(قسط نمبر آٹھ)
مسجدالحرام پر قبضہ واپس لینے کے لئے جھڑپوں میں باغی اونچے میناروں پر ہونے کی وجہ سے بہتر پوزیشن میں تھے۔ پولیس کی ہلاکتوں کے بعد اگلی کوشش فوج نے کی۔ میجر شامان کی قیادت میں فوجیوں نے مسجد کی طرف پیشقدمی کا فیصلہ کیا۔ ان پر پہلا آنے والا فائر مسجد الحرام کے میناروں سے تھا۔ ابھی اس سے بچ رہے تھے کہ مسجد کی پہلی منزل سے اگلا راوؐنڈ آیا۔ پہلے ایک کپتان، پھر ایک کارپورل کے گرنے کی آواز آئی۔ اگلے فائر کے بعد میجر گر پڑے۔ ان کے چہرے سے خون کا فوارہ ابل رہا تھا۔ اس دستے میں صرف چھ لوگ زندہ بچ پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبوک سے چھٹی پیراٹروپر بٹالین کو مکہ بلا لیا گیا تھا۔ اس کے کمانڈر کرنل ناصر الحمید تھے۔ اس بٹالین کی ٹریننگ فرانس میں ہوئی تھی۔ میجر شامان نے باب السلام سے داخلے کا پلان بنایا تھا۔ کرنل ناصر کی ٹیم نے صفا اور مروہ کی گیلری کے شمال سے۔ کرنل نے پلان بنایا کہ یہ حملہ رات کو کیا جائے لیکن شہزادہ نائف ان پر برس پڑے۔ “مرد بنو مرد، یہ بزدلی دکھانے کا وقت نہیں ہے۔ جان چلی جانے کی اہمیت نہیں ہے۔ اس مشن میں مرنے والا سیدھا جنت میں جائے گا۔ مجھے جلد نتیجہ چاہیے”۔ کرنل نے سیلوٹ کیا اور فوری حملے کے احکامات اپنی یونٹ کو جاری کر دئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل کی قیادت میں چھٹی بٹالین کے تربیت یافتہ افراد چھپ کر مروہ کے دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اس پر دھماکہ خیز مواد نصب کر دیا۔ اسکے بعد ایک اشارہ اور دھماکے نے گیٹ کو اکھاڑ دیا۔ اتنا بھاری گیٹ جس کو پچاس فوجی بھی ہلانے میں کامیاب نہ ہوتے، اب زمین پر پڑا تھا۔ دھواں، راکھ اور پتھروں کے ٹکڑے ہر طرف پھیل گئے۔
کرنل نے اپنے یونٹ کے ساتھ اندر قدم رکھا۔ ہر چیز بالکل خاموش تھی۔ جوتے، دعا کی کتابیں، چادریں اور بیگ زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ نہ کوئی ذی روح نظر آ رہا تھا اور نہ کوئی آواز آ رہی تھی۔ انگلی پستول کے ٹرگر پر رکھے، یہ بڑھتے جا رہے تھے۔ جب تک ان کو پہلا باغی نظر آیا، دیر ہو چکی تھی۔
یہ دستہ گیلری کے نصف حصے کو پار کر چکا تھا جب اطراف میں چھپے باغیوں نے آن لیا۔ گولیاں برسنے لگیں۔ کرنل ناصر الحمید مارے جانے والے پہلے فوجی تھے۔ چند ہی سینکڈ بعد ان کے نائب میجر عثیمی فرش پر گر پڑے۔ ان کو گولی ٹانگ پر لگی۔ بچ جانے والوں نے ستونوں کے پیچھے پناہ لی اور مدد منگوانے کے لئے ریڈیو پر پیغامات بھیجنے لگے۔ ریسکیو پارٹی کو آنے میں کچھ گھنٹے لگے۔ یہ پارٹی بھی بھاری فائرنگ کی زد میں آئی۔ میجر عسیمی کو رسی پھینکی گئی کہ ان کو گھسیٹ کر نکال لیا جائے۔ ابھی وہ اٹھنے کی کوشش میں ہی تھے کہ گولیوں کا برسٹ ان کے جسم میں پیوست ہو گیا۔ اس بار جب وہ گرے تو پھر اٹھ نہ سکے۔ نوجوان لیفٹینٹ قضیبی جو بازو میں گولی لگنے سے بے ہوش ہو گئے تھے، قیدی بنائے جانے والے پہلے فوجی تھے۔ سعودی فوجی جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل انتظار کے بعد جمعے کے روز علماء کی طرف سے فتویٰ 23 نومبر کو مل گیا۔ اس کا مطلب اب یہ تھا کہ لڑائی کھل کر کی جا سکتی تھی۔ اس سے پہلے یہ احتیاط کی جا رہی تھی کہ مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اب یہ رکاوٹ دور ہو گئی۔ یہ واضح ہو چکا تھا کہ یہ پولیس کے بس کا کام نہیں ہے۔ باقاعدہ فوج کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو گا۔ جنرل ظاہری کو اس مشن کا انچارج بنایا گیا۔ عبدالعزیز آرمرڈ بریگیڈ ایکشن میں آ گئی۔ امریکہ سے حاصل کردہ ایم 113 بکتر بند گاڑیاں اور توپخانہ مسجد کے قریب پہنچنے لگا۔ جدہ کے ہسپتالوں کا عملہ مکہ طلب کر لیا گیا۔ طے کر لیا گیا کہ ٹی او ڈبلیو میزائلوں سے مسجد الحرام کے میناروں پر حملہ کیا جائے گا تاکہ نشانہ بازوں کو ختم کیا جا سکے۔ ٹینک شکن میزائلوں سے مینار منہدم تو نہیں ہوئے البتہ ان کی بالکونی کی محرابیں گرا دیں۔ ان میزائلوں نے ایک ایک کر کے نشانہ بازوں کی پوزیشنز کا خاتمہ کر دیا۔
اب زمین کے آپریشن کی طرف توجہ دی جا سکتی تھی۔ مشین گن بردار بکتر بند گاڑیاں مسجد کی طرف بڑھنے لگیں۔ آسمان پر لڑاکا طیارے پرواز کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروہ کے دروازے کے ساتھ سوراخ مزید چوڑا کر لیا گیا اور بکتر بند گاڑیاں اور ان کے ساتھ انفنینٹری اوپر والی گیلری میں اندر داخل ہو گئی۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ فرش انسانی خون اور باقیات سے پھلسن والا تھا۔ باغیوں نے چہرے سیاہ کئے ہوئے تھے تا کہ نظر نہ آئیں۔ کچھ قالینوں میں لپٹے ہوئے تھے اور قریب پہنچنے والے فوجیوں پر گولی چلاتے تھے۔ لیکن بکتربند گاڑیوں نے اس لڑائی کا پانسہ بدل دیا تھا۔ گولیاں اچٹ کر واپس آ جاتی تھیں۔ باغیوں کے پاس ٹینک شکن میزائل نہیں تھے۔
امام مہدی ہونے کے دعویدار محمد بن عبداللہ کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا۔ بکتربند گاڑیوں کو روکنا ضروری تھا۔ محمد عبداللہ واقعی یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ اس لڑائی میں مر نہیں سکتے۔ انہوں نے پٹرول کا کنستر اور ایک جلتا ہوا کپڑا لیا اور بھاگتے ہوئے ایک بکتربند گاڑی پر چڑھ گئے۔ گاڑی پر پٹرول چھڑکا اور کپڑا پھینک دیا۔ گاڑی سے شعلے بلند ہونے لگے۔ گاڑی نے باہر کا رخ کیا لیکن باغیوں کی مشکل حل نہیں ہوئی۔ نئی گاڑیاں اندر آ رہی تھیں۔ ان کے اوپر لگی ہوئی مشین گنوں کی فائرنگ کی تڑتڑاہٹ جاری تھی۔ ان کے قریب پہنچ کر یہ کام کرنا مشکل تھا۔
باغیوں کو ایک اور طریقہ سوجھا۔ یہ مولوٹوف کاک ٹیل کا تھا۔ زائرین زم زم کی خالی بوتلیں چھوڑ گئے تھے۔ ان میں پٹرول بھرا اور کپڑا ڈالا جو فیوز کا کام کرے۔ اس کو آگ لگا کر بم کا کام کیا جا سکتا تھا۔ ایک باغی گاڑی کی چھت پر چھلانگ لگاتا، فیوز کو آگ لگاتا، گاڑی کا ہیچ کھولتا اور بم اندر پھینک دیتا۔ جلد ہی گاڑی جلتا ہوا تندور بن جاتی۔ جب تک اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ باغی گاڑی پر سے چھلانگ لگاتا، گاڑی کا بدقست عملہ اندر ہی جل کر سیاہ ہو چکا ہوتا۔
