربت میں ایک چٹان پر ہاتھ کے پنجے کا نشان ثبت ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ قندھار سے آئے ولی اللہ نے جس کی کہ حسن ابدال کو آشیر واد تھی اور جو اونچی ٹیکری پراپنا مسکن رکھتاتھا،
اس شہر میں آئے ایک بھگت ایک صوفی گرو نانک کو جبکہ اس نے پینے کو پانی مانگا تھا جلال میں آ ایک پتھر دے مارا جو کہ لڑھکنیاں کھاتا جب نیچے آیا تو ایک بے اعتنائی سے گرو کے بلند کیے ہاتھ کے اشارے پر ہوا میں ہی جھول گیا۔
حسن ابدال کے مسلمان ولی اور سکھ پنتھ کے گرو کی چپقلش نے اس شہر کو پنجہ صاحب کا تحفہ دے دیا۔
(جاری ہے)
کاما مستری اور ناجو فقیر پنجہ صاحب کی کہانی
ـــ
کاکول پوسٹنگ کے دنوں میں ہمارا جب کبھی راولپنڈی آنا ہوتا اور اب پیچھےمڑ کر دیکھیں تو ایسا ویک اینڈ پر اکثر ہوا رہتا تھا۔ گرہستی زندگی کا روایتی ڈائیلاگ کہ ’ایبٹ آباد میں ڈھنگ کی کونسی چیز ملتی ہے!‘
اس شہرِ دلپذیر سے جڑاوں شہروں تک کے ریٹرن ٹکٹ کا سلف سٹارٹر ثابت ہوتا۔ یہ گرہستی ڈائیلاگ ایک جگت یک سطری فقرہ (یونیورسل ون لائنر) ہےجس میں کسی بھی جگہ، قصبےیاشہرکانام فٹ کیا جاسکتاہے اس خوبصورتی کےساتھ کہ نہ توجملےکےوزن اور مجموعی نحوست میں کوئی فرق آئے گا اور نہ ہی اسے سُن کر مخاطب و ممدوح پر طاری ہونے والی اختلاجی کیفیت میں کوئی کمی۔
ایک ویک اینڈ پراختیار کیےگئےبلکہ تھوپ دیئےگئے اس سفرمیں ایبٹ آباد واپسی اکثر اتوار کو دن ڈھلے ہوتی کہ ہم ترنول پھاٹک اور سرائے خربوزہ کے درمیانی راستے میں شام کے شفق رنگ محلول میں رات کی سُرمئی سیاہی کو گھُلتا دیکھتے۔
نکلسن آبلِسک کاہم نےہمیشہ سایہ ساہی دیکھاجسکےپار دورافق پر اونچےموبائل ٹاورز اورایک اونچی ٹیکری پرروشن بلب حسن ابدال کی قربت کاپتہ دیتے۔ گردوپیش کی نسبت اونچائی پرواقع چیزیں ایک تو ویسےنمایاں ہوجاتی ہیں اور رات کےسرمئی اندھیرےمیں ایک اکیلی مچان نما پہاڑی کے اوپر ٹمٹماتی روشنیاں تواس جگہ کوکچھ اورپراسرار سابناکرپیش کرتیں۔
راولپنڈی سےایبٹ آبادواپسی کےسفر میں حسن ابدال کی یہ روشن پہاڑی ایک کلیدی کنٹرول پوائنٹ تھی۔ اس کامطلب تھا کہ اب تک کا جی ٹی روڈ کاڈیوائڈرکےایک طرف کانسبتاًسیدھا سفر سماپت ہوا چاہتا ہے اور اب سٹئیرنگ وہیل پر پباں بھار بیٹھنے کا مقام ہے کہ اگلے ڈیڑھ سے دو گھنٹے ایک گاڑی کی راہداری جتنی چوڑی ہزارہ کے پہاڑوں کے بیچ لہراتی بل کھاتی سڑک پر سامنے سے آنے والی ٹریفک اور ان کی آنکھوں اور دماغ ہر دو کو چندھیاتی ہائی بیم روشنیاں قلب و نظر کا امتحان لیں گی۔ جن دنوں کا یہ ذکر ہے ہزارہ ایکسپریس وے کا وجود زمین پر توکجا فائلوں تک میں نہ تھا۔ سوہنی دھرتی کو سی پیک اور پاپا جونز مارکہ باجوے کی برکتوں سے فیضیاب ہونے میں ابھی دیر تھی۔
