اگر ہم عقائد، نسل، نیکی اور سیکس کے متعلق معاشرتی ورثے میں ملنے والے تصورات پر غور کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے تو ہماری ہر طرح کی تعلیم اور نصیحت لاحاصل ہے۔ انسان کو پابند اور محصور رکھنے والی چیزوں نے ایسے ہی ترقی پائی ہے۔ امریکہ نے اگر غلامی ختم کر کے بدترین نسلی امتیاز ایک سو سال تک اپنائے رکھا تو وہ بھی غلامی سے بہتر تھا۔
لاعلمی آپ کو دوسروں کے خلاف اور علم یا تفکر آپ کو اپنے ہی خلاف کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ پریقین لوگوں سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوتا۔ کل ایک صاحب انباکس میں حقیقت کی ’’حقیقت‘‘ کے متعلق دریافت کر رہے تھے۔ دراصل ہمیں قطعی اور مطلق چیزوں کی اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ سوچنا سیکھنے کے بعد اُن کے کوئی متبادل تلاش کرتے ہیں۔ اچھا، اگر ایک مطلق دیوتا کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیں تو اُس کی جگہ کیا لائیں؟ کیا بارش برسانے والے دیوتا کی جگہ تجاذب کے قانون کو معبود بنایا جا سکتا ہے؟ کن فیکون کی جگہ پر بگ بینگ کو تصور کرنا کیسا رہے گا؟ کوئی جلد باز کہے گا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ آگ جلاتی ہے اور برف بھی جلا سکتی ہے!
سورج زمین کے گرد گھومتا ہو یا زمین سورج کے گرد، اِس سے ڈالر کے ریٹ پر کیا فرق پڑتا ہے؟ روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں رہتی ہیں یا درختوں سے الٹی لٹکی ہوتی ہیں، اِس سے دنیا پر کوئی فرق پڑتا ہے؟ ہم نہانے جاتے ہیں تو برہنہ حالت میں شیطان بھی اندر ہی موجود ہوتا ہے یا آئینہ دیکھ کر شیطانی خیالات آنے لگتے ہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اِس سے یقیناً فرق پڑتا ہے۔ آپ انسان اور انسانی تجربے پر بھروسا کرنا سیکھتے ہیں۔ آپ انسانی مسائل کے انسانی حل ڈھونڈتے ہیں، نہ کہ مابعد الطبیعیاتی۔ آپ تقدس سے نکل کر متواتر سوال اُٹھانے کی قابلیت حاصل کرتے ہیں۔ آپ احساس سے نکل کر قابلِ تغیر ’قوانین‘ کی حد میں داخل ہوتے ہیں۔ عقائد، نسل، نیکی اور سیکس کے معاملے میں سوالات آپ کو اپنے ہی خلاف کر دیتے ہیں، اور لاعلمی کے نتیجے میں آپ کو دوسروں کا مخالف بناتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...