صفا اور مروہ کی اوپر اور نیچے کی گیلریوں میں یہ پٹرول بم برسنے لگے۔ پریشان ہو جانے والے فوجیوں نے گاڑیاں واپس موڑیں۔ اس بھاگم دوڑ میں وہ اپنے ہی ساتھیوں کو کچلتے ہوئے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپریشن جاری رہا۔ ایک کے بعد اگلا دستہ۔ اس میں سعودی آرمی، سپیشل سیکورٹی فورس اور نیشنل گارڈ حصہ لے رہے تھے۔ ہر ایک کی کمانڈ الگ الگ تھی۔ ان کے ریڈیو سسٹم بھی الگ تھے اور ایک دوسرے کی بات نہیں سن سکتے تھے۔ اگرچہ ہدایات یہ تھیں کہ سویلین پر فائرنگ نہ کی جائے لیکن جب حرکت کرتی کسی چیز کا مطلب موت ہو سکتا ہو، وہاں پر جنگ کی کنفیوژن میں ٹریجڈیوں کی بھرمار تھی۔ ایک فورس کے فوجی دوسری فورس کو نشانہ بنا دیتے تھے۔ زائرین بھی اس ہلے میں مارے جا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتے کی دوپہر تک صفا اور مروہ کی گیلری پر قبضہ چھڑوایا جا چکا تھا۔ ساڑھے تین بجے ابوسلطان ایک نئی بکتر بند گاڑی لے کر مطافِ کعبہ تک پہنچ گئے۔ مطاف میں پہنچتے ساتھ ہی ان کی گاڑی پر مسجد سے فائر ہوئے۔ ان کی مشین گن نے ان فائر کرنے والے دو لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تیسرا زخمی ہو کر گر پڑا۔ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی۔ یہ تینوں مصری تھے۔ ابو سلطان نے رسی پھینکی اور اس زخمی کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ یہ پکڑا جانے والا پہلا باغی تھا۔
ان کے پیچھے دو مزید بکتر بند گاڑیاں مطافِ کعبہ پہنچیں۔ یہ مسلسل چاروں اطراف میں مشین گن کے فائر اگل رہی تھیں۔ گولیوں کی بارش سے مسجد کی دیواریں ہر طرف سے چھلنی ہو رہی تھیں۔ صفا مروہ کی گیلری سے لے کر باب الفتح تک کے علاقے سے اونچے شعلے بلند ہورہے تھے۔ باہر سے یہ دور سے نظر آ رہا تھا۔ آگ بجھانے والے پہنچ گئے جو اس پر پانی ڈال کر بجھانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہ کے مقامی اخبار ال ندویٰ کے دفتر سے ان شعلوں کا نظارہ صاف نظر آ رہا تھا۔ میڈیا کا یہاں آنا منع تھا لیکن اس اخبار کے فوٹوگرافرز کے لئے منظر سامنے نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے اس کی تصاویر لینا شروع کر دیں۔ اگلے روز یہ اخبار کے فرنٹ پیج پر تھیں۔ یہ تصاویر سعودی حکومت پسند نہں آئیں۔ اس اخبار کی کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔ (ساتھ لگی تصویر اس اخبار میں چھپی تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات باغی زیرِ زمین علاقے میں جا چکے تھے۔ جلتی راہداریوں میں ایک چھوٹا گروہ ابھی بھی مزاحمت کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک محمد بن عبداللہ بھی تھے۔ ان کو اپنے نہ مرنے پر اتنا یقین تھا کہ وہ حیرت انگیز کام کر رہے تھے۔ حکومتی فوجی راستہ صاف کرنے کے لئے گرینیڈ استعمال کر رہے تھے۔ محمد عبداللہ فوج کے طرف سے پھینکے گرینیڈ کو پھٹنے سے پہلے ہاتھ میں لے کر واپس پھینک دیتے۔ پھر ایک حملے میں ان کی مہربان قسمت ان کو دغا دے گئی۔ ایک گرینیڈ اٹھانے جھکے اور وہ پھٹ گیا۔ ان کی ٹانگوں کے چیتھڑے اڑ گئے۔ سامنے سے آنے والے فائر کی وجہ سے ان کے چند ساتھی ان کو بچانے نہیں آ سکے۔ یہ دھماکہ دیکھ کر ان کا اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر وہ مرے نہیں بھی تو بھی شدید زخمی ہو چکے ہیں۔
مسجد کی سطح کے اوپر کا حصہ باغیوں کے قبضے سے چھڑوایا جا چکا تھا لیکن زیرِ زمین تہہ خانے میں باغی موجود تھے۔ لڑائی کا مشکل مرحلہ ابھی باقی تھا۔
اس سب کے دوران سعودی حکومت کے لئے ایک اور دردِ سر شروع ہو چکا تھا۔ اس واقعے کے نتیجے میں یہاں سے سینکڑوں میل دور الشرقیہ کے صوبے میں سعودی حکومت کو عوامی بغاوت کا سامنا تھا۔ خونی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