حقیقت یہ ہے کہ
۔۔۔۔
ملک ِعزیز کے سیاستدانوں سے لے کر فوج, عدلیہ اور ایک دودھ بیچنے والے تک ہم سب بحیثیت قوم کرپٹ ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد آپ خود کو اور دوسرے کو دیانت و امانت کی تلقین تو کر سکتے ہیں مگر یہ شرط عائد نہیں کر سکتے کہ کامل دیانت داری کے بنا نظام نہیں چلایا جائے گا،اس کے لیے دیانت دار افراد، جو قابل بھی ہوں، مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔
اس تمھید کے بعد عرض ہے کہ کسی ایک ادارے کا دوسرے پر تجاوز اس بنا پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا پہلا کرپٹ ہے، یہاں دوسرا بھی کرپٹ ہی ہے۔
اسی بنا پر آپ کسی کو حقِ سیاست و حکومت سے محروم بھی نہیں کر سکتے کہ متبادل دیانت دار قیادت جو اہلیت بھی رکھتی ہو دستیاب ہے اور نہ عوام میں کوئی مقبولیت یا سیاسی عصبیت رکھتی ہے۔
یہی دیکھ لیجیے کہ کرپشن کو ملک کا نمبر ایک مسئلہ بنا کر عمران خان کو کئی سالوں کی مسلسل جدوجہد، بڑا وقت اور توانائی خرچ کرنے بلکہ کچھ انسانی جانوں کو بھی قربان کرنے کے بعد ایک مبینہ طور پر کرپٹ وزیراعظم کو نکال کر مستقبل میں متوقع سسٹم بنانے کے لیے آخر کارکرپٹ لوگ ہی میسر آ سکے۔ اس کے پاس دیانت دار لوگ بھی موجود تھے مگر نظام کے لیے منتخب کرپٹ لوگ کیے گے۔ اب ان لوگوں کے ساتھ یہ سسٹم اسی طرح چلے گا جیسے چلتا آ رہا ہے۔ کسی تبدیلی کی توقع محض دیوانے کا خواب ہے۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ سماج کی فطری نارمل رفتار سے تیز تر تبدیلی کی کوشش میں تبدیلی خود تبدیل ہو گئی۔ یہ بالکل فطری نتائج ہیں۔ اس سے مختلف کچھ ہونا ممکن نہ تھا۔ نظمِ حکومت بہرحال رموز حکومت سے آشنا دستیاب افراد کے ساتھ ہی چلایا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک عمران کو بائیس سال کی سیاست کے بعد ہوا۔ ان دستیاب افراد میں سے صرف نواز شریف، عمران کے لیے ناقابل قبول بلکہ ناقابل برداشت تھا۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ اقتدار کی کرسی پر وہ براجمان تھا۔ یعنی کہا جا سکتا ہےکہ نواز شریف کی اتنی مزعومہ کرپشن کے باوجود عمران کا برسر اقتدار آنا اگر ممکن ہوتا توعمران کے لیے اس کا وجود بھی اپنے کرپٹ الیکٹیبلز کی طرح قابل برداشت ہوتا اور وہ اسے گیم سے باہر نکالنے کے لیے غیر جمہوری ہتھکنڈے اختیار نہ کرتا۔
سماج میں مثبت تبدیلی لانے کا طریقہ سرجیکل آپریشن نہیں جس کی کوشش میں قوم کو گزشتہ چار سال مسلسل ہلکان کیا گیا جب کہ سرجن خود بھی نا اہل تھا۔ سماج میں مثبت تبدیلی کے لیے سب سے اہم چیز ہیجان انگیزی سے پرہیز ہے۔ نظام کچھ عرصہ بھی اگر ہموار چلتا رہے، سیاسی استحکام موجود رہے، تو لوگوں کے جذبات اور عقل اعتدال پر آنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بہتر انداز میں کام کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔ یوں انھیں اپنے حقیقی مسائل کا ادراک ہونے لگتا ہے، ان کے مطالبے روٹی کپڑا مکان سے آگے نکلنے لگتے ہیں، تبصروں اور تجزیوں کے موضوعات بدل جاتے ہیں، سیاسی رقابت ٹھنڈی پڑنے لگتی ہے۔ پھر کوئی مظلومیت کا کارڈ کھیل کر ہمدردی کے ووٹ نہیں سمیٹ سکتا ہے۔
نظام اس طرح چلتا رہے تو ایک سیاسی حکمران جماعت اگر واقعی نااہل ہو تو اسے دلائل کی بجائے اس کی کارکردگی کے شواہد کی بنا پر نااہل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔لیکن میرٹ پر اقتدار کا حصول اگر کسی کے لیے مشکل ہو رہا ہو اور عوام کے اس طرح باشعور ہونے سے اسے بوجوہ خوف آتا ہو تو اس کا آسان حل سماج میں ہیجان پیدا کرنا ہے، کوئی جنگ چھیڑ دینا یا جنگ کی بڑھکیں مار کر عوام کا خون گرمانا یا سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا اس کے ممکنہ حل ہوتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ سیاسی عدم استحکام اور ہیجان خیزی پیدا کرنے والوں کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ہیجان میں پلنے والے ذہن سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
