کراچی پاکستان کے آبادی کے لحاظ دوسرے بڑے صوبے سندھ کا دارلحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔اسے دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی اسی شہر میں قائم ہے۔ ان تمام خوبیوں سے بڑھ اس کا یہ امتیاز ہے ہے کہ بانی ئ پاکستان قائدِ اعظم محمدعلی جناح کا تعلق بھی یہیں سے تھا اور اسی نسبت سے ”شہرِ قائد“ کہا جاتا ہے۔اگرچہ روشنیوں کے اس شہر کو شاید کسی کی نظرِ بد لگ گئی جو یہ گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا لیکن باوجود کہ حالات دگر گوں رہے پھر اہل ِ علم وذوق یہاں سے جنم لیتے ہی رہے اور بابِ علم کے علمبردار ہمیشہ رواں دواں رہے اور اپنے علم وحکمت کے موتی میراثِ امتِ محمدیہ سمجھ کر ہر سو پھیلاتے ہی رہے۔یہ وہ شہر ہے جس نے اردو زبان وادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگانے والے ستارے پروان چڑھائے، وہ ستارے کہ جو زبان و ادب کی تاریخ کے درخشندہ باب ہیں۔ ان ستاروں میں؛ابواللیث صدیقی،انور مقصود،فرمان فتح پوری،فاطمہ ثریا بجیا،حکیم محمد سعید –محمد حسن عسکری،حسینہ معین، ابن انشاء،ابن صفی،افتخار عارف، جمیل جالبی،جمیل الدین عالی،جون ایلیا،مشتاق احمد یوسفی، رئیس امروہوی، صادقین، شاہد احمد دہلوی،عقیل عباس جعفری،مشفق خواجہ، مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹرمعین الدین عقیل، ناصر علی سید اورڈاکٹر ڑئیس صمدانی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
مندرجہ بالا اسمائے گرامی دیکھ کر یہ بات سب پر اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کراچی سے کئی نامور شخصیات نے شہرت ِدوام حاصل کی اور یہ سلسلہ رکا نہیں اور یقینا اس سرزمین سے پہلے ہی کی طرح ہر دور میں علماء، محققین، نقاد، افسانہ نگار، ناول نگار اور شعراء پید ا ہوتے رہیں گے اور شہرِ قائد کا نام ہمیشہ روشن کرتے رہیں گے۔
کسی بھی مصنف کی تحریر کا اسلوب جانچنے کے لیے اور اس کے مواد پر اظہارِ رائے کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس ماحول اور گرد ونواح کا جائزہ لیا جائے جس میں مصنف پروان چڑھا، اسی لیے ہم نے سطورِ بالا میں اس مصنف کے شہر کے کچھ خصائص اور یہاں جنم لینے والی بڑی بڑی شخصیات کے صرف ناموں کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ سب کے سب اپنے اندر ایک ادارہ تھے یا ہیں۔بہر حال اس مضمون میں ہمارے قلم سے جس مصنف پر حاشیہ آرائی ہوگی یقینا اس کا تعلق سطورِ بالا میں مذکور شہر ہی سے ہے اور مصنف کا نام سلیم اللہ شیخ ہے جب کہ ان کی تصنیف کا عنوان ہے”حقائق تو یہ ہیں“۔
سلیم اللہ شیخ 16 /اکتوبر 1975 کو کراچی میں پیدا ہوئے یوں سندھی ان کی مادری زبان ٹھہری۔انہوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم لیاقت آبادکے ایک مقامی اسکول سے حاصل کی۔پھر نامساعد حالات کے باعث تعلیمی سلسلہ تعطل کا شکار رہا؛لیکن انہوں نے حالات کے سامنے اپنا سرنگوں نہ کیا بلکہ محنت، جستجو اور جدو جہدکو شعار بناتے ہوئے زندگی کو بندگی بناکراپنے راستے خود ہموار کیے۔ابتدا میں ایک دکان پر سیلز مین کا کام کیا اور پھر ایک کارخانے میں ملازمت اختیار کرلی۔یہاں صرف ملازمت نہیں کی بلکہ بجلی کے سوئچ اور ساکٹ بنانے
میں مہارت بھی حاصل کی۔لیکن جلد ہی اس مشقتی ملازمت کو خیر آباد کہا تو ایک مقامی اسکول میں ملازمت مل گئی اور یوں حالات بدلنے لگے۔تعلیم کا جو سلسلہ ٹوٹا تھا 2003 ء میں اسکول کی ملازمت کے بعداس کادوبارہ آغاز ہوانیز اسی اسکول میں بتدریج ترقی کرتے کرتے آفس مینجرہوگئے۔اسی دوران انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور پھر جامع کراچی سے بی۔اے اور ایم۔اے کے امتحانات بھی پاس کر لیے۔اس دوران اسکول کی ملازمت کے ساتھ ساتھ روزنامہ جنگ (لندن ڈیسک) سے بھی وابستہ ہوگئے۔2008 ء سے روزنامہ جنگ (لندن ڈسیک)سے بحیثیت ایڈیٹوریل اسسٹنٹ وابستہ ہیں۔یوں اسکول اور جنگ دونوں کی نوکری چلتی رہی۔
