حیات اللہ انصاری کا شمار ان فن کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی اور اپنی صلاحیتیں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دی تھیں۔ان کے افسانے بھی اسی نوع کے ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوں کے لیے بارہا ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جو کسی خاص نکتے کی طرف قاری کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ادب میں بھی مقصدیت کے قائل تھے۔ اس مضمون میں حیات اللہ انصاری کے ایسے افسانوں کا جائزہ لیا جائے گا جو حقوق انسانی کے نقطۂ نظر سے اہمیت کے حامل ہیں۔
حقوق انسانی سے ہماری کیا مراد ہے اسے جاننا ضروری ہے۔
اس بات سے ہم سبھی واقف ہیںکہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو فطرت کی طرف سے عائد کردہ کچھ ذمہ داریوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ان ذمہ داریوں کو وہ پوری طرح سے ادا کرسکے،اس کے لیے فطرت نے ضرورت کی تمام چیزیں اسے ودیعت کر رکھی ہیں، لیکن طاقتورطبقہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے اپنے سے کمزوروں کے اختیارات میں دخل اندازی کرتا ہے۔یہ کام کبھی ایک فرد کرتاہے توکبھی گاؤں اور سماج ، کبھی سرکاریں تو کبھی بین الاقوامی برادری ۔چوں کہ ایک انسان بیک وقت انفرادی زندگی ، اجتماعی زندگی ،قومی زندگی اور بین الاقوامی زندگی جی رہا ہوتا ہے، اس لیے ان میں سے کوئی ایک بھی انسانی زندگی میں کسی بھی طرح دخل اندازی کی کوشش کرتا ہے تواس کی زندگی کی گاڑی تو پٹری سے اترتی ہی ہے ساتھ ہی بقیہ تینوں اداروں کا نظام بھی درہم برہم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ یہ ادارے جس انداز سے کسی فرد کی زندگی کے کسی بھی گوشے میں مداخلت کرتے ہیںاسی طور خود بھی مضمحل اور کمزور ہوتے ہیں لیکن اس بات کوبہت ہی کم سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کوئی سماج ، سرکار یا بین الاقوامی برادری کسی انسان کے ان حقوق کو چھیننے کی کوشش کرتی ہے جو اسے فطرت نے پیدائش کے ساتھ ہی ودیعت کر دیا تھاتو اس کی گرتی اینٹیں ان اداروں کو بھی کمزور کرنے کا ہی کام کرتی ہیں ۔حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں میں انہیں مسائل کو موضوع بنایا ہے۔اس نوع کے کسی ایک مسئلہ کے بجائے ان کے یہاں مسائل کا ایک تسلسل ہے جس سے درج بالا خیالات کی تائید ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ’کمزور پودا‘، ’بھرے بازار‘، ’ڈھائی سیر آٹا ‘، ’شکستہ کنگورے‘،’ پرواز‘ ،’موزوں کا کارخانہ ‘،’ بارہ برس بعد‘ ،’ بہت ہی باعزت ‘، ’بھیک ‘، ’سربستہ راز‘،’ ٹھکانہ‘ ،’ اندھیرا اجالا‘،’ آخور کا تحفہ ‘اور’ آخری کوشش ‘جیسے افسانوں کو اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں کے ذریعے ان مستحسن اقدامات کی تعریف بھی کی ہے جہاں کسی انسان کی کوششوں سے کسی فرد ،خاندان یا پورے سماج کے لیے فطری حقوق کا حصول ممکن ہو پایا ہے۔’مبارک ہو‘، ’ادا یا قضا‘اور’ بے وقوف‘ جیسے افسانوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔سائنسی ترقی اور انسانی عروج کے ساتھ ہمیشہ ہی اس بات کا خدشہ لاحق رہتاہے کہ کسی جدید ٹیکنالوجی کے آجانے سے انسان کو مستقبل میں اپنے کسی حق سے دست بردار ہونے کی نوبت پیش نہ آجائے۔