اپنے سماج کے اس المیے پر بہت دکھ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس ہیجان خیزی میں گزشتہ کئی برس سے مصروف رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ چیزوں کو سیاہ اور سفید کے علاوہ دیکھنے اور سمجھنے سے عاری ہوگے ہیں۔ اینڈ جسٹیفائیز مینز ان کا اصول قرار پایا ہے۔ ایک پوری نسل برباد ہوتے نظر آتی ہے۔ سیاسی مخالف سے صرف اختلاف نہیں بلکہ نفرت کرنا، اور اس بنا پر عدم برداشت کے مظاہرے کرنا دلیل سے بحث کرنے کی بجائے بد تمیزی بلکہ گالم گلوچ پر اتر آنا، خود کو واحد و یکتا حق پرست سمجھنا اور باقی سب کو احمق غدار اور کرپٹ کہنا، ہر حال میں اپنے لیڈر کی ہر بات کی حمایت کرنا وغیرہ،غور کیجیے تو مولوی خادم رضوی جیسے آتھوڈوکس کی پیدا کردہ بد اخلاقی اور ذہنیت اور پی ٹی آئی کے جوانوں میں تشکیل پانے والے مزاج میں کوئی فرق نہیں پائیں گے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان کا پولسی پر تشدد ہو یا اس جماعت کے رہنماؤں کی طر ف سے مخالفین پر دست درازی کی کوشش ان متشدد واقعات کی حمایت جماعت کے قائد عمران خان کی طرف سے کی جاتی ہے۔ ایسے مزاج کے ساتھ نوجوانوان کی ایک پوری نسل تیار ہوگئی ہے جسے اگلے پچاس ساٹھ سال اس ملک کو بھگتنا ہوگا۔ خود عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنما اپنے کارکنان کے اس مزاج کا شکار بنیں گے، بلکہ اس کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ یہ نوجوان مسائل کو حل کرنے کا ایک ہی گر جانتے ہیں اور وہ ہے دباؤ پیدا کرنا۔ انھیں اختلافات اپنے حق میں حل کرنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے قانون کی بجائے دھرنوں، ہنگاموں اور تشدد کا طریقہ سکھایا گیا۔ یہ تربیت اب پی ٹی آئی خود بھی بھگتے گی اور پورا ملک بھی عجیب بد نظمی دیکھے گا۔ اس بد مزاجی اور بد تمیزی کی اصلاح کرنے میں کم از کم ایک نسل کی مدت ضائع ہوگی۔ پاکستانی سماج کی اس سے بری خدمت شاید ہی کسی اور سیاسی قائد کے حصے میں آئی ہو۔
ملک عزیز گزشتہ دو نسلیں بھی ہیجان میں پلی بڑھی تھی۔ تقسیم ہند کے اثرات سے اتھل پتھل ہونے والی ایک نسل ابھی سنبھلی نہیں تھی کہ دوسری نسل کو دو جنگوں، پاکستان کے دو لخت ہونے اور مارشل لاز نے کچھ سوچنے سمجھنے نہ دیا۔ اس دہائی میں آکر جمہوریت بمشکل سنبھلنے لگی تھی کہ پے درپے دھرنوں نے پھر سے ہیجان کا ماحول بنائے رکھا۔ اب تیسری نسل کو کسی بیرونی دشمن کی مداخلت کے بغیر ہی ہیجان انگیزی میں مبتلا کر کے سطحی سوچ کا حامل بنا دیا ہے۔
عوام میں سطحی سوچ قائم رہنا اپنے ذاتی مفادات کے محافظ طبقات کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ لہو گرم رکھنے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں تاکہ جذبات کی آندھی میں شعور کی وہ شمع نہ جلے جس میں ان کے اعمال و افعال کٹہرے میں لائے جا سکیں۔
شعور کا چراغ بہرحال جلائے رکھنا ہے کہ ہمارے سماج کی اصل بہبود اسی میں ہے۔
جو ہوگیا اسے واپس نہیں کیا جا سکتا، مگر اس سے سبق سیکھ کر حال اور مستقبل کے لیے بہتر لائحہ عمل تو ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ کرنے کا کام یہ ہے کہ جتنا ہو سکے سیاسی عدم استحکام کی مخالفت کی جائے، چاہے حکمران جماعت کےساتھ آپ کی سیاسی وابستگی ہو یا نہ ہو، اس کو غیر جمہوری طریقوں اس کی مدت سے پہلے ایوان حکومت سے بے دخل کرنے کی مخالفت کی جائے۔ انقلاب، ہیروازم، دینی یا ملکی غیرت کے نام پر ہنگامہ آرائی، ان سب سے بچنا ضروری ہے۔ کوشش کیجیے کہ ہیجان پرور لوگوں کو نامعتبر بنا دیں یہی ان کے زہر کا تریاق ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس پر آپ کے بچوں کا روشن مستقبل کھڑا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“