سلیم اللہ شیخ کی محنت اور استقامت کو دیکھ کر یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اللہ یقینا ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کر تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی سلیم اللہ نے اپنی تعلیمی استعداد بڑھائی تو عثمان پبلک اسکول کی انتظامیہ نے انہیں او لیول کیمپس اردو پڑھانے کی پیشکش کر دی جسے انہوں نے بصد خوشی قبول کر لیا۔اب نہ صرف پڑھارہے ہیں بلکہ اساتذہ کی تربیتی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔2016ء میں SPELT انٹر نیشنل کانفرنس میں بھی ایک ورکشاپ کرا چکے ہیں۔
2016میں ہی پیراماؤنٹ پبلشرزکے لیے اسلامیات کی دو نصابی کتب مرتب کیں۔ مضامین کا مجموعہ '' حقائق تو یہ ہیں فضلی پبلشرز کے زیرِ اہتمام'' جون 2020 ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ان ایک تالیف بعنوان”جدید ذرائع ابلاغ کی تاریخ اور ان کا موئثر استعمال ''جلد شائع ہوگی۔
”حقائق تو یہ ہیں“ میں کل چوالیس مضامین ہیں جنہیں سات مختلف عنوانات معاشرہ اور ثقافت /سماجیات، وطنیت، مذہب، بین الاقوامی، شو بز، طنزو مزاح اور متفرق میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے عنوان کے تحت 14(کیا بھارت کو پاکستان سے جنگ کی ضرورت ہے؟، کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟، عورتوں سے متعلق غلط سوچ کا خاتمہ کریں، شکر، چند اصلاح طلب غلطیاں، فلسطینی مسلمانوں کی وقعت گدھ سے بھی کم، آج کے نوجواں سن لے میری فغاں، کرکٹ کے لیے ایک خواب، بسنت جشنِ بہاراں، اپریل فوکل کی تاریخ اور نقصانات،ہیں تلخ بہت بندہئ مزدور کے اوقات، باز گشت، ہمارا نظامِ تعلیم اور طبقاتی تفریق) دوسرے عنوان کے تحت5 (عبدالقدیر خاں: ایٹمی پروگرام اور عالمی سازشیں، 23مارچ اور حب الوطنی،جاگو ایلِ وطن جاگو، قیامِ پاکستان کا مقصد،ستمبر 1965 اورستمبر2009)،تیسرے عنوان کے تحت8(اوبامہ کی صدارت اور مسلمانوں کی تاریخ، مغرب شریعت سے خوفزدہ کیوں؟، وہی خدا ہے، نبیﷺ کی آمد کی پیش گوئیاں، شیطان:مقرب سے مردود، اسلام اور وید، رودادسفرِ معراج ﷺ، سوچتا ہوں کہ توبہ کرلوں لیکن)، چوتھے عنوان کے تحت4(کیا اسلام امریکہ کا دشمن ہے؟، امریکی دہشت گردی کی تاریخ، لبرٹی حملہ بھارت کی سازش، شہید حجاب: مرواشیربینی)، پانچویں عنوان میں بھی4 (اداکار شکیل صدیقی پر تشدد، مغرب کے اصل چہرے کی ایک جھلک، آج کل کے اشتہارات:سلو پوائزن، میڈیا: بڑھتی ہوئی فحاشی)، چھٹے عنوان میں 5 (لوڈ شیڈنگ کے فوائد، حصہ دوم، بس کاسفر، شعر شاعر اوع فلمی شاعری، سیاست اور سائیکل سواری)اور ساتویں عنوان کے تحت 4(بھارت میں بھی طالبان، سوائین وائرس: انسانوں کا نیا دشمن، بلیک واٹر کالا پانی، تین خبریں تین سبق)مضامین شامل کیے ہیں۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب پر کسی سے کوئی مقدمہ یا دیباچہ نہیں لکھوایا اور اس کا پیشِ لفظ بھی خود ہی رقم کیا ہے جو ان کی خود اعتمادی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پیشِ لفظ میں اس مجموعہئ مضامین کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ہماری ویب ڈاٹ کام پر نئے لکھاریوں کوہماری ویب کے لیے لکھنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ سوچا کہ فائدہ تو نہیں ہوگا اور نہ ہی مضمون شائع ہو گا لیکن لکھ کر آزمانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔اس لیے ایک چھوٹا سا مراسلہ نما مضمون لکھ کر بھیج دیا۔اگلے دن حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ مضمون ویب سائٹ پر موجود تھا۔بہت خوشی ہوئی۔اگلے دن پھر ایک مضمون لکھ مارا۔ وہ بھی شائع ہوگیا۔بس پھر کیا تھا، لکھنے کا وہ شوق جو مرتا جارہا تھا ایک بار پھر زندہ ہو گیا۔