اسی لیے جدید ترقیات کے اس عہد میں یہ موضوع ہمارے درمیان زیادہ غوروفکر کا رہا ہے۔ ’ ہانمت‘ جیسے افسانے کی تخلیق کرکے حیات اللہ انصاری نے بھی غور و فکر کے اسی رویے کی پاسداری کی ہے اور ستر سال پہلے روبوٹ کی تباہ کاریوں سے انسانیت کو آگاہ کیا ہے ۔ لیکن انسانوں میں سے ایک طبقہ ایسا رہا ہے جو ہمیشہ اپنی سہولتوں اور آسائشوں کی قیمت عام انسانوں سے حاصل کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے عہد کو ممکن بنانے پر تلا ہوا ہے ۔( اس کا خمیازہ ہمیں اور آپ کو اپنی پرائیویسی ختم کرکے بھگتنا پڑ رہا ہے) بلکہ مستقبل میں ہم جیسے انسانوں کی خود بخود تخلیق کو ممکن بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سے ہمیں اپنی جان اور دنیا کے نظام کو درہم برہم ہوتے دیکھنے پرمجبو ر ہونا پڑے گا۔ اس بات سے اسٹیفن ہاکنگ نے بارہا سائنس دانوں کو آگاہ کیا ہے۔حیات اللہ انصاری نے ’ ہانمت‘ کی تخلیق کرکے سائنس کی ترقی کا تو استقبال کیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کی تلقین بھی۔
حیات اللہ انصاری نے سماج کے فرسودہ اور غلط رسم ورواج کی وجہ سے سلب ہورہے فرد کے فطری حقوق کے خلاف تو آواز بلند کی ہے لیکن سرکاروں اور بین الاقوامی برادری کی غلط پالیسیوں ، منصوبوں اور قوانین کی بنا پر جس طرح سے انسان اپنی سیاسی اور معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ ان حقوق کو کھوتا جا رہا ہے جو کہ اس کے لیے باعث امتیاز تھے، اس طرح کے موضوعات ان کے افسانوں میں موجود نہیں ہیں۔انھوں نے 1930سے 1955 کے دوران 37 افسانے تخلیق کیے۔ یاد رہے تقریبا یہی زمانہ اور اتنا ہی دورانیہ منٹو نے بھی پایا تھا۔لیکن حیات اللہ انصاری جیسے با صلاحیت فنکا ر سے اپنے عہد کی ترجمانی کے لیے جس متنوع موضوعات کی امید کی جا سکتی تھی، اس کے برخلاف ناقدین کا احساس ہے کہ غربت ، مجبوری ، بے کسی ، دکھ درد ، کرب و اضطراب اور جنسی استحصال جیسے موضو عات کے ارد گرد ہی ان کا قلم چلتا رہا (۱)۔یہ ایسے موضوعات تھے جو پریم چند اور ان کے عہد کے دیگر افسانہ نگاروں کے ذریعے ایک حد تک پامال ہو چکے تھے۔حیات اللہ انصاری نے بھی انہی موضوعات کو اپنا یا ،نتیجے میں وہ کوئی علاحدہ ڈگر تو نہ بنا پائے لیکن جوکچھ لکھا اس میں بھی بہت کچھ ایسا موجود ہے جس سے ان کی الگ شناخت کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود کئی ناقدین جب ان کو یاد کرتے ہیں تو پریم چند کی روایت کو آگے بڑھانے والے فن کار کے طور پر ہی یاد کرتے ہیں۔ جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے لکھنے کا زمانہ ایسا تھا جو اپنے گوناگوں مسائل اور بعض ناہمواریوں کی وجہ سے ہمارے ملکی ا ور بین الاقوامی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اگر اس عہد کی سیاسی ، معاشی اور سائنسی تاریخ کو دیکھیں اور حیات اللہ انصاری کے موضوعات کے ارتقاء کو دیکھیں تو صاف جھلکتا ہے کہ ایک بڑے فنکار کے طور پر ان کے عہد میں جو امیدیں ان سے وابستہ کی گئی تھیں ، ہمارے زمانے تک آتے آتے وہ اسی طرح قائم نہیں رہ سکیں۔ یہ بات سچ ہے کہ وہ اعلی خانوادے سے متعلق تھے ، بچپن اور لڑکپن کسمپرسی میں گزارا،مدرسۂ فرنگی محل جیسے باوقار تعلیمی ادارے سے کسب فیض کرکے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے چشمۂ صافی سے 1922سے1925تک اپنی علمی پیاس بجھائی۔ ایسے میں کیسے مان لیا جائے کہ وقت کے بدلتے دھاروں کی طرف ان کی نظر نہیں پہنچی ہو گی !حالانکہ وہ خود بھی مختلف حوالوں سے اپنے عہد کی سیاسی تاریخ کے گواہ بن رہے تھے اور آزادی کی جنگ میں شریک تھے۔
