حرامی (پشتو کہانی )
تخلیق: نور البشر نوید
گل نگار نے اپنی ڈائری کے 12 فروری 1997ء کے صفحے پر اپنی زندگی کی یادداشتیں رقم کردیں۔
مجھے حمل ضائع کرانے کا خیال کبھی نہیں آیا کیونکہ میرے شوہر نے مجھے محض اس وجہ سے طلاق دی تھی کہ میں بچے پیدا نہیں کرسکتی۔
" آج صبح سویرے درد نے مجھے نڈھال کرکے رکھ دیا۔ میرے پیٹ میں ایک زندہ انسان کی تخلیق مکمل ہوچکی تھی۔ یہ میرا پانچواں ناجائز بچہ ہے۔ اس سے قبل میں تین ناجائز لڑکے اور ایک لڑکی جن چکی ہوں۔ چاروں ناجائز بچوں کے باپ کوئی ایرے غیرے نتھو خیرے لوگ نہیں ہیں۔ عظیم الشان ایوانوں کے سیاسی رہنما، سرکاری افسر اور اونچی پگڑیوں والی نامی گرامی شخصیات ہیں۔ مجھے حمل ضائع کرانے کا خیال کبھی نہیں آیا کیونکہ میرے شوہر نے مجھے محض اس وجہ سے طلاق دی تھی کہ میں بچے پیدا نہیں کرسکتی۔ انہی دنوں ایک پیر صاحب نے میرے لئے تعویذ پر بھی کام شروع کر رکھا تھا۔ جس دن مجھے طلاق ہوئی، اس دن پیر صاحب نے بتایا کہ آج میں بہ نفس نفیس تیرے پیٹ پر تعویذ باندھوں گا۔۔۔۔ میں نے لمحہ بھر کے لئے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا، پھر سینے میں دل گویا دھڑا دھڑ ، دھڑکنے لگا جیسے میری چھاتیوں میں دودھ کی گٹھلیاں ہیں اور دودھ چھلکنے کو ہے۔ جھٹ پٹ میں نے قمیض اوپر کرکے پیٹ سینے تک برہنہ کردیا۔ پیر صاحب نے مجھے لٹایا اور میرے سرہانے بھاری تکیہ رکھ دیا۔ پیر صاحب نے ناف سے سینے تک اپنی چپڑ چپڑ چاٹتی لپلپاتی زبان کے لعاب مبارک سے مجھے تر کر دیا۔ مجھ پر مدہوشی طاری ہو رہی تھی۔ میرے کانوں میں دور کہیں سے بچے کے رونے کی صدا آ رہی تھی اور پھر میں گویا اپنی چھاتی بچے کی طرف بڑھاتی اور دودھ پلانے لگتی ہوں۔ میرے پستانوں کو نچڑ نچر کر چوسا جا رہا تھا۔۔۔۔ ہاں پیر صاحب میرے پستان چوس رہے تھے۔ اور پھر میرے وجود کے اندر ایک حرارت پیدا ہوگئی جیسے بچہ روتے روتے چپ ہوگیا ہو اور اس کی گرم گرم سانسیں میرے رخساروں، کانوں، گردن اور سینے پر رقص کر رہی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد پیر صاحب نے میرے پیٹ پر ایک تعویذ باندھ کر مجھے رخصت کر دیا۔
گھر جاتے ہوئے میں عجیب سی کیفیت سے گزر رہی تھی مگر جب گھر پہنچی تو حالات پلٹا کھا چکے تھے۔ میرے اور میرے شوہر کے مابین دن بھر تکرار ہوئی اور اسی شام مجھے طلاق مل گئی۔ چند ماہ بعد مجھے حمل کا احساس ہوا۔ میں ایک بار پھر پیر صاحب کے پاس چلی آئی اور بتایا۔
" اب میرے پیٹ میں اس بچے کو کسی طرح ضائع کر دو۔"
" استغفر اللہ" اس نے اپنی خمار آلود آنکھیں میری طرف گھما کر کہا "یہ گناہ ہے، قتل ہے۔"
" لیکن اس کا باپ؟"
میرے پیٹ میں مجھے پانچ ناجائز بچوں نے درد کی لذت سے نوازا۔ میں اپنے ہر بچے کی پیدائش کے بعد اس کے ماتھے پر ایک تارہ بنا کر زخم زدہ کر دیتی تاکہ بطور دعویٰ میرے پاس ثبوت موجود ہو۔
میرا سوال ابھی پورا بھی نہیں ہواتھا کہ پیر صاحب نے اپنی جلالی آواز میں جواب دیا "ملنگ لوگوں کے ماں باپ نہیں ہوتے۔ یہ بچہ اس درگاہ کا صدقہ ہوگا۔"