دیکھیے ہم حسن ابدال جاتے راستہ بھٹک گئے۔ تو صاحب بات ہورہی تھی حسن ابدال کی پہاڑی اور برقی قمقموں کی ٹمٹماتی روشنیوں کی۔ ایک عرصےتک تو ہم یہ سمجھا کیے کہ یہ حسن ابدال کے المشہور گردوراے کا نشان صاحب (جھنڈا) ہے۔ ہمارے اس اندازے کی نفی بہت بعد کے دنوں میں طلوع ہوتی اس سویر کو ہونی تھی جب ایک شرعی، ایک صوفی اور ایک ملامتی کی ٹولی واہ کینٹ سے حسن ابدال کی یاترا کو نکلی تھی۔
واہ کینٹ کی پرتکلف ناشتے کی ضیافت کے اختتام پر جب ہم فروٹ کیک اور چائے کے خمارسے نکلے ۔۔۔ آپ بھلے زیرِ لب مسکرا لیں لیکن صاحب ہم تو اسے خمار ہی کہیں گے۔
ایک پرانی یاد ہے، پٹھانے خان سنتے ہوئے ہمارے دوست اور سینیئر سر عمر سعید نےیہ نکتہ ذہن نشین کروایا تھاکہ چینا روہی کےدشت میں ایک خودرو جڑی بوٹی ہے جسےزمین سےاُکھاڑ اور جھاڑ اور رات بھر سُکھاکر صبح چائے کےساتھ نوشِ جان کیا جاتا ہے۔ اللہ کے بندے ماریں یا چھوڑیں صاحبو اس دن سے ہم اپنے من پسند فروٹ کیک اور چائےوالے بریک فاسٹ کامبو پر روہی والے چینے کا گمان کرکے صوفیانہ رنگ کا مزہ لینے لگے ہیں۔ اس کا نشہ چِھڑتا ہے تو خمار سے دو ہاتھ آگے دل کے تار کو مرشد کے تاروں سے جوڑ دیتا ہے
وجے اللہ والی تار
وجے مرشد والی تار
چینا ایں چھڑیندا یار
واہ کینٹ کی اس سلونی صبح چینا چِھڑ گیا تھا جب ایک چھلکن کی کیفیت میں ہم نے اپنی یاترا کا پہلا زمینی نشان حسن ابدال کے گردوارہ پنجہ صاحب کو تجویز کیا۔ آپ سے جھوٹ نہیں بولیں گے اس تجویز میں کہیں ڈھکی چھُپی کاکول پوسٹنگ کے دنوں والی پراسراریت بھی تھی جو حسن ابدال کی تاریک پہاڑی پر نشان صاحب کی روشنیوں کو دیکھ کر جاگتی تھی۔ یہ تو جب ایکسل کے مختلف العقیدہ مینیجروں کی ٹولی حسن ابدال کی بھول بھلیاں گلیوں میں نکلی ہے تو معلوم پڑا کہ گردوارہ تو یہیں حسن ابدال کی گنجان آبادی کے مرکز میں امرتسری حکماء کی پوشیدہ امراض کے شافی علاج کی ضمانت دیتی دواخانہ نما دکانوں کے عین سامنے ہے۔
گردوارہ پنجہ صاحب میں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ اصحابِ یاترہ میں سے ایک کے سیکورٹی کوائف دکھانے پر اندر آنے کی اجازت تو مل گئی مگر ہمارے اوپر
پولیس والوں کا پہرہ مسلط ہوگیا تھا۔
ہم تو وہاں سیوا اور درشن کو آئے اپنے مہمان سردار بھائیوں سے جپھی ڈالنے اور کُھل کے پنجابی بولنے گئے تھےمگر پروٹوکول کے نام پر ایک نگرانی کی نظر ہوگئے۔ یہ اور بات کہ آف سیزن ہونے کے سبب وہاں یاتری بھی قریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔
پالکی صاحب کواپنےحصارمیں لیےسروورصاحب سےگھری گردوارے کی مرکزی عمارت تین منزلہ ہےاوراپنے پیازی کلس، چوباروں اور خوبصورت جھروکوں کےساتھ سکھ طرزِتعمیرکامنہ بولتاشاہکار ہے۔
ایک مزے کی چیز سنگِ مرمر کی وہ چھوٹی تختیاں تھیں جو اپنے دور میں سیواکرائی کا ثبوت خود پر لیے جگہ جگہ نصب تھیں