اس مجموعہئ مضامین میں سلیم اللہ شیخ نے اپنے وہ مضامین شامل کیے ہیں جو انہوں نے دس بارہ سال پہلے لکھے تھے۔
حقائق تو یہ ہیں کہ سلسلہئ مضامین کے پہلے عنوان کے تحت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کے قلم سے واقعی حقائقسامنے آگئے ہیں کیونکہ جس طرح باوجود اس کے کہ بھارت ہمیں چہار سو آنکھیں دکھا رہاہے لیکن گھر گھر میں مہابھارت دیکھی جاتی ہے اور اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف کو یہ محسوس ہو ا ہے کہ بھارت کو ہمارے ساتھ جنگ لڑنے کی شاید اب ضرورت نہیں کیون کہ ہم نے خود اپنی معاشرت اس کے ہاتھ دے دی ہے۔دیکھیے”کیا بھارت کو پاکستان سے جنگ کی ضرورت ہے؟“ میں اپنے ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے ملتج ہیں:
میری اپنے تمام ہم وطنوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ خدارا اپنی تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ کر پرائی تہذیب اور ثقافت کو نہ اپنائیں۔اور میں ان سے اقبال عظیم کی اس نظم کے ذریعے یہی التجا کروں گاکہ
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے
خواب ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پر چلو گے تو پھسل جاؤ گے
بھارت کے عزائم اور اپنی خامیوں کا ذکر کرنے کے بعد ایک اور مضمون میں انتہاپسندی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ایک لمبی جنگ لڑ کے آج ایک بار پھر پر امن ملکوں کی صف میں شامل ہو رہا ہے لیکن خدشات ابھی بھی باقی ہیں۔ اسی سلسلے کی وضاحت میں ”کیا یہ انتہا پسندی نہیں ہے؟“ میں رقم طراز ہیں اور کسی حد تک حق بجانب بھی ہیں کہ:
اس [تشدد کی] تعریف کی زد میں خود سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف بھی آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے 8سالہ آمرانہ دور میں عوام کی اکثریت کی رائے اور مرضی کے برخلاف شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا، خلافِ اسلام قوانین کا نفاذ کیا اور ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک نہ ختم ہونے والی آگ کا ایندھن بنا دیا جس آگ کی تپش آج ہمارے اپنے ملک میں محسوس کی جارہی ہے۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی پر قلم اٹھانے کے بعد عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے، معاشرے میں پائی جانی والی اس سوچ کی نشاندہی کی ہے جس میں محج عورت ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نے شرم و حیا کی بساط لپیٹ دی ہے اور بے راہ رو ہوگئی ہے۔مصنف کے مطابق عورت ہی نہیں مرد کا بھی یہی حال ہے اور وہ اپنے آپ کو بری الزمہ نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اگر عورت بے راہروی پر اتری ہے تو اس مین مرد کا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا عورت کا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ”کہ کیا آج کے مرد حضرات بالکل دین دار بن گئے ہیں؟کیا انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے دھوکے سے آزاد کرلیا ہے؟اور کیا وہ دنیا کے آرام اور مال سے بے نیاز ہوکر تا رک الدنیا ہوگئے ہیں؟ یقیناً خود ان کا جواب نفی میں ہوگا“۔ چانچہ وہ نتیجہ یہ اخذ کرتے ہیں کہ عورتوں سے متعلق اس منفی سوچ کو ختم کرنا ہو گا۔ اسی صورت مین معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے کیونکہ اگر عورت کو حقوق نہیں ملتے تو نئی نسل ذہنی غلام پیدا ہوگی اور نتیجے کے طور پر اس کا بے راہ رو ہو جانا امرِ یقینی ہے۔
