لہو گرم رکھنے کو ہم زندگی میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں، شکار کر نا قدیم انسان کی مجبوری تھی، آسودگی حاصل ہوئی تو شکار کرنا ”شکار کھیلنا“ میں بدل گیا، چھپن چھپائی، کوکلا چپاکی، برف پانی، مٹھو گرم، پکڑن پکڑائی، کیرم، لوڈو، شطرنج، فٹ بال، سکواٸش، باکسنگ یہ سب قدیم انسان کی زندگی کا عملی حصہ ہوا کرتے تھے مگر آسودگی حاصل ہوتی گٸی تو یہ سب محض ہماری تفریح طبع کا حصہ بن گیۓ،ہر کھیل میں ہار جیت مقدر کی لکیروں کی طرح موجود ہے ،کیرم کی ملکہ جس کے پاس چلی جائے اسے اپنی جیت کا یقین ہو جاتا ہے اورلوڈو کی گوٹیوں میں سب کی گوٹیاں مار کر گھر پہنچنے والے کو ہم بچپن ہی سے سب کو مارنے کی تربیت دینا شروع کر دیتے ہیں،سانپ سیڑھی عروج وزوال کی داستان خود میں سموئے ہوئے ہے جسے محبت کا رنگ دیں یاسیاست کا سانپ کاپھن ہر جگہ موجود ہے۔کبھی ایسے بھی لمحے زندگی میں آجاتے ہیں کہ جسم کا سارا خون جم جاتا ہے انسان پتھر کا ہو کر رہ جاتا ہے کسی ایک نظر کا جادو اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ جب تک وہ نظر یا لمس دوبارہ میسر نہ آئے انسان پتھر ہی رہتا ہے برف پانی بھی ایسا ہی کھیل تھا جسے ہم سب بچے کھیلا کرتے تھے،اونچ نیچ بھی بلندی وپستی سے مشابہ کھیل ہے جو ہاٸ پرفاٸل ہے وہ محفوظ ہے جو زمین پر کھڑا ہے وہ حادثوں کی زد میں ہے ،پکڑن پکڑئی میں سب کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوا کرتی تھیں جو دوڑ میں تیز وہ کامیابی کے قریب،ڈارک روم میں ہم بچے گھر کی بتیاں گل کر کے ایک دوسرے کو ڈھونڈا کرتے مگر اب بتیاں گل کر نے کی ضرورت نہیں رہی یہ ذمہ داری واپڈا بطریق احسن نبھا رہا ہے۔
سٹاپو میں کچھ خانے بناۓ جاتے اور پھلانگنے کا مقابلہ ہوتا جسے اچھی چھلانگ لگانا آتی وہ زیادہ نمبر بنا لیتا، اگر لکیر پر پاٶں آ جاتا تو باری ختم، ہمارے ارد گرد بے شمار ایسی لکیریں کھنچی رہتی ہیں جن پر پاٶں آ جائے تو زندگی دوبھر ہوجاتی ہے۔شطرنج کو ذہین لوگوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے اور تاش کے پتوں میں چھپی تصویریں کبھی تو انسان کو لاکھوں پتی بنا دیتی ہیں اور کبھی راتوں رات محل چھوڑ کر سڑک پر آجاتا ہے،کوکلا چپاکی جس میں بچے گھٹنوں میں سر رکھ کر بیٹھتے اور ایک بچے کے پیچھے ایک کپڑا رکھ کر ہم بھاگ جاتے ایسے ہی ہم آنکھیں بند کیے ان دیکھے راستوں کو عمر بھر تلاشتے رہتے ہیں اور پشت پر چھپے کپڑے کی طرح گہری کھاٸیاں اور ان دیکھی خندقیں ہماری منتظر رہتی ہیں،فٹ بال تو انسان جیسا ہے جسے سورج کی نرم گرم کرنیں وقت کے روپ میں ایسے گھماتی ہیں کہ سانس ختم ہو جاتی ہے مگر وقت کا کھیل پوری آب وتاب سے بر قراررہتا ہے،سکواش کو پاکستان میں جہانگیر خان نے عروج عطا کیا ،سکواش مجھے محبت کے کھیل جیسا لگتا ہے ،بال کو دیوار پر مار مارکرخود کو تھکا دینا اور حاصل کچھ بھی نہیں،ایک زمانے میں گڈے گڑیا کی شادی کی جاتی باقاعدہ رشتہ تلاش کیا جاتا ہمیں ننھے کپڑے سینے پڑتے اور پھر کوئی گڈے کی اماں بنتی اورکوئی گڑیا کی، ننھے برتنوں کی صورت جہیز دیا جاتا اور امی ہم سب کو کھانا بنا کر دیتیں جو ہم بارات کو کھلاتیں، اس طرح لڑکیوں کو آنے والی زندگی کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی رشتوں کو بنانے اورنبھانے کی روایت کا اندازہ ہوتا مگر آج کے ”ترقی یافتہ و تہذیب یافتہ“ دور میں ہمارے پاس ان چھوٹی چھوٹی زندگی سے جڑے کھیلوں کے لیۓ وقت ختم ہو چکا ہے اور موباٸل کے مختلف ایپس نے حرارت اورحرکت والی زندگی چھین کر جامد اور ساکت انسانوں کی نئی پود کو جنم دیا ہے جو ہر وقت بیٹھے رہنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہو رہےہیں، ایجادات انسان کی سہولت کے لیۓ ہوا کرتی ہیں نہ کہ انسان کی زندگی کو الجھانے کے لیۓ ہر معاملے میں متوازن راستہ ہی بہتر