1930کا نمک ستیہ گرہ، 1936کے کسان آندولن ،1937کے پرانتیہ چنائو ،1939کی جنگ عظیم دوم،1940میں دو قومی نظریے کو بنیاد بناکر پاکستان کے نام سے ایک علاحدہ ملک کا مطالبہ ، 1942 میںبھارت چھوڑو آندولن، 1945کے ایٹم بم کی تباہ کاریاں ،1945 کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سودی نظام کو انسٹی ٹیوشنلائز کرنے والے اداروںکا قیام ، 1946سے 1950تک چلنے والی دستور ساز اسمبلی کی کارروائیاں ، دستور کے نفاذ کے بعد ایک جمہوری ملک کا قیام ، جمہوری ملک کے سایے تلے بالغ رائے دہندگی کے نظام کا نفاذ ،بین الاقوامی امن وشانتی کے لیے اقوام متحدہ اور بھارت کی کوششیں ، یہ کچھ ایسے موضوعات تھے جن پر کامیاب ترین افسانے ان کے قلم سے نکل سکتے تھے ۔کیوں کہ وہ ان چیزوں کو نہ صرف باریکی سے دیکھ رہے تھے بلکہ آگے چل کر وہ ریاستی اور مرکزی مقننہ کے حصہ بھی بنے ۔لیکن پتا نہیں کیوں، انھوں نے اپنے افسانو ں کے موضوعات کی تلاش اپنے وقت کی تاریخ میں نہیں کی ۔’ شکستہ کنگورے ‘میں ہلکی سی جھلک کسانوں کی بے چینی کی نظر آتی ہے، لیکن زمین داروں کی جگہ بہ جگہ ، جب وہ منیر کی زبان سے یہ کہتے ہیں کہ ’’ اگر اپنی پھاٹک پر ہاتھی نہ جھوما تو زندگی کس کام کی، یہ عروج تو اپنا حق ہے ۔‘‘ 1936میں لکھنؤ میں منعقدہ آل انڈیا کسان سبھا کے وہ خود بھی گواہ رہے ہیں، لیکن اس پوری تاریخ کا افسانے میں خیرات جیسا ذکرسمجھ سے پرے ہے۔یہ کہنے میں مجھے تأمل نہیں کہ انھوں نے ان کمیوں کو اپنے ناول میں پور اکرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ، جس کی وجہ سے ان کا ناول پانچ ضخیم جلدوں میں پھیل گیا ۔ یہ تاریخ کو سمیٹنے کی قابل قدر کوشش تھی لیکن افسانوں میں وہ کوشش نہیں دکھتی ۔ ممکن ہے اس کی وجہ وہی ہو جیسا کچھ صفدر امام قادری نے ’لہو کے پھول‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’ حیات اللہ انصاری کائنات میں ہو رہے واقعات وتجربات کوبہت سیدھے ڈھنگ سے دیکھتے ہیںاور ان میں کسی گہری سوچ اور زندگی کے اہم فلسفے کی تلاش نہیں کر پاتے۔ ‘‘(۲)
صفدر امام قادری کی اس بات سے قطع نظر، جب ہم حیات اللہ انصاری کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ انسانیت کے لیے وہ اپنے سینے میں بڑا درد مند دل رکھتے تھے۔جہاں انھوں نے محسوس کیا کہ سماج کے فرسودہ قوانین کی وجہ سے فرد کی آزادی سلب ہو رہی ہے اور وہ اپنے بنیادی حقوق یعنی جان ،مال ، عزت و آبرو کی حفاظت اور روٹی، کپڑا ، مکان کے حصول سے بھی محروم ہو رہا ہے ،وہاں انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے آواز بلند کی ۔ بٹوارے کے درمیان جس طرح سے لاکھوں انسانوں نے اپنے زندہ رہنے کے حق کو کھویا، وہ بڑاہی درد انگیز تھا۔اس پر بھی وہ خاموش نہیں رہ سکے۔