عورتوں کے حقوق کی بات کرنے کے بعد سیاسی مضمون بعنوان”فلسطینی مسلمانوں کی وقعت گِدھ سے بھی کم“ لکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب کسی فلسطینی بچے، بوڑھے، نوجوان مرد وزن کا خون نہیں بہایا جاتا لیکن مسلمان اپنی اپنی سیاست کی رسہ کشی میں اس قدر مگن ہیں کہ انہوں نے اس ظلم وتشدد سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اب تو حالات اور بھی دگرگوں ہونے والے ہیں کیونکہ بہت سے اسلامی ممالک نے درونِ خانہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہامی بھر لی ہے اور ایک اسلامی ملک نے تو اس کا برملا اعلان بھی کر دیا ہے۔بہرحال یہاں سلیک اللہ شیخ کے مضمون کی بات ہورہی ہے تو مصنف کی یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ:
جو جارحیت اسرائیل نے کی ہے اگر کسی مسلم ملک نے کی ہوتی تو اب تک اس کا تیا پانچہ کیا جاچکا ہوتا اور امریکہ بڑھ کر اس ملک پر قبضہ کرچکا ہوتا۔یہاں ہم نے غیر مسلم ممالک کا تذکرہ جان بوجھ کر نہیں کیا ہے کہ ان سے ہمیں یہ امید ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ کریں گے ہمیں تو ان مسلم ممالک کے حکمرانوں سے شکایت ہے کہ وہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے بجائے صرف مذمت ہی کر رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق مصر اور لبنان تو مذمت بھی نہیں کر رہے بلکہ اس جارحیت کی انہوں نے اسرائیل کو باقاعدہ اجازت بھی دی ہے اور یہ جارحیت ان ممالک کے سربراہان سے مشاورت کے بعد کی گئی ہے۔
سماجی و معاشرتی مضامین کے ضمن میں بہت سے موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے لیکن ان میں ”بسنت جشن بہاراں“ کے عنوان سے ایک ایسی معاشرتی رسم کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جس کے انعقاد سے ہر سال کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔اس رسم پر مصنف نے کچھ ان الفاظ میں اظہارِ رائے کیا ہے۔”بسنت کا تہوار آج کل ایک رسم کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کو بہت ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔اگرچہ یہ تہوار پہلے بھی منایا جاتا تھا مگر گزشتہ چند سالوں سے اس کو سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے اور اس تہوار میں پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور، کیمیکل لگی ڈور،اور ہوائی فائرنگ سے درجنوں افراد ہر سال جاں بحق ہوجاتے ہیں۔اس کے باوجود یہ تہوار پابندی کے ساتھ منایا جاتا ہے“۔
مزدور کی زندگی ہر دور میں کٹھن رہی ہے اوروہ ہر دور میں پسا ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت اس کی بھلائی کا کبھی کسی کو خیال نہیں آیا۔مزدور کی پریشانیوں اور دگر گوں حالات کو”ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات“ کے عنوان میں زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ:
اگر ہم اپنے معاشرے میں آج مزدوروں کی حالتِ زار کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ آج کا مزدور انتہائی مفلوک الحال ہے۔ فیکٹریوں وغیرہ میں عموماً آٹھ گھنٹے کے اوقاتِ کار پر عمل ہی نہیں ہوتا اور اگر کہیں اوقات کار پر عمل بھی ہوتا ہے تو پھر دیگر سہولیات (میڈیکل، فوڈ الاؤنس، وغیرہ) نہیں دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا محنت کش روز کنواں کھودتا ہے اور روز پانی بھرتا ہے کی مثال بنا ہوا ہے یعنی اگر وہ کسی دن کام سے رخصت لے گا تو اس کی تنخواہ میں سے اس دن کی رقم کاٹ لی جاتی ہے جبکہ ایک ماہ میں ہفتہ واری چھٹی کے علاوہ کم از کم تین اتفاقی چھٹیاں ایک مزدور کا استحقاق ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں مزدور اپنے ان حقوق سے آگاہ ہی نہیں“۔
گویا اس مضمون کے ذریعے مصنف نے مزدوروں کے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کی ہے لیکن افسوس کہ لکھاری کے الفاظ یا تو اس کی بیاض تک رہ جاتے ہیں یاپھر چھپ جائیں تو محض اخبارات کی زینت بنتے ہیں، حکمرانوں کے محلات تک پہنچتے پہنچتے ان کی صورت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔جس معاشرے مین مزدور کے پاس حقوق نہیں تو وہاں اور کسی حق کی کیا بات ہوگی۔ وہ طبقہ جس نے ان حقوق کے تحفظ کی بات کرنی ہے وہ طبقہ تو اس معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس کا جزو نہیں کیونکہ ہمارا نظام ِ تعلیم طبقاتی ہے اور جس طبقے سے لوگ اقتدار میں آتے ہیں ان کا مزدوروں کے مسائل سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، اسی بات کو سلیم اللہ شیخ نے اپنے مضمون”ہمارا نظام تعلیم اور طبقاتی تفریق“ میں بیان کیا ہے۔
