"ہرنائی" کا نام میرے بچپن کی یاداشتوں کا حصہ ہے۔
پہلی مرتبہ چھٹی جماعت کی "معاشرتی علوم" کی کتاب میں پڑھا تھا کہ انگریزوں نے ہرنائی سے سبی تک انیسویں صدی کے آخر میں ایک ریلوے لائن بچھائی تھی تاکہ ہرنائی کا کوئلہ باہر لے جایا جا سکے۔۔۔ اس علاقے میں بڑی تعداد میں بھیڑیں پالی جاتی تھیں، اس لئے پاکستان بننے کے فوراً بعد 1947 میں "ہرنائی وولن ملز" کا قیام عمل میں آیا، جس کی منظوری بابائے قوم "قائداعظم محمد علی جناح" نے دورہ سبی کے دوران ہرنائی کے عوام کو بطور تحفہ دی.
"ہرنائی" پاکستان میں "اونی کپڑے" کی تیاری کا پہلا کارخانہ تھا۔ اس کی تعمیر 1947 میں شروع ہوئی اور 1952 میں مکمل ہوئی تھی. اس کارخانے کا افتتاح ملک کے پہلے وزیراعظم "لیاقت علی خان" نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔
1952 میں جب "پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن" (PIDC) کا قیام عمل میں لایا گیا تو "ہرنائی وولن مل" کی تکمیل کا کام پورا ہوتے ہی اسے PIDC کے سپرد کر دیا گیا۔
ہرنائی وولن ملز 1988 تک ہمارے ملک کا ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ اس ملز میں تقریباً 1300 مزدور تین شفٹوں میں کام کر رہے تھے لیکن افسوس کہ "نادیدہ قوتوں" نے "ہرنائی وولن ملز" کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اس میں بے پنا کرپشن کر کے ملز کو مکمل دیوالیہ کر دیا اور یوں "ہرنائی وولن ملز" انتہائی سستے داموں ایک پرائیویٹ کمپنی کو تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت کر دی گئی جو کہ اُس وقت "ضلع ہرنائی" میں زمین اور ریونیو ریٹ کے مطابق وولن ملز کے صرف ایک بنگلے کی قیمت تھی۔
اس تحریر میں شامل کیا گیا اشتہار نومبر 1973 کے روزنامہ "جنگ اخبار" سے لیا گیا ہے۔
“