جنوب سے آنے والے فوجی شہر میں اعلان کر رہے تھے۔ نام لے رہے تھے کہ کونسے قبیلے کے لوگوں کو شہر چھوڑ دینے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں۔ شہر میں ہر گاڑی ضبط کر لی گئی تھی۔ پانی، بجلی کاٹ دئے گئے تھے۔ جس کو نکلنے کی اجازت ملی اور جو نکل سکا، وہ بچ گیا۔ یہ 31 مئی 1988 کو ہونے والا موت کا کھیل تھا۔
اس شہر کا ملیامیٹ کرنے بمبار طیارے پہنچ گئے۔ شکار کا کھیل شروع ہو گیا۔ یہ صومالیہ کے شہر ہرجیسا میں ہونے والا ہالوکاسٹ تھا۔
“کوئی بچنے نہ پائے۔ شہر کا پانی زہر آلود کر دو، جو نظر آئے، اس کو چھلنی کر دو، جو معافی مانگنے کے لئے زمین پر جھک کر گڑگڑائے، اسے زمین میں گاڑ دو۔ زندگی کی رمق نہ رہنے پائے۔ اس شہر میں صرف کوے زندہ رہ سکتے ہیں۔” یہ خوفناک الفاظ کرنل یوسف عبدی علی کے ہیں، جس میں وہ فوجیوں کو اس آپریشن سے پہلے ہدایات دے رہے ہیں کہ اس شہر میں رہنے والوں کے ساتھ کرنا کیا ہے۔ یہ ویڈیو اب بھی محفوظ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صومالیہ کے آمر جنرل محمد سیاد بری نے دو آپشن دئے تھے۔ ہتھیار ڈال دو یا مر جاوٗ۔ یہ کسی حملہ آور فوج، کسی جنگی قیدی، کسی مجرم کو نہیں۔ اپنے ملک کے لوگوں کو دئے گئے تھے۔ جن کو فوجی حکومت قبول نہیں تھی، ان کو لالچ یا ترغیب دے کر ساتھ نہیں ملایا گیا تھا، ان کا کچل دیا گیا تھا۔ لیکن جب یہ حل بھی ناکام ہونا شروع ہوا تو نیا حل مزید شدت سے کچلنا نکالا گیا۔ اتحاد صومالیہ کی کمزوری رہی ہے۔ ایک ہی نسل، ایک ہی مذہب، ایک ہی کلچر، ایک ہی زمین، ہزاروں سال تک اکٹھی خودمختاری کے باوجود یہاں پر رہنے والے آپس میں تاریخی رقابتیں رکھتے رہے ہیں۔ ایک جھنڈے تلے اکٹھا کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں رہا۔ مشہور بادشاہ عادل، آدجوران، ورسانگلی اور مجیرتن متحد صومالیہ پر حکومت کرتے رہے تھے جس میں آج کے کینیا اور ایریٹریا کا بھی حصہ تھا لیکن پھر بھی صومالی متحد شناخت نہیں رکھ سکے۔
سیاد بری کی حکومت کی ترجیح ملک کو متحد کرنا تھا۔ انہیں اس میں کامیابی بھی ہوئی تھی۔ انہوں نے قبائلی تقسیم کرنے والوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان کی ملٹری پرانے سلطانوں سے زیادہ طاقتور تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صومالیہ 1960 میں آزاد ہوا۔ دو بار فوجی بغاوت کی ناکامی کی بعد جنرل سیاد بری نے سیاسی حکومت کا تحتہ 1969 میں الٹا دیا۔ منتخب صدر اپنے باڈی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ نئی حکومت نے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کروانا شروع کئے۔ پہلے سوشلزم کا نام استعمال کر کے سوویت یونین کی حمایت حاصل کی۔ ملک پر سیاد بری کا زور مضبوط ہوتا گیا۔ 1976 میں تمام سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قرار دے کر ایک پارٹی کی حکومت قائم کر دی گئی۔ اپوزیشن کو اس سرزمین پر اجازت نہیں تھی۔ حکومت کی مخالفت کرنا بہادروں کا کام تھا۔ جس طرح یہ کنٹرول مضبوط ہوتا گیا، قوم میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ سب سے زیادہ مخالفت شمال میں اسحاق قبیلے سے آئی۔