گردوارے میں درشن کی خاص چیز سروور صاحب کو سیراب کرتا چشمہ تھا۔ ایک اُبل کر پھوٹتے شفاف پانی اور اس میں بے تکلفی سے گھومتی مچھلیوں کے جلو میں ایک چٹان نصب تھی جس میں ایک بہت واضح کُھلے ہوئے ہاتھ کا پنجہ ثبت تھا۔
صاحبو روایتوں میں آتا ہے کہ گئے دنوں میں اداسی پر نکلے گرونانک
جب حسن ابدال کی پہاڑی کے زیرِ سایہ دم لینے کو رکے تو پانی کی طلب ہوئی۔ کہنے والے کہتےہیں کہ پانی کا ایک رواں چشمہ پہاڑی پر متمکن اللہ کےولی بابا قندھاری کے زیرِ تصرف تھا جس سے ایک خلقت سیراب ہوتی تھی۔ مگر ایک بےدین گروکی طرف سےپانی کی درخواست نےولی قندھاری کی اناکو تازیانہ لگایا
کہ یہ کون ہوتا ہے ہم سے پانی مانگنے والا! جلال میں آئے پیرِ شریعت نے پہاڑی کے اوپر سے پانی مانگنے والے صوفی پر پتھر کھینچ مارا جو لڑھکنیاں کھاتا جب نیچے آیا تو ایک اوسط حجم کی چٹان بن چکا تھا جو آدمی کو مارنے کے لیے کافی تھی۔ اس سے پہلے کہ چٹان کوئی گزند پہنچاتی ہمارے گرو نے
کھُلےہاتھ کاپنجہ آگےبڑھااس تودےکو ہواہی میں ادھر اُٹھا لیااور ایک طرف کوپلٹا زمین پررکھ دیا۔ ساتھ ہی ساتھ زمین سے مخاطب ہوئےکہ اپنےدامن کاپانی پھاڑایک چشمہ جاری کرے۔ کرناخداکایہ ہواکہ ولی قندھاری کاچشمہ سوکھ کرکانٹاہوگیااورگرو کےچشمےاور چٹان پرثبت پنجےکافیض اب بھی جاری و ساری ہے
اب یہاں دوسراانکشاف یہ تھاکہ پہاڑی چوٹی پرجس روشنی کوہم گوردوارےکا نشان صاحب سمجھتےتھےوہ ولی قندھاری کی خانقاہ ہے۔
پنجہ صاحب کےپڑوس کی بھول بھلیوں سےنکلیں توسامنےپہاڑی کو جاتی کنکریٹ کی لامتناہی سیڑھیاں ہیں۔ ایکسل کےیاتریوں کی ٹولی گردوارےسےنکلی تواس پرآزمائش گھاٹی کی مسافر ہوئی
نیت کا خلوص اور ارادے کی ثابت قدمی اپنی جگہ مگر صاحبو ایک کٹھن چڑھائی کے اُس پار تکیہ لگائی خانقاہ تک پہنچنے کے لیے پکی سانس اور کارگر گُھٹنے ازبسکہ ضروری تھے۔ اب چونکہ ہمارے ولی کا چشمہ تو سُوکھ چکا تھا تو اخپل بندوبست کے طورپر پانی کی جو بوتلیں ہم نے ساتھ لیں
وہ ان لامتناہی سیڑھیوں کی پہلی منزل تک ہی آدھی ہوگئیں۔ صاحبو ایک آدھی خالی بوتل کو آدھی بھری سمجھنا رجائیت پسندی کی دلیل تو ہوسکتی ہے مگر اس سے پیاس نہیں بجھائی جاسکتی۔ ایک سابقہ فوجی نے اپنے دو ہمسفروں کو یہ گُر سمجھایا کہ گنے چُنے پانی پر خود کو سیراب کرنے کا آزمودہ نسخہ یہ ہے
کہ گھونٹ بھرنےکےبجائےپانی کوزبان پرٹھیرا کرچوس چوس کرپیا جائےتو ہماری چھاگلیں کچھ لمبے عرصے ہمارا ساتھ دے سکتی ہیں۔ تو صاحبو باقی کے لگاتارچڑھائی کے سفر میں ہر گام چند سیڑھیوں اور گھونٹ کے وقفے پر تھم کر سیٹی نما سانس اور پیاس کو درست کرتی یہ ٹولی سسکیوں اورچسکیوں کےگیئر لگاتی
بابا ولی قندھاری کے دربار پر آ پدھاری۔ آگے ایک اور انکشاف ہمارا منتظر تھا۔ ہمارے ولی حسن ابدال کے اس دربار میں مدفون نہیں ہیں۔
