انسان نے جب سے زمین کو اپنا مسکن بنایا تب سے آسمان ایک افسانوی دُنیا جیسا دکھائی دیتا رہا۔اپنے سر پہ منڈلاتی جادوئی دُنیا کے راز جاننے کے لئے قدیم دور کا انسان بھی اُتنا ہیexcited تھا جتنا متجسس جدید دور کا انسان ہے۔ گمان ہوتا ہےکہ قُدرت نے جیسے ہمیں engage رکھنے کے لئے ہی ایسا شاہکار ہمارے سر وں پہ سوار کیا ہو، کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ یہ ہر چیز سے بہت جلدی اُکتا جاتا ہے، لہٰذا اگر دُنیا میں رنگ نہ ہوتے اور ستاروں سے مزین آسمان نہ ہوتا تو شاید ہمارے لیے یہاں جینا مُحال ہوجاتا۔ یہ کائناتی سحر ہی ہے جو صدیوں سے حضرتِ انسان کا ہمسفر بنے ہوئے ہے، اسی کو کھوجنے کی جستجونے ہردور میں انسانیت کو آگے بڑھنے پہ مجبور کئے رکھا۔مجھے کبھی کبھار خیال گزرتا ہے کہ شاید ہمارے آج اُڑ پانے کی اصل وجہ یہ کائنات یہ چاند ستارے ہی ہیں جن کو چھونے کی تمنا انسان کے DNA میں رچ بس گئی، اسی خاطر تو انسان کبھی چاند کو دیوتاتو کبھی تارے کو اپنے محبوب سے تشبیہ دیتا رہا،لہٰذا اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم تاریخ کے اس عہدمیں جی رہے ہیں جس میں انسان نے اس چاند کو بھی چھُو لیا جس کو کبھی وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا، اس نظامِ شمسی سے باہر اپنے خلائی جہا ز بھی بھیج چکا ہے جس سے نکلنے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا، ہماری یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے عہد میں انتہائی قلیل وقت میں انسان نے ترقی کی وہ چوٹیاں سر کرلیں جو نسلِ انسانی کے لئے آج تک ایک سُہانے سپنے جیسی تھیں۔یہی ترقی کی معراج آج مختلف صورتوں میں ہمیں دِکھائی دیتی ہے،جس کی سب سے خوبصورت شکل انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی صورت میں ہمیں نظر آتی ہے۔زمین سے 400 کلومیٹر کی اونچائی پہ اڑنے والا یہ اسٹیشن بلاشبہ انسانی ہاتھوں سے بنا وہ عظیم شاہکار ہے جسے آج بھی دیکھ کر رشک آتا ہے۔کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ شام کے وقت اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے فیملی کے ساتھ چائے شئیر کررہے ہو،اسی دوران آسمان پہ اچانک ایک ستارہ نمودار ہو جو تین منٹ کے اندر اندر آسمان کے ایک کونے سے اُبھرے اور دوسرے کونے میں غروب ہوجائے، آپ اس کی حرکت واضح دیکھ سکتے ہو، ایسانظارہ ہم میں سے اکثر دوستوں نے کیا ہوگا، یہ ستارہ دراصل انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن ہی ہوتا ہےجسے فلکیات کے چاہنے والے ISS کے نام سے بھی جانتے ہیں۔اب تک ہم ہزاروں کے حساب سے سیٹلائیٹس خلاء میں بھیج چکے ہیں ، اِن میں تقریباً 5 ہزار سیٹلائیٹس اس وقت بھی زمین کے گرد چکر لگارہی ہیں،ان تمام سیٹلائیٹس میں سائز کے لحاظ سے ISSخلاء میں بھیجے جانے والا سب سے بڑا شاہکار ہے،اس کو بنانے اور خلاء میں بھیجنے کے لئے روس ، جاپان،یورپ، کینیڈا اور امریکا نے ملکر کام کیا۔ ISS میں ہر وقت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے چھ سائنسدان موجود رہتے ہیں ، یہ سائنسدان شفٹ کی صورت میں چند ماہ کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں ، ان میں بہت کم سائنسدان وہ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں ISS میں دوبارہ قدم رکھنا نصیب ہوتا ہے، اب تک 17 ممالک کے سائنسدان اس اسپیس اسٹیشن میں وقت گزار چکے ہیں۔اتنی اونچائی پہ ہونے اور free falling کے باعث انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں Zero gravity کو experienceکیا جاسکتا ہے۔ زیرو گریوٹی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں کشش ثقل محسوس نہ ہو، اس ماحول کے باعث ISS کو مختلف تجربات کے لئے وقف کردیا گیا ، جن میں سر فہرست لمبے عرصے تک زیرو گریوٹی میں رہتے ہوئے خلائی ماحول کے متعلق آگاہی حاصل کرنا اور اس کے انسان پہ جسمانی و نفسیاتی امکانات دیکھنا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی جانچا جاتا ہے کہ کشش ثقل کی غیر موجودگی کے پودوں اور دیگر جانوروں پہ کیا اثرات ہوسکتے ہیں، اس کےلئے خلائی اسٹیشن میں ایک ماڈیول (حصہ)مختص ہے جہاں پودے اگائے جاتے ہیں، اب تک بیکٹیریا سے لے کر چوہے تک مختلف جانداروں کو خلائی اسٹیشن لے جایا گیا ہے جہاں سائنسدان یہ جان کر حیران رہ گئے کہ مختلف جانداروں نے 5 منٹ کے اندر اندر خلائی ماحول کو سمجھ لیا اور خلاء میں تیرنا سیکھ لیا۔ہمیں معلوم ہے کہ ISS میں چونکہ زیروگریوٹی experience کی جاتی ہے جس کے ذریعے ہم مختلف اشیاء کی properties کو بذریعہ تجربات سمجھ سکتے ہیں مثلاً جیسے جب ISS میں موم بتی جلائی گئی تو اس کا شعلہ سیدھا ہونے کی بجائے گول تھا جس نے موم بتی کو ڈھانپ کر فوراً بند کردیا، جس سے معلوم ہوا کہ چونکہ گرم ہوا میں ایٹمز/مالیکیولز دُور ہونے کے باعث گرم ہواکی density کم ہوجاتی ہے ویسے ہی ٹھنڈی ہوا میں ایٹمز/مالیکیول نزدیک ہونے کے باعث ٹھنڈی ہوا کیdensity زیادہ ہوجاتی ہےلہٰذاجب زمین پہ موم بتی جلائی جاتی ہے تو کشش ثقل کے باعث کم density والی (گرم) ہوا اوپر اٹھ جاتی ہے اور زیادہ density کی (ٹھنڈی )ہوا نیچے آجاتی ہے ،اس خاطر موم بتی کا شعلہ سیدھا ہوتا ہے، یہی عمل جب ISS میں کیا جائے تو وہاں زیروگریوٹی ہےلہٰذا گرم ہوا اوپر نہیں اٹھتی بلکہ وہیں موجود رہتی ہے لہٰذا وہاں موم بتی کا شعلہ سیدھا نہیں ہوپاتا اورموم بتی کو گول شکل میں coverکرلیتا ہے جس وجہ سے موم بتی کو تازہ ہوا میسر نہیں ہوپاتی اور وہ بجھ جاتی ہے، لہٰذا آپ خلاء میں لکڑی،موم بتی یا ماچس نہیں جلا سکتے، ایسے کئی حیران کن experiments انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں کیے گئے ہیں جن کی مدد سے کئی مظاہر کی نئی شکلیں ہمیں دیکھنے کو ملی ہیں۔چونکہ اسپیس اسٹیشن کی تیاری اور لانچنگ میں امریکا اور روس کا کلیدی کردار رہا ہے اس خاطر ISS کو 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، ایک حصہ USOS کہلاتا ہے جس پہ ساری فنڈنگ امریکا کرتا ہے جبکہ دوسرا حصہ ROS کہلاتا ہے جس پہ ساری فنڈنگ روس کرتا ہے۔انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کو 1998ء میں خلاءمیں بھیجا گیا اگرچہ اس سے پہلے سائنسدان 8 خلائی اسٹیشن تعمیر کرکے خلاء میں بھجوا چکے تھےمگر یہ اب تک خلاء میں سب سے زیادہ عرصہ گزارنے والا اسٹیشن بن چکا ہے۔آسمانی سکرین پہ 7.6کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اُڑنے والے اِس حقیقی اُڑن کھٹولے کی مختلف اوقات میں مرمت ہوتی رہی ہے، آخری بار مرمت 2011ء میں کی گئی،مرمت کے دوران اس کی رفتار بڑھا کر اسے دوبارہ 400 کلومیٹر کی بلندی پر adjust بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا فاصلہ زمین سے ہر مہینے 2 کلومیٹر کم ہوجاتا ہےاور اگر اسے واپس اپنے مدار میں نہ لے جایا جائے تو یہ قریب آتے آتےزمین پر گر جائے گا،یہاں پہنچ کر عموماً دماغ کے دریچوں پہ ایک سوال دستک دیتا ہے کہ اگر ISS واقعی خلاء میں تیر رہا ہے تو اس کی رفتار کم ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟اس کے رفتار کم ہونے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ اندر موجود آلات کے چلنے اور crew کےاِدھر اُدھر جانے کے باعث ہونے والی vibration ہے، دوسری وجہ اسپیس اسٹیشن میں موجود تیرتے ہوئے مختلف پرزے ہیں جو اسٹیشن کی دیواروں سے جب ٹکراتے ہیں تو معمولی معمولیforceلگاکر اسے زمین کی جانب دھکیل دیتے ہیں،تیسری وجہ اِس کے سولر پینلز کو حرکت دینے کے باعث اس کی رفتار پہ اثر پڑتا ہے، چوتھی وجہ زمین کی کشش ثقل ہےجو اسے آہستہ آہستہ اپنی جانب "بُلاتی" رہتی ہے، ان سب کے علاوہ جو انتہائی اہم وجہ ہے وہ یہ ہے کہ 400 کلومیٹر کی بلندی پر موجود گیسی ذرات اس کے راستے میں مزاحمت کرتےہے ، اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ زمین سے 100 کلومیٹر کی بلندی تک ہوا موجود ہےاس سے اوپر نہیں ،لہٰذا اس ضمن میں یہ اعتراض اُٹھایا جاسکتا ہے کہ خلائی اسٹیشن 400 کلومیٹر کی بلندی پر ہے لہٰذا اتنی اونچائی پر گیسی ذرات کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ 100 کلومیٹر کی بلندی کے بعد اچانک سے ہوا ختم نہیں ہوجاتی بلکہ بتدریج اس کی density کم ہوتی جاتی ہے، تقریباً دس ہزار کلومیٹر کی بلندی پر پہنچ پر ہوا کے ذرات بالکل ختم ہوجاتے ہیں، لیکن چونکہ سیٹلائیٹس عموماً اس سے نیچے ہی ہوتی ہیں لہٰذا ان کو بار بار اپنے مدار میں فکس رکھنا پڑتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے یہ Sky lab یا دیگر اسٹیشنز کی طرح زمین پر گر سکتی ہیں، بہرحال ISSمیں چھوٹے راکٹس بھی موجود ہوتے ہیں جن کو استعمال میں لاتے ہوئے بغیر زمینی مدد کے بھی یہ خود کو 400 کلومیٹر کی بلندی پر Adjust کرلیتی ہے۔انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں موجود سائنسدان زمین کی فضاء پہ تحقیق کے ساتھ ساتھ کائنات کے مختلف مظاہر کو بھی سمجھنے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروفِ عمل ہیں، جن میں ڈارک میٹر، اینٹی میٹر،کاسمک ریز کو سمجھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔چونکہ انسانیت کا اگلا نشانہ مریخ پر قدم جمانا ہے جس خاطر ISS کلیدی تجربہ گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ سال پہلے رُوسی سائنسدان نے مطالبہ کیا کہ ISS میں جانے والے سائنسدانوں کو مریخ کے سفر کی ٹریننگ بھی دی جانی چاہیے کیونکہ مریخ کا سفر نو ماہ سے دو سال تک طویل ہوسکتا ہے لہٰذا انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کو ایک ٹیسٹ فلائٹ بنایا جائے اور سائنسدانوں کو لمبے عرصے کے لئے وہاں رکھا جائے تاکہ لمبے عرصے تک ریڈیشنز میں رہنے اور کشش ثقل کی غیرموجودگی کے جسمانی نقصانات کا آئیڈیا ہوسکے،اس کے علاوہ شدید تنہائی ہونے کے باعث ذہنی صحت کے متعلق بھی رپورٹ تیار کی جاسکے، یہ اس لئے ضروری ہے تا کہ مستقبل میں جن مسائل کا سامنا مریخ پہ جانے والے انسانوں کو کرنا پڑے گا اس کا حل ابھی سے نکال لیا جائے۔انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن کے سائنسدان خلاء میں مختلف تجربات کے علاوہ زمین کے باسیوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں، سکولز اور دیگر تعلیمی اداروں سے بذریعہ انٹرنیٹ connect ہوتے ہیں ،خلاء کے نظارے دکھانے کے ساتھ ساتھ ان کے سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں ، جس وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کے طلباء میں فلکیات کی جانب رغبت زیادہ پائی جاتی ہے، حال ہی میں ہونے والی فیفا 2018ء کی فٹبال بھی انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن لے جائی گئی، یہ پاکستان کے لئے نہایت اعزاز کی بات تھی کہ ISS جانے والی فٹبال پاکستان میں بنائی گئی تھی جس وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کاایک مثبت امیج پہنچا۔مئی 2013ء میں ISS میں سائنسدانوں نے فلکیات سے متعلق ایک میوزک ویڈیوبھی فلمائی ،جسے بعد ازاں مختلف ویب سائٹس پہ اپلوڈ کیا گیا،اسےخلاء میں فلمائی جانے والی پہلی میوزک ویڈیو ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن ہم سے صرف 400 کلومیٹر ہی تو دُور ہے ، یہ فاصلہ اسلام آباد سے لاہور تک کا ہے، لیکن خلاء میں ہونے کے باعث یہ دوری بہت زیادہ لگتی ہے، سوچیے کہ ہمیں اگر کئی ماہ کے لئے ایک فٹبال گراؤنڈجتنے علاقے میں قید کردیا جائے جہاں سے واپسی کا راستہ صرف اسی وقت ممکن ہو جب زمین سے کوئی راکٹ بھیجا جائےگاتو ہم پہ اس کا نفسیاتی اثر کیا ہوگا…. ہمارے 400 کلومیٹر اوپر ISS میں ایک الگ جہاں آباد ہے جو ہماری دنیا کو تو ہمہ وقت اپنی نظروں میں رکھے ہوئے ہے مگر اِس دنیا کے باسی اپنی مشکلات کو حل کرنے میں اتنے میں مگن ہیں کہ زیادہ تر کو تو معلوم بھی نہیں کہ انسان اب زمین کے ساتھ ساتھ خلاء میں بھی رہتاہے۔اگلے حصے میں ہم ISS میں موجود سائنسدانوں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ اسپیس اسٹیشن کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے، نیز یہ بھی سمجھیں گے کہ زمین پہ آپ اپنے گھر کی چھت سے اس اُڑن کھٹولے کو کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
(جاری ہے)