یوں میں نے اپنا پہلا ناجائز بچہ پیر صاحب کو بطور صدقہ دے دیا۔ بیٹے کو ودودھ پلاتے ہوئے مجھے عجیب طرح کا سرور ملتا۔ میرے پیٹ میں رہتے ہوئے اس نے مجھے درد کی جس لذت سے آشنا کر دیا تھا، وہی لذت اب میری چاہت اور طلب تھی۔ میرے پیٹ میں مجھے پانچ ناجائز بچوں نے درد کی لذت سے نوازا۔ میں اپنے ہر بچے کی پیدائش کے بعد اس کے ماتھے پر ایک تارہ بنا کر زخم زدہ کر دیتی تاکہ بطور دعویٰ میرے پاس ثبوت موجود ہو۔
آج میں نے جس بیٹے کو جنم دیا ہے، اس کی وجہ سے پہلی بار مجھے بچوں سے نفرت پیدا ہوئی ہے۔ اس کے جنم لینے کا طریقہ نرالا تھا۔ اس لیے میں نے اس کے ماتھے پر دو ستارے بنادیئے۔ یہ حرامی جب جنم لے رہا تھا تو میں صبح سے درد و اندوہ میں مبتلا ہوگئی تھی۔ میں سارے انتظامات مکمل کرچکی تھی۔ پیدا ہونے کے دوران سب سے پہلے اس کے پاؤں باہر آئے، میں ڈر گئی۔ پھر دھیرے دھیرے اس کا پورا وجود باہر نکل آیا لیکن گردن سے مصلوب تھا۔ سر ابھی اندر ہی تھا، میں نے جھٹ شہادت کی انگلی اندر داخل کی اور منہ کے نچلے جبڑے کے اندر انگلی رکھ کر ایک ہی جست میں باہر کھینچا۔
بچہ نہایت خوبصورت تھا۔ پتا نہیں کیوں اس پر اتنا غصہ آیا تھا، پہلے پہل اسے قتل کرنے کاخیال آیا۔ پھر ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کا جھولا یاد آیا، جس پر لکھا ہوتا ہے "قتل مت کیجئے اس جھولے میں ڈال دیجئے" میں نے اپنا پانچواں ناجائز بچہ ایدھی ٹرسٹ کے ناجائز بچوں والے جھولے میں ڈال دیا اور قسم کھائی کہ آئندہ گناہ کے لوتھڑے پیٹ میں کبھی نہیں آنے دوں گی۔"
گل نگار نے اپنی ڈائری کے 13فروری والے صفحے پر لکھا:
" آج رات میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔ تیس چالیس برس کی عمر اسی ایک رات میں بیت گئی۔ میرے پانچوں ناجائز بچے اپنے اپنے شعبے کی جانی پہچانی شخصیات ہیں۔ میرے چاروں بیٹے مجھ سے ذرہ برابر میل نہیں کھاتے مگر بیٹی بالکل میری تصویر ہے۔
جس کو تم لوگ پیر کہتے ہو، یہ میرا ناجائز بچہ ہے" میرے منہ پر اس نے اپنے بھاری ہاتھ سے زور دار تھپڑ رسید کیا اور مجھ پر آگرا۔ پھر میرے کپڑے پھاڑ دیئے۔ اس کی وحشت میں مذہبی انتقام بھی تھا اور ہوس بھی۔
میرا پہلا حرامی بچہ پیر صاحب کا گدی نشین ہے۔ وہ قصہ خوانی بازار میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کر رہا ہے۔ یہ احتجاج ایک فاحشہ میڈم فاخرہ کے خلاف ہے۔ اس نے اپنی تقریب میں فتویٰ صادر کیا کہ اس لڑکی کو سرعام سنگسار کیا جائے کیونکہ یہ بڑے بڑے مذہبی لیڈروں کے اسکینڈل بناتی ہے، یہ فاحشہ ہے، اس کے تو ماں باپ بھی نہیں معلوم؟ میں حیران رہ گئی، دل نے چاہا چیخ چیخ کر بتادوں" پیرصاحب! جس پر تم کیچڑ اچھال رہے ہو وہ تمہاری بہن ہے، تم دونوں کا باپ معلوم نہیں ہے مگر تم دونوں کی ماں میں ہوں، پھر مجھے پتہ بھی نہیں چلا اور میں نے اس کی تقریر کے دور ان چلاتے ہوئے بہت کچھ کہہ ڈالا۔ مجھے پولیس نے پکڑ لیا اور مارتے کھینچتے ہوئے تھانے لے گئے۔ میرے ناجائز بچے نے تقریر مزید تیز کردی، میں بدستور اس کی آواز سن رہی تھی، وہ بول رہا تھا "یہ یہودی لابی ہے جو مذہبی لیڈروں کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈا کر رہی ہے، ان کے خلاف جہاد کرنا چاہئے۔"
پھر لوگوں نے نعرے بلندکئے "الجہاد الجہاد!!"