حسن ابدال کی وجۂ تسمیہ بابا حسن ابدال سے ہے۔ اسکا کچھ تفصیلی ذکر منظرالحق صدیقی اپنی تاریخِ حسن ابدال میں کرتےہیں۔
آئینِ اکبری کامترجم بلاخمن ہمیں بتاتاہےکہ اٹک کےپاس پنجاب کا یہ قصبہ قندھارمیں مدفون باباحسن ابدال کے نام پر ہے۔ بلاخمن یہ حوالہ میرمعصوم بکھری کی تاریخِ سندھ سے لاتاہے۔
صاحبو گزرے وقتوں کے سندھ کی راجدھانی ارور ( آج کے سکھر) کے پڑوس میں واقع قدیمی جزیرےبکھر پرمغلوں کےدور میں
میر معصوم کی گورنری کا دور دورہ تھا۔ ان کی تالیف کردہ سولہویں صدی عیسوی کی تاریخِ سندھ جو تاریخِ معصومی کے نام سے زیادہ جانی جاتی ہےسندھ میں مغلوں کے دور اور اس سے پہلےکی تاریخ پر ایک مستند دستاویز ہے۔
صاحبو تاریخِ معصومی میں ہماری دلچسپی کا ذکر بابا حسن ابدال سے متعلق ہے۔
میر معصوم شاہ اپنے شجرہ نسب کی بارہویں پشت میں اپنا تعلق باباحسن ابدال المعروف ولی قندھاری سے جوڑتے ہیں۔ تاریخِ معصومی ہی ہمیں بتاتی ہے کہ بابا حسن ابدال تیمورلنگ کے بیٹےمرزاشاہ رخ کی زیرِسرپرستی رہےجو آپکا عقیدت مند اور مرید تھا۔
تاریخِ معصومی بابا حسن ابدال کےسفرِ ہند کا ذکر کرتی ہے اورتاریخ دان متفق ہیں کہ پاکستان کا حسن ابدال انہی بابا جی کے یہاں قیام کی یادگار کے طورپر حسن ابدال کہلاتاہے۔
اس دوپہر بابا ولی قندھاری کے دربارپر پہنچنے اور سانس درست اور پانی سےخود کو سیراب کرلینے کے وقفے کے بعد
جب سسکیاں اور چُسکیاں کچھ قابو میں آئیں توہم پر یہ عقدہ کھلا کہ بابا ولی قندھاری سے موسوم یہ دربار دراصل بابا حسن ابدال کی چلہ گاہ ہے اور ان دنوں کی یادگار ہے جب آپ نے یہاں قیام کیا تھا۔ ایک مختصر کمرے میں سبز چادروں سے ڈھکا ایک چوکور چبوترہ جس کے پہلو میں چندہ ’اپنےہاتھ سےڈالیں‘ والابکس رکھا ہےقبرنہیں بلکہ ایک ولی کے چلےکی نشستی یادگارہے۔ بعد ازاں آپ واپس اپنےوطن قندھارچلے گئےاور وہیں وصال فرمایا۔ اسی نسبت سےآپکو ولی قندھاری کہتے ہیں۔
چلہ گاہ کےدرشن سےفیضیاب ہونےکےبعد یاروں کی ٹولی نےدربارکے لنگرسےفیضیاب ہونےکامشترکہ فیصلہ کیا۔
صاحبو شرعی، صوفی اور ملامتی مسلک کے احکام و مسائل اپنی جگہ لیکن
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹُک
گمان غالب ہے کہ بابا حسن ابدال کا وصال تیمورلنگ کے بیٹے شاہ رخ میرزا جو کہ آپکا عقیدت مند تھا سے پہلے ہی ہوا ہوگا۔
ہم جانتے ہیں کہ شاہ رخ میرزا جو خراساں سے سمرقند اور بعد ازاں ماورالنہر پر حاکم ہوا 1447 عیسوی میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ ان معلومات سے محتاط تخمینہ لگانا مشکل نہیں کہ حسن ابدال والے بابا ولی قندھاری پندرھویں صدی عیسوی کے نصف سے قبل اس دنیا سےگزر گئے تھے۔
صاحبو گروگرنتھ کی بابر بانی میں محلہ پہلا کا شبد ہے