1215میں برطانوی شہنشاہ کنگ جان دوئم نے میگنا کاٹا جاری کرکے اپنی رعایا کی جان و مال کے تحفظ کا اعلان کیا تھا، اس کو پس پشت ڈال کر برطانوی سامراج نے غیر فطری انداز سے ملک کا بٹوارہ کیا۔ نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ حیات اللہ انصاری اس قتل عام کو برداشت نہ کرسکے ۔ انھوں نے ’’شکر گزار آنکھیں‘‘ اور’’ ماں بیٹا‘‘ جیسے لافانی افسانے تخلیق کیے۔جب بھی اس طرح کے حالات پیدا ہوںگے ، حیات اللہ انصاری کے یہ افسانے یاد کیے جائیں گے۔لیکن اس قتل عام کی جڑ تک افسانے میں ان کی نظر نہیںپہنچی۔وہ جڑیں تھیں (۱) دو قومی نظریہ ( ۲) برطانوی سامراج کی مفسدانہ ’بانٹو اور راج کرو‘ پالیسی کے تحت ملک کی غیر فطری تقسیم۔دونوں ہی افسانوں میں زیریں لہر سے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ انھوں نے ان دونوں میں سے کسی ایک پر بھی وار کیا ہے۔جیسا کہ منٹو نے ’ کھول دو‘ میں مسلم قاتل ، مسلم مقتول ، مسلم رضا کار اور مسلم لڑکی ومسلم عصمت گروں کے واقعات کو بالترتیب بیان کرکے زیریں لہر میں ہی سہی دوقومی نظریے پر وار کیا تھا۔حیات اللہ انصاری علمائے فرنگی محل کی عام رائے کے بر خلاف دو قومی نظریے کے خود بھی سخت مخالف تھے لیکن افسانوں میں اس کا احساس نہیں ہوتا۔
’ڈھائی سیر آٹا‘ اور’ آخری کوشش‘ کو حیات اللہ انصاری کے نمائندہ افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ دونوں ہی افسانے فکر و فن اور زبان و بیان کے اعتبار سے بہت اہم ہیں اور اسی لیے افسانوی ادب کے انتخاب میں ان کی شمولیت بنی رہی ہے ۔’ ڈھائی سیر آٹا‘ میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ’مولا‘ اور اس کے کنبے کو ’اکرایے ہوئے آٹے ‘کو بھی استعمال کرتے ہوئے نعمت کا احساس ہوتا ہے تو وہیں ’آخری کوشش ‘میں ’گھسیٹے‘ کو اپنی ماں کا سہارا لے کر بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔دو وقت کی روٹی کا حق تو انسان کو اپنے بازئوں پر بھروسہ کرتے ہی مل جانا چاہئے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام ایک انسان سے جان توڑ محنت بھی کرواتا ہے اور پیٹ کی آگ بجھانے کے برابر مزدوری بھی نہیں دیتا۔سماج کی غیر برابری اور معاش کے غیرعادلانہ نظام کو اور بھی بہتر طریقے سے اجاگر کیا جا سکتا تھا اگر حیات اللہ انصاری نے گائوں کے’ مُہروں‘ کے بجائے اس کے پیچھے چھپے فلسفے پر کاری ضرب لگائی ہوتی۔آزادی کے بعد حیات اللہ انصاری جیسے دانشوروں کی تنقیدوں کی تاب نہ لاکر سرکار نے پبلک ڈسٹریبوشن سسٹم ،منریگا اور فوڈ سیکیوریٹی بل کے ذریعے اس بات کی کوشش ضرورکی کہ دوبارہ کوئی مولا’اکرایا ہوا آٹا ‘کھانے پر مجبور نہ ہواور ’گھسیٹے ‘کو بھیک مانگنے کے لیے ماں کا سہارا نہ لینا پڑے ، لیکن شاید ابھی کامیابی کوسوں دور ہے۔ بائیس فیصدی آبادی ابھی بھی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