لوگوں کے دل جیتنے کے لئے اور قوم کو متحد کرنے کے لئے انہوں نے وہ کام کیا جو ایسے مواقع پر کیا جاتا ہے۔ ایتھیوپیا کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ اس کے لئے امریکہ کی مدد لی گئی۔ یہ تباہ کن ایڈونچر ناکامی کا شکار ہوا۔ نقصان اٹھایا، شکست کھا کر یہ حکومت مزید کمزور ہو گئی۔ صومالی اتحاد کا خواب بکھر گیا۔ پراپیگینڈہ مشین کا ایک بڑا پیس بھی ختم ہو گیا تھا۔
حکومت سے ناخوش باغی گروپ ابھرنا شروع ہو گئے۔ ڈکٹیٹرشپ نے اپنے ریشمی دستانے اتارنا شروع کر دئے۔ کچھ گروپس اب جمہوریت واپس چاہتے تھے، کچھ صومالیہ سے آزادی۔ صومالیہ کے شمال کے چھ صوبے آزادی مانگنے والوں میں سے تھے۔ الگ کالونیل ماضی کے بعد یہ باقی صومالیہ سے آزادی کے وقت ملے تھے۔ انہوں نے طے کر لیا تھا کہ نہیں، اب یہ موگادیشو کی حکومت کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ شروع میں ان کی تحریک جنرل کو ہٹانے کی تھی لیکن جس طرح سختی بڑھتی گئی، ان کے شہر مسمار کئے جاتے رہے، ریپ اور قتل ہوتے رہے۔ یہ مطالبہ آزادی میں بدل گیا۔ ان لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنا مشکل جاتا ہے جنہوں نے آپ کے عزیزوں کو قتل کیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علیحدگی کہنے میں آسان ہے، لینے میں نہیں۔ کینیا سے شکست کھانے کے باوجود صومالیہ کے پاس ایک طاقتور فوج تھی۔ اس نے صومالی لوگوں کے ساتھ وہ کچھ کیا جس کا وہ تصور نہیں کر سکتے تھے۔ علیحدگی پسند تحریک شمال کی طرف ملک کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر، برعو اور ہرجیسا کو لپیٹ میں لے رہی تھی۔ سیاد بری نے یہاں کے نوجوان مردوں کی جان کسی بھی وجہ سے لینا افواج کے لئے جرائم کی فہرست سے نکال دیا۔ خاندان، قبیلے اور شہر، اب سب نشانے پر تھے۔ پہلا بڑا نشانہ برعو بنا۔ اس شہر میں گلی گلی پھر کر لوٹ مار کی گئی، عمارتوں کے مکینوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ توپخانے سے گھروں پر حملے کئے گئے۔ جو بچا، اس کا صفایا جہازوں سے کیا گیا۔ شہر میں کوئی عمارت سلامت نہیں رہی۔ اگلی باری ہرجیسا کی تھی۔ صومالیہ میں تجارت تعلیم اور کلچر کا سب سے بڑا مرکز۔ صومالیہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر۔
فوجیوں نے اس شہر کا قلع قمع کر دیا۔ بازار، گھر، سٹور، مساجد، سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ کوئی بھی قیمتی چیز باقی نہیں رہی۔ مزاحمت کرنے والوں کو موقع پر قتل کر دیا گیا۔ جب شہر میں لوٹنے کھسوٹنے کو کچھ نہ بچا تو بھاری توپخانہ آ گیا اور بمبار طیارے۔ جو لوگ ایتھیوپیا کی طرف جان بچانے بھاگ رہے تھے، ان کا شکار جہازوں میں بیٹھ کر مشین گن سے کیا گیا۔ اسی فیصد سے زیادہ عمارات مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ جو بچیں بھی، وہ بس کھوکھلے سٹرکچر اور ان میں نیم زندہ لوگ۔