ਪਾਪ ਕਿ ਜੰਞ ਲੈ ਕਾਬਲਹੁ ਧਾਇਆ ਜੋਰੀ ਮੰਗੈ ਦਾਨੁ ਵੇ ਲਾਲੋ
ਸਰਮੁ ਧਰਮੁ ਦੁਇ ਛਪਿ ਖਲੋਏ ਕੂੜ ਫਿਰੈ ਪਰਧਾਨੁ ਵੇ ਲਾਲੋ
پاپ کی جنج لے کابلوں دھائیا جوڑی منگے دان وے لالو
شرم دھرم دوئی چھپ کھلوئے کوڑ پھرے پردھان وے لالو
یہ ہمیں بتاتا ہے کہ سولہویں صدی عیسوی کے شروع میں جب بابر کی فوج نے ہندوستان پر چڑھائی کی تو ظلم و ستم کی اس برات سے گرونانک کا ٹاکرہ ہوا تو وہ بھائی لالو کے ساتھ آج کے ایمن آباد میں تھے۔ اگرچہ بابرنامہ گرونانک اور شاہ کی ملاقات کے بارے میں خاموش ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ گُرپرب یعنی گرونانک کے جنم کا سال 1469 عیسوی ہے۔
صاحبو حسن ابدال کی اس تپتی دوپہر گرونانک کا باباولی قندھاری سے ٹاکرا ناممکنات میں سے ہے جو ان کی پیدائش کے کم از کم بیس بائیس سال(یا پھر اس سے بھی زیادہ) قبل قندھار میں وصال فرماگئے تھے۔
تو پھر پانی مانگنے پر حسن ابدال کی پہاڑی پر سے وہ چٹان کس نے پھینکی تھی؟ اگر نہیں پھینکی تھی توپھر وہ پنجہ کس کا ہے؟
ولی قندھاری اور گرونانک کے دور کے بعد گزرے مغل بادشاہوں، اکبر اور جہانگیر نے جو یہاں سے لاتعداد بار گزرے کسی گردوارے یا پنجہ صاحب کی کہانی بیان نہیں کی جویہ کہانی ہم تک پہنچتی ہےتوانیسویں صدی کےابتدائی عشرے میں یہاں سےگزرےانگریزسیاحوں کی زبانی۔
اگرآپ ضلع اٹک کاگیزیٹیئراٹھاتےہیں جوپہلےپہل 1909 میں شائع ہوا توپتھرپر پنجہ صاحب کےنقش کی اصل کہانی کہتاہےاورجسےگزیٹیئر کےبقول اس وقت کےسکھ پنتھ کےماننے والےبھی لطف لیتےہوئےسناتے ہیں کاما نام کا مسلمان مستری تھا جس نے کام سے فراغت کے دنوں میں خود کو مشغول رکھنے کی خاطر نفاست سے ایک پتھر پر اپنے ہاتھ کا نقش کندہ کیا۔ پتھر بمع نقش وہیں رہا اور پھرکرنا خدا کا یہ ہواکہ رنجیت سنگھ کے دور میں فوج حسن ابدال پر حملہ آور ہوئی۔
ایک سکھی حملےسے جان بچاتےبھاگتےلوگوں کی افراتفری میں ناجو نامی ایک شخص خودکوگرونانک کافقیربتاکرسکھ سپاہیوں کے سامنےپیش ہوگیا۔ پچھ پرتیت پرکہ وہ گرو کو کیسے جانتا ہے اس نے وہ کہانی گھڑی اور اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کو پتھر بمعہ نقشِ یدِ کاما گرونانک کا پنجہ صاحب بتاکر پیش کیا۔
تو صاحبو اپنے خوبصورت پیازی گنبدوں اور نفیس جھروکوں سمیت گردوارہ پنجہ صاحب رنجیت سنگھ کے دور کی تعمیر ہے اور پنجہ صاحب کی رائج الوقت کہانی ناجو فقیر نے پہلے پہل شیرِپنجاب کی سپاہ کو سنائی تھی۔
یہ کہ گرونانک اپنے وقت کی اداسیوں میں سے کسی میں حسن ابدال سے بھی گزرے تھے یانہیں، اس کے بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس دوپہر بابا ولی قندھاری کی چلہ گاہ سے پلٹتے اپنے تھکے جسوں کی ٹکور کرتے ایک شرعی، ایک صوفی اور ایک ملامتی نے ابھی چند منزلیں اور مارنی تھیں ۔۔۔