’’کمزور پودا‘‘ اور’’ بھرے بازار‘‘ جیسے افسانے جنسی درندگی کی کہانی کو بیان کرتے ہیں۔عصمت سے زیادہ کوئی چیزانسان کو عزیز نہیں ہوتی ،لیکن اس عزیز شئے پر جب سماج کے سفید پوش ڈاکہ ڈالتے ہیں تو یہ ظلم حیات اللہ انصاری سہہ نہیں پاتے۔ نتیجے میں ’کمزور پودا ‘اور ’بھرے بازار ‘جیسے اہم افسانے تخلیق ہوتے ہیں۔جب’ کنیزیا‘ شبیر میاں کے ہاتھوں لٹتی ہے اور ذلیل کرکے روز گار سے نکال دی جاتی ہے یا’ رکھی‘ رات کے اندھیرے میں پیٹ کی خاطر لوٹی جاتی ہے تو یہ سب ہوتا ہوا حیات اللہ انصاری سے دیکھا نہیں جاتا۔مردوں کے حربوں سے آگاہی عورت کی با اختیار ی کاسبب بنے گی ، یہی سوچ ان کو افسانوی قالب میں اپنے خیالات کو منتقل کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
’ ٹھکانہ‘ ان کا ایک ایسا افسانہ ہے جوعام روایت سے ہٹ کر ہے ، غالباً اسی لیے اس کی طرف کم توجہ دی گئی ہے۔ سر پر ایک عدد چھت کس طرح کے تحفظ کا احساس دلاتی ہے اور انسان کی پر سکون زندگی کے لیے کتنی ضروری ہے ، اس کا احساس بے گھروں سے زیادہ کس کو ہوگا!حیات اللہ انصاری کی زندگی میں ان پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب علی گڑھ جانے کے لیے آبائی گھر دس ہزار کی قیمت پر گروی رکھنا پڑا(۳)،علی گڑھ سے واپسی پر وعدہ خلافی جھیلنی پڑی اور مکان ہاتھ سے جاتا رہا ۔پھر تو کتنی ہی راتیں ایسی تھیں جب انھیں کھلے آسمان کے نیچے بسر کرنی پڑیں۔یہ درد آگے چل کر ان کے قلم سے ’ ٹھکانہ ‘ جیسے بے مثال افسانے کی شکل میں ظاہر ہوا۔’وقار‘ کو ایک عددگھر کے لیے جس طرح کی جوڑ توڑ کرنی پڑی ،وہ بھی منتری جی کی مداخلت کے بعد حاصل ہوا گھر ہاتھ سے نکل گیا۔ اس سے سماج میں اور سرکارمیں قانونی اڑچنوں کا سہارا لے کر بے گھر لوگوں کو پریشان کرنے کی روایت کا بھانڈا پھوٹتا ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اس میں ایسے لوگوں پر تنقید کی ہے جو تعاون کے بجائے رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔
’ ہانمت‘ حیات اللہ انصاری کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں موضوع ، تکنیک اور زبان وبیان کی متعدد خوبیا ںموجود ہیں ۔ اس کی وجہ سے باقی افسانوں میں اس افسانے کو امتیازحاصل ہوناچاہئے ۔ افسانے میںفلیش بیک کی تکنیک کو پرانی ڈائری کی مدد سے اپنا یا گیاہے، مصنف راوی کی شکل میں موجود ہے اور اپنے الفاظ میں کہانی کو ارتقائی شکل دے رہا ہے۔موہن جوداڑو کی کھدائی کے دوران ایک ڈائری ملتی ہے، اسی سے پتہ چلتا ہے کہ ’ہانمت‘ نام کے ایک روبوٹ کو ایک انجینئر نے کمال مہارت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے بنایا تھا۔لیکن جلد بازی کی وجہ سے جیساکہ ا کثر سائنسی ایجادات کے ساتھ ہوتا آیا ہے ، اس کے نقصان دہ ثابت ہونے کی مکمل جانچ نہیں ہو پاتی اور اسے لانچ کر دیا جاتا ہے۔ سائنس کے نقطۂ نظر سے یہ ایک تجرباتی عمل ہوسکتا ہے لیکن انسانی جانوں کا جس بڑے پیمانے پر اس سے زیاں ہوگا ،اسے حقوق انسانی کے عظیم خطرے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ موہن جوداڑوکی تہذیب میں بھی وہی ہوا، کیوں کہ ایک دن روبوٹ کی ایک غلطی کی وجہ سے متعدد جانیں ضائع ہوگئیں ۔’ ری زابا‘نامی شخص نے روبوٹ اور اس کے انجینئر کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ عدالت کی لمبی اور پیچیدگی بھری سماعتوں کے بعد انجینئر کو با عزت بری کر دیا جاتا ہے۔یہاں پر حیات اللہ انصاری نے ایک ساتھ دو زاویوں سے قاری کی توجہ کھینچی ہے۔ایک یہ کہ ایسے سائنسی ایجادات سے پہلے پیشہ ورانہ نقطۂ نظرسے پیشتر اس بات کی ممکنہ حد تک تشفی کر لی جائے کہ اس کے نقصانات کم سے کم ہوں تاکہ انسان کی جا ن و مال کے خطرے کا با عث نہ بن سکیں۔