زیادہ مدت نہیں گزری جب عبدالستار ایدھی شدید بیماری کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئے۔ سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آ گیا۔ ہر شخص تشویش کا اظہار کر رہا تھا۔ مرد بھی‘ عورتیں بھی‘ بچے بھی‘ بوڑھے بھی۔انہی دنوں ان کی وفات کی خبر اُڑ گئی۔
جلد ہی اس کی تردید کر دی گئی مگر اس تھوڑے سے وقت میں جیسے قیامتیں گزر گئیں۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ ہاتھ دعائوں کے لیے اُٹھ گئے۔ آنکھیں آنسوئوں سے چھلکنے لگیں۔
اور اس شخص کی حیثیت کیا ہے؟ ملیشیا کی قمیض‘ اسی رنگ کا پاجامہ‘ اس لباس کی قیمت شاید ہزار پندرہ سو سے زیادہ نہ ہو۔ سر پر ایک عام سی ٹوپی! سائیدوں سے مُڑی تڑی ہوئی! لمبی داڑھی! ڈیزائنر سوٹ‘ نہ آگے پیچھے گاڑیاں‘ نہ ڈیفنس میں ‘نہ باتھ آئی لینڈ میں محل‘ نہ پرسنل سٹاف‘ نہ غیر ملکی دورے‘ نہ ڈنر‘ نہ عصرانے‘ نہ پریس کانفرنس‘ کچھ بھی نہیں۔ مگر ایدھی دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ آج اگر عبدالستار ایدھی یہ اعلان کر دے کہ سب لوگ مال روڈ لاہور یا ڈی چوک اسلام آباد پر جمع ہو جائیں کہ اس نے وہاں ایک ضروری اعلان کرنا ہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے عزت اور ذلت کے حقیقی معیار قائم کر رکھے ہیں‘ اتنا بڑا مجمع جمع ہو جائے کہ ریاستی ادارے حواس کھو بیٹھیں!
یوں تو ایدھی صاحب کو کئی بار دیکھا مگر ایک منظر نہیں بھولتا۔ گھر والوں نے کچھ ملبوسات دیے کہ ایدھی سنٹر پہنچانے ہیں۔ اُن دنوں آئی ایٹ کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام تھا۔ وہاں سے ایدھی سینٹر نزدیک تھا۔ کپڑوں کی گٹھڑی لے کر اندر گیا۔ ایک طرف صحن میں کرسی پر ایدھی صاحب تشریف فرما تھے۔ تن تنہا‘ سٹاف کے گنتی کے چند افراد اندر کمرے میں تھے۔ کس ادائے بے نیازی سے اور کس عافیت میں یہ شخص بیٹھا تھا۔ چوکیدار تھا‘ نہ گارڈ‘ پی اے تھا‘ نہ کوئی معاون۔سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ یوں لگا جیسے وقت کوئی اور ہو! کسی اور زمانے میں! مقام کوئی اور جیسے آسمانوں میں!
حکیم سعید صاحب کی مثال لیجیے‘ کروفر نہ ہٹو بچو کی صدائیں! امریکہ گئے تو جوتا تکلیف دے رہا تھا۔ نیا خریدنا چاہا۔ قیمت سو ڈالر بتائی گئی۔ انکار کر دیا۔ کہا یہ سو ڈالر ہمدرد کے ادارے کو کیوں نہ دوں۔ جوتے کے اندر روئی رکھ لی تاکہ تکلیف کم ہو جائے۔ ایک وقت کا کھانا!! ہر پیر کے دن روزہ!! چاہتے تو واشنگٹن سے لے کر دبئی تک‘ لندن سے لے کر کراچی تک محلات کے‘ ہوٹلوں کے‘ پلازوں کے‘ کارخانوں کے ڈھیر لگا سکتے تھے۔ مگر بنائی تو یونیورسٹی بنائی‘ بنایا تو مدینۃ الحکمت بنایا۔ بنائے تو شفاخانے بنائے۔ پھر جب شہید کیا گیا تو کون سی آنکھ تھی جو آنسوئوں سے چھلک نہ اٹھی‘ کون سے ہونٹ تھے جنہوں نے قاتلوں کے لیے بددعا نہ کی۔ قتل کرانے والوں اور کرنے والوں کے گروہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس قتل پر دل گرفتہ ہوئے۔ دل کہتا ہے یہ قتل اُن رازوں میں سے ہے جو اسی دنیا میں طشت ازبام ہوتے ہیں اور ضرور ہوتے ہیں۔ دستاویزی ثبوت کچھ منظر عام پر آ چکا ہے۔ باقی بھی آئے گا۔ مگر اس قتل کا سراغ آج کا موضوع نہیں!
نوّے کا عشرہ شروع ہو رہا تھا۔ شاید اسّی کے عشرے کے اواخر تھے۔ ’’ہمدرد‘‘ نے دارالحکومت میں ’’ایک مہینہ ایک شاعر‘‘ کے پروگرام ترتیب دیے ۔ہر ماہ ایک شاعر کے ساتھ شام منائی جاتی تھی۔ سال بھر یہ تقریبات جاری رہیں۔ ان بارہ شعرا ء میں یہ کالم نگار بھی تھا۔ حکیم صاحب نے اپنے دست مبارک سے کلائی کی گھڑی انعام میں دی۔ ایک عام سی گھڑی‘ چند ہزار روپوں کی! ہو سکتا ہے اُس وقت چند سو کی ہو۔ مگر کیا افتخار ہے جو اس گھڑی کے ساتھ وابستہ ہے! ع
میں تخت زر کے عوض کاسئہ گدائی نہ دوں
کتنی ہی قیمتی گھڑیاں ملیں‘ مگر جو احساس امارت یہ گھڑی باندھ کر ہوتا ہے‘ تین کروڑ روپے کی گھڑی باندھنے والے حکمرانوں کو کیا ہوتا ہو گا؟ ع
تو چہ دانی کہ درین گرد سواری باشد!