پولیس انسپکٹر کے خصوصی کمرے میں چند سپاہیوں نے چٹیا سے پکڑ کے مجھے کھینچا۔ انسپکٹر نے انہیں باہر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ چلے گئے، دروازہ بند ہوگیا۔ میں نے باآواز بلند کہنا شروع کیا "جس کو تم لوگ پیر کہتے ہو، یہ میرا ناجائز بچہ ہے" میرے منہ پر اس نے اپنے بھاری ہاتھ سے زور دار تھپڑ رسید کیا اور مجھ پر آگرا۔ پھر میرے کپڑے پھاڑ دیئے۔ اس کی وحشت میں مذہبی انتقام بھی تھا اور ہوس بھی۔ غور سے دیکھنے پر مجھے اس کے ماتھے پر تارا نظر آیا۔ میں زقند بھر کر اٹھنا چاہا "نہیں میرے بچے! تم تو میرے بیٹے ہو، تیرے ماتھے پر یہ تارا" میری بات ادھوری رہ گئی۔ بیٹے نے ماں کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا۔ زندگی میں پہلی بار میں زنا کے بعد روپڑی، کیونکہ جس بیٹے کو میں نے پیٹ سے جنم دیا تھا وہ دوربارہ میرے پیٹ میں گھس کر اندر تک آگیا تھا۔ میرے منہ سے غیر ارادی طور پر نکلا "تف۔۔۔ حرامی۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے مجھے لات رسید کی اور اپنی ٹوپی سر پر رکھ لی۔ میں نے انسپکٹر کی ٹوپی پر چاند تارے کو دیکھ کر اپنے آپ سے ایک عجیب سوال کیا۔
" تم نے ناجائز بچوں کے ماتھوں پر تارے کیوں بنائے؟" میں چپ رہی۔
رات گئے چند ایک سپاہی آئے۔ انہوں نے مجھے نئے اوربیش قیمت کپڑے دیئے اور خوب بنا سنوار کر نہایت عزت و احترام کے ساتھ باہر ایک لمبی موٹر کار تک لے آئی۔ کار پر قومی پرچم لہرارہا تھا۔ میں نے اپنے بچوں کی پیدائش کے وقت ان کے ماتھوں پر جیسا تارہ بنایا تھا، بالکل وہی تارہ جھنڈے پر بھی نظر آیا۔ گاڑی ایک عالی شان کوٹھی کے گیٹ کے اندر داخل ہوئی۔ گاڑی سے اترتے وقت ایک معزز سرکاری افسر نے مجھے آہستگی سے کہا "وزیر صاحب کے ساتھ آپ کی ملاقات ہے" میں جیسے ہی ایک وسیع و عریض کمرے کی طرف بڑھی، دروازہ کھل گیا اور پھر فوراً ہی بند ہو گیا۔ وزیر صاحب کسی کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھی۔ مجھے عزت اور احترام کے ساتھ اشارے سے بیٹھنے کے لئے کہا۔ میرے بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد وہ بات چیت سے فارغ ہوئے تو مسکراتے ہوئے میری طرف سست روی سے بڑھے اور تسلی دی" آپ کی ضمانت فون پر میں نے لے لی ہے۔ آپ کی طرح کے باصلاحیت لوگ شخصیات بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں" اس نے جیسے ہی اپنے ہونٹ میری طرف بڑھائے، میں اچھل کرپیچھے گرگئی۔ وزیر صاحب خوب ہنسے پھر پوچھا "کیوں۔۔۔۔۔؟ میرے ہونٹوں میں آگ ہے نہ انگارے"
" تیرے ماتھے پر یہ تارا؟" میں نے مجسم سوال بن کر جواب دیا۔
" میں پیدائشی حاکم ہوں" اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ میں نے چلا چلا کر کہا "تم میرے بیٹے ہو۔۔۔۔۔۔۔یہ تارا میں نے ہی تمہارے ماتھے پر بنایا تھا۔"
میرے ناجائز بچوں نے مجھے اپنے تارے واپس دے دیئے۔ میں نے فیصلہ کیا اگر میرے بطن سے چھٹا ناجائز بچہ پیدا ہوا تواس کے ماتھے پر تارا نہیں بناؤں گی۔