معاشرے میں طبقاتی نظامِ تعلیم پر سیر حاصل بحث کے بعد مصنف کا قلم وطنیت کی طرف آتے ہوئے عالمی ایٹمی سائنسدان اور پاکستان کے قومی ہیرو کے بارے ”ڈاکٹرعبدالقدیرخان، ایٹمی پروگرام اور عالمی سازشیں“ کے تحت اسرائیل کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔وہ لکھتا ہے،”ڈاکٹر صاحب کی اس بات کے بعد حکومت نے ان کی سزا کے خلاف اور ان کے مقدمے کے خلاف اپیل دائر کی اور بالآخر ڈاکٹر صاحب کو بیگناہ ثابت کیا۔جب ڈاکٹر صاحب کو باعزت بری کیا گیا تو اس وقت اسرائیل نے یہ دھمکی دی تھی کہ ہالینڈ کی عدالت نے تو ڈاکٹرعبدالقدیر کو بری کردیا ہے مگر ہماری عدالت نے ان کو بری نہیں کیا ہے۔ اس وقت سے اسرائیل نے پاکستان کے ایٹمی پراگرام اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعاقب جاری رکھا ہوا ہے“۔
پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
اگرچہ سازشیں جاری رہیں اور ڈاکٹر صاحب کا مشن بھی جاری رہا مگر سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں
بالآخر اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب کو پاکستان کی خاطر نہ کردہ جرم قبول کر کے قید کی تکلیف اٹھانی پڑی۔اگر چہ ڈاکٹر صاحب چاہتے تو اس معاملے میں بھی اسٹینڈ لے سکتے تھے، مگر صرف وطن کی محبت میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بچانے کے لیے، ایٹمی سازو سامان کی اسمگلنگ کا الزام قبول کیا۔بقوم شاعر
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی اتارے ہیں جو واجب بھی نہ تھے
ڈاکٹر عبدالقدیر کو خراجِ تحسین کے بعد مصنف کووطن کے دگرگوں حالات دیکھ کر سقوطِ ڈھاکہ کی صورت حال یاد آجاتی ہے اور وہ”جاگو اہل وطن جاگو“ کے عنوان کے تحت اپنے ہم وطنوں کو باور کراتا ہے کہ،”اب صورتحال 71ء سے زیادہ خطرناک ہے۔ بھارت، امریکہ، اسرائیل سٹریٹجک پارٹنرز ہیں۔ یہ تینوں ممالک سوات، وزیرستان اور بلوچستان میں باغی سرداروں کو بھاری رقوم اور اسلحہ و بارود فراہم کر رہے ہیں۔ پاک فوج اپنے ہی ملک میں باغی قبائل سے برسرپیکار ہے۔ خانہ جنگی جاری رہی تو عین ممکن ہے کہ بڑے حملہ کے وقت لوکل طالبان اور باغی قبائل حملہ آوروں کا ساتھ دیں۔ اس طرح ہماری مسلح افواج مشرق اور شمال مغرب سے سینڈوچ ہوسکتی ہیں“۔
ازاں بعد قیام ِ پاکستان کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے بانی ئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے فرمودات نقل کیے ہیں اور پھر قوم کو بتایا ہے:
قائد اعظم محمد علی جناح کے ان تمام فرمودات کو سامنے رکھیں اور پھر خود فیصلہ کریں کہ وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہ کچھ طبقات یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم مذہبی رجحان نہیں رکھتے تھے کیوں کہ وہ کلین شیو تھے۔ یہاں ان کی بھی نفی ہوجاتی ہے اور تمام باتوں سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمانانِ برِصغیر، قائد اعظم اور تحریک آزادی کے تمام رہنمایان کی جدو جہد آزادی کا مقصد ایک ہی تھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہ? زمین حاصل کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے اصولوں پر مبنی ایک مملکت قائم کریں۔ لیکن آج جان بوجھ کر اس مسئلے کو متنازع بنایا جارہا ہے۔ ہماری اللہ سے یہی دعا ہے کہ ”اے اللہ تو ہماری خطائیں معاف فرما، ہمیں توفیق دے کہ تو نے اپنی رحمت سے جو خطہ?زمین ہمیں عطا کیا تھا ہم اس کے مقاصد کو حاصل کرلیں۔“ آمین!
