(Last Updated On: )
ہر شب
آفتاب نکلتے ہی
ماضی کی کھڑکی کھولے
ہجر کی سیج سجائے
میرے دل کے سارے پتلے
تاروں کی چادر اوڑھے
غم کی پائل پہنے
تیری یاد روبرو رکھے
اس قدر ناچتے ہیں
کہ آہ و پکار کے
اس شور میں
میرے زخم کئی بار
ادھیڑے جاتے ہیں
لہو بہتا رہتا ہے
درد کی ٹیسیں ہر رات
میرے وجود کو
اس آگ میں دہکاتی ہیں
اور میں گونگا بہرہ بنے چپ چاپ
یہ منظر دیکھتا رہتا ہوں
کبھی جو تھک کر چلاوں
تو تیری یاد کے آسیب
مجھے جکڑ لیتے ہیں
اور میں اپنا شکستہ وجود لیے
بے بسی سمیٹے
اسی آس میں جلتا رہتا ہوں
کہ کبھی تو یہ رات تھمے گی