(ایک نظم 65 کی پاک بھارت جنگ پر )
چھ ستمبر کی سحر لائی تھی ظلمت کا پیام
وحشت و حیوانیت کا بربریت کا پیام
بھارتی سینا نے شب خوں مار کر لاہور پر
اہل ِایماں کو دیا قربِ قیامت کا پیام
۔۔۔
دُھن پہ توپوں کی اہنسا کے بھجن گاتے ہوئے
سوتے شہروں پر بموں کے پھول برساتے ہوئے
رات کو پچھلے پہر “پربھات پھیری” کےلئے
سورما! آئے لہو اشنان کرواتے ہوئے
۔۔۔۔
امتیازِ حق و باطل کو مٹانے کےلئے
آٹھ صدیوں کا ہر اک قرضہ چکانے کےلئے
بھارتی اور جنگ بازی توبہ توبہ‘ رام رام
آئے تھے وہ پاک بھارت کو ملانے کےلئے
۔۔۔۔
شرمیں پنہاں خیر تھا اور حق کی عظمت کا پیام
جرأت و پامردمی و عزم و شجاعت کا پیام
شکر ہے رب کا ہمیں بھارت کے اس شب خون سے
مل گیا بیداری و تنظیم ِ ملت کا پیام
۔۔۔
اپنی کثرت اور طاقت پر وہ نازاں تھے اُدھر
اہلِ ایماں بے نیاز ِسازوساماں تھے اِدھر
دیدنی تھا درحقیقت منظرِ میدانِ جنگ
وہ بھی حیراں تھے اُدھر اور ہم بھی حیراں تھے اِدھر
۔۔۔۔
ٹینکوں کے سامنے ہم ہو گئے سینہ سپر
ہر جواں باندھے ہوئے تھا جان دینے پر کمر
منظرِ کرب و بلا تھا شہر میں اقبال ؒ کے
اُڑ رہا تھا رفعتوں پر پرچم ِخیرالبشر
۔۔۔۔
پی رہے تھے حق کے متوالے شہادت کے سبو
راہِ حق میں جان دے کر ہو رہے تھے سرخرو
سرزمینِ پاک کے جانباز، حق کے پاسباں
پڑھ رہے تھے کلمہء حق خون سے کر کے وضو
۔۔۔۔
مصطفی و مرتضیٰؓ و فاطمہؓ کے نورِعین
منتظر تھے حوضِ کوثر پر شہیدوں کے حسینؓ
آ رہی تھی سبز گنبد سے ندائے الجہاد
غزوۂ لاہور تھا ہمرشتۂ بدر و حنین
۔۔۔۔
ہاتھ میں لے کر اُٹھے تھے ہم صداقت کا علم
خود ارادی اور انسانوں کی عظمت کا علم
دیکھ لیں اہل ِ نظر اب بھی شفق کے رنگ میں
اُڑتے ہیں شام و سحر شوقِ شہادت کے علم
۔۔۔۔
اُن کے بکتربند دستوں، ٹینکوں کی دھجیاں
ہر طرف بکھری پڑی تھیں “ہنٹروں” کی دھجیاں
معجزہ اک ہو رہا تھا ہر محاذِ جنگ پر
اُڑ رہی تھیں چودھری کے “ارجنوں” کی دھجیاں
۔۔۔۔
شانتی کی بھیک ڈر کر مانگتی سینا کا حال
سر پہ رکھ کر پاؤں رَن سے بھاگتی سینا کا حال
سامراجی ناخداؤ آؤ آ کر دیکھ لو
اپنے آلاتِ حرب اور بھارتی سینا کا حال
۔۔۔۔
یُدھ کرتے ہی ظفر مندی کے دعوے کیا ہوئے
ہند میں لاہور پر قبضے کے چرچے کیا ہوئے
بھارتی آ کاشوانی آج کیوں خاموشی ہے
بج رہے تھے چھ ستمبر کو جو ڈنکے کیا ہوئے
۔۔۔۔
اپنی پسپائی سے “رَن کچھ” میں تو پچھتائے تھے تم
اب بتاؤ کس کی شہ تھی ؟کس پہ اِترائے تھے تم
بھول کر تاریخ اپنی جنگ کرنے کےلئے
سورماؤ! یہ بتاؤ کس لئے آئے تھے تم
۔۔۔۔
جیتنے آئے تھے تم جب ارضِ پاکستان کو
رو رہے تھے کس لئے پھر چھمب و راجستھان کو
اپنی کثرت اور ہتھیاروں پہ تھا جب تم کو مان
یُدھ میں پھر کیوں بچاتے پھر رہے تھے جان کو؟
۔۔۔۔
حق کی خاطر کھیل جائیں گے ہم اپنی جان پر
بچہ بچہ جان دے دے گا وطن کی آن پر
چھمب ، واہگہ اور چونڈہ کے شہیدوں کی قسم
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
نظم ۔:۔ حق کی خاطر کھیل جائیں گے ہم اپنی جان پر
(ایک نظم 65 کی پاک بھارت جنگ پر )
نظم نگار :۔ سید فخرالدین بلے