شاعری ہو یا اصناف ادب عموماً انھیں مذاق میں لیا جاتا ہے اور شاعری تو بالخصوص عورتوں کے اعضا کا بیان سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ قدرت کے بناٸی ہوٸی کاٸنات کے حسن کو سہل ممتنع میں یعنی مختصر لفظوں میں بیان کرنا شاعری کہلاتا ہے غالب ،اقبال،فیض، رومی، پروین شاکر کے شاعری کو پڑھیں تو کسی خاص صنف سے وابستگی کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ طبیعت میں سکون اور شگفتگی کا باعث ہوتا ہے، دراصل جذبات کے کتھارسس کے مختلف ذراٸع پر جب پابندیاں لگ جاتی ہیں تو مجمع اکٹھے ہوا کرتے ہیں اور پھر جلاٶ گھیراٶ کی تحاریک جنم لیتی ہیں جن کا نشانہ معصوم لوگ بنتے ہیں ،پرانی روایات میں جب اعزا واقارب میں کوٸی فوت ہوتا تھا تو گھر کے لوگ بین کیا کرتے تھے خواتین زور زور سے روتی تھیں اور باتیں کرتی تھیں بے شک آنسو آنکھ میں ایک بھی نہ ہو مگر اس جھوٹے سچے رونے اور بین سے سب کا کتھارسس ہوجاتا تھا مگر اب ایسا رونا اخلاقیات کے داٸرہ سے باہر سمجھا جاتا ہے جس سے انسانی دکھ جسم اور روح میں سمٹ گیۓ ہیں نہ آنسو بہتے ہیں اور نہ باتیں ہوتی ہیں چس سے اندر ہی اندر گھٹن بڑھتی رہتی ہے اور ہر انسان اپنے قبضہ میں موجود دوسرے انسانوں پر وہ غصہ انڈیلتا چلاجارہا ہے، کھیل کے میدان رہے نہ روٹی کمانے جھنجھٹ سے اتنی فرصت کہ کچھ گھڑیاں اپنے اندر کے انسان کو وقت دیا جاسکے بس یہی سب باتیں مل کر پہلے سے مشکل زندگیوں کو مزید اذیت ناک بنا رہی ہیں جبکہ ہمارے ارد گرد کے سب لوگ ہر چھوٹی بڑی بات پر فتویٰ صادر کرتے رہتے ہیں ایسے میں عام معصوم انسان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ گناہ کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتا ہے اور ثواب کی حدیں کیا ہیں میڈیا کا پھیلاٶ جتنا زیادہ ہوتا جارہا ہے لوگوں کے معیارات مزید بلند ہوتے جا رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کی ہوس بڑھتی جا رہی ہے، بے روزگاری نے لوگوں کی ڈیپریشن میں مزید اضافہ کر دیا ہے جبکہ ارباب اختیار کو کسی بھی عوامی مسلے میں ذرا برابر بھی دلچسی نہیں ہے۔