جب پاکستان کی ٹیم کرکٹ کھیلنے میدان میں اترتی ہے تو میری تمنائیں اور دعائیں ان کی جیت کے لئے ہوتی ہیں۔ پاکستان کے بارے میں کبھی کچھ اچھا سننے کو مل جائے تو دن اچھا گزرتا ہے، اس کے بارے میں کوئی بری خبر ملے تو دکھ ہوتا ہے۔ اس کا پرچم بلند ہوتا ہے، اس کا ترانہ بجایا جاتا ہے تو دل میں عجیب جذبات ابھرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ہوں، باقی دو سو ملکوں کو چھوڑ کر اس میں دلچسپی ہوتی ہے کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے۔ میں اس کو دنیا میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتا ہوں، اپنی سی کوشش بھی کرتا ہوں۔ طیارہ جب یہاں پر لینڈ کرتا ہے تو ایک فرحت اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی کمزوریاں، خرابیاں اور مسائل پریشان کرتے ہیں۔ مگر کیوں؟ کیونکہ یہ میرے لئے منفرد ہے۔ یہ میری شناخت کا حصہ ہے اور میں ایک محبِ وطن پاکستانی ہوں۔ لیکن کیا یہ خوبی ہے یا خامی؟ یہ سوال اتنا آسان نہیں جتنا دیکھنے میں لگتا ہے۔
کوئی بھی شخص محض ایک شناخت نہیں رکھتا۔ ایک ہی وقت میں ایک شخص مسلمان بھی ہو سکتا ہے، پاکستانی بھی، کراچی کا رہنے والا بھی، پشتو بولنے والا بھی، ڈاکٹر بھی، باپ بھی، سوشل ورکر بھی، محلہ کمیٹی کا ممبر بھی، عالمی شہری بھی، کسی سیاسی جماعت کا کارکن بھی، کسی تعلیمی ادارے کا سابق گریجویٹ بھی۔ یہ اور اس طرح کی درجنوں دوسریں شناختیں ایک ہی وقت میں ہماری شخصیت کا حصہ ہیں۔ اور ہماری ہر شناخت ہمیں دنیا کو دیکھنے کے بارے میں ایک ہی نتیجے تک نہیں پہنچاتی۔
تضادات انسان کی شخصیت کا جزو ہیں۔ ایک شخص مسجد سے نکل کر غبن کر رہا ہے۔ ایک کمیونسٹ اپنے لئے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ماحولیات کے لئے لڑنے والا اپنے لئے دھواں اڑاتی بڑی گاڑی خرید رہا ہے۔ اپنے آپ کو روایات کا امین کہنے والے کو اپنے ہی دریاؤں اور درختوں کا کوئی خیال نہیں۔ وہ جو گوشت اس لئے نہیں کھاتا کہ جانوروں کو ایذا نہ ہو، اسے اپنے ایٹم بم پر فخر ہے، دنیا کو رواداری کا سبق پڑھانے کا دعوی کرنے والے، کسی اور کی عبادت گاہ کو جلاتے ہوئے رقصاں ہیں۔ یہ انسان کی شخصیت کے مختلف حصوں کے آپس کے تضادات ہیں۔ لیکن کون کہتا ہے کہ زندگی آسان ہے، سیدھی ہے اور سادہ ہے؟ تضادات لازم ہیں۔ کوئی بھی شخص محض ایک شناخت نہیں رکھتا۔ زندگی کے فیصلے صرف ایک ہی شناخت سے نہیں کئے جا سکتے لیکن ایسا کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ فاشزم کیا ہے؟ قومی شناخت کو باقی سب پر ترجیح دینے کا نام۔ یہ حد سے بڑھی حب الوطنی ہے۔
اپنے ملک کو منفرد سمجھنا ایک چیز ہے کیونکہ دنیا کے باقی سب ممالک کی طرح یہ منفرد ہے۔ اپنے ملک کو خاص سمجھنا مختلف معاملہ ہے۔ اپنے ملک سے محبت کرنا اور اسے آگے بڑھنے کی خواہش رکھنا ایک چیز ہے، دوسروں سے نفرت اور ان کو تباہ ہونے کی خواہش رکھنا مختلف معاملہ۔ اپنی ترقی کی کوشش ایک چیز ہے، یہ کسی اور کی قیمت پر کرنا ایک مختلف معاملہ۔
روس نے کریمیا پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے فوجی سادہ کپڑوں میں بھیجے۔ صاف انکار کیا کہ یہ کام روس کا ہے اور کہا کہ یہ عام لوگ ہیں جو ہتھیار خرید کر ایسا کر رہے ہیں۔ یہ جھوٹ اور فریب قومی مفاد کے نام پر کیا گیا۔ سوویت یونین یا کمبوڈیا کے کمیونزم نے سب کو تمام شناختیں مٹا کر انسانی برابری کے نام پر دنیا کو اور ملک کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ مسولینی اور ہٹلر نے قومیت کے نام پر تمام شناختیں مٹانے کی۔ قومی وقار اور مفاد کے دفاع کے نام پر ہونے والے ظلم دنیا میں عام ہیں۔ کہیں پر کسی کو اپنی زبان کی شناخت بھلانے کا کہا گیا۔ کسی ایک شناخت کو باقی سب پر ترجیح دے کر باقی سب کو مٹانے کی کوشش آج تک دنیا میں سب سے خونی جنگوں، خانہ جنگیوں، فسادات، ظلم اور قتل و غارت کا سبب بنی ہے۔ ہر شخص ایک ہی رنگ میں ڈھل جائے، ایک ہی آواز رکھے، اس کے لئے غدار کا لیبل وجود میں آیا جو فاشسٹ طرزِ فکر کا سب سے بڑا ہتھیار بنا۔ مگر میری طرح، ہر ایک کو اپنی طرح طرح کی شناختیں عزیز ہیں۔
تاریخ کا سبق ہے کہ کسی کی شناخت کو دبانے کا کبھی اچھا نتیجہ نہیں نکلا، لیکن ایسا اچھائی اور نیک نیتی سے کیا جاتا رہا ہے اور کسی بڑی اچھائی کے نام پر۔ آج آسٹریلیا سے جیتنے کے بعد خوش ہونے والے پاکستانی کا جذبہ فطری ہے۔ لیکن حب الوطنی اور فاشزم کے درمیان ایک باریک سی لکیر ہے۔ رواداری، میانہ روی اور توازن سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ سبق سکھایا جاتا رہا ہے مگر انسانی فطرت کی وجہ سے جلد بھلایا جاتا رہا ہے، کیونکہ ہر برائی بدصورت نہیں ہوتی اور خوبصورت برائی سب سے زیادہ خوفناک ہوتی ہے۔