تجھے کیا پتہ کے اس گرد سے سوار بھی ظاہر ہوتا ہے!
ان شخصیات کے مقابلے میں صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کو دیکھیے! عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کے سربراہ رہے‘ تقریباً ایک عشرے تک ملک کے سیاہ و سفید کے حکمران رہے۔ ایسے حکمران کہ سیاست دان دس دس بار منتخب کرانے کا اعلان کراتے تھے۔ راولپنڈی کے ایک صاحب سید کا لاحقہ لگائے بغیر ان کا نام نہیں لیتے تھے۔ ہو سکتا ہے وضو بھی کرتے ہوں۔ مگر دو
دن پیشتر گئے تو کتنے دل رنجیدہ ہوئے؟ کتنی آنکھیں اشکبار ہوئیں؟ کتنی جھولیاں ان کی خیریت کے لیے آسمان کی طرف بلند ہوئیں؟ کتنے ہونٹ دعا کے لیے کپکپائے؟ بائیس کروڑ افراد کے دلوں کو چیر کر دیکھا جائے تو اُس خدا کی قسم! جس نے ایدھی اور حکیم سعید جیسے تہی دست فقیروں کی محبت کروڑوں دلوں میں انبار کر رکھی ہے! شاید ہی کسی دل میں پرویز مشرف کے لیے وہ جذبات ہوں جنہیں قابل رشک کہا جا سکتا ہے!
اور کروفر دیکھیے! گئے تو گاڑیوں کے جلوس میں‘ وہاں اُترے تو آگے پھر گاڑیوں کی قطاریں! گئے تو محل سے گئے۔ پہنچے تو وہاں ایک اور محل حاضر تھا! تازہ ترین تصویر میں سگریٹ ہونٹوں سے لگا رکھا ہے۔ غلام سلگا رہا ہے! روایات تواتر کے ساتھ بتاتی ہیں کہ کنالی کے سوٹ پہنتے ہیں جن کی قیمت ایک لاکھ روپے سے آغاز ہوتی ہے۔ اگر اس سے بھی گراں تر سوٹ پہنتے ہیں تو اِس پینڈو کالم نگار کو اس برانڈ کا کیا علم! ایک بار میڈیا نے خبر دی کہ پشاور سے آٹھ یا بارہ جوڑے پشاوری چپلوں کے کراچی منگوائے۔ دارالحکومت میں فارم ایسا کہ ڈیوڈ کیمرون اور اوباما خواب میں بھی نہ سوچ سکیں! سارے حکومتی ادارے‘ تمام ریاستی شعبے‘ حفاظت کے لیے کمربستہ! کوئی عامی پہنچنے کا تصّور بھی نہ کر سکے!
مگر حیف! صد حیف!
مگر افسوس! ہزار افسوس!
مگر ہیہات! ہیہات! یہ سب کروفر‘ یہ سارا شاہانہ ٹھاٹھ! ایک شے نہیں دلا سکتا۔ حرف اُس شے کے تین ہیں! پہلا حرف عین ہے۔ جس کے نیچے زیر ہے! دوسرا حرف زے ہے۔ جس پر تشدید ہے! تیسرا حرف تے ہے! پرویز مشرف اگر خلق خدا کے سامنے مریخ سے طلسمی زینے پر اتریں‘ پرویز مشرف اگر بحرہند چل کر عبور کر لیں ‘پرویز مشرف اگر چشم زدن میں ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ جائیں تب بھی اُس عزت کا جو ایدھی اور حکیم سعید جیسی شخصیات کو میسر ہے‘ عشرعشیر بھی ان کے بخت کے تھیلے میں نہیں پڑ سکتا!
تضحیک! ایسی ویسی تضحیک؟ کوئی کہہ رہا ہے اڑان بھر لی! کوئی لکھتا ہے اُڑن چُھو ہو گئے۔ کہیں لکھا ہے پہنچتے ہی میڈیکل اپوائنٹ منٹ منسوخ کر دی! تصویر میں سگریٹ سلگایا جا رہا ہے‘ نیچے لکھا ہے ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے!! وہاں سے بیان جاری کیا ہے کہ واپس آ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ کوئی ہے جو ہنس نہیں رہا؟
خلق خدا غریب ہے مگر بے وقوف نہیں! مجبور ہے مگر کند ذہن نہیں! بدعنوان ٹولوں کی گرفت میں بے بس ہے مگر اندھی نہیں! پس جو عزت چاہتا ہے‘ ایدھی کو دیکھ لے‘ حکیم سعید کی مقبولیت پر غور کر لے‘ بھارت میں عبدالکلام کی ہر دلعزیزی کا سوچ لے پھر جنرل پرویز مشرف جیسے طاقتوروں اور گردن بلندوں کی شہرت و عزت بھی دیکھ لے! شاہی مسجد کے ایک طرف اُس اقبال کے مزار پر آنے والوں کی تعداد پر غور کر لے جو پوری زندگی صوفوں پر نئی پوشش نہ افورڈ کر سکا اور شاہی مسجد کے دوسری طرف اُس سکندر حیات کا مقبرہ بھی دیکھ لے جس کا طرّہ فلک کے رُخ پر تھا اور سلطنت برطانیہ جس کی مٹھی میں تھی!
اپنا اپنا چوائس ہے! اپنا اپنا انتخاب!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“