وزیر صاحب کو بہت غصہ آیا اور حاکمیت کے نشہ میں چور ہو کر اپنے ماتھے کا تارا واپس میری جھولی میں ڈال دیا۔ میں تاریک اورلٹی پٹی رات کو ہی کوٹھی سے بھگا دی گئی۔۔۔۔۔۔۔ گھٹا ٹوپ اندھے میں چلتی ہوئی سوچ رہی تھی کہ اچانک اپنا آخری ناجائز بچہ یاد آیا۔ میں نے دل میں کہا جس طرح اس کی پیدائش مختلف تھی، اسی طرح اس کی عادات و اطوار بھی مختلف ہوں گے۔ پھر اس کی پیدائش اور اپنی نفرت یاد آئی۔ اب وہ نفرت محبت میں بدل گئی ہے۔ دل میں بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ اگر میرا سامنا چوتھے بیٹے سے ہوا تو میں اس ماتھے بنے ہوئے دونوں تارے چوم کر اسے اپنے ہونٹ چومنے کا موقع نہیں دوں گی۔ میں اپنی عمر رفتہ کے متعلق سوچ رہی تھی۔ یکایک اخبارات اور رسائل، میرے ذہن کے پردے پر سرک آئے۔ ساتھ ہی کہانیاں اور افسانے یاد آئے۔ میں اپنے آپ کو اپنی کہانی سنارہی تھی۔ پھر میں نے اپنے پیچھے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنی۔ میں چپ ہوگئی، چلنا بدستور جاری رکھا۔ ایک نوجوان میرے قریب رک گیا اور جلدی جلدی بلا کسی توقف اپنا تعارف کرانا شروع کیا "میں صحافی ہوں۔ یہاں ایک اخبار میں کام کرتا ہوں۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟"
فوری طور پر توجہ دینے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ وہی ہے، جس کی مجھے تلاش ہے۔ برابر چلتے ہوئے میں نے صحافی کواپنی کہانی سنانی شروع کی۔ ابتدائی کلمات سننے کے بعد اس نے کہا "ایسی باتیں اطمینان سے بیٹھ کر سننے کی ہیں۔ میں آپ کا ایک تفصیلی انٹرویو لینا چاہتا ہوں۔"
میں بغیر کسی تردد کے اس کے گھر میں داخل ہوئی۔ اس نے گرم ٹوپی اتارتے ہوئے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور میری داستان سے قبل اپنی خود داری اور انا کی کہانی سنانی لگا۔ میں نے کہا "میر اانٹرویو؟"
وہ کاغذ قلم اٹھا لایا اور میں ستم رسیدگی کے باب وا کرنے لگی۔ قمیض اوپر اٹھانے اورحوا کی بیٹی کے پیٹ کے برہنہ ہونے تک اس کاقلم روانی سے چلتا رہا مگر اسکی متحرک انگلیوں پر اچانک میری نظر پڑی۔ وہ لمحہ بھر ساکت رہنے کے بعد کانپ رہی تھیں۔ وہ میری جانب دیکھ رہا تھا۔ میں آنکھوں کے ایسے ہزار ہا اشارے نگاہوں سے گزار چکی تھی۔میں نے کہانی کا رخ دوسری جانب موڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ آدم اور حوا کے جذبے کی طرف آئی۔ اس نے قلم رکھ دیا اور پانی کے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر غٹا غٹ پی گیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر میری کرسی کے پیچھے جا کھڑ ہوا اور دونوں ہاتھ میرے کاندھوں پر رکھ دیئے۔ میری نظریں اس کے ماتھے پر جم گئیں۔ اس کے ماتھے پر دو چمکتے تاروں نے میری آنکھیں چندھیادیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ہونٹ بڑھا کر میری عزت افزائی کرے، میں فوراً ان دو تاروں کو چومنے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھی۔ اس نے میرا اٹھنا شب تنہائی کی دعوت پر محمول کیا اورمیرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اپنے حرامی پن کی مہر ثبت کردی۔میرا انٹرویو ادھورا رہ گیا۔ میرے ناجائز بچوں نے مجھے اپنے تارے واپس دے دیئے۔ میں نے فیصلہ کیا اگر میرے بطن سے چھٹا ناجائز بچہ پیدا ہوا تواس کے ماتھے پر تارا نہیں بناؤں گی۔
ترجمہ: محمد ارشد سلیم
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“