حق و باطل کی جنگ اور قدرت کو dominate کرنے کا شوق۔
اس وقت پوری دنیا میں ان دو tracks پر زبردست مقابلہ ہو رہا ہے ۔ کل شام میں اپنی ایک مداح کو کہ رہا تھا مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ان بہت بظاہر گھمبیر مسئلوں میں ہمارے پاس choice ہے ۔ free will ہے ، لیکن افسوس ہم چند ٹکوں کی خاطر بِک گئے ہیں ۔ مادہ پرستی کے خول چڑھا لیے ۔ ٹرمپ نے تو انتہا ہی کر دی ماحولیاتی concern کو hoax کہ کر ۔
اب کیا کریں؟ بُگھتیں ، مر جائیں یا مقابلہ کریں ؟ کل میں چیف جسٹس کو سن رہا تھا کیا فن خطابی ، صرف مائیک نہیں توڑا ۔ جب انہوں نے کینڈا کے سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کے استعفی کی محض اس بات پر کہ وہ passion کھو گئے تھے کی بات کر رہے تھے ۔ مجھے گریڈ ۱۹ سے اپنے استعفے کے الفاظ یاد آ گئے ۔ جو کچھ اس طرح تھے ؛
I am no more able to do justice to the cause for which I joined civil services
چیف جسٹس بھی اسی موڑ پر ہیں ، جناب استعفی دیں اور آصف سعید کھوسہ کو موقع دیں ، ویسے تو بیچارے اگر آپ نے اپنی مدت پوری کی تو وہ کچھ مہینے ہی چیف جسٹس رہیں گے ۔
دکھ ہوتا ہے ، فرما رہے تھے یہاں سلمان غنی جیسے جیّد نقاد بیٹھے ہیں وہ بتائیں اگر executive کام نہ کرے تو کون کرے ؟ جناب سلمان غنی سے پوچھا ہوتا پچھلے دس سال سے جمہوریت رہی ہے اب کیا کریں ؟ عارف نظامی ، مجیب الرحمان شامی ، حامد میر ،ایک سے بڑھ کر ایک چور اس محفل میں موجود تھا ۔ ان کو چیف جسٹس صفائیاں پیش کر رہے تھے ۔
الٹا فوج کو خوامخواہ ڈانٹ پلا رہے تھے کہ اگر شب خون مارا تو میرے سارے جج مستعفی ہو جائیں گے ۔ کیا فوج پاگل ہے ؟ مارشل لاء کے لیے پیسہ چاہیے ، باہر کی backing چاہیے ۔ وہ تو ایک ہزار محازوں پر پھنسی ہوئ ہے ۔ کبھی اسے خادم رضوی لڑ جاتا ہے ، کبھی منظور پشتین اور کوئ ایک درجن اینکر گماشتے رات فوج پر ایسے حملہ آور ہوتے ہیں جیسے انڈیا کی فوج ہو ۔
جناب آپ ان صحافیوں کو کہتے کہ آؤ مل کر بیٹھو ، آج سے اجتماعی چور بازاری بند کریں ۔ حق کا ساتھ دیں ۔ غریبوں کی فکر کریں ۔ posterity کا لفظ انہوں نے استمعال کیا ، کوئ حل نہیں بتایا ۔
حیدرآباد میں ایک نوجوان couple ایک بچی ، پچھلے ایک مہینے سے میں ٹِل کا زور لگا رہا ہوں ان کی نوکری کے لیے ۔ کچھ نہیں ہو رہا ۔ اگلے دن میری آنکھوں میں آنسو آ گئے جب اس نے یہ میسیج کیا
گلستاں میں جب بھی لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
اب یہ کہتے ھیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ چمن ھے ہمارا تمہارا نہیں
اے میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں
بات ھوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ھم
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
یہ ہے مسئلہ ۔ چیف جسٹس صاحب ۔ آپ بھی اشرافیہ میں سے ہے ۔ آپ کے خلاف بھی ان غریبوں کی جنگ ہے ۔ آپ اشرافیہ کو صفائیاں پیش کر رہے ہیں ؟ آئیں زرا غریبوں کی محفل میں ، اگر آتے بھی ہیں تو شرماتے کیوں ہیں۔ معافیاں کیوں مانگتے ہیں ؟
وقت آ گیا ہے ان چیف سیکریٹریوں اور وزیروں کو چوکوں میں پھانسیاں لگانے کا ۔ اس کا انتظام کریں ۔ وگرنہ ۲۲ کرور لوگ مر جائیں گے بھوک ، ننگ اور ان کے ظلم سے ۔ Stephen Karpman MD نے ۱۹۶۸ میں ایک سوشل ماڈل دیا تھا اس کو ضرور پڑھیں ۔ زبردست vicious circle , کا تزکرہ کیا جو victim , persecutor اور rescuer پر مشتمل ہے ۔ اس سرکل کو بریک کریں چیف جسٹس صاحب ، اس ماڈل کو پڑھیں ۔ مغرب نے کس طرح استحصالی قوتوں سے جان چھڑوانے کے طریقے نکالے ہیں ۔ ابھی بھی ہے لیکن بہت کم ۔
آتے ہیں قدرت پر domination کے شوق پر ۔ industrialisation نے جہاں ترقی کے دروازے کھول دیے وہاں قدرت کا بیڑہ غرق کر دیا ۔ فیصلہ ہوا polluter to pay عمل درآمد نہیں ہوا ۔ جنگل کے جنگل تباہ کر دیے تیل نکالنے کی خاطر ۔ یہ جنگل اس دھرتی کی Lungs ہیں ۔ اسلام آباد کا حشر دیکھیں ۔ میں نے تو یہاں آ کر گاڑی بھی نہیں لی کہ میں اس گناہ کا مرتکب نہ ہوں ۔ اس مسئلہ کا بھی آسان حل ہے ۔ بہت ہی آسان ۔
صرف technology کا indigenous wisdom کے ساتھ fusion کرنا ہے ۔ جیسے ہم organic سبزیوں اور پھلوں کی طرف چلے گئے ہیں ۔ fossil emission کے کنٹرول کیے ہیں ۔ وگرنہ قدرت کا اپنا ایک زندگی ، موت اور دوبارہ زندگی کا رقص ہے وہ cycle مجھے بلکل قریب نظر آ رہا ہے ۔ یا تو اس کا انتظار کر لیتے ہیں یا پھر ہر شخص اپنے تئیں مزید نقصان سے بچاؤ کی تدابیر میں لگ جائے ۔ ہیں تو ہم سارے قدرت کے تابع ، یہ تو ماننا پڑے گا ۔ یہی سچ ہے ۔ آنگھیں بند کرنے سے طوفان ٹھل نہیں جاتے ۔
جیتے رہیے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