بغاوت آہنی ہاتھوں سے کچل دی گئی۔ کوے زندہ بچ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو بھولے ہوئے قتلِ عام کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں لیکن صومالیہ سے باہر لوگ اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ ہرجیسا کا ہولوکاسٹ۔ یہ صرف بڑے شہروں تک نہیں رہا۔ قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچا۔ جنرل سیاد بری کی افواج وہاں پہنچی جہاں باغی نہیں پہنچ سکے تھے۔ ان لوگوں کو قتل کیا جن کو اس جنگ کا پتا بھی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صومالیہ جنگ ہار گیا۔ اس تباہی، اس قتلِ عام کے باوجود ہار گیا۔ یا شاید اس کی وجہ سے ہار گیا۔ برعو اور ہرجیسا کو ڈھائے جانے سے پہلے باغی اتحاد کے خلاف نہیں تھے۔ صومالیہ کا حصہ بن کر رہنا چاہتے تھے۔ لیکن پھر بہت ہو گیا۔ جب لوگوں کو دو آپشن میں سے انتخاب دیا جائے کہ ہتھیار ڈال دو یا مر جاوٗ۔ تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہوتا ہے جو ایک تیسری آپشن بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ لوگوں کو قتل کر کے ان سے دوستی نہیں کی جا سکتی۔ لوگوں کو مٹی میں گاڑا جا سکتا ہے لیکن ہم بھی اسی مٹی کے بنے ہیں۔ یقینی شکست کے آگے بھی مزاحمت کرتے ہیں۔
جنرل محمد سیاد بری کی حکومت ختم ہو گئی۔ صومالیہ بدتر سے بدترین حالات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ افریقہ کا سوئٹزرلینڈ کہلایا جانے والا ملک دنیا میں رہنے کے لئے بدترین جگہ ہے۔ ملک تین حصوں میں ٹوٹ گیا ہے۔ شمال کے چھ صوبوں پر مشتمل صومالی لینڈ آزاد ملک بن گیا۔ اپنی حکومت، اپنی فوج، اپنے انتخابات، اپنی کرنسی، اپنا پاسپورٹ، اپنا جھنڈا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صومالی لینڈ آزاد ملک ہے۔ صومالیہ کے برعکس پرامن ملک ہے۔ اس نے 1991 میں باقاعدہ آزادی کا اعلان کر دیا تھا، لیکن یہ دنیا کے کسی نقشے میں نہیں۔ اگرچہ صومالیہ اس کو اپنا حصہ کہتا ہے لیکن کوئی صومالی بغیر ویزے کے اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں کوئی بھی ایک ملک ایسا نہیں جو اس کو آزاد ملک تسلیم کرتا ہو۔ ہر ملک کی الماری میں اپنے اپنے ڈھانچے ہیں۔ اسے کہیں سے کوئی امداد نہیں ملتی۔ یہ پھر بھی موجود ہے۔ ہرجیسا اس کا دارالحکومت ہے۔ (ساتھ لگی تصویر دو سال پہل ہرجیسا میں ان کے پچیسویں یومِ آزادی کی تقریبات کے موقع پر کھینچی تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل یوسف جنہوں نے کووں کے علاوہ سب کو مار دینے کا کہا تھا، اس قتلِ عام کے تیس سال بعد وہ پہلے شخص ہیں جنہیں کسی بھی قسم کی سزا سنائی گئی ہو۔ فرحان ورفا نامی شخص کے جسم میں کرنل نے پانچ گولیاں اتارنے کے بعد اس کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا، لیکن فرحان معجزاتی طور پر زندہ بچ گیا۔ کرنل یوسف جو امریکہ میں گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے، ان کو ڈھونڈ کر ان پر کیس کیا گیا۔ اس سال ان کو فرحان کو زخمی کرنے کے جرم میں جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