دوسری یہ کہ عدالتوں کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی بھی مجرم بچ نہ سکے ۔بصورت دیگر عدالتیں انصاف کے قیام کے بجائے انسانی حقوق سلب کرنے کا ذریعہ بن جائیں گی۔اس افسانے کے ذریعے حیات اللہ انصاری نے عدالتی نظام کی پیچیدگیوں پر گہرا طنز کیا ہے ، جس کی وجہ سے مجرم کو بارہا باعزت بری ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ 1955میں بھارتی عدالت عظمی نے’ بودھن چودھری بنام اسٹیٹ آف بہار کیس ‘میں مانا کہ ان سے بھی ایسی غلطیاںسرزد ہو سکتی ہیں جس سے لوگوں کے حقوق سلب ہو جائیں،اس لئے ہم اس بات کی بھر پور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔
’ادا یا قضا‘ چہرے پرمسکان لانے والا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک شخص نے اپنے فرض کی ادائیگی اس تندہی کے ساتھ انجام دی کہ اس کے اسی عمل نے دسیوں زندگیوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔حکیم اعجاز حسین طاعون کی بیماری میں مبتلا اپنے سماج کے لوگوں کو بچانے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ ان کی نماز قضا ہوجاتی ہے۔ حالانکہ انھوں نے اسی بیماری میں مبتلا اپنی بیٹی کی موت پر بھی نماز قضا نہیں ہونے دی تھی، لیکن جب بات سماج کے دسیوں لوگوں کی جان کے خطرے تک پہنچ جائے تو انھوں نے وقت کی پرواہ کیے بغیر اپنی ساری طاقت لوگوں کے علاج ، معالجے اور تیمار داری میںجھونک دی۔اسی اثنا میں نماز کا وقت بھی چلا جاتا ہے۔ جب بات جان پر بن آئے تو نماز بھی قضا کرنے کی رعایت نکل آتی ہے۔اسی حوالے کو بنیاد بناکر افسانہ نگار نے تحسین آمیز لفظوں میں کہا کہ اتنی جانیں حکیم صاحب کی تندہی کی وجہ سے بچ گئیں تو اسے نماز کے قضا ہونے میں شمار کیا جانا چاہیے یاادا میں؟ بین السطوراسی سوال کے ساتھ افسانہ ختم ہوجاتا ہے۔اعتراف کیا جانا چاہیے کہ’ ادایا قضا ‘جیسے مثبت فکر کے افسانوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہو پایا ہے کہ اردو افسانے سے احتجاجی یا جذباتی موضوعات کا مجموعہ ہونے کا دھبہ مٹ سکا ہے اور آج اس کا کینوس سترنگی رنگوں سے رنگا نظر آتا ہے۔
حیات اللہ انصاری بحیثیت مجموعی افسانوی ادب کے ایک باکمال فنکار تسلیم کیے جاتے ہیں اور کسی بھی زاویے سے ان کے افسانوں پر نظر ڈالی جائے تو اس پروہ بہت حد تک کھرے اترتے ہیں ۔ حقوق انسانی کے تناظر میں ان کے افسانوں کے مطالعے کے بعد مجھے بھی یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ ان فکشن نگاروں میں شامل ہیں جوانسانیت کو ظلم و جبر کی چکی میں پستے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنے والوں میں نہیں رہتے بلکہ اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور پوری فنی پاسداریوں کے ساتھ اپنا احتجاج درج کراتے ہیں ۔
حواشی :
۱۔حیات اللہ انصاری کی کہانی کائنات ،ڈاکٹر عشرت ناہید(مرتبہ )ص 32-34ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔دہلی 2017
۲۔حیات اللہ انصاری : نافع قدوائی ،ص ، 79۔ساہتیہ اکیڈمی ۔ دہلی 2006
۳۔حیات اللہ انصاری : نافع قدوائی ،ص 18ساہتیہ اکیڈمی ۔ دہلی 2006