کہتے ہیں کہ کسی کے ذہن اور اس کی سوچ و فکر کا پتا لگا نا ہو تو اس کے دو بہت ہی سہل طریقے ہیں۔یہ کہ اس سے ایک دو گھنٹوں کی نشست کر لو یا پھر اگر وہ لکھاری ہے تو اس کی تحریر کا تجزیہ کرلو معلوم ہو جائے گا کہ اس کی سوچ و فکر کا دھارا کس سمت بہتا ہے۔چنانچہ اس کیس میں دوسری بات پر انحصار کر نا پڑے گا کیونکہ اول ہماری مصنف سے ابھی تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے لیکن اس کی تحریریں ہمارے سامنے ہیں جن کے مطالعے سے یہ بات اخذ ہے کہ مصنف کا ذہن مذہب کی طرف مائل ہے لیکن رجعت پسند نہیں۔ان کی اسلام اور اسلام کے پیغمبر ﷺ سے محبت کا گہرا تاثر ان کے مضامین میں موجود ہے۔مثلاً، نبی اکرم ﷺ کی آمد کی پیش گوئیاں اور رودادِ سفرِ معراج النبیﷺ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
عالمی منظر نامہ بھی سلیم اللہ شیخ کے قلم سے دور نہیں رہ سکا چنانچہ”اوبامہ کی صدارت اورمسلمانوں کی تاریخ“،”کیا اسلام امریکہ کا دشمن ہے“ اور”امریکی دہشت گردی کی تاریخ“ جیسے مضامین اس سلسلے میں بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔مثلاً ایک مضمون میں مصنف لکھتا ہے،”امریکہ خود ایک دہشت گرد ریاست ہے لیکن اس نے پروپیگنڈے کے زور پر، میڈیا کی طاقت سے یہ تاثر دیا ہوا ہے کہ وہ تو دنیا میں امن کا خواہاں ہے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک امریکہ 22ے زائد ممالک پر بمباری یا میزائل حملے کرچکا ہے۔اس فہرست میں افغانستان، عراق، ایران، سوڈان، صومالیہ، لیبیا،پاکستان،جاپان،اور دیگر ایشیائی اور افریقی ممالک شامل ہیں۔اس کے علاوہ امریکی حکومت اور خفیہ ایجنسی سی آئی اے تقریباً سو سال سے مختلف ممالک کی منتخب حکومتوں کاتختہ الٹنے میں اور اندورنی معاملات میں مداخلت کا جرم کرچکا ہے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے“۔وہ مزید لکھتا ہے کہ،””مہذب دنیا میں امریکہ کی دہشت گردی کی تاریخ سوا سو سال کے عرصے پر محیط ہے۔امریکہ نے اپنے مفادات کے لیے کئی ملکوں پر بمباری، میزائل حملے، مختلف ممالک کے امریکہ مخالف لیڈرز کو قتل کرنے کے لیے کرائے کے قاتلوں کی خدمات، اور اپنی من پسند حکومتیں بنانے کے لیے ڈالرز کی برسات سمیت ہر حربہ استعمال کیا ہے“۔
عالمی تناظر سے مصنف کا قلم ایک بار پھر وطن کی طرف لوٹتا ہے اور”آج کل کے اشتہارات سلو پائزن“ میں اس دشمن کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے کہ ”آہستہ آہستہ زوال آنا شروع ہوا اور اشتہارات میں فحاشی کا عنصر بڑھتا گیا۔اس میں عورت کو بطور شو پیس استعمال کرنیکا رجحان بڑھتا گیا، یعنی سگریٹ کے اشتہار میں عورت، موٹر سائیکل کے اشتہار میں عورت، مردانہ کپڑے کے اشتہار میں عورت، یہاں تک کہ شیونگ کریم اور بلیڈ تک کے اشتہار میں عورت کو استعمال کیا گیا۔ آزادی نسواں اور ترقی کے نام پر عورت کا استحصال کیا گیا“۔یہی نہیں مصنف کی نظر میں میڈیا بھی اس کا ذمہ دار ہے۔وہ لکھتا ہے کہ ”اسی طرح ایک اور بے ہودہ اشتہار ایک موبائل کمپنی کا ہے جس میں ایک ڈیڑہ منٹ تک ایک لڑکی کو جھومتے، گاتے، ناچتے، مدہوش ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور آخر کے چند سیکنڈ میں ایک معروف کمپنی کا موبائل بھی دکھا دیا جاتا ہے تاکہ فارمیلیٹی پوری ہوسکے کہ یہ موبائل کا اشتہار ہے کسی لڑکی کا نہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ایک موبائل سے لڑکی کے ڈانس کا کیا تعلق ہے؟“
مندرجہ بالا موضوعات پر اپنے قلم کے جوہر دکھانے کے بعد ”لوڈشیڈنگ کے فوائد“ بیان کرتے ہیں:
پھر آپ یہ دیکھیں کہ لوڈ شیڈنگ معاشرے میں طبقاتی نظام کے خاتمے اور مساوات کی پالیسی پر کاربند ہے۔ دیکھیں نا بھئی پہلے لوگوں کو یہ شکایت ہوتی تھی کہ سارے مصائب، ساری مشکلیں صرف غریبوں کے لیے ہیں اور امیر ہر دکھ سے بے نیاز ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ اب کیا صنعت کار، کیا صنعتی مزدور، کیا تاجر، کیا آڑھتی، کیا ملازمت پیشہ، کیا ٹھیلے والا، کیا افسر، کیا ماتحت، کیا اورنگی ٹاؤن میں رہنے والا، کیا پی ای سی
ایچ ایس اور ڈیفنس میں رہنے والا، کیا گلبرگ میں رہنے والا، گوالمنڈی میں بسنے والا،صاحبو! بجلی والوں نے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا ہے، کسی خاص طبقے کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ بلکہ لوڈ شیڈنگ پورے ملک میں، تمام طبقات کے لیے یکساں طور پر جاری ہے۔ یعنی
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
میرے بھائیو اور بہنو! اس بات پر تو ہمیں واپڈا، کے ای ایس سی، پیپکو، حیسکو،اور دیگر متعلقہ اداروں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے سے طبقاتی تفریق اور کمپلیکس کے خاتمے جیسا اہم کام کررہے ہیں یہ تو وہ کام ہے جو 62 سالوں میں تمام سیاست دان مل کر بھی نہیں کرسکے ہیں۔ تو کیا یہ کوئی چھوٹی بات ہے؟
المختصر ان مضامین کا بنظرِ غائر مطالعہ یہ احساس دلاتا ہے کہ مصنف نے ان کو احاطہ تحریر میں لانے سے پہلے خوب ہوم ورک کیا ہے اور ایک لمبی ریاضت کے بعد اپنے قلم کو جنبش دی ہے۔ ہماری نیک تمنائیں مصنف کے ساتھ ہیں اور ہم دعا گو ہیں کہ اللہ ان کو آباسد وشاد رکھے اور ان کے محنت کے جذبے کو سدا سلامت رکھے تاکہ یہ اسی مھنت اور مشقت سے اپنے قلم سے معاشرے کے مسائل کو عوام کے سامنے لاتے رہیں۔پنجابی کے چند مصرعوں پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
چل فریدا لبھیئے انّھوں
جدے دل وچ وسّے پیار
گلی دی سوچوں نکل کے باہر
منّھے سبھ نوں اپنا یار
من دی مسجد کرکے صاف
کرے سبھ تے جان نثار
افضل رضوی۔۔ایڈیلیڈ